ذوالقرنین کون تھے ؟ تحریر: مبین قریشی
ذوالقرنین کا تزکرہ سورہ الکہف میں اسطرح شروع ہوتا ہے ؛
ویسلونک عن ذی القرنین، قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا۔
اور تم سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا گیا ہے، آپ فرمائیے کہ اس کا قابل ذکر پہلو تمھیں بیان کئے دیتے ہیں ( الکھف۔ ۸۳)
قرآن نے ذوالقرنین سے متعلق جو قابل ذکر پہلو بیان کیا ہے وہ دراصل مستقبل کی ایک بہت بڑی پیشن گوئ اور اس پیشن گوئ کا پس منظر ہے۔ اس پیشن گوئ اور اسکے پس منظر کو کسی اگلی پوسٹ میں دیکھتے ہیں ، فی الوقت یہ سمجھتے ہیں کہ ذوالقرنین اصل میں ہیں کون؟
قدیم تفسیروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے قدیم مفسرین کو ذوالقرنین کی شناخت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ کچھ مفسرین نے اسے یمن کا ایک نامعلوم حمیری بادشاہ قرار دیا تو کچھ نے اسے مکدونیہ یعنی قدیم مشرقی یورپ یونان کا بادشاہ اسکندر اعظم لیا ہے۔ ایک آدھ مفسر نے ایک روایت بنا کر اسے حضرت ابراھیم و اسمعیل کا ہم عصر بنا کر کعبہ کی تعمیر کے دوران اسے بھی ساتھ لاکھڑا کیا جبکہ ایک دوسرے مفسر نے حضرت اسحق کے بیٹوں یعنی یعقوب اور عیسو کیساتھ ایک تیسرے بیٹے عیص کی خبر دے کر پھر اسکی اولاد کی سولہ پشتوں کے نام گنوا کر (۱۷)سترویں پشت ( یعنی تقریباً حضرت موسی کا ہم عصر) میں اسکندر بن فلپس کے ذوالقرنین ہونے کی خبر دی۔ حتی کہ بالاخر پچھلی صدی کے ایک دو مفسرین نے بجا طور ذوالقرنین کی صحیح شناخت کی جانب اشارات کئے۔
صحیح روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال یہود کے توسط سے کیا گیا تھا۔ سائل کی شناخت کے اندر ہی ذوالقرنین کی شناخت پوشیدہ ہے۔
حضرت دانیال علیہ سلام کے صحیفے کی ابتدا بخت نصر کے ایک رویاء صالحہ سے ہوتی ہے جسمیں اسکی سلطنت سے لیکر محمد رسول اللہ کے ہاتھوں قائم ہونے والی سلطنت تک پانچ بڑی سلطنتوں کا ذکر ہے۔ اسکے بعد پورا صحیفہ تقریباً اسی رویاء کی مزید تفصیلات پر مبنی متعدد روی پر مشتمل ہے۔ انھیں روی میں سے ایک رویاء جو حضرت دانیال نے ۹۰ سال کی عمر میں ، بخت نصر کی سلطنت کے خاتمے سے تقریباً دو سال قبل یعنی بابل کے آخری حکمران بیلشیضر کے دور میں قدیم فارس کے دارلخلافہ شاشان میں دریائے اولائ کے کنارے دیکھی، جسمیں اسکندر مکدونی کے ہاتھوں ذوالقرنین بادشاہ کی سلطنت کی پیشن گوئ تھی۔ اس مکاشفے میں انھوں نے ایک دو سینگوں والا مینڈھا دیکھا جو کبھی مغرب کی جانب دوڑتا تو کبھی شمال و جنوب کی جانب ( یہاں قرآن نے جنوب کی جانب کی اصلاح مشرق کی جانب سے کردی ہے) دوڑتا ہے۔ پھر ایک سینگ والا ایک بکرا مغرب سے آکر اس مینڈھے کو پچھاڑ دیتا ہے۔ حضرت دانیال اس مکاشفے کو سمجھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ حضرت جبرائیل آکر اسکی صحیح تاویل ان الفاظ میں کرتے ہیں ؛
اما الکبش الذی ریتہ ذوالقرنین فھوا ملوک مادی و فارس، والتیس العافی ملک یونان۔
تم نے مینڈھا دیکھا جو کہ ذوالقرنین ( دو سینگھوں والا) تھا وہ فارس و مدیاء کے ملک ہیں اور بکرا یونان کا ملک۔ ( دانیال ۔ باب ۸)۔
اسی مکاشفے سے عرب یہود نے ذوالقرنین کی کنیت اخذ کی۔ اس مکاشفے سے پتہ چل گیا کہ ذوالقرنین مدیا( سینٹرل ایشیا اسٹیٹس) اور فارس کے بادشاہ تھے جنکی بنائ ہوی سلطنت کا خاتمہ بالاخر اسکندر مکدونی نے کیا۔ واضح ہوگیا کہ قرآن میں مزکور ذوالقرنین اصل میں سائرس ، خورس یا کیخسرو ہیں۔ انھوں نے ہی یہود کو بابل کی ۷۰ سالہ غلامی سے نجات دلائ اور انکے لئے پھر سے ھیکل تعمیر کرکے انھیں یروشلم میں آباد کیا۔ انھی احسانات کے عوض یہود انھیں سائرس دی گریٹ کا خطاب دیتے ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ سلام کی ریاست کے دو حصوں میں بکھرجانے اور پھر دس قبائل کا نینوی کے ہاتھوں نابود ہوجانے پر بنی اسرائیل کے جس پیغمبر نے سب سے ذیادہ گریہ و زاری کی وہ یسیعاہ پیغمبر تھے۔ یہ بنی اسرائیل کی معلوم تاریخ میں سے سب سے ذیادہ آہ و زاری و گریہ کرنے والے پیغمبر ہیں ۔ انھوں نے بہت سارے امور کی پیشن گوئیاں بھی کیں ۔ یسیعاہ پیغمبر کے صحیفے میں ذوالقرنین یعنی خورس/سائرس کا ذکر یونہہ لکھا گیا ہے؛
” خداوند اپنے مسیح خورس کے حق میں یونہہ فرماتا ہے کہ میں ہی اسکا داھنا ہاتھ پکڑ کر امتوں کو اسکے سامنے زیر کروں گا اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں گا اور دروازوں کو اسکے لئے کھول دوں گا اور پھاٹک اسکے لئے بند نہ کئے جائیں گے۔ میں تیرے آگے چلوں گا اور ناہموار زمین کو ہموار بناؤں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور لوہے کے بینڈوں کو کاٹ ڈالوں گا۔ اور میں ظلمات کے خزانے اور پوشیدہ مکانوں کے دفینے تجھے دونگا تاکہ تو جانے کہ میں خداوند بنی اسرائیل کا خدا ہوں جس نے تجھے نام لیکر بلایا ہے” (یسیعاہ باب ۴۵)
اسی طرح یرمیاہ نبی کی ایک پیشن گوئ کے متعلق عزراء فقیہہ کی کتاب میں یونہہ مزکور ہے؛
” اور شاہ فارس خورس ( سائرس) کی سلطنت کے پہلے سال میں اسلئے کہ خداوند کا کلام جو یرمیاہ کی زبانی آیا تھا پورا ہو اور خداوند نے شاہ فارس خورس کا دل ابھارا۔ شاہ فارس خورس یونہہ فرماتا ہے کہ خداوند آسمان کے خدا نے زمین کی سب مملکتیں مجھے بخش دیں اور مجھے تاکید کی ہے کہ میں یروشلم میں اسکے لئے ایک مکان بناؤں "۔ ( عزرا۔ باب ۱)
ان حوالوں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ قرآن میں ذوالقرنین کی کنیت سے مزکور شخصیت کون ہیں اور یہود کو انکے متعلق دلچسپی کیونکر تھی ؟ قرآن نے انکی اس دلچسپی کے پیش نظر بات وہاں سے آگے بڑھائ جہاں قدیم کتب ٹھہر گئ تھیں ، اسکی تفصیل اگلی کسی پوسٹ میں ۔ فی الوقت صرف یہ واضح کرنا تھا کہ عرب یہود کے سوال کا پس منظر انکی مذہبی کتب تھیں اور ذوالقرنین اس سائرس کی کنیت تھی جسکی سلطنت فارس سے مشرق کی جانب بلخ و مکران تک ، مغرب کی جانب بحیرہ روم تک اور شمال کی جانب کاکیشیا ( کوہ کاف ) یعنی جارجیا تک پھیلتی گئ تھی ۔
[…] پچھلی پوسٹ میں ذکر ہوچکا کہ ذوالقرنین کون تھے؟ سورہ الکہف کی ان آیات کو سمجھنے کے لئے ابھی دو تین سوال اور باقی ہیں ، ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ قرآن میں مزکور یہ دیوار کس مقام پر بنائ گئ؟ اس بابت مولانا ابو کلام آذاد کی تحقیق زبردست کفایت کرتی ہے۔ تاہم مولانا کی ریسرچ پڑھتے ہوے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ راز پہلی مرتبہ مولانا پر ہی واشگاف ہوا۔ ذوالقرنین کی پہچان والے معاملے کے برعکس اس معاملے میں میری تحقیق یہ ہے کہ قدیم اہل علم اس بارے میں صحیح مقام پر کھڑے تھے لیکن بعد ازاں ایک روایت ( جسکی کوئ کل سیدھی نہیں لیکن ہر تفسیر کے حاشیہ میں لکھی ملتی ہے، اس پر بحث اگلی پوسٹ میں ) کی وجہ سے یاجوج اور ماجوج کوئ کارٹون نما مخلوق بن گئے اور دیورار کی شناخت والا معاملہ بھی رفتہ رفتہ چھپ گیا۔ حضرت ذوالقرنین نے اپنی فتوحات کی آخری سمت یعنی انکی مملکت سے شمال کی جانب کی مہمات میں یہ دیوار دو پہاڑوں کے درمیانی درے کو پاٹ کر لوہے اور تانبے سے تعمیر کی تھی۔ معلوم تاریخ کے مطابق ذوالقرنین ( سائرس) کی فتوحات شمال میں جارجیا (Georgia) تک پھیلی گئ تھیں ۔ہماری قدیم کتب میں دربند، باب الابواب، داریال، اور کوہ کاف وغیرہ جو نام ملتے ہیں وہ موجودہ جارجیا کے ہی علاقے ہیں ۔ اسکے مشرق میں بحیرہ اسود اور مغرب میں بحیرہ قزوین اور ان دونوں کے درمیان کوہ قاف کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ ہے۔ کوہ کاف کے انھیں پہاڑوں کے درمیان درہ ء داریال کے مقام پر وہ دیوار تعمیر کی گئ تھی۔ مسلمانوں کے قرون اولی کے اہل علم نے بھی اس دیوار کو اسی علاقے میں بتایا۔ جغرافیہ اور علاقوں کے متعلق صحیح ترین آراء یا تو جہاندیدہ بادشاہوں کی ہوتی ہے یا پھر ان علاقوں کے فاتح سپہ سالار ، یا مورخین کی اور یا پھر ماہرین انساب کی۔ میں قرون اولی کے لوگوں میں سے مزکورہ کٹیگریز کے لوگوں کی اس دیوار کے متعلق راے کی کچھ مثالیں آپکے سامنے رکھتا ہوں ۔ ۱: حضرت عمر رض کی خلافت کے آٹھویں یا نویں سال حضرت عبدالرحمن بن ربیعہ نے آرمینیا فتح کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن ربیعہ نے آرمینیاء کے بعد دربند ( بحیرہ قزوین کا مغربی ساحل ) کی مہم کی منصوبہ بندی شروع کی شھرباز نے بتایا کہ وہ پہلے سے ہی ایک شخص کو بجھوا کر دیوار ذوالقرنین تک کے علاقوں کی خبریں اکھٹی کرچکا ہے۔ پھر شھرباز نے ایک آدمی کو طلب کرکے کہا اے امیر ( عبدالرحمن) یہ وہ شخص تھا جسے میں نے سد ذوالقرنین تک کی مخبری کے لئے بھیجا تھا ( البدایہ والنھایہ – جلد ۷ صفحہ ۱۴۰) دیوار ذوالقرنین کی پہچان کے متعلق یہ راے اس علاقے کی بادشاہ اور اس علاقے کے نئے فاتح کی ہے۔ ۲: عباسی خلیفہ واثق باللہ نے ایک روز خواب میں دیکھا کہ یاجوج اور ماجوج کی دیوار گرگئ ہے۔ وہ گبھرا کر اٹھا ( عربوں کی ہلاکت کی پیشن گوئ والی حدیث کی وجہ سے) اور رات بھر بے چین رہا۔ پھر اس نے پچاس سرکاری اہلکاروں کی ٹیم تشکیل دے کر اور انھیں پچاس ہزار دینار اور دس ہزار درہم فی بندہ دے کر دربند ( بحیرہ قزوین کا مغربی ساحل ) کے علاقے میں بھیجا کہ وہ دیوار کی خبر لے کر آئیں ۔ ( احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم جلد ۱ صفحہ ۱۱۳۱) دیوار کہاں بنائ گئ اسکے متعلق اس دور کے سب سے بڑے بادشاہ کی معلومات آپکے سامنے رکھ دی۔ یہ واقعہ ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمے میں چھٹی اقلیم کی نویں جز کے تحت ذکر کیا ہے۔ اس خواب کا ذکر علامہ ابن کثیر نے بھی البدایہ والنھایہ اور طبری نے تفسیر ابن کبیر میں بھی کیا ہے۔ ۳: ابن خلدون نے پانچویں اقلیم میں بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین اور انکے مابین کوہ کاف کے پہاڑوں کا ذکر کرکے اسے یاجوج اور ماجوج کا علاقہ لکھا۔ اور پھر چھٹی اقلیم کے نویں جز میں لکھا ہے کہ دیوار ذوالقرنین یہیں کوہ قاف کے پہاڑوں میں بنائ گئ تھی۔ ( مقدمہ ابن خلدون پانچویں اور چھٹی اقلیم)۔ درج بالا معلومات جدید فن عمرانیات کے بانی اور جہاندیدہ مورخ کی ہیں ۔ ۴: ابن ناصر الدین شمس الدین دمشقی محمد بن عبداللہ بن محمد القیسی الدمشقی نے اپنی اسماء الرجال پر کتاب توضیع المشتبہ فی ضبط اسماء الرواہ وانسابھم والقابھم و کناھم میں عبداللہ بن عیسی راوی کا تعارف یونہہ لکھا ہے؛ من الخرر الترک وانما ھو منسوب الی موضع من الثغور عند ذی القرنین یقال لہ دربند۔ وہ خزاری ترکوں میں سے تھا اور وہ ذوالقرنین کی دیوار کے قریب دربند کے ایک علاقے ثغور کا رہنے والا تھا۔ غور کریں کہ انساب اور رجال کا ایک عظیم عالمکیا کہہ رہا ہےکہ دیوار کہاں بنائی گئ تھی ؟ ۵: جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب لب اللباب فی تحریر الانساب میں خزرج قبیلے کے تعارف میں دو قبائل کا تعارف کرواتے ہوے لکھا ہے کہ؛ الخزرجی؛ الخزرج من الانصار ( یہ انصار مدینہ والا خزرجی قبیلہ ہے) الخزرجی ( بفتحین) ؛ وراء الی دربند خزران عند سد ذی القرنین و خزرجد ۔ ( یہ دربند سے پرے ذوالقرنین کی دیوار کے علاقے خزران سے ہیں اور خزاریوں کی نسل سے ہیں ۔ ۶: تیمور لنگ نے اپنے آخری دور میں اپنی یادداشتیں لکھوانے کا کام شروع کردیا تھا۔ ان یادداشتوں میں قیچاق ( روس کا علاقہ) کی فتح کے بعد اسے دیوار ذولقرنین کا پتہ چلا تو وہ اسے دربند کے علاقے میں دیکھنے گیا۔ ( ملاحظہ ہو میں ہوں تیمور میں قیچاق کی جنگ) […]