آیات متشابہات ۔۔۔ محمد حنیف
آیات متشابہات
(محمد حنیف صاحب کا ایک کمنٹ)
قرآن کریم کی آیات مبارکہ کا حصہ دوئم ” آیات متشابہات ” پر مشتمل ہے ۔
جس کے متعلق واضح طور پر فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی حقیقی تاویل صرف اور صرف اللہ کریم کو پتہ ہے ۔ تو کیا اس کے معنی یہ سمجھے جائیں کہ قرآن کریم کی یہ تمام آیات محض قرآن کریم کی ضخامت کو بڑھانے کے لئے قرآن کریم میں موجود ہیں ؟؟؟
ہر گز نہیں ۔بلکل نہیں ۔
قرآن کریم کا ایک ایک لفظ من جانب اللہ ہے ، جس کا واحد مقصد انسانوں کی راہنمائی ہے ۔
آیات محکمات بھی انسانوں کی راہنمائی کے لئے ہیں اور آیات متشابہات بھی !!!
اب سوال یہ ہے کہ ان ” آیات متشابہات ” کو کس طرح سمجھیں ؟؟؟
اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں انسانوں کی دنیا میں مروج طریقہ کار پر غور کرنا ہوگا ۔
کیا کرتے ہیں ہم اپنے بچوں کو کچھ سمجھانے کے لئے ؟
کیا آپ نے کبھی ایسا دیکھا کہ کسی نے اپنے پانچ سات سال کے بچے کو شیکسپیئر کے ڈرامے یا اقبال کی شاعری پڑھانا شروع کر دی ہو؟
کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پہلی دوسری کلاس کے بچوں کو ، ایم اے ، پی ایچ ڈی کی کتابیں پڑھانا شروع کر دی جاتی ہوں ؟؟
کیوں نہیں کرتے ہم ایسا ؟
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کی ذہنی سطح ابھی اتنی بلند نہیں ہوئی ہے کہ ہم اسے شیکسپیئر یا اقبال پڑھائیں ۔
پہلی دوسری کلاس کے بچوں کو ہم اے بی سی ہی پڑھاتے ہیں کیونکہ اس عمر میں ان کا شعور اتنا ہی سمجھ سکتا ہے ۔
اب سوچیں کہ آج سے پندرہ صدی قبل ، ایک کتاب نازل ہوتی ہے جو تمام نوع انسانی کی ہدایت کی ذمہ دار ہے ۔
اس کتاب نے انسان کو اس شئے کی ہدایت بھی پہنچانی ہے جو اس کے روزمرہ کے معمولات میں شامل ہے ، جسے وہ اپنی آنکھوں سے مادی شکل میں دیکھ سکتا ہے اور کائنات کے ان اسرار سے بھی آشنا کرنا ہے جسے نہ تو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، نہ اسے جانا ہے ۔
کائنات کی ابتداء سے اس کی انتہا تک کے اسرار ، حیات بعد الممات اور اس قبیل کے دیگر بسیط حقائق ، انہیں سمجھانے کے لئے اللہ کریم نے جو حکمت عملی اختیار کی ، جسے وہ ” آیات متشابہات ” کہتا ہے ، کیا اس ا س سے بہتر کوئی اور حکمت عملی ممکن تھی ؟؟
انسانوں کی ذہنی سطح ، سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت روز اول سے ارتقاء پذیر ہے ۔ آج کا انسان گزرے کل کے انسان سے کہیں زیادہ صاحب علم ، با شعور اور فہم و فراست کا مالک ہے ۔
آنے والے کل کا انسان ، آج کے انسان سے کہیں زیادہ عاقل و فہیم ہوگا ۔
زندگی کے بہت سارے ایسے بسیط حقائق ہیں جنہیں کل کا انسان نہیں سمجھ سکتا تھا ، آج ہم اسے سمجھ رہے ہیں ۔
آج بہت سارے ایسے اسرار ہیں جو ہماری فہم و فراست سے ماوراء ہیں ، جنہیں آنے والے کل کا زیادہ سمجھ دار انسان سمجھ سکے گا ۔
ارتقاء کا یہ عمل جاری و ساری رہے گا ۔حتیٰ کہ اس کائنات کا آخری دور آ جائے گا ۔ اس دور میں نہ تو کوئی اسرار رہے گا ۔ نہ کوئی متشابہ ۔
سب کا سب کھل کر سامنے آ جائے گا
اس ہی حقیقت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔
ارشاد فرمایا ۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [٤١:٥٣]
عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ اِن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟ [ابوالاعلی مودودی]
یہ ہے وہ طریقہ جس کے تحت اللہ کریم ان "آیات متشابہات” کو ، مشہود فرمائیں گے ۔
جیسے جیسے انسانی اجتماعی شعور ترقی کرے گا ، اتنی اتنی آیات متشابہات ، حقیقت کے روپ میں سامنے لائی جائیں گی ۔اس طرح ہر دور کا انسان جب کسی مخصوص "آیت متشابہ ” کو عملی انداز میں ، مادی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھے گا ، تو اسے اس "آیت متشابہ” کو سمجھنے میں چنداں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
پندرہ صدیوں سے قرآن کریم کی آیت کہہ رہی تھی کہ اللہ کریم نے حضرت داود علیہ سلام کے لئے لوھے کو موم کر دیا تھا ۔
چودہ صدیوں سے یہ آیت ہمارے بزرگان کے لئے ایک ” معجزہ” تھی ۔ تو کیا آج ہمارے دور میں بھی لوھے کا موم ہوجانا ، ایک معجزہ ہی کہلائے گا ؟؟
یہ ایک آیت متشابہ تھی ۔
کوئی انسان اس کے حقیقی مفہوم سے آشنا نہ تھا ۔ تصور بھی نہ تھا کہ لوہے جیسی مضبوط دھات موم کی طرح نرم بھی ہو سکتی ہے ۔
اپنے وعدے ” سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ "کے مطابق آج اللہ کریم نے اس آیت متشابہ کو ” مشہود ” کر دیا ۔ آج آپ کسی اسٹیل مل میں جا کر اس لوہے کو پانی کی طرح بہتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ آج ہم بہت آسانی سے اس” آیت متشابہ ” کہ ہم نے داود کے لئے لوہے کو نرم کر دیا ” سمجھ سکتے ہیں ۔
پندرہ صدی سے قرآن کریم میں ایک آیت موجود تھی کہ ” اے فرعون آج ہم تیرے سارے لاؤ لشکر میں سے صرف تیری لاش کو محفوظ کر لیں گے ، تاکہ تیرے پیچھے آنے والے عبرت حاصل کریں "
پچھلی چودہ صدیوں سے اس” آیت متشابہ ” کی کوئی بھی تاویل انسان کے بس کی بات نہ تھی ۔
میں نہیں جانتا کہ اگر پرویز علیہ رحمہ ، آج سے ایک صدی پہلے پیدا ہوتے ، تو اس آیت کی تاویل میں کون کون سا دیومالائی مفہوم نہ پیش کرتے ۔
آج کی صدی میں ، قرآن کریم کی یہ” آیت متشابہ ” محکم بن کر ہمارے سامنے موجود ہے ۔ آج میں اور آپ اس آیت مبارکہ کی درست تاویل سمجھنے پر قادر ہیں ۔ کیونکہ اللہ کریم نے اس کی حقیقی تاویل مادی شکل میں ہمارے سامنے پیش کر دی ہے ۔
میرے محترم بھائی !!!
اللہ کریم نے ” آیات متشابہات ” کو قرآن کریم کی ضخامت بڑھانے کے لئے نہیں نازل فرمایا ۔
نہ ہی ان آیات کے حقیقی مفہوم کو تاقیامت نہ سمجھنے والا قرار دیا ہے ۔
کہا بس اتنا ہے کہ جو کچھ ہم نے ان "آیات متشابہات "میں بیان کیا ہے ، انہیں عام الفاظ میں سمجھایا نہیں جا سکتا تھا ۔ جب تک کہ اس کی محسوس مثال سامنے نہ آ جائے ۔ اس لئے ان آیات کی من مانی تاویلیں گھڑنے سے گریز کرو ۔ انتظار کرو اس وقت کا جب اللہ کریم اپنی مشیت کے تحت ان ” متشابہات ” کو ” محکمات ” کا درجہ دے دے گا ۔
جس دور میں انسان کا اجتماعی شعور جس مقام پر ہوگا ، ہم اس کی مناسبت سے ان ” آیات متشابہات ” کو عملی انداز میں سامنے لاتے چلے جائیں گے ۔
اس طرح اپنے اپنے دور میں انسان اپنی اپنی ذہنی سطح ، کی حد تک کی ” آیات متشابہات” کی حقیقت کو جان لے گا ۔ اس کی درست تاویل کا ادراک کر لے گا ۔
یہاں تک کہ اس کارگہ ہستی کا آخری دور بھی آجائے گا ۔
اس آخری دور میں کوئی شئے ” متشابہ ” نہیں رہے گی ۔ ہر بات نکھر کر سامنے آ جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب کہہ اُٹھیں کہ ہاں یہ قرآن برحق ہے ۔