حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سانپ بننے کاواقعہ، تحریر: محمد نعیم خان
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
عصا کے سانپ بننے کاواقعہ
تحریر: محمد نعیم خان
حضرت موسی کے عصاء کا فرعون کے سامنے سانپ میں تبدیل ہو جانے کا واقعہ ہمیں سورہ اعراف کی ایت 107 اور سورہ الشعراء کی ایت 32 میں ملتا ہے جب حضرت موسی فرعون سے بنی اسرائیل کو آزادی دلانے کے لئے اللہ کے حکم سے اس کے پاس اتے ہیں ۔
یہ بھی یاد رکھئے کہ حضرت موسی بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کئے گئے تھے اس لئے ان کا کام فرعون کو تبلیغ کرنا نہیں تھا لیکن چونکہ ان کا واسطہ فرعون سے بھی پڑنا تھا اس لئے اس کو بھی کچھ نہ کچھ ہدایات تو دینی ہی تھیں۔ اس لئے اللہ نے فرعون کے پاس جانے سے پہلے ان کی تربیت کا انتظام کیا جس کا ذکر ہمیں سورہ طہ کی ایات 18 سے 25 ، سورہ النحل کی ایات 10 سے 12 اور سورہ القصص کی ایات 31 سے 32 میں ملتا ہے۔آگے کا کلام ان ہی ایات کے گرد گھومتا ہے ۔ میں آیات نہیں لگاؤں گا صرف اس کا مفہوم بیان کروں گا تاکہ مضمون طویل نہ ہو۔
حضرت موسی دانا، فہم و فراست ، قوت فیصلہ اور علم جیسی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اللہ نے جوانی میں ہی ان کو حکم اور علم جیسی دولت سے نوازا تھا جس کا ذکر ہمیں سورہ القصص کی ایت 14 میں ملتا ہے۔ اس لئے فرعون کے پاس جانے سے پہلے اللہ نے ان کو کچھ بنیادی باتیں سمجھانے کے لئے ان سے پوچھا کہ ان کے ہاتھ میں کیا ہے ؟۔ ظاہر ہے کہ اس کائنات کا بنانے والا یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ موسی کے ہاتھ میں کیا ہے ۔ اس لئے یہ سوال اس لئے نہیں تھا کہ اللہ اس بات سے بے خبر تھا بلکہ یہ سوال حضرت موسی کو ایک بات کا ادراک کروانا تھا۔ حضرت موسی کا جواب وہی تھا جو ان کو دینا چاہیے تھا۔
یہ بات یاد رکھیئے کہ لغت میں عصاء کے معنی لاٹھی ، جماعت اور قانون کے ہیں ۔ جب اللہ نے حضرت موسی سے اس لاٹھی کو پھینکنے کا کہا تو انہیں یہ لاٹھی سانپ کی طرح حرکت کرتی ہوئی دکھائی دی ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ لاٹھی سانپ نہیں بن گی تھی بلکہ سانپ کی طرح حرکت کر رہی تھی۔ آیات میں ”ک“ حرف تشبیہ لا کر اس بات کو واضع کر دیا کہ لاٹھی اصل میں سانپ نہیں بن گئ تھی۔ لیکن ہر مفسر نے اپنی تفسیر میں یہ بات بیان کی ہے کہ لاٹھی سانپ بن گئی تھی اور اس کا مقصد حضرت موسی کو معجزات عطا کرنا تھا۔
یہ وہ مقام ہے جب ایک رسول ، اللہ کی طرف سے وحی کو حاصل کرتا ہے ۔ اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے، یہ غیر نبی کے لئے سمجھنا نا ممکن ہے۔ ایک ایسا تجربہ جو سوائے ایک رسول کے اور کسی کو نہ ہوا ہو اس کو الفاظوں میں اگر قلمبند کیا جائے تو یہ بلکل ایسے ہی بیان ہوگا جیسا کہ قران نے بیان کیا ہے۔ جیسے حضرت موسی کو آگ کا دکھنا ، پھر وادی کے بائیں جانب سے کسی درخت پر اس آگ کا لگنا اور وہیں سے ایک آواز کاآنا کہ اے موسی میں تیرا رب ہوں اور پھر نور جو اس آگ میں ہے(حلانکہ سب جانتے ہیں کہ اللہ کی مثل یا تشبیہ کوئی نہیں ) اور وہ جو اس کے آس پاس ہے وہ با برکت ہے وغیرہ وغیرہ ،یہ سب بیان کرنے کا مقصد استعارات و تشبیہات کے ذریعہ غیر نبی تک بات کو پہنجانا ہے۔ یہ کشفی حالت ہوتی ہے جس میں رسول ایک آواز کو سنتا ہے لیکن پاس بیٹھے ہوئے لوگ اس کو نہیں سن پاتے ۔ وہ اس حالت میں فرشتے کو اترتے اور کلام کرتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن اس کے اردگرد کے لوگ اس کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس کا ذکر رسول اللہ کے حوالے سے ہمیں احادیث میں ملتا ہے جس میں محفل میں رسول اللہ پر وحی نازل ہوتی تھی اور اس کو سوائے ان کے کوئی نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ سن سکتا تھا۔
پھر سورہ طہ کی ایت 21 میں خُذْهَا کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ یہاں بات پکڑنے کی نہیں بلکہ اخذ کرنے کی ہے ۔ ہم اپنی عام بول چال میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں جس کے معنی کسی بات کا احاطہ کرنے کے ہیں ۔ پھر اس ہی آیت میں لاٹھی کے سیرت بدلنے کی بات ہے نہ کہ صورت کی۔ جس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لاٹھی سانپ نہیں بنی تھی بلکہ اس کی سیرت تبدیل ہوئی تھی۔ اس لئے اللہ یہ مشاہدہ کروانے کے بعد حضرت موسی کو ہدایت کر رہا ہے کہ اس بات کا ادراک کریں ، اس کا مکمل احاطہ کریں کہ یہ مشاہدہ کیوں کروایا گیا ہے۔
اس مشاہدے اور اس کا مکمل احاطہ کرنے کے بعد جیسا کہ ہر رسول کو پہلی وحی کے بعد ایک خوف کی سی کیفیت طاری ہوتی ہے بلکل ویسے ہی حضرت موسی کو اس کے مکمل ادراک کے بعد ہوئی۔ بلکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ کو پہلی وحی ملنے کے بعد ہوئی تھی۔
پھر آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ سورہ النحل کی آیت 10 اور سورہ القصص کی آیت 31 میں استعمال ہونے والے الفاظ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ حضرت موسی کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کر رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس مشاہدے کے بعد حضرت موسی نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور اللہ پیچھے سے آوازیں ہی دیتا رہا۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ ایک سنسان جنگل میں ایک غیبی آواز نے تو حضرت موسی پر کوئی خوف طاری نہیں کیا اور نہ ہی یہ سننے کے بعد انہوں نے کوئی دوڑ لگائی لیکن ایک لاٹھی کو سانپ کی طرح حرکت کرتا ہوا دیکھ کر ان کو اتنا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے وہاں سے دوڑ لگا دی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
بلکہ انہوں نے اس بات کو اخذ کیا کہ یہ قانون الہی ہی ہے جو مردہ قوموں کو زندگی بخشتا ہے اس لئے اس مشاہدہ کرانے کا مقصد یہی تھا کہ اللہ ان کی قوم کو ایک نئی زندگی دے گا۔ کون سی نئی زندگی؟ وہ تمام حقوق جو فرعون نے بنی اسرائیل کے غصب کر لئے تھے اور اس کو ایک مردہ اور غلام قوم بنا دیا تھا اور اس ہی قانون کی تبلیغ انہیں کرنی تھی جس میں تمام لوگوں کے حقوق اور رزق مساویانہ بنیاد پر تقسیم ہوں ، ہر ایک کو اس کا حق ملے۔ کوئ کسی کا غلام نہ ہو بلکہ ایک آزاد فضا میں اپنی زندگی اللہ کے قانون کے مطابق گزاریں لیکن یہ کتنا کٹھن مرحلہ تھا اس کا اندازہ ان کو بخوبی تھا کیوں کہ انہوں نے خود فرعون کے ہاں پرورش پائی تھی اور ان کو معلوم تھا کہ فرعون بنی اسرائیل کو حقوق کبھی نہیں دے گا۔ اس کے علاوہ، ان کے سامنے انبیاء کی تاریخ تھی جس میں ان پیغام پہنجانے والوں کے ساتھ کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور ان کو کیا کیا تکلیفیں اٹھانا پڑیں۔ یہ تعلیم وہ اپنی ماں کی گود سے سیکھ کر ائے تھے جس نے دریا میں ان کو بہا دیا تھا لیکن اس کے بعد اللہ نے ایسا انتظام کیا کہ پھر ان کی پرورش ماں کی گود میں ہی ہوئی اس لیے وہ ان تمام باتوں سے واقف تھے۔ والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم اور حالات سے بھی واقفیت حاصل تھی اور بادشاہ وقت کے ہاں پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس وقت رائج تھے۔ اس لئے جیسے ہی انہوں نے اس بات کو اخذ کیا ان پر خوف و دہشت طاری ہوئی کہ کتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ اُن پرآپڑا ہے لیکن اللہ نے ان کو دلی تسلی دی کہ اللہ ان کے ساتھ ہے۔ دیکھ اور سن رہا ہے اور اے موسیٰ ڈرو نہیں، میرے حضور پیغمبروں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
اس بات کو سمجھانے کے بعد جو دوسری ہدایت حضرت موسی کو دی وہ ید بیضا کی تھی جس کے معنی روشن یا واضع دلیل کے ہیں۔ جو اہل نظر کو روشن دیکھائی دے گی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ نظر کے بنیادی معنی غور کرنے اور معائنہ کرنے کے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے معنی کسی بات میں غور کرنا، اندازہ کرنا اور اس کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر اس کی بابت قیاس کرنا ہے۔ اہل نظر وہی ہوتے ہیں جن کی فطرت سلیم ہوتی ہے اور روشن دلیل کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اس کو قبول کرنے میں ایک سیکنڈ کی ناخیر نہیں کرتے۔ کیا حضرت موسی کے ان روشن و واضع دلائل کا ادراک کسی اہل نظر کو ہوا؟ کیا اس کا کوئی بیان ہمیں قران میں ملتا ہے؟۔ یقیناً ہوا اور فرعون کے ہی دربار میں سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا اور ایک عظیم سلطنت کے بادشاہ کے سامنے اپنی جان کی پروا کئے بغیر ہی بول اٹھا۔ تفصیل کے لئے سورہ غافر کی ایت 26 سے مطالعہ کریں۔
یہ دوسری نشانی دینے کا مقصد یہی تھا کہ تبلیغ تو قوانین الہی کی کرنی ہے لیکن جو کچھ بھی پیش کرنا ہے وہ روشن یا واضع دلیل کی بنیاد پر کرنا ہے۔ کسی کی عقل کو مار کر اس سے زبردستی ایمان قبول نہیں کروانا۔ جو کچھ بھی منوانا ہے وہ دلیل و برہان ہی کی بنیاد پر منوانا ہے۔ تاکہ جو ہلاک ہو وہ اپنے ہی کرتوت کی بنا پر ہو۔ جس پر بھی عذاب آئے وہ اس کے اپنے ہاتھون کی کمائی ہو۔
ان دو نشانیوں کے ساتھ ساتھ ایک ضمنی ہدایت بھی دی جس کو سورہ القصص کی ایت 32 میں ضْمُمْ جَنَاحَكَ سے تعبیر کیا ہے جو کنایہ ہے تجلد اور ضبط سے اور وہ پرندہ کے فعل سے ماخوذ ہے کہ خوف کے بعد جب حالت امن ہو تو وہ ایسا کرتا ہے یعنی خوف میں گھبرانا نہیں۔
یہاں آگے پڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کردوں کہ از روئے قران آيَةٍ کے کیا معنی ہیں :
- اس کے معنی دلیل یا معجزہ بھی ہیں جیسے سورہ اسرا کی ایت 101 میں ذکر ہے۔
- اس کے معنی ظاہری نشانی بھی ہیں جیسے سورہ الفرقان کی ایت 37 اور سورہ مریم کی ایت 10 میں ذکر ہے
- اس کے معنی رسالت یا پیغام الہی بھی ہیں جیسے سورہ البقرہ کی ایت 39 میں ذکر ہے
- اس کے معنی قران کی ایت بھی ہے جیسے سورہ ص کی ایت 29 میں ذکر ہے۔
ابھی بات ختم نہیں ہوئی ۔ جب حضرت موسی کو یہ ہدایات یا نشانیاں دے دئیے جاتے ہیں تو اس کے بعد سورہ طہ کی آیات 25 سے 28 میں حضرت موسی کا یہ بیان کہ ان کا سینہ کھول دے ، ان کے کام کو آسان کردے اور ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان کی بات کو سمجھ سکیں ، میرے ان تمام دلائل کی تائید کرتی ہے کہ جو کچھ بھی پیش کرنا تھا وہ دلائل و برہان کی صورت میں پیش کرنا تھا ۔ اس لئے ان دو نشانیوں کے ملنے کے بعد حضرت موسی تین باتوں کے لئے دعا کرتے ہیں ، ایک یہ کہ اعلی درجہ کے دلائل میسر آجائیں ، دوسرا یہ کہ جو مشکلات و رکاوٹیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور تیسرا یہ کہ فصاحت لسانی ملے اور ان سب کا نتیجہ یہ کہ آپ کے مخاطب آپ کی بات کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ یہ تمام باتیں تبلیغ کے لئے ضروری ہوتی ہیں ۔ جس تبلیغ کا ذکر اوپر بیان کیا ہے۔
شْرَحْ صَدْرِ کا بلکل یہی بیان سورہ الم نشرح میں ہمیں رسول اللہ کے متعلق ملتا ہے۔ وہاں بھی مشکلات کے بعد آسانی کا ذکر ہے۔ تفصیل کے لئے اس سورہ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
یہاں تک اگر میری اس تفہیم سے اتفاق ہے تو آگے سورہ اعراف اور سورہ الشعراء میں عصاء اور ید بیضاء کے یہی معنی ہیں ۔ یہ آیات صرف دو سورہ میں بیان ہوئی ہیں اور باقی کی جن جن سورہ میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے ان میں عصاء اور ید بیضاء کی کوی آیت موجود نہیں ۔
اب ان تمام باتوں کے بعد سورہ اعراف کی ایت 107 اور سورہ الشعرا کی آیت 32 کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ان دونوں سورتوں میں فرعون حضرت موسی سے ان کی رسالت کی یا ان کی مامور من اللہ ہونے کی دلیل مانگتا ہے۔ انبیاء اس کے جواب میں کیا دلیل پیش کرتے ہیں جس کے بعد پھر کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں بچتی ،اس کی تعلیم ہمیں سورہ البقرہ کی آیت 258 میں ملتی ہے جہاں جھگڑا اس بات پر تھا کہ حضرت ابراہیم کا رب کون ہے۔ بلکل ایسے ہی جیسے یہاں جھگڑا اس بات پر تھا کہ موسی کا رب کون ہے۔ حضرت ابراہیم کا جواب بادشاہ کو لاجواب کر گیا لیکن پھر بھی ایمان نہ لایا۔ بلکل ایسا ہی جواب حضرت موسی نے فرعون کو دیا۔
یہ جواب ہمیں سورہ طہ کی ایات 47 سے 58 میں ملتا ہے . اس میں دو اہم باتین حضرت موسی نے کیں . ان کے دلائل کچھ یوں تھے۔
- میرا رب آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالتا ہے
- میرے رب نے تم کو اس زمین سے پیدا کیا ہے اور اس ہی زمین مین واپس لے جائے گا۔
اگر وہ رب تھا جیسا کہ فرعون کا دعوی تھا جس کا ذکر سورہ القصص کی آیت 38 اور سورہ النازیات کی آیت 24 میں ملتا ہے۔ تو یقیناً ان چیزوں پر اس کو قدرت حاصل ہوتی۔ لیکن سورہ اعراف ہی کی ایت 130 سے 135 تک میں زکر ملتا ہے کہ کس طرح فرعون ان تمام آفات کے آگے بے بس تھا اور وہ یہ بات خوب جانتا تھا اس لئے حضرت موسی کی دلیل کے آگے کچھ نہ کہہ سکا اور صرف اتنا ہی کہا کہ یہ سب السحر ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی رسول کی قوم نے اپنے رسول کو ساحر کہا ہو۔
1.حضرت صالح کی قوم نے ان کو ساحر کہا ۔ سورہ الشعراء ایت 153
2.حضرت شعیب کی قوم نے ان کو ساحر کہا۔ سورہ الشعراء ایت 185
3.حضرت عیسی کی قوم نے ان کو ساحر کہا۔ سورہ المایدہ ایت 110
4.رسول اللہ کی قوم نے ان کو ساحر کہا۔ سورہ یونس کی ایت 2، سورہ بنی اسرائیل کی ایت 47
5.ہر دور میں تعلیمات وحٰی کو سحر کہا ہے۔ سورہ الاحقاف کی ایت 7
6.جب بھی کفار کے پاس اللہ کا پیغام پہنچا تو انہوں نے اسے جادہ کہا۔ سورہ سباء ایت 43
اس موقع پر احباب اعتراض اٹھاتے ہیں کہ ایسے ہی دلائل سورہ الشعراء میں بھی حضرت موسی نے دیئے تھے پھر ان کو کیوں قبول نہ کیا جائے؟ اس کو تو فرعون نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ مصر کی سلطنت ، اس میں بہتی نہریں ، یہ غلبہ ، مشرق و مغرب سب اسی کے ہیں ۔ فرعون کی سلطنت شام سے لیبیا تک اور بحرروم کے سواحل سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی۔ جس کا ذکر ہمیں سورہ الزخرف کی ایت 51 میں ملتا ہے
وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَـٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿51﴾
اور فرعون اپنی قوم میں پکارا کہ اے میری قوم! کیا میرے لیے مصر کی سلطنت نہیں اور یہ نہریں کہ میرے نیچے بہتی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں(51)
اس کے بعد حضرت موسی نے وہ دلیل پیش کی جس کے بعد پھر کوئ دلیل باقی نہیں بچتی۔اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ بلکل ویسے ہی جیسے حضرت ابراہیم نے بادشاہ کے سامنے پیش کی تھی۔ پھر غور طلب بات یہ ہے کہ سورہ اعراف میں جو دلائل بیان ہوئے ہیں وہ سورہ طہ میں بیان نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ اگر سورہ القصص کا مطالعہ کریں تو اللہ کا ارشاد ہے کہ
نَتْلُو عَلَيْكَ مِن نَّبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿3﴾
ہم آپ کے سامنے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں(3)
اب آپ خود ہی بتائیں کہ جب اللہ یہ واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کر رہا ہے تو اس میں عصاء اور ید بیضاء کا کہیں ذکر نہیں۔ جس سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ یہ معرکہ دلائل و برہان کا تھا۔
اب ان دلائل کے بعد ان ایات کو سمجھنا مشکل نہیں ۔ یہاں اللہ نے ان دو آیات میں ان تمام دلائل کا احاطہ کیا ہے یہ سمجھ لیں کہ دو آیات میں پوری کہانی بیان کر دی ہے۔ جس کو دوسری سورہ میں کھولا ہے۔
فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ ﴿١٠٧﴾ وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ ﴿108﴾
اب اس کے معنی کچھ یوں ہوں گے کہ جب فرعون نے مامور من اللہ کی دلیل طلب کی تو حضرت موسی نے قانون الہی پیش کیا جو فرعون کو صریح اژدھا جیسا دکھائی دیا اور روشن دلائل نکالے تو اہل نظر یعنی غور کرنے والوں کے لئے وہ روشن تھیں۔
اس ایت میں لفظ ”جیسا“ مخذوف ہے۔ اس کو ایسے سمجھیں جیسا کہ اگر میں کہوں کہ میرا پیٹا چاند جیسا ہے تو لفظ جیسا اس بات کو کھول دیتا ہے کہ اس میں چاند سے تشبیہ دی گئ ہے اور میرا بیٹا چاند میں تبدیل نہیں ہوگیا ہے۔ اس ہی طرح اگر کسی دوسرے مقام پہ میں کہوں کہ میرا پیٹا چاند ہے تو اس سے یہ مطلب لینا کہ میرا پیٹا چاند میں تبدیل ہوگیا علم و ادب سے لاعلمی ہی کی بنیاد پر ہوگا۔
بلکل اس ہی طرح جب قران نے دو ایات میں تکرار کے ساتھ یہ بات بیان کردی کہ لاٹھی سانپ میں تبدیل نہیں ہوئی تھی بلکہ سانپ جیسی حرکت کر رہی تھی اور حرف“ ک“ لا کر اس کو سانپ سے تشبیہ دی ۔ اس ہی طرح یہاں اژدھا میں لفظ جیسا مخذوف ہے۔ پھر یہ بات کہ فرعون کو حضرت موسی کے دلائل کیوں ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ لگے؟۔ اس کا ذکر فرعون کے سرداروں نے ان الفاظ میں سورہ اعراف اور سورہ الشعراء میں کی۔
تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے پس تم کیا مشورہ دیتے ہو(10)
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم سلطنت کا مالک جو اپنے اپ کو رب بھی قرار دیتا ہے ان کو حضرت موسی سے کیا خطرہ لاحق ہوسکتا تھا؟ کیسے حضرت موسی اس کا تختہ الٹ سکتے تھے؟ کیسے اس کو ملک بدر کر سکتے تھے جس کا اندیشہ فرعون کے سرداروں نے کیا۔
اس کا جواب مولانا مودودی نے اپنی تفسیر میں یوں بیان کیا ہے :
”حضرت موسی کا دعواے نبوت اپنے اندر خود ہی یہ معنی رکھتا تھا کہ وہ دراصل پورے نظام زندگی کو بحیثیت مجموعی تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسی کی زبان سے رسالت کا دعوی سنتے ہی فرعون اور اس کے اعیان سلطنت سامنے سیاسی ، معاشی اور تمدنی خظرہ نمودار ہوگیا۔ ”
اب یہاں ایک آخری سوال رہ جاتا ہے کہ پھر جب حضرت موسی کا مقابلہ ساحرین فرعون سے ہوتا ہے تو پھر وہاں رسیوں اور عصاء سے کیا مراد ہے جو انہوں نے پھینکے تھے؟
القی کے معنی پھینکنا ، ڈالنا بھی ہیں اور اس کے ایک معنی پیش کرنا بھی ہیں۔ اب اگر یہ کوئی لاٹھی ہوگی جو سانپ بنتی تھی تو ظاہر ہے کہ پھر اس کو پھینکا ہی جائے گا۔ لیکن اگر یہ کوئی دلائل ہیں تو پھر اُن کو پیش ہی کیا جائے گا۔ پھر ہمارے ہاں ساحر کو جادوگر ہی مانا گیا ہے۔ جبکہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ ہر رسول کی قوم نے اپنے رسول کو جھٹلایا اور ان کو ساحر کہا۔ خود رسول اللہ کو ان کے مخالفین نے ساحر کہا حالانکہ انہوں نے کوئی معجزا نہیں دکھایا تھا نہ ہی حضرت صالح اور شعیب نے کوئ معجزا دکھایا۔
جبکہ سحر کے بنیادی معنی موڑنے اور پھیرنے کے ہیں ۔ اس سے اس کا مطلب ہوتا ہے کہ باطل کو حق کی صورت میں پیش کرنا، اصل حقیقت سے غیر حقیقت کی طرف پھیر دینا، ایسا دھوکا جس میں پتہ ہی نہ چلے کہ دھوکا کس طرح دیا گیا ہے۔
اس لفظ کو آج کے زمانے میں سمجھنا اور زیادہ آسان ہے کہ کس طرح اُن لوگوں کی انکھوں ، دل و ماغ پر مذہبی ساحر ایسا سحر باندھتے ہیں کہ انسان اپنے جسم پر بم باندھ کر اپنے اور معصوموں کی جان کے درپے ہوجاتا ہے۔ کس آسانی سے اپنی جان کسی دوسرے کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔ جو انسان کو سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس لئے ساحرین فرعون بھی یہی تھے۔ فرعون نے ان ہی ساحرین کے ذریعے قوم کو مختلف فرقوں میں بانٹا ہوا تھا تاکہ قوت بٹی رہے اور فرعون کا اقتدار مضبوط رہے۔ دیکھیں قران اس بارے میں کیا کہتا ہے۔
سورہ القصص کی ایت 4 میں اس کا زکر ملتا ہے۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا ۔۔۔۔۔
بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب وہآایت پیش خدمت ہے جس میں ساحرین فرعون کی رسیوں اور لاٹھیوں کا ذکر ہے۔
قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ ﴿66﴾
حبل کہتے ہیں رسی، عہد، ذمہ ، امان اور ہر وہ چیز جس سے کسی دوسری چیز تک پہنچا جائے حبل کہلاتی ہے۔ قرآن نے اسکو بمعنی شریعت یا نظام زندگی کے استعمال کیا ہے ۔سورہ آل عمران کی آیت 103 میں یہ لفظ شریعت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ اس ہی طرح اس ایت میں بھی حِبَالُهُمْ بھی شریعت کے معنوں میں آئے ہیں۔ حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ ایک ہی چیز ہیں یہ دو الگ الگ چیزیں نہیں۔ انہوں نے حِبَالُهُمْ یعنی عِصِيُّهُمْ پیش کیں۔
حرف ”و“ کے متعلق یہ بات سمجھ لیں کہ یہ متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ”اور“ کے معنوں میں (سورہ السجدہ ایت 27). یہ ”ساتھ“ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے (سورہ یونس ایت 71)۔ اس کے علاوہ یہ“ یا“ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے (سورہ ال عمران کی ایت 112)۔آخر میں یہ“ یعنی“ کے معنوں میں ، جسے واو تفسیری کہتے ہیں (سورہ انبیاآیت 69) . اس لئے اس آیت میں یہ واو تفسیری کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ المائدہ کی آیت 15 پر غور کریں تو یہ بات باآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اس طرح کا اسلوب قران کے دیگر مقامات پر بھی ملتا ہے۔ اس آیت میں پیش ہونے والے الفاظ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ قابل غور ہیں ۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔
موسیٰ نے نے جب دیکھا کہ مقابل کے دلائل میں بھی کچھ جان ہے تو وہ اپنے لوگوں کے بارے میں خوفزدہ ہوئے ۔عموماً آیت 67 کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ موسیٰ نے اپنے اندر خوف محسوس کیا ۔بھلا سوچئے کہ ایسا شخص جو اپنی قوم کو فرعون کے خلاف کھڑا کر رہا ہو اور وہ بھی اگر خوفزدہ ہے تو وہ اور اسکی قوم تو آدھی جنگ پہلے ہی ہار جاتی ہے ۔اور سوچئے کہ اگر موسیٰ کے پاس اللہ کے دئیے دو معجزات بھی ہوں تو وہ کیونکر کسی سے خوف کھا ئیں گے ۔ پھر اس کے بعد کا قصہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ اللہ نے حضرت موسی کو وحی کی کہ پیش کر قانون الہی ان کے مقابلے میں اور ان کی یہ بناوٹی باتیں جھوٹ کو قانون الہی ملیا میٹ کردے گا۔
میرے اس نقطہ نظر سے اتفاق ضروری نہیں ۔ ان آیات کو میرے دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عصاء سانپ بن گیا تھا اور ہاتھ سفید چمکتا تھا تو اس میں بھی کوئ قباحت نہیں ۔ ان آیات کا درست ادراک ہونے یا نہ ہونے سے ہماری جنت اور دوزخ پر کوی اثر نہیں پڑے گا۔ اگر کبھی مستقبل میں میری یہ تفہیم غلط ثابت ہو جائے یا میری تفہیم آپ کو پسند نہ آئے تو بے شک اس کو دیوار پہ مار دیجیے گا۔
ختم شد
٭٭٭٭٭
[…] Download from Archive Download from Scribd Unicode Urdu Text […]