ازواجِ مطھرات، امہات المومنینؓ ! از قاری حنیف ڈار

نبئ کریم کی ازواج مومنوں کی مائیں ہیں اور یہ وہ مائیں ہیں جن سے ھمارا یہ امی اور بیٹے کا رشتہ حشر تک قائم رھے گا ، جبکہ نسبی ماؤں کا کا تعلق جان نکلنے کے ساتھ ہی ختم ھو جاتا ھے ، قرآن بتاتا ھے کہ جس دن صور پھونکا جائے گا کوئی نسبی تعلق باقی نہیں رھے گا اور نہ ہی کسی سے نسب پوچھا جائے گا ، سورہ المومنون میں ارشاد فرمایا [فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (101) 
اس لئے ھمارا امیؓ امیؓ کہنا بنتا ھے ،،،

دو قومی نظریہ اقبال نے نہیں دیا بلکہ حضرت ابراھیمﷺ نے دیا ہے ، جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ انی اراک و قومک فی ضلالٍ مبین ،، میں تجھے اور تیری قوم کو صریحاً گمراھی میں دیکھتا ھوں ،، یہ نہیں کہا کہ میں آپ کو اور اپنی قوم کو گمراھی میں دیکھتا ھوں ، باپ کی قوم کوبیٹا اپنی قوم نہیں کہہ رھا ،،

حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کو بچا لینے کی فریاد کی تو فرمایا کہ [ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ( ھود ـ 46)

کہا کہ اے نوح یہ تیری فیملی میں سے نہیں اس کے عمل غیر صالح ہیں،سو تُو مجھ سے وہ سوال نہ کر جس کے عواقب کا تجھے علم نہیں ، میں تجھے نصیحت کرتا ھوں کہ ناواقف ‘‘ جاھل ‘‘ لوگوں میں سے نہ ھو جانا ،

خود ام المومنین ام حبیبہ سلام اللہ علیہا نے اپنے والد ابوسفیانؓ کے مدینے آنے پر نبئ کریم ﷺ کے بستر کو لپیٹ کر انہیں اس بستر پر بیٹھنے سے محروم کر دیا تھا کہ یہ اللہ کے رسولﷺ کا بستر ھے اور آپ ناپاک ہیں ،، جب وہ صلح حدیبیہ کی تجدید کے سلسلے میں مدینہ آئے تھے ،،

مگر جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ مسلمان ھو گئے اور نبئ کریم ﷺ نے اس پورے خاندان کے اسلام کو قبول فرما لیا اور ھندؓ زوجہ ابی سفیانؓ کے اس دعوے کے جواب میں کہ واللہ ھم آپ ﷺ سے بہت محبت کرتے ہیں کے جواب میں قسم کھا کر فرمایا کہ واللہ تم لوگ بھی ھمیں بہت عزیز ھو ،، تو پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور حیی ابن اخطب کے تقابل کو یعنی ایک مسلمان اور کافر کے تقابل کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ھے ؟

فتح مکہ پر مسلمان ھونے والا صرف ابوسفیانؓ کا ھی گھرانہ نہیں تھا ، بنوھاشم کی اکثریت بھی فتح مکہ پر ھی مسلمان ھوئی تھی خاص طور پر حضرت ابوطالب کا گھرانہ ،، نبئ کریم ﷺ کے ام ھانی کا رشتہ طلب کرنے پر حضرت ابوطالب نے نبئ کریم ﷺ کو انکار کر دیا اور اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے ماموں زاد سردار کو دے دیا ، وہ آخر دم تک کافر اور نبئ کریم ﷺ کا جانی دشمن رھا ،فتح مکہ پرشام بھاگ گیا اور حالت کفر میں وھیں مر گیا ، ام ھانیؓ نے بھی فتح مکہ پر ایمان قبول کیا اور عقیلؓ بھی فتح مکہ پر مسلمان ھوئے حضرت عباسؓ کا گھرانہ بھی فتح مکہ پر مسلمان ھوا ، صرف بنو امیہ ہی نہیں طالب بن ابوطالب اور عقیل بن ابوطالب کے علاوہ حضرت عباسؓ بھی مسلمانوں سے لڑنے بدر میں آئے تھے ، طالب مارے گئے اور عقیلؓ اور حضرت عباسؓ قیدی بن گئے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباسؓ کو راضی کیا کہ وہ حضرت عقیلؓ کا فدیہ بھی دیں ، کیونکہ مکی دور میں رسول اللہ ﷺ کے مشورے پر حضرت عباسؓ نے عقیل کو اپنی سرپرستی میں لے لیا تھا اور نبئ کریم ﷺ نے حضرت علیؓ کو ، جب کہ حضرت ابوطالب نے فرمایا تھا کہ طالب کو میرے لئے چھوڑ کر باقی کو تم لے لو ،،

اب ان رشتوں کو بنیاد بنا کر کسی کی توھین کرنا مناسب نہیں ، نسب کے وہ رشتے اللہ کے بنائے ھوئے تھے ، ان میں کسی کی مرضی شامل نہیں تھی کہ فلاں درخواست دے کر فلاں کا بیٹا بنا تھا یا باپ بنا تھا ـ

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.