اصحابِؓ رسول ﷺ اورھمارا رویہ ! از قاری حنیف ڈار
اس امت سے جو بھی اچھے وعدے کیئے گئے ہیں ، جو بھی بشارتیں سنائی گئ ہیں ، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کسی نہ کسی کارنامے کی بنیاد پر ہی کیئے گئے ہیں ۔ محنت ان کی تھی اور وآخرین منھم کے مصداق انعام میں ھم بھی شریک ھو گئے ، اسی طرح جو بھی قانون سازی ھوئی اس کا سبب بھی یہی صحابہ کرام ہی بنے ِ اگر ھمیں اس پر فخر ھے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ھونے کی وجہ سے امت کو تیمم کا تحفہ ملا تو سورہ الجمعہ کا آخری رکوع جس میں رسول اللہ ﷺ کو خطبہ جمعہ کے درمیان کھڑا چھوڑ کر قافلے میں خرید و فروخت کے لئے چلے جانے والے وہ صحابہ ھی تھے جن کو ڈانٹ پلائی گئ اور جمعے کی اذان کے بعد کاروبار منع کیا گیا ، سورہ الممتحنہ میں رسول اللہ ﷺ سے چوری چوری اسلامی لشکر کی نقل وحرکت کی اطلاع مکے والوں کو بھیجنے والی بدری صحابی ھی تھے اور اسی رتبے کا ذکر کر کے رسول اللہ ﷺ نے ان کو معاف کیا ،،
الغرض یہ سمجھنا کہ صحابہؓ سے کبھی کوئی غلطی سر زد ھوئی ہی نہیں یہ ایک غلط کانسیپٹ ھے ، شیعہ کے صرف تیرہ معصوم ھی ہضم نہیں ھو رھے اور اپنے 144000 معصوم بنا لئے ہیں ، وہ جیسے بھی تھے اس امت میں بہترین لوگ وھی تھے اس میں کوئی شک نہیں ، ان میں بھی خود قرآنِ کریم نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد والے اصحاب میں تفریق کر دی ھے اور اس تبیان کا سبب بھی حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ ھی بنے ،، حضرت عباسؓ نے جب اپنے بھتیجے حضرت علیؓ پر یہ برتری جتائی کہ مدنی مسلمانوں کی نسبت وہ فائدے میں رھے کہ بیت اللہ کی مجاوری بھی کرتے رھے اور حج و عمرہ بھی کرتے رھے جبکہ مسلمان مدینے تک محدود ھو کر رہ گئے تھے اور شب خون وغیرہ ھی مارتے رھے ،، اس پر اللہ پاک نے فرمایا کہ [ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ( توبہ ـ 19)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کرنا ان لوگوں کے عمل کے برابر سمجھ لیا ھے جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رھے ؟اللہ کے یہاں یہ دونوں برابر نہیں ہیں ، اور اللہ بے انصاف لوگوں کو ھدایت نہیں دیتا ـ
رمضان میں بیوی سے مباشرت پر دو ماہ کے روزے یا غلام آزاد کرنا یا ساٹھ روزے لگاتار رکھنا ، قتلِ خطا میں دیت کے قوانین سمیت قرآن کی ساری قانون سازی کا سبب صحابہ میں سے ھی کوئی تھا ، جھوٹی قسم کا کفارہ بھی انہی کی وجہ سے طے ھوا ،
ان کے واقعات کا تذکرہ کرنا ممنوع نہیں تفاسیر بھری پڑی ہیں ان سے ، البتہ ان کی تنقیص ممنوع ھے ، اہانت ممنوع ھے وہ ھر حال میں ھم سے اچھے تھے ، اچھے ماحول کے پروردہ تھے اور کائنات کی بہترین ہستی ﷺ کے صحبت یافتہ تھے ، ہمیں ان سے امید کشید کرنی چاہئے اور اللہ پاک سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ پاک نے ان سے جو بخشش و درگزر کے وعدے فرمائے ہیں ان میں ھمیں بھی شامل فرما لے ، جس طرح ان کے دل صاف کر کے جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ھے ہم سیاہ کاروں کو بھی اس وعدے میں شامل فرما لے ـ آم