حضرت ابراہیم علیہ السلام اورمردہ پرندوں کا زندہ ہونا تحریر محمد نعیم خان

PDF File Link

حضرت ابراہیم علیہ السلام اورمردہ پرندوں کا زندہ ہونا

سوره البقرہ کی آیت 260 میں الله کا مردہ پرندوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا واقعہ مرکوز ہے . جو حضرت ابراہیم کے ایک سوال کے جواب میں الله نے حضرت ابراہیم کو مشاہدہ کروایا .

آیت اور اس کا سادہ سا ترجمہ کچھ یوں ہے .

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٢٦٠ ﴾

اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: "میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے” فرمایا: "کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟” اُس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے” فرمایا: "اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے” (٢٦٠ )

اس آیت کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ سوالوں یا اشکالات کا ذکر کیا جاے . جو روایتی تفاسیر سے ذہین میں پیدا ہوتے ہیں .

١) حضرت ابراہیم پیغمبر ہوتے ہوے بھی ان کو قلبی اطمینان نصیب نہ ہوا جب تک کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مردہ پرندوں کو زندہ ہوتے ہوے نہ دیکھ لیا . جب ایک پیغمبر ، جس کے دل پر وحی نازل ہوتی تھی ، جس کو رب سے کلام کا شرف ملا ، جس کو تمام انسانیت کا امام بنایا گیا ، جب ان کا اطمینان اس طرح ہوا تو پھر ہم جیسے عام لوگوں کا اطمینان کیسے ہوگا ؟ .

٢) اگر یہ معجزہ تھا جو زیادہ تر مفسرین بیان کرتے ہیں تو پھر یہی مفسرین اس بات کو بھی بیان کرتے ہیں کہ الله نے معجزات اس لیے پیش کیے تاکہ پیغمبروں کے مخاطبین کو یہ یقین دلایا جاے کہ ان پیغمبروں کے پیچھے کون سی ہستی کار فرما ہے اور یہی ان کی سچائی کی دلیل ہوتی تھی . لیکن یہاں تو کوئی بھی مشاہدہ کرنے والا نہیں ہے . یہاں کس کو یقین دلانا تھا ؟. حضرت ابراہیم تو پہلے سے ہی اس بات پر یقین رکھتے تھے .

٣) اگر اس آیت کا کوئی بھی ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیں وہاں مفسرین نے اپنے الفاظ قرآن میں داخل کیے ہیں . بریکٹ لگا کر وہ الفاظ شامل کیے ہیں جو آیت میں نہیں ہیں . پوری آیت کا سادہ سا ترجمہ اگر کیا جاے تو اس میں نہ تو کسی چھری کا ذکر ہے نہ پرندوں کا قیمہ بنانے کا ذکر ہے . الله جو علیم و حکیم ہے اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا تھا کہ اگر وہ چاہتا تو با آسانی ان الفاظ کو شامل کر دیتا پھر اس نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟.

٤) پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ہی بات کا مشاہدہ کروانا تھا تو پھر یہ مشاہدہ تو ایک ہی پرندے کا قیمہ بنا کر کروایا جا سکتا تھا ، جیسا کہ مفسرین اس آیت سے پہلے کی آیت ٢٥٩ میں بیان کرتے ہیں کہ الله نے گدھے کی ہڈیوں پر گوشت چڑھاتے ہوے ایک صالح بندے کو مشاہدہ کروایا ، تو وہاں ایک ہی گدھے سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے . پھر یہاں چار پرندوں سے یہی عمل کروانے کا کیا مطلب ؟. اس واقعہ کو بتانے کا مقصد اس دلیل کا رد کرنا تھا جس میں احباب یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہ ایک حقیقی واقعہ تھا نہ کہ ایک مثال برنگ دلیل۔

اس سوال کے جواب میں احباب یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ دلیل تھی اور ایک مثال سے بات سمجھانا تھی تو پھر ایک ہی پرندے سے کام چل سکتا تھا پھر چار پرندوں کی کیا ضرورت. ؟. لیکن یہ احباب یہ اعتراض کرتے ہوے یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل دلیل تو یہی تھی کہ چاروں طرف سے آواز دینے پر پرندوں کا دوڑ کر آنے کا مشاہدہ کروانا تھا . اب اگر سمتیں ہی چار ہیں تو پھر پرندے بھی چار ہی استعمال ہونگے نا . ایک پرندہ چاروں سمتوں سے کیسے بلانے پر اے گا ؟ پھر اس ہی میں مزید یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ یہاں تو پرندوں کے دوڑ کر آنے کا ذکر ہے جبکہ پرندے اڑتے ہیں اس لیے دوڑ کر آنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ ان کو یہاں مردہ سے زندہ کا مشاہدہ کروانا تھا .

اب یہ بھی کافی بودا اعتراض ہے . اب اگر غور کریں تو عقاب بھی پرندہ ہے اور شتر مرغ بھی . عقاب اڑتا ہے اور شتر مرغ دوڑتا ہے . اب اس میں ایسی حیرانی کی کیا بات ؟

اس آیت پر کلام کرنے سے پہلے کچھ بنیادی چیزیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں ان کا ذکر ضروری ہے تاکے یہ باتیں ذہن میں رہیں تو بات کو سمجھنا آسان ہوجاۓ . اس لیے چند الفاظ کی تحقیق ضروری ہے

لفظ موت کی تحقیق

قرآن موت کو بہت وسیع معنوں میں استعمال کرتا ہے . اس کے نزدیک گمراہی بھی موت ہے ، بیہوشی ، نیند ، غفلت ، وہ زمین جو بنجر ہو وغیرہ ان سب کو موت سے تعبیر کرتا ہے . قرآن کا عام قاری ان آیت کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگا لیتا ہے کہ ان آیتوں میں کون سی موت مراد ہے . ایک موت جس میں انسان کی روح قبض کر لی جاتی ہے وہ موت تو ہے ہی .

لیکن قرآن کا مطالعہ کرتے وقت نہ جانے کیوں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ خود قرآن ایک لفظ کو کتنے معنوں میں استعمال کر رہا ہے . موت سے صرف ایک ہی موت لی جاتی ہے اور پھر اس پر ایسے قصے گھڑھ لیے جاتے ہیں کہ اس کا قرآن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا . قرآن موت کو کس طرح استعمال کرتا ہے اس کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں :

وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿٥ ﴾

اور رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کر دیتا ہے، (اس میں) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں (٥ )

٤٥.٥

اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾

وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اُس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں (٤٢)

٣٩ :٤٢

فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ ﴿٥٢ ﴾

بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں جب کہ وه پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں (٥٢ )

٣٠.٥٢

سوره الروم کی اس آیت میں ظاہر ہے رسول الله زندہ لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا رہے تھے . اس آیت میں موت سے مراد ایمانی مردے ہیں جن کے دل ایمان سے خالی ہیں . لیکن وہ عام لوگوں کی طرح چلتے پھرتے ہیں کھاتے پیتے ہیں لیکن قرآن انہیں مردے قرار دیتا ہے

امید ہے کہ اس لفظ کی تحقیق میں یہ بات تو اچھی طرح سمجھ آ گئی ہوگی کہ موت سے مراد صرف وہ موت نہیں ہے جس میں انسان کی روح قبض کی جاتی ہے . بلکے اس سے مراد یہ بھی ہےجسے رسولوں کی اصطلاح میں ایمانی مردے کہتے ہیں جن کے دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں

لفظ صر کی تحقیق

یہ لفظ ان معنوں میں صرف اس ہی آیت میں استعمال ہوا ہے . جس کے معنی مانوس کرنا ، مائل کرنا ، جھکا دینا ، ہلا لینا وغیرہ ہیں .

صار الشی یصور کے معنی ہیں چیز کو مائل کردینا . عصفور صوار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو ہلانے والے کی آواز پر چلی آئے

اس سے یہ بات بلکل واضح ہے کہ اس کے معنی مانوس کرنا ، مائل کرنا ، ہلا لینا ، جھکا دینا ہیں

لفظ جز کی تحقیق

الجز ، کسی چیز کا حصہ یا ٹکڑا ، بہت سی چیزوں میں سے اگر کچھ چیزیں الگ کر دی جائیں تو وہ بھی اس مجمعے کا جز کہلائیں گی۔

اس آیت میں لفظ مِّنْهُنَّ جُزْءًا سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ جز سے مراد ان چاروں پرندوں کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے لیکن اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہاں ٹکڑے کرنے یا کاٹنے کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے .اس لفظ کی تشریح میں اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ جُزْءًا استعمال ہوا ہے جو ٹکڑے کرنے کے ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کا کوئی اور قرینہ نہیں ہے . پھر اگر ایک ایک پرندے کو پہاڑ پر رکھنا ہوتا تو اس کے لیے یہ اسلوب استعمال نہیں کیا جاتا .

اصلاحی صاحب یہ اعتراض تو کرتے ہیں لیکن اس کے حق میں نہ تو کوئی عبارت پیش کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی مثال دیتے ہیں . اگر اصلاحی صاحب کا صرف کہدینا ہی درست تسلیم کیا جاے تو پھر کسی دوسرے کی بات کو درست کیوں نہ تسلیم کیا جاے ؟. غامدی مکتبہ فکر میں جب ان کو کہیں سے کوئی دلیل نہیں ملتی تو پھر یہ کہہ دیتے ہیں کہہ اس بات کو بیان کرنے کا عربی کا یہ اسلوب نہیں ہے اور پھر یہیں بات ختم کر دیتے ہیں . اب لاکھ مثالیں مانگتے رہو لیکن نہ کوئی عبارت پیش ہوتی ہے اور نہ کوئی مثال .

اس کو ایک مثال سے سمجھیں . اگر کہیں سو خربوزے ہوں تو ایک خربوزہ سو خربوزوں کا جز(حصہ ) ہوگا . اس ہی طرح ایک خربوزے کا جز(حصہ ) اس کو کاٹ کر اس کے حصے ہونگے .

بلکل اس ہی طرح چار پرندوں کا جز(حصہ ) ایک پرندہ ہوا . اس کو قرآن کی اس آیت سے سمجھیں .

سوره الحر کی آیت ٤٤ میں الله کا جہنمیوں سے ارشاد ہے .

لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ﴿٤٤ ﴾

یہ جہنم (جس کی وعید پیروان ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے (٤٤ )

اب کیا ان سات دروازوں سے گزارنے کے لیے ان لوگوں کا قیمہ کیا جاے گا ؟. یا ان لوگوں کی تقسیم کی جاے گی ؟. امید ہے اس وضاحت کے بات کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہوگا .

لفظ كُلِّ کی تحقیق

كُلِّ کے معنی سب کا سب ، کسی چیز کے تمام اجزا ، کبھی کبھی اس کا استمال بعض کے معنوں میں بھی ہوتا ہے .

یہ لفظ اپنے سیاق سے بتا دیتا ہے کہہ اس سے مراد کیا ہے . جیسا کہہ اس آیت میں اس لفظ کا مطلب چار پہاڑ ہی ہونگے . دنیا میں پاۓ جانے والے تمام پہاڑ نہیں .

اس کو ایک مثال سے سمجھیں . اگر اپ کہیں سیر و تفریح کے لیے جا رہے ہوں اور اپ سے کہا جاے کہہ کیا اپ نے تمام (عربی میں کل ) سامان لے لیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہہ اپ گھر کا سارا سامان اپنے ساتھ لے لیں بلکے اس کا مطلب کہہ اس سیر و تفریح پر جانے کے سیاق میں تمام سامان یعنی ضرورت کا وہ سامان جو وہاں جانے کے لیے در کار ہے یا جو وہاں کام اے گا .

اس ہی بات کو نوح کے اس واقعہ سے سمجھیں جہاں حضرت نوح نے کشتی بنائی . اس کا ذکر سوره ھود کی آیت ٤٤ میں کچھ یوں ہے .

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠ ﴾

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا "ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلے کی جا چکی ہے اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں” اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوحؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے (٤٠ )

یہاں كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ سے مراد دنیا میں پاۓ جانے والے ہر قسم کے جانور تو نہیں ہیں . ان ہی جانوروں کے بارے میں حکم ہوا جو سیلاب ختم ہونے کے بعد دوبارہ آباد کاری کے لیے ضروری ہوں . یہاں بھی لفظ كُلٍّ اپنے سیاق کے حساب سے مطلب دے گا . ایسا نہیں تھا کہہ حضرت نوح کو سیلاب ختم ہونے کے بعد کوئی چڑیا گھر کھولنا تھا جو اپنی کشتی میں شیر ، ہاتھی ، مگرمچھ وغیرہ کا جوڑا رکھا .

اوپر ان باتوں کے بتانے کا میرا مقصد یہ تھا کہہ یہاں کیوں کہہ پرندے چار ہی ہیں اس لیے پہاڑ بھی چار ہی ہونگے . اس لفظ کل سے یہ مطلب نہیں اخذ کیا جا سکتا کہہ دنیا میں پاۓ جانے والے تمام پہاڑوں پر ان پرندوں کو رکھنا ہے . اب ان تمام باتوں کے بعد اس آیت پر غور کرتے ہیں .

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہہ رسولوں کے مخاطبین ان کی قوم ہوتی ہے جہاں اپ پیدا ہوتے ہیں اور جہاں اپ نے اپنی زندگی کا اچھا خاصہ حصہ گزارا ہوتا ہے، جہاں اپ کے آباؤ اجداد رہتے ہیں تو وہاں سے ایک دلی لگاؤ ایک فطری بات ہے . اس ہی طرح جب حضرت ابراہیم کو بھی جب رسالت کی بھاری ذمےداری سونپی گئی تو انہونے الله کا پیغام اپنی ستارہ پرست قوم کو دیا جو سورج ، چاند ، ستاروں کو پوجتی تھی . اس نے بہت سے بت تراش رکھے تھے جن کی یہ قوم عبادت کرتی تھی .

حضرت ابراہیم نے لاکھ کوشش کی کہہ ان ایمانی مردوں کو اس گمراہی سے نکالیں لیکن کوئی بھی ان کی بات سنے کو تیار ہی نہیں ہوتا تھا ، نہ صرف یہ کہہ بات نہیں سنتے تھے بلکے اس مخالفت پر اتر آتے تھے . جیسا کہہ ہمیشہ رسولوں کے ساتھ ہوتا چلا آتا رہا ہے

اس مشکل حالات میں ایک رسول جب اپنی قوم کو گمراہی میں پڑا دیکھتا ہے تو ایک نرم دل اوراپنی قوم سے فطری محبت کا جذبہ اس کو غمگین کر دیتا ہے اور پلٹ کر وہ الله سے مخاطب ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہہ تو کس طرح ان ایمانی مردوں کو زندہ کرے گا . وہ الله کے حضور میں دعا کرتا ہے .التجا کرتا ہے ، رہنمائی مانگتا ہے ، اپنے دل کا اطمینان چاہتا ہے . یہی حضرت ابراہیم نے کیا .

حضرت ابراہیم نے بھی الله سے یہی سوال کیا کہہ ان ایمانی مردوں کی دوبارہ زندگی کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے . اس سلسلے میں انہیں کیا کرنا چاہیے ؟. حضرت ابراہیم اپنے سینے کی کشادگی چاہتے تھے .

اب یہ بھی صرف حضرت ابراہیم کے ساتھ خاص نہیں ہے . اس کی مثال خود رسول الله ہیں جس کا ذکر سوره الشعراء میں ملتا ہے .

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴿٣ ﴾

اے محمدؐ، شاید تم اس غم میں اپنی جان کھو دو گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے (٣ )

اس عظیم ذمےداری کا بوجھ جب رسول الله کے کندھوں پر آیا تو الله نے ہمیشہ ان کی دلی تسکین اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے آیات نازل کرتا رہا جس کا ذکر ہمیں سوره الشرح میں ملتا ہے .

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿١﴾ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ﴿٢﴾ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ ﴿٣ ﴾

(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا؟ (1) اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اتار دیا (2) جو تمہاری کمر توڑے ڈال رہا تھا (٣ )

یہی وہ سینے کی کشادگی اور دلی اطمینان تھا جس کی دعا حضرت ابراہیم نے الله سے کی . جو انہیں الله نے ان پرندوں کی مثال سے دی .

اس ہی طرح حضرت موسیٰ کے واقعہ میں بھی ہمیں اس کی مثال ملتی ہے جب حضرت موسیٰ کو منصب رسالت پر فائز کیا گیا اور ان کو حکم ملا کہہ فرعون کی طرف جاؤ تو حضرت موسیٰ نروس تھے اور ڈرے ہوے تھے .

پہلے انہونے الله کے حضور یہ بات پیش کی کہہ وہ فصیح بیان نہیں ہیں اس کے لیے ان کے بھائی حضرت ہارون کو ساتھ کیا جاے اور پھر یہ بات بھی بیان کی کہہ ایک قتل کا الزام بھی ان کے اوپر ہے ایسا نہ ہو کہہ کہیں یہ لوگ ان کو قتل کردیں . لیکن ان تمام باتوں کے باوجود الله ان کی ہمت اور ان کے دل کو اطمینان دلاتا رہا کہہ الله ان کے ساتھ ہے اس لیے کسی قسم کے خوف اور ڈر کی کوئی بات نہیں .

اب پرندوں کی مثال کی طرف آتے ہیں .

پرندوں کی مثال

جیسا کہہ سب جانتے ہیں کہہ پرندے انسانوں سے دور بھاگنے والی شے ہے جب آپ ان کے پاس پہنچیں تو یہ اڑ کر دور جا بیٹھتے ہیں . لیکن ایسا جاندار بھی اگر انسان چاہے تو ان کو اپنے سے ہلا سکتا ہے اور ایک آواز پر ان کو اپنے پاس بلا سکتا ہے . اس لیے الله نے چار پرندوں کو اپنے سے مانوس کرنے کو کہا .

لیکن سوال یہ ہے کہہ پرندے کو مانوس کیسے کریں گے ؟. اس کو اپنے سے کیسے ہلائیں گے ؟. اگر اپ میں سے کسی کو ذاتی تجربہ ہوا ہو تو اپ نے دیکھا ہوگا کہہ جب پرندے کی کھانے پینے کی ضروریات کا خیال رکھا جاے اس کی منفعت پوری کی جاے تو ایسا جاندار جو انسانوں سے دور بھاگتا ہے پھر اس کے قریب آجاتا ہے .

اس مثال سے سمجھانے کا مقصد یہی تھا کہہ اگر انسانوں کی ضرورتیں اور منفعت تم سے جڑی ہوں تو پھر کوئی آپ کی بات سنے پر تیار ہوتا ہے . پھر اپ کی بات پر توجہ دیتا ہے اور جب ایک دفعہ بات توجہ سے سن لیگا اور اس کی فطرت سلیم ہوگی تو غور کے بعد کوئی وجہ نہیں ہے کہہ اس کا دل اس بات کو مانے پر تیار نہ ہو . اس کی مثال ہمیں خود رسول الله کے دور سے ملتی ہے کہہ جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو کفار اپنے کانوں میں انگلیاں گھسا لیا کرتے تھے کہہ کہیں بات ان کے دلوں میں نہ اتر جاے . یہی حالت انسان کی ہے جس سے اس کو ضروریات زندگی میسر ہو اس سے حل مل جاتا ہے پھر اس کی ہر بات چاہے وہ بات اس کے آبائی عقیدہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو غور سے سناتا ہے

اس کی مثال ہمیں سوره یوسف میں ملتی ہے . جب حضرت یوسف کو جیل میں قید کردیا جاتا ہے تو وہاں دو غلام بھی موجود ہوتے ہیں جو ان سے اپنے خواب بتاتے ہیں اور ان سے ان کی تعبیر معلوم کرتے ہیں .

حضرت یوسف جانتے تھے کہہ ان کی منفعت اب ان سے جڑی ہوئی ہے اور یہ اب ان کی بات توجہ سے سنیں گے اس لیے وہ اپنے رب کا پیغام ان تک پہنچاتے ہیں . آیت کچھ یوں ہیں .

قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَن يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ ﴿٣٧ ﴾ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿٣٨﴾ يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿٣٩﴾ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٤٠ ﴾

یوسفؑ نے کہا: "یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا یہ علم اُن علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا کیے ہیں واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں (٣٧ ) اپنے بزرگوں، ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (38) اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب غالب ہے؟ (39) اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (٤٠ )

اس تبلیغ کے بعد حضرت یوسف نے ان کو خوابوں کی تعبیر بیان کی .

بلکل اس طرح جب لوگ توجہ سے اپ کی بات سنیں گے تو پھر جس طرح پرندے ایک آواز پر چاروں سمتوں سے دوڑے چلے آئینگے بلکل اس ہی طرح جب ان ایمانی مردوں میں ایمان کی روح پھونک دی جاے گی تو وہ بھی دوڑے دوڑے چلے آئینگے .

یہ ایک تبلیغ کا طریقہ الله نے حضرت ابراہیم کو سکھایا جس کو ایک مثال سے بات بیان کی جو حضرت ابراہیم کے سمجھ میں آ گی .حضرت ابراہیم کسی عقلی دلیل کے بغیر دلی اطمینان نصیب ہی نہیں ہوتا تھا اس لئے مثال سے ان کو تبلیغ کا ایک نیا طریقہ بیان کیا۔ ان کے بتوں کو توڑ کر بھی ان پر دلیل قائم کی جاسکتی تھی جو حضرت ابراہیم نے کی لیکن ایسی صورت میں انسان بات سننے سے زیادہ مخالفت پر اتر اتا ہے ہالانکہ اللہ نے روکا نہیں۔ جب وہ طریقے کام نہ ائے تو پھر ایک یہ طریقہ بیان کیا.

اس ہی کو ایک حدیث میں جو بخاری میں ہمیں ملتی ہے رسول الله نے اس ہی شک کا تذکرہ کیا ہے .

حدثنا أحمد بن صالح ، حدثنا ابن وهب ، أخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن أبي سلمة وسعيد ، عن أبي هريرة ، رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” نحن أحق بالشك من إبراهيم ، إذ قال : رب أرني كيف تحيي الموتى ؟

ہم ابراہیم سے زیادہ شک کے حق دار ہیں جب اس نے کہا کہہ الله مجھے دکھا تو کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے

یعنی اگر حضرت ابراہیم کو شک پیدا ہوا تھا تو ہم کو اس سے زیادہ شک پیدا ہونا چاہیے تھا . اس لیے یہ مثال برنگ دلیل تھی . اگر کے یہ مانا جاے کہہ حضرت ابراہیم کو قلبی اطمینان چار مردہ پرندوں کو زندہ دیکھ کر ہوا تھا تو ہمیں یہ اطمینان کبھی میسر نہیں آسکتا اور اگر یہ دلیل ان کے لیے دلی اطمینان کا موجب بنی تو ہمیں بھی آج یہ دلیل اطمینان قلب دے سکتی ہے

اس ہی بات کو سوره الانفال کی آیت ٢٤ میں یوں بیان کیا گیا ہے .

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ﴿٢٤ ﴾

اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے (٢٤ )

اس کی مزید ہدایت ہمیں قرآن میں ملتی ہے کہہ ایک الله کا پیغام پہنچانے والے کو کس طرح کا ہونا چاہیے .

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿١٢٥ ﴾

اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے (١٢٥ )

پس یاد رہے کہہ الله کے پیغام کو غور سے سنا ہی ہدایت پانے کا پہلا قدم ہے جب کسی چیز پر غور کیا جاے تو اس کی اچھائیاں اور برائیاں سامنے آجاتی ہیں . اس آیت میں حضرت ابراہیم کو ایک پر حکمت تبلیغ کی تعلیم دیدی گئی کہہ قوم کے فائدوں کے سامان عام کر کے ان کو اپنے ساتھ ہلا ملا لیں اس طرح جب وہ اپ کی تبلیغ پر غور کرنے لگیں گے تو پھر ہدایت کی روشنی سے منور بھی ہوتے رہینگے

٭٭٭٭٭

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.