آتش نمرود اور پرویز صاحب کے تفسیری اصول از۔حافظ زبیر صاحب
ابراہیم علیہ السلام کو جس آگ میں ڈالا گیا تھا تو اس کا ذکر قرآن مجید میں چار مقامات پر ہے۔ (1) سورہ الانبیاء میں فرمایا کہ "قَالُوا حَرِّقُوهُ” ترجمہ: انہوں نے کہا کہ ابراہیم کو جلا ڈالو۔ تو غصے کی آگ سے کسی انسان کو جلانے کا کیا معنی؟ (2) اسی طرح سورۃ الصافات میں فرمایا: ” قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ” ترجمہ: انہوں نے کہا کہ ابراہیم کے لیے ایک مکان بناؤ اور اس مکان کی آگ میں اسے جھونک دو۔ اب غصے کا مکان بنانے کا کیا معنی؟ (3) سورۃ العنکبوت میں فرمایا: "قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ” ترجمہ: انہوں نے کہا کہ ابراہیم کو قتل کر دو یا آگ میں ڈال دو۔ تو یہاں وہ آگ مراد ہے کہ جس سے بندہ قتل ہو جاتا ہو اور آپ کے غصہ کھانے سے کوئی قتل ہو سکتا ہے کیا؟ (4) پھر سورۃ الانبیاء میں فرمایا: "قُلْنَا يَانَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ” ترجمہ: اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی ہو جا۔ مطلب یہ پرویزی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کافروں کا ابراہیم علیہ السلام پر غصہ ختم ہو گیا تھا؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کیوں کی؟”