اسم اعظم – ایک سر بستہ راز ، تحریر طفیل ہاشمی
انسان ہمیشہ سے خدائی کا طلب گار رہا ہے کہ جو کچھ میں چاہوں وہ ہوجائے۔ جب ایسا ممکن نظر نہ آیا تو اس نے دیگر ایسے راستے تلاش کرنے شروع کیے جن سے وہ اپنی مرادیں پوری کرسکے۔ الفاظ کی اثر آفرینی کا نسخہ پہلے پہل اللہ نے آدم کو غلطی معاف کرانے کے لیے عطا کیا۔ انسان نے الوہی ہدایت اور انسانی تجربے سے سیکھا کہ یہ الفاظ ہیں جو دلوں میں محبت پیدا کرتے ہیں اور الفاظ ہیں جو نفرت بلکہ قتل وخون ریزی تک لے جاتے ہیں۔ الفاظ کے سائنٹفک استعمال کے تجربات سلیمان علیہ السلام کی حیات وآثار سے زیادہ وابستہ نظر آتے ہیں ۔ شاید اسم اعظم کا نظریہ بھی وہیں سے آیا ہوکہ تخت بلقیس کے چشم زدن میں آجانے کی کوئی تو توجیہ ہوگی۔ عجیب بات ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعاؤں میں – الوھاب اور مسیحی روایات کے بیان میں – الرحمان کی کثرت غوروفکر کے مزید در یچے کھولتی ہے۔ یونس علیہ السلام کی دعا کو قرآن نے خود نسخہ نجات بتایا ہے جبکہ توبہ واستغفار کے فوائد کی بوقلمونی ہنوز تشنہ تفسیر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں مختلف اوقات و حالات کی متعدد دعائیں تو ملتی ہیں لیکن کسی ایک ذکر یا وظیفے کاتصور کہیں نہیں پایا جاتا۔ صحابہ کرام میں بھی بالعموم ایسی کسی شاہ کلید کی تلاش کی سرگرمی نہیں ملتی۔ سیدہ عائشہ کی ایک روایت اور دو ایک دیگر روایات سے کچھ اسماے الٰہیہ کی نشان دہی ہوتی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ان کے ذریعے کی گئی دعا قبول ہوتی ہے؛ لیکن ان روایات میں بھی کسی ایک اسم الٰہی کا ذکر نہیں ہے۔ شاید انہی روایات اور اسرائیلی علمی ذخائر کے مجموعی اثرات نے ہر دور میں ” سرِ مکتوم” تلاش کرنے والوں کو اسم اعظم کی تلاش میں محو سفر کردیا ؛اور اگر آپ لوگوں کے اقوال وتجربات کو جمع کریں تو شاید سینکڑوں کی تعداد کو پہنچ جائیں اور آپ پکار اٹھیں:
شد پریشاں خواب ِمن از کثرت تعبیرہا
آج کیوں نہ اس "سر ِمکنون ” کی پردہ کشائی کردی جائے:
1. اس دھرتی پر اور نیلے آسمان کے نیچے ایسا کوئی نسخہ کیمیا نہیں ہے جو انسان کو خدائی منصب پر فائز کردے اور اس کی ہر خواہش پوری ہوجائے۔
2. انسان کی یہ خواہش فطری ہے کہ اس کی جائز خواہشات بآسانی پوری ہوا کریں اور اس کے لیے قدرت نے اسے دو وسائل عطا کیے ہیں، ایک دعا اور دوسرے محنت وکوشش۔ جب تک یہ دونوں ہم آہنگ نہ ہوں نتائج پیدا نہیں ہوتے کیونکہ اللہ نے اس کائنات میں تخلیق کو زوجین کے ملاپ کے اصول سے وابستہ کردیا ہے۔
3. دعا الفاظ کا نام نہیں بلکہ یہ اندر کی اس تڑپ کو کہتے ہیں جو مثلاً سخت گرمی اور تپش میں شدید پیاس کی حالت میں انسان کے رؤیں رؤیں سے پانی کی طلب کے لیے پیدا ہوتی ہے۔ جب بھی کسی شے کے لیے طلب اور تڑپ کا یہ درجہ پیدا ہو وہ دعا ہے خواہ اس کے ساتھ کوئی لفظ نہ ہو۔
4. قرآن بارہا تاکید کرتا ہے کہ دعا اور پکار صرف اللہ سے کی جائے۔ دوسری اشیاء کے سامنے ہاتھ پھیلانا سراب سے جوئے آب کی طلب کے مترادف ہے۔
5. اللہ کو کس نام سے پکارا جائے کہ رائگاں نہ جائے تو اس نے بتایا کہ میرے بہت سے خوبصورت نام ہیں مجھے ان ناموں سے پکارو۔۔۔
6. احادیث میں جو مختلف اور متنوع اسماے الٰہیہ کو اسم اعظم بتایا گیا ہے وہ اسی آیت کی شرح وتفسیر ہے۔
7. اگر آپ مختلف اہل اللہ کے تجربات، اقوال وروایات کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہرفرد جن حالات سے پریشان تھا ان سے نجات کے لیے جو اسماے الٰہیہ مفہوم کے اعتبار سے مناسب تھے ان کے ذریعے دعا کرنے سے دعا قبول ہوئی مثلا عام حالات میں خوشی اور خوش حالی کے لیے الرحمن الرحیم ـــ نئے مواقع سے استفادہ کے لیےمستعد اور عمدہ حالت میں استحکام کے لیے الحی القیوم اور دشمنوں سے تحفظ کے لیے الولی النصیر اور مالی وسعت کے لیے الفتاح الوھاب، صحت اور تندرستی کے الشافی، السلام، گناہوں کی معافی کے لیے الغفور الرحیم اسم اعظم ہیں۔
8. مناسب حال اسم اعظم تلاش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن حکیم میں بالعموم آیات کا اختتام صفات الٰہیہ پر ہوتا ہے۔ ماسبق آیت پڑھ کر دیکھیں کہ کس طرح کے حالات کے مداوا کے لیے اللہ کے کون سے اسماء سے آیت کا اختتام ہوتا ہے، وہی اسماء اس خاص مسئلے کے حل کے لیے اسم اعظم ہیں۔
9. اسم اعظم کے طور پر جو اسماء منتخب کریں ان کے شروع میں یا اللہ جو کہ اللہ کا ذاتی نام ہے اور آخر میں اپنی دعا کا اضافہ کرلیں۔ اسم اعظم کی کوئی مقدار ، تعداد یا پکارنے کا کوئی طریقہ متعین نہیں ہے۔
10. بعض لوگ ناموں کی مناسبت سے اسم اعظم نکالتے ہیں۔ اس کا طریقہ بہت آسان ہے کہ اپنے اصل نام کے اعداد کے برابر اللہ کے جمالی اسماء میں سے ایک دوتین اسماء لے کر ان کا ورد کیا کریں۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے اپنی تالیف ” من کی دنیا” میں اس کی تفصیل بتائی ہے۔