اجماع کی حقیقت از جاوید احمد غامدی
دین کا تنہا ماخذ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ ﷺ سے یہ دین آپﷺ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔
آپﷺ کے بعد اب یہ اِنھی دو چیزوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔ اِن کے علاوہ تبعاً اگر کوئی چیز خدا کے منشا تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ اجتہاد ہے۔ اِس سے ہم بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ اُن احکام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو براہ راست نصوص میں بیان نہیں ہوئے، لیکن اپنی نوعیت کے لحاظ سے اُنھی کے اطلاقات ہیں جو لوگوں کی رائے اور فہم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ قیاس اِسی کی ایک قسم ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے استنباط کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے جو چیز وجود میں آتی ہے، اُسے فقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی ابتدا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہادات سے کر دی تھی۔ اخبار آحاد کا ایک بڑا ذخیرہ اِسی کا بیان ہے۔ آپ کے بعد صحابہ و تابعین نے بھی یہ روایت قائم رکھی، لیکن جب فقہا کا دور شروع ہوا تو اِس کے ساتھ ایک چوتھی چیز کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اُس کے بعد سے اب تک بالعموم مانا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت کا ایک مصدر یہ اجماع بھی ہے۔ دین کے ماخذ میں یہ اضافہ یقیناًایک بدعت ہے۔ قرآن و سنت کے نصوص میں اِس کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اِس کے اثرات کا جائزہ لیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اِس سے اسلامی شریعت کی ابدیت مجروح ہوئی اور دور جدید کی نسبت سے اُس کا تعلق (relevance) ثابت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
برصغیر کے جلیل القدر عالم اور داعی مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں: ’’عام طور پر فقہا نے اجماع (consensus)کو شریعت کا ایک مستقل مصدر قرار دیا ہے، مگر یہ یقینی طور پر ایک بے بنیاد نظریہ ہے۔ شریعت کا مستقل مصدر صرف کوئی نص قطعی ہو سکتا ہے۔ نص قطعی کی غیر موجودگی میں کسی چیز کو شریعت کا مستقل مصدر قرار دینا یقینی طور پر ایک بے بنیاد بات ہے۔ اجماع کی بلاشبہ ایک اہمیت ہے، لیکن وہ اہمیت صرف یہ ہے کہ کسی خاص موقع پر اجماع کسی پیش آمدہ مسئلے کا ایک عملی حل ہوتا ہے۔ یہ حل یقینی طور پر ایک وقتی حل ہوتا ہے، نہ کہ شریعت کا ابدی مصدر۔‘‘ (الرسالہ۷/ ۲۰۱۱ء)
فقہا جن دلائل سے اجماع کی حجیت ثابت کرتے ہیں، اُن کی حقیقت اگر کوئی شخص سمجھنا چاہے تو اُسے امام شوکانی کی ’’ارشاد الفحول‘‘ دیکھنی چاہیے۔ اُس پر واضح ہو جائے گا کہ یہ کس قدر بے معنی اور غیر متعلق ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اور ایک حدیث، البتہ ایسی ہے جس سے استدلال بعض لوگوں کے لیے باعث تردد ہو سکتا ہے۔ اُس کی حقیقت ہم یہاں واضح کیے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ، نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا. (النساء ۴: ۱۱۵) ’’اور جو راہ ہدایت کے پوری طرح اپنے اوپر واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کریں گے اور اُن لوگوں کے راستے کو چھوڑ کر کوئی اورراستہ اختیار کریں گے جو (تم پر) سچے دل سے ایمان لائے ہیں، اُنھیں ہم اُسی راستے پر ڈال دیں گے جس پر وہ خود گئے ہیں اور دوزخ میں جھونکیں گے ۔ وہ نہایت برا ٹھکانا ہے۔‘‘
فقہا کے استدلال کی تقریر یہ ہے کہ ایمان والوں کا راستہ چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کیا جائے تو آیت میں اُس پر جہنم کی وعید ہے۔ اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اُن کے راستے کی پیروی ہر شخص پر لازم ہے۔ لہٰذا مسلمان اگر کسی راے یا نقطۂ نظر پر متفق ہو جائیں تواُس سے اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ہر صاحب ایمان پر واجب ہے کہ اُن کے اِس اجماع کی پیروی کرے۔ یہ استدلال کس قدر بے بنیاد ہے، اِس کو سمجھنے کے لیے آیت کو اُس کے سیاق میں رکھ کر دیکھیے۔ پیچھے جن منافقین کی اندرون خانہ سرگوشیوں سے پردہ اٹھایا ہے، اُنھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ پیغمبر کی مخالفت کے لیے جو لوگ اپنی ایک الگ پارٹی کھڑی کرنا چاہتے اور اِس طرح ایمان کے بجائے کفر اور منافقت کا طریقہ اختیار کر رہے ہیں، وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جو مسلمانوں کی جماعت میں اُن کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُنھیں تنبیہ فرمائی ہے کہ جن کی وکالت کر رہے ہو، اُن کا یہ ’مشاقۃ‘ اُنھیں سیدھا جہنم میں لے جائے گا،اِس لیے کہ یہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے اور جو لوگ راہ ہدایت کے پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد کفر اور منافقت کی راہ اختیار کر لیں، اُن کا ٹھکانا جہنم ہی ہو سکتا ہے۔ آیت میں اِسی کفر اور منافقت کے لیے ’غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں مومنین سے مراد صحابۂ کرام ہیں، جنھوں نے حق کو پا لیا تو اُس کے بعد پھرکبھی خدا کے پیغمبر سے بد عہدی، بے وفائی، مخالفت اور گریز و فرار کا رویہ اختیار نہیں کیا، بلکہ پورے اخلاص کے ساتھ آپﷺ کی اتباع کی اور جو حکم دیا گیا، اُس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔ ایمان وا خلاص، اتباع و اطاعت اور تسلیم و انقیاد کا یہی رویہ ہے جسے آیت میں ’سَبِیْلُ الْمُؤْمِنِیْن‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اِسے چھوڑ کر جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے، وہ ’غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ ہے اور اِسی کے اختیار کرنے والے ہیں جنھیں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ اہل ایمان کی تعبیرات، آرا اور اجتہادات سے اختلاف نہیں ہو سکتا یا وہ بالاجماع کوئی نقطۂ نظر اختیار کر لیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں اُس پر تنقید کی جائے تو آدمی جہنم کا مستحق ہو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت میں یہ مسئلہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہے۔ اُس میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ پوری طرح واضح ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص خدا کے بھیجے ہوئے ہادی کی مخالفت اور اُس کے مقابلے میں اپنی ایک الگ پارٹی کھڑی کرنے کی جسارت کرتا ہے تو یہ سراسر کفر ہے جس کے ساتھ ایمان کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اِس طرح کے لوگوں کو خدا اُسی راستے پر ڈال دیتا ہے جو وہ اپنے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یہ راستہ اگر کسی نے اختیار کر لیا ہے تو اُسے پھر جہنم ہی کا منتظر رہنا چاہیے۔
یہی معاملہ حدیث کا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’إن اللّٰہ لا یجمع أمتی علٰی ضلالۃ‘* (اللہ میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہ کرے گا)۔ یہ اگرچہ ایک کمزور روایت ہے اور اِسی بنا پر حدیث کی امہات کتب،یعنی بخاری، مسلم اور موطا میں سے کسی میں بھی جگہ نہیں پا سکی۔ تاہم مان لیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فی الواقع اپنی امت کو یہ بشارت دی ہے، لیکن اِس کے معنی کیا یہ ہیں کہ اُن سے کوئی خطا بھی نہیں ہو سکتی؟ حقیقت یہ ہے کہ خطا اور ضلالت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور حدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے، اُس کا تعلق ضلالت سے ہے، خطا سے نہیں ہے۔ پوری امت کسی ضلالت پر جمع ہو جائے، یہ ناممکن ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہدایت و ضلالت کا فرق اتمام حجت کے درجے میں واضح کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا عقلاً محال ہے کہ امت کے تمام علما، مجتہدین اور ارباب حل و عقد کسی شرک کو شرک سمجھتے ہوئے اُس پر جمع ہو جائیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت رسالت کا انکار کر دیں یا آخرت میں جواب دہی کے منکر ہو جائیں یا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی جیسے احکام سے انحراف اختیار کرلیں۔ اِس طرح کی چیزیں اب امت کے لیے من جملہ بدیہیات ہیں۔ اِن سے انحراف پر اجماع نہیں ہو سکتا۔ اِس کے برخلاف جو چیزیں محل تدبر یا محل اجتہاد ہیں، اُن کے سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے اور امت کے سب لوگ اُس غلطی پر جمع بھی ہو سکتے ہیں۔ عقل و نقل میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر اِسے ممتنع قرار دیا جاسکے۔ چنانچہ حدیث کی نسبت اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح بھی ہے تو اُس کے الفاظ سے واضح ہے کہ آپ کی یہ بشارت ضلالت پر اجماع سے متعلق ہے اور ضلالت کے بارے میں یہ بات یقیناًکہی جا سکتی ہے کہ مسلمان اُس پر کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ فکر و اجتہاد اورفہم و تدبر کی کسی غلطی پر اجماع سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔