سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان مناظرہ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور خوارج کے درمیان مناظرہ
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں:
جب خوارج لشکر علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے علیحدہ ہوئے تو وہ ایک گھر میں جمع ہوگئے۔
ان کی تعداد چھ ہزارتھی۔انہوں نے آپس میںمشورہ کیااور اِس امر پر متفق ہوگئے کہ انہیں سیدنا علی
(رضی اللہ تعالی عنہ) کے خلاف جنگ کے لیے نکلنا چاہیے۔ لوگ سیدنا علی کے پاس تسلسل سے آتے
اور خبریں دیتے کہ خوارج اُن کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے:
انہیں چھوڑ دوجب تک وہ میرے خلاف جنگ نہیں کریں گےتب تک میں انہیں کچھ نہیں کہوں گا۔
مگر وہ ضرور نکلیں گےاور جنگ کریں گے۔ ایک دن ظہر کی نماز کے وقت میں
سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
اے امیر المؤمنین آج ظہر کی نماز ذرا ٹھنڈی کر کے (تاخیر سے) ادا کیجیے۔
ہو سکتا ہے آج میں خوارج کے پاس جاؤں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کروں۔
وہ فرمانے لگے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے
میں نے عرض کی کہ :
اللہ نے چاہا تو ایسا نہیں ہو گا۔
ابن عباس فرماتے ہیں :
میں چونکہ خوش اخلاق تھا اور کسی کو ایذا نہیں دیتا تھا اس لیے امیر المومنین نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے ایک بہترین یمنی لباس زیب تن کیا اور خوب بن سنور کر دوپہر کے وقت اُن کے پاس پہنچا۔
میں ایسے لوگوں کے پاس گیا کہ میں نے اُن سے بڑھ کر عبادت گزار نہیں دیکھے۔
اُن کی پیشانیاں سجدوں کے نشانات سے مزین تھیں کثرت عبادت سے اُن کے ہاتھ اونٹ کے
اُس حصے کی طرح ہو گئےجو زمیں پر لگنے کی وجہ سے سخت ہو جاتا ہے۔
انہوں نے ساف ستھری قمیصیں پہن رکھیں تھیں۔اُن کے چہرے اُن کی شب بیداری کے شاہد تھے۔
میں نے انہیں سلام کہا۔
کہنے لگے :
مرحبا ابن عباس (رضی اللہ تعالی عنہما) کیسے آنا ہوا؟
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ:
میں تمہارے پاس انصار و مہاجرین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد علی بن ابی طالب
رضی اللہ تعالی عنہ کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ سنو ! اُن کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا
اور وہ اس کی تفسیروتاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔
اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا :
قریش سے جھگڑا نہ کرو اللہ تعالی فرما چکا ہے :
بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿٥٨﴾سورة الزخرف
”بلکہ وہ تو ہیں ہی جھگڑالو لوگ”
اُن میں سے دو یا تیں آدمی کہنے لگے:
ہم اِن سے بات کر لیتے ہیں۔
ابن عباس رضی تعالی عنہما :
تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد پر اور مہاجرین و انصار پرجو اعتراضات ہیں
لاؤ پیش کرو۔ان لوگوں پر ورآن نازل ہوا،تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جواُن سے بڑھ کر
قرآن کا عالم ہو۔
خوارج : ہمیں تین اعتراضات ہیں
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : بیان کرو
خوارج :
پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں انسانوں کو منصف بنایا ہے،
حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان کتاب اللہ میں موجود ہے کہ :
إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ
حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے (سورہ الانعام 57 )
اب اللہ کے اس فرمان کے بعد انسانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو حَکَم بنائیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما :یہ تو ایک بات ہوئی، دوسری کیا ہے ؟
اُنہوں نے ایک گروہ سے لڑائی کی،ان کے لوگوں کو بھی قتل کیالیکن نہ تو کسی کو قید کیا
نہ مال غنیمت جمع کیا۔اگر وہ مومن تھے تو پھر انہوں نے ہمارے لیے اِن سے لڑائی کرنا کیسے جائز قرار دیا اور اُن میں سے کسی کو قیدی بھی نہ بنانے دیا؟
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : تیسری چیز بیان کرو۔
خوارج : انہوں نے صلح کا معاہدہ لکھتے وقت اپنے نام سے امیر المؤمنین لا لفظ مٹا دیا،
اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو پھر کیا وہ امیر الکافرین ہیں؟
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما: کوئی اور بات ؟
خوارج : بس اتنی باتیں کافی ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اللہ کی شریعت
لے معاملے میں انسانوں کو حَکَم بنایا ہے تو میں اللہ کی کتاب سے کچھ آیات تلاوت کرتا ہوں
جو تمہاری بات کی تردید کریں گی ۔ اگر ایسا ہوا تو کیا تم اپنے موقف سے دستبردار
ہو جاؤ گے؟
خوارج : جی بلکل۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما :
اللہ تعالی نے ایک خر گوش کے معاملے میں جس کی قیمت ایک چوتھائی درہم سے زیادہ نہیں ہوتی،
اپنے حُکم سے فیصلہ تحویل کر کے انسانوں کے سپرد کر دیا ہے میں نے یہ آیت کریمہ پڑھی :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ
اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں ( سورہ المائدہ 95)
مرد و عورت کے معاملے میں فرمان باری تعالی ہے :
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا
اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو (سورہ النسا ء 35)
میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آدمیوں کی تحکیم ایک خرگوش کے قتل اور عورت کے
معاملہ میں افضل ہے یا مسلمانوں کے باہمی معاملات کی درستی اور خونریزی روکنے کے لیے افضل ہے ؟
خوارج :بلکہ یہی افضل ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : یہ بات ختم ہوگئی ؟
خوارج : جی ہاں
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ :جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ
انہوں نے لڑائی کی اور مخالفین کو قید نہیں کیااور نہ ہی مال غنیمت پر قبضہ کیا تو مجھے یہ بتاؤ
کیاتم اپنی ماں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قیدی بنا نے کے لیے تیار ہو جاتے؟
اللہ کی قسم ! اگر تم نے یہ کہا کہ وہ ہماری ماں نہیں تو تم اسلام ہی سے نکل جاؤ گے ۔ اور اگر تم نے
یہ کہا کہ ہاں ہم انہیں گرفتار کرنے اور اُن کے ساتھ لونڈیوں جیسا سلوک کرنے کے روادار ہیں
تو تب بھی تم اسلام سے خارج ہو جاؤ گے ۔ تم دونوں صورتوں میں گمراہی کا شکارہو جاؤ گے ۔
کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖوَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں (سورہ الاحزاب 6 )
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما : کیا تم نے یہ بات تسلیم کر لی؟
خوارج : جی ہاں
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما : جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نام سے امیر المومنین لا لفظ مٹا دیا تو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے روز مشرکین کے نمائندوں ابو سفیان بن حرب اور سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ صلح نامہ تحریر کروایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی
رضی اللہ تعالی عنہکو حکم دیا کہ وہ صلح کی شرائط تحریر کریں ۔ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے
لکھا ” اس تحریر کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش مکہ سے صلح کی ہے ۔ ” مشرکین نے اس پر کہا: اللہ کی قسم ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ سے کبھی لڑائی نہ کرتے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ تُو جانتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اے علی ! اسے مٹا دیں اور لکھیں کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے مطابق محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صلح کی ہے ۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ
سے کہیں زیادہ افضل اور بر تر ہیں اور اگر انہوں نے صلح کی خاطر اپنے نام سے رسول اللہ کا لفظ مٹا دیا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ایسا کرنا کیوںکر ناجائز ہو سکتا ہے ؟
سید نا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے دلائل سے لاجواب ہو کر دو ہزار خارجی تائب ہو گئے اور باقی سب لڑائی کے لیے نکلے مگر سب کے سب قتل کر دیے گئے ۔
اس بحث و مناظرے کے نتیجے میں بعض خوارج نے خلیفہء مسلمین سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ
کی اطاعت کو دوبارہ قبول کر لیا۔ جبکہ باقی اپنی گمراہی پر قائم رہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ کی مسجد میں اُن سے خطاب کیا تو وہ مسجد کے کونوں سے بولے :” لا حُکم الا اللہ ”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ شرک کے مرتکب ہوئے ہیں ، اس لیے کہ آپ نے لوگوں حَکَم بنایا مگر کتاب اللہ کو حَکَم نہ بنا یا۔ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اُن کے جواب میں فرمایا :
ہم تم سے تین باتوں کو وعدہ کرتے ہیں :
1 ۔ ہم تمہیں مساجد میں آنے سے نہیں روکیں گے ۔
2 ۔ ہم مال فے میں تمہارا حصہ نہیں روکیں گے ۔
33 ۔ ہم تم سے لڑائی کرنے میں پہل نہیں کریں گے ، بشرطیکہ تم خود ہی شرو فساد شروع نہ کردو ۔
اُس کے بعد انہوں نے ایک جگہ ڈیرا جما لیاجو بھی مسلمان اُن کے قریب سے گزرتا اسے پکڑ کر قتل کر دیتے ۔ اُن کی دست درازی اس حد تک بڑھی کہ انہوں نے جلیل القدر صحابی سیدنا عبد اللہ بن خباب بن ارت رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی قتل کر دیا اور اُن کی اہلیہ کا پیٹ پھاڑ دیا ۔ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اُن کو کہلا بھیجا کہ انہیں کس نے قتل کیا ہے ؟ جواب میں خارجیوں نے کہا :
ہم سب نے اُسے قتل کیا ہے ۔ چنانچہ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ کی تیاری کی اور نہروان کے مقام پر ایک بھر پور لڑائی میں ا ِن کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔
( یہ مناظرہ المصنف لعبد الرزاق 10/1577 ، و المستدرک للحاکم2/150 میں موجود ہے اور اسے
امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم رحمہما اللہ کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے )