قصہ ذوالقرنین

(الکہف::18 آیات83 -98 )
لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے پوچھتے ہیں۔ آپ انھیں کہئے کہ ابھی میں اس کا کچھ حال تمہیں سناؤں گا۔ بلاشبہ ہم نے اسے زمین میں اقتدار بخشا تھا اور ہر طرح کا سازوسامان بھی دے رکھا تھا۔ چنانچہ وہ ایک راہ (مہم) پر چل کھڑا ہوا۔ حتیٰ کہ وہ سورج غروب ہونے کی حد تک پہنچ گیا اسے یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہ کیچڑ والے چشمہ میں ڈوب رہا ہے وہاں اس نے ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا: ”اے ذوالقرنین! تجھے اختیار ہے خواہ ان کو تو سزا دے ٧٢۔ الف یا ان سے نیک رویہ اختیار کرے۔ ذوالقرنین نے کہا: جو شخص ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی سزا دیں گے پھر جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اور بھی سخت عذاب دے گا۔ البتہ جو ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے اسے اچھا بدلہ ملے گا اور اسے ہم اپنے آسان سے کام کرنے کو کہیں گے۔ پھر وہ ایک اور راہ (دوسری مہم) پر چل پڑا۔ حتیٰ کہ وہ طلوع آفتاب کی حد تک جاپہنچا۔ اسے ایسا معلوم ہوا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے کہ سورج اور اس قوم کے درمیان ٧ہم نے کوئی آڑ نہیں بنائی۔ واقعہ ایسا ہی تھا اور ذوالقرنین کو جو حالات پیش آئے اسے ہم خوب جانتے ہیں۔ پھر وہ ایک اور راہ (تیسری مہم) پر نکلا۔ تاآنکہ وہ دو بلند گھاٹیوں کے درمیان پہنچا وہاں ان کے پاس اس نے ایسی قوم دیکھی جو بات بھی نہ سمجھ سکتی تھی۔ وہ کہنے لگے : ”اے ذوالقرنین! یاجوج اور ما جوج نے اس سرزمین میں فساد مچا رکھا ہے۔ اگر ہم آپ کو کچھ چندہ اکٹھا کر دیں تو کیا آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار چن دیں گے؟”
ذوالقرنین نے جواب دیا: ”میرے پروردگار نے جو مجھے (مالی) قوت دے رکھی ہے۔ وہ بہت ہے تم بس بدنی قوت (محنت) سے میری مدد کرو تو میں ان کے اور تمہارے درمیان بند بنا دوں گا۔ مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ ذوالقرنین نے جب ان چادروں کو ان دونوں گھاٹیوں کے درمیان برابر کرکے خلا کو پاٹ دیا تو ان سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ تاآنکہ جب وہ لوہے کی چادریں آگ (کی طرح سرخ) ہوگئیں تو اس نے کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ میں ان چادروں کے درمیان بہا کر پیوست کردوں”۔ (اس طرح یہ بند ایسا بن گیا کہ) یاجوج ماجوج نہ تو اس کے اوپر چڑھ٧سکتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی سوراخ کرسکتے تھے۔ ذوالقرنین کہنے لگا: یہ میرے پروردگار کی رحمت سے بن گیا ہے مگر میرے پروردگار کے وعدہ کا وقت آجائے گا تو وہ اس بند کو پیوند خاک کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ اس دن ہم لوگوں کو کھلا چھوڑ دیں گے کہ وہ ایک دوسرے ٨سےگتھم گتھا ہوجائیں اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم سب لوگوں کو اکٹھا کر دیں گے
تفصیل ووضاحت
ذوالقرنین کون تھا؟ قریش کا تیسرا سوال ذوالقرنین سے متعلق تھا جس کا ان آیات میں جواب دیا جارہا ہے۔ ذوالقرنین کی شخصیت کی تعیین کے لیے یہ بات تو بہرحال یقینی ہے کہ یہود کو اس کے متعلق علم تھا اور اس بادشاہ کا ذکر ان کی کتابوں میں موجود تھا تبھی تو انہوں نے قریش مکہ کو یہ سوال بتایا تھا اور جو کچھ قرآن سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک مقتدر اور نامور بادشاہ تھا اللہ سے ڈرنے والا اور منصف مزاج تھا اس کی سلطنت خاصی وسیع تھی اور ذوالقرنین کے لغوی معنی تو ”دو سینگوں والا” ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے بلکہ اسے اس لحاظ سے ذوالقرنین کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت کا علاقہ کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ایک مینڈھا ہو اور اس کے سر پر دو سینگ ہوں۔
قرآن و حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ ذوالقرنین کا اصل نام کیا تھا؟ وہ کس علاقہ کا بادشاہ تھا؟ کس قوم سے تعلق رکھتا تھا؟ اور کس دور میں یہ بادشاہ گزرا ہے؟ مغربی جانب اس نے کہاں تک اور کون کون سے ممالک کومسخر کیا تھا؟ اور مشرقی سمت میں کہاں تک پہنچا تھا؟ اس کا تیسرا سفر کون سی جانب تھا؟ سدّ ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے؟ لہذا ان سب امور کی تعیین میں مفسرین میں بہت اختلاف واقع ہوا اور ایسی مؤرخانہ تحقیق کا کتاب و سنت میں مذکور نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ قرآن کسی تاریخی واقعہ کو ذکر کرنے کے باوجود بھی ایسے امور کو زیر بحث نہیں لاتا جن کا انسانی ہدایت سے کچھ تعلق نہ ہو یا اس پر کسی شرعی حکم کی بنیاد نہ اٹھتی ہو یہ ذوالقرنین کا واقعہ یہود کی الہامی کتاب تورات میں مذکور نہیں بلکہ تورات کی شروح و تفاسیر، جنہیں وہ اپنی اصطلاح میں تالمود کہتے ہیں مذکور ہے۔ جیسے ہمارے مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں کئی ایسے واقعات درج کر دیئے ہیں جن کا قرآن اور حدیث میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ بہرحال یہ بات تو مسلّم ہے کہ ذوالقرنین کوئی ایسا بادشاہ تھا جس کی تعیین علمائے یہود کے دماغوں میں موجود تھی۔ اسی کے متعلق انہوں نے سوال کیا تھا اور اسی شخصیت کے متعلق قرآن نے جواب دے دیا اور جتنا جواب انھیں درکار تھا اتنا جواب قرآن نے انھیں دیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے اور ان کے اطمینان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے اس جواب کے بعد یہود نے یا یہود کے کہنے پر کفار مکہ نے ذوالقرنین کے بارے میں کوئی مزید سوال نہیں کیا۔
تاہم ہمارے مفسرین نے مندرجہ بالا تاریخی سوالات کا حتی الامکان جواب دینے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔
چنانچہ مولانا مودودیؒ نے بائیبل کے مطالعہ کے بعد جو تحقیق پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کا اطلاق ایرانی فرمانروا خورس پر ہی ہوسکتا ہے جس کا عروج549ق م کے قریب شروع ہوا اس نے چندسال کے عرصہ میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (اشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد٥539٩ق م میں بابل کو فتح کرلیا تھا جس کے بعد کوئی طاقت اس کی راہ میں مزاحم نہ رہی۔ اس کی فتوحات کاسلسلہ سندھ اور صغد(موجودہ ترکستان) سے لے کرایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا تھا اور شمال میں اس کی سلطنت کاکیشیا ( قفقاز) اور خوارزم تک پھیل گئی تھی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔
اور صاحب تفسیر حقانی کی تحقیق یہ ہے کہ ذوالقرنین ایران کا نہیں بلکہ عرب کے کسی علاقہ کا بادشاہ ہوسکتا ہے اور یمن کے حمیری خاندان کا بادشاہ تھا۔ دلیل یہ ہے کہ ذوالقرنین عربی لفظ ہے۔ فارسی یا ایرانی نہیں۔ علاوہ ازیں یمن کے بادشاہ زمانہ قدیم میں ذو کے ساتھ ملقب ہوا کرتے تھے جیسے ذونواس، ذوالنون، ذورعین، ذویزن وغیرہ وغیرہ۔ ایسے ہی ذوالقرنین بھی تھے۔ ابو ریحان البیرونی اس کا نام ابو کرب بن عیربن افریقس حمیری بتاتے ہیں۔ اس کا اصل نام صعب تھا اور یہ تبع اول کا بیٹا تھا اور یہی وہ ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ذوالمنار ابرہہ، اس کے بعد اس کا بیٹا افریقس، اس کے بعد اس کا بھائی ذوالاذعار، اس کے بعد اس کا بھائی شرجیل، اس کے بعد اس کا بیٹا الہدہاد اور اس کے بعد اس کی بیٹی بلقیس بادشاہ ہوئی جو سیدنا سلیمان کے پاس حاضر ہوئی تھی اور ذوالقرنین کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے قرن عربی زبان میں سینگ کو بھی کہتے ہیں اور زمانہ یا دور کو بھی۔ اس کا ایک مفہوم تو اوپر بیان ہوا کہ اس کے مفتوحہ علاقوں یا سلطنت کا اگر کاغذ پر نقشہ بنایا جائے تو اس کی شکل ایک مینڈھے کی سی بن جاتی ہے جس کے سر پر دو سینگ ہوں۔ اس کی دوسری توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ذوالقرنین کے تاج میں دو کلغیاں ہوتی تھیں جبکہ عام بادشاہوں کے تاج میں ایک ہی کلغی ہوتی تھی اور یہ دو کلغیاں بھی اس کی سلطنت کی وسعت کے اظہار کے لیے بنائی گئی تھیں۔ اور تیسری توجیہ یہ ہے کہ ذوالقرنین کو دو دور نصیب ہوئے تھے ایک دور فتوحات کا اور دوسرا دور ان مفتوحہ علاقوں میں انتظام اور حکمرانی کرنے کا اور یہ بات بھی ہر بادشاہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ سکندر رومی فیلقوس کے بیٹے نے فتوحات تو بہت کیں حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی پہنچ کر بہت سے علاقے فتح کیے مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے یکسر انکار کردیا اور وطن واپس چلنے پر اصرار کیا اور سکندر اپنی فوج کے سامنے مجبور ہوگیا اور واپسی پر اپنے وطن پہنچنے سے پیشتر ہی ٣سال کی عمر میں بابل کے مقام پر راہی ملک عدم ہوا۔
سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے ؟ :۔ رہی یہ بات کہ سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟ تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہوچکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملہ سے بچاؤ کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے زیادہ مشہور دیوار چین ہے یہ دیوار سب سے زیادہ لمبی ہے اور اس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے یہ دیوار عجائب روزگار میں شمار ہوتی ہے اور اب تک موجود ہے اور اسے چی وانگئی فغفور چین نے تعمیر کروایا تھا اور سدذوالقرنین وہ دیوار ہے جو جبل الطائی کے کسی درہ کو بند کیے ہوئے ہے جس کا ابن خلدون نے بھی ذکر کیا ہے اور اکثر مورخین اسلام اس کو سد یاجوج بھی کہتے ہیں۔ جبل الطائی منچوریا اور منگولیا میں حائل ہے اور اسی پہاڑ کے بیچ میں ایک درہ کشادہ تھا جہاں یاجوج ماجوج کی قومیں حملہ آور ہوتی تھیں۔ اس درے کو ذوالقرنین حمیری بادشاہ نے بند کروایا تھا اور یہ دیوار اب تک موجود ہے۔

ذوالقرنین کے تین سفروں کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔
الف ۔ پہلی مہم مغرب کی جانب:۔ پہلا سفر اس نے اپنی سلطنت کی مغربی آخری حد یعنی ایشیائے کوچک کی آخری حد تک کیا جس سے آگے سمندر ہے جہاں بحر ایجین چھوٹی چھوٹی خلےجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے جہاں پہنچ کر ذوالقرنین کو یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے وہاں جس قوم سے ذوالقرنین کو سابقہ پڑا وہ جاہل اور کافر قسم کے لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو انھیں قتل کردے یا کوئی سخت رویہ اختیار کرے یا اللہ کے فرماں بردار بن جانے کی دعوت دے اور ان سے نرم برتاؤ کرے۔

ذوالقرنین کا مغربی قوم سے سلوک:۔ چنانچہ ذوالقرنین نے دوسری راہ اختیار کی کہ اس قوم کو پوری طرح سمجھایا جائے اور انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس کے نتیجہ میں جو لوگ اکڑ جائیں گے اور ظالموں کی روش اختیار کریں گے ہم صرف انھیں ہی سزا دیں گے اور انھیں سے سختی کا برتاؤ کریں گے پھر موت کے بعد جب ایسا آدمی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو وہ اسے سخت عذاب بھی دے گا لیکن جو لوگ اس دعوت کو قبول کر لیں گے اور اپنا طرززندگی بدل کر نیک کام کرنے لگیں گے ان کو اللہ کے ہاں اچھا اجر ملے گا اور ہم بھی ان سے نرمی کا برتاؤ کریں گے جیساکہ ہر عادل بادشاہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ غلبہ پانے کے بعد بدکردار لوگوں سے سختی سے پیش آتے ہیں اور بھلے لوگوں سے مہربانی کرتے اور ان سے مہربانی سے پیش آتے ہیں۔
دوسری مہم مشرق کی جانب:۔دوسرا سفر مشرق کی طرف تھا وہ علاقے فتح کرتا ہوا بالآخر وہاں تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا ختم ہوجاتی تھی اور اسے ایسی جانگلی غیرمہذب قوم سے واسطہ پڑا جو اپنا گھر بنانا بھی نہ جانتے تھے۔ سورج کی گرمی یا بارش سے بچنے کے لیے ان کے پاس نہ خیمے کے ہلکے پھلکے گھر تھے اور نہ مکان تھے اور وہ پہاڑوں کی غاروں اور کھوہوں میں اپنا گزر اوقات کیا کرتے تھے یا پھر وہ آفتاب کی تپش اور بارش وغیرہ کو برداشت کرنے کے عادی بن چکے تھے۔
تیسری مہم شمال کی جانب ۔ ذوالقرنین کے تیسرے سفر کی سمت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے تاہم قیاس یہی ہے کہ یہ شمالی جانب تھا اور شمالی جانب وہ قفقاز (کاکیشیا) کے پہاڑی علاقہ تک چلاگیا۔ ذوالقرنین اور اس کے ساتھی ان لوگوں کی زبان نہیں سمجھتے تھے اور وہ ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ ایسی صورتوں میں کسی ترجمان کی وساطت سے ہی بات چیت ہوئی ہوگی یا بسا اوقات اشاروں سے بھی مطلب سمجھایا جاسکتا ہے ۔ یاجوج ماجوج کون ہیں؟ مسلم مؤرخین کے بیان کے مطابق یاجوج ماجوج سے مراد وہ انتہائی شمال مشرقی علاقہ کی وحشی اقوام ہیں جو انہی دروں کے راستوں سے یورپ اور ایشیا کی مہذب اقوام پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں اور جنہیں مؤرخین سیدنا نوح کے بیٹے یافث کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے ذوالقرنین کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر یہ التجا کی کہ ہمیں یاجوج ماجوج حملہ کرکے ہر وقت پریشان کرتے رہتے ہیں اگر ممکن ہو تو ان دو گھاٹیوں کے درمیان جو درے ہیں انھیں پاٹ دیجئے اور اس سلسلہ میں جو لاگت آئے وہ ہم دینے کو تیار ہیں یا اس کے عوض ہم پر کوئی ٹیکس لگا دیجئے وہ ہم ادا کرتے رہیں گے۔

چنانچہ ذوالقرنین نے ان کی اس درخواست کو منظور کرلیا اور کہا تمہاری مالی امداد کی مجھے ضرورت نہیں اللہ کا دیا ہوا بہت کچھ موجود ہے البتہ لیبر یا مزدور تم مہیا کر دو تو میں ایسی دیوار بنوادوں گا۔ علاوہ ازیں مجھے کچھ لوہے کی چادریں اور دوسرا سامان تعمیر مہیا کرنا تمہاری ذمہ داری ہوگی۔

سد ذوالقرنین:۔ پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائی گئیں جب ان کی بلندی دونوں طرف کی گھاٹیوں تک پہنچ گئی تو لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو اور اس کام کے لیے لکڑی اور کوئلہ کو استعمال میں لایا گیا جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہوگیا تو پگھلا ہوا تانبہ اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہوگیا اور یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا ۔ بلندی کی وجہ سے اس کے اوپر چڑھا بھی نہیں جاسکتا تھا اور لوہے کی موٹی تعمیر شدہ دیوار ہونے کی وجہ سے اس میں شگاف بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
جب یہ دیوار تعمیر ہوگئی تو ذوالقرنین نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے جب تک اللہ کو منظور ہے قائم رہے گی اور ”وعدے کے وقت” سے مراد یا تو اس دیوار کی تباہی کا وقت ہے یا اس سے مراد قیامت ہے جب کہ ہر چیز ہی فنا ہوجائے گی جیساکہ اس کے بعد والی آیت سے اسی دوسرے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
تذکیری و اخلاقی پہلو
۱۔دولت واقتدار اللہ کی دین ہیں: مال و اسباب اگر کسی کو ملے ہیں تو اسے انھیں عطیہ الٰہی سمجھ کر رب کی رضا اور خلق کی بھلائی کے کاموں میں لگانا چاہیے۔ نہ کہ اپنی بڑائی اور فخر کے اظہار میں اس کو خرچ کرے۔ بلکہ جتنا زیادہ انعام عطا ہوا ہو اتنی ہی عاجزی سے کام لینا چاہیے۔ کیونکہ مال ایک حدیث کے مطابق اس امت کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ چنانچہ دنیا پرستی کے اس دور میں درحقیقت مال ایک عظیم فتنہ بن گیا ہے۔
۲۔ اصل بادشاہت اللہ کی اطاعت میں ہے: ذوالقرنین ایک بہت بڑا فاتح اور شان و شوکت والا بادشاہ ہونے کے باوجود توحید اور آخرت کا قائل تھا۔ عدل و انصاف کے علاوہ فیاضی سے کام لیتا تھا۔ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا تمہاری طرح کم ظرف نہ تھا کہ معمولی قسم کی سرداریاں پاکر اکڑے بیٹھے ہو اور دوسروں کو حقیر سمجھتے ہو۔جب ایک بڑا بادشاہ ہو کر بھی ذوالقرنین وہ رویہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے تو اس کے نتیجے میں وہ اس عزت کا مستحق بن جاتا ہے کہ آخری وحی میں قیامت تک کے لیے اس کا ذکر محفوظ کردیا جائے۔
۳۔ تعاون و مدد
اس وقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ذوالقرنین نے لوگوں کے ساتھ نہ صرف نرمی کا رویہ رکھا بلکہ ان کی ہر ممکن مد د کی اور اپنے وسائل شان و شوکت کے اظہار کی بجائے فلاح و بہبود میں لگادئے۔ آج کے دور میں بھی یہی ایک بندہ مومن سے مطلوب ہے کہ وہ اپنے وقت، مال اور جان سے جتنا فیض اور فائدہ دوسروں کو پہچاسکتا ہے وہ پہنچائے۔

نوٹ: اس تحریر کی تفصیل و وضاحت موالانا عبدالرحمن کیلانی کی تفسیر تیسرالقرآن سے نقل کی گئی ہے۔

 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.