الساعۃ، قیامت اور قرآن از ابن آدم
قرآن کریم میں الساعتہ کا لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔ ابن فارس نے کہا ہے کہ اس کے بنیادی معنی مسلسل گزرتے رہنے کے ہیں. وقت کے ایک حصہ کو بھی الساعۃ کہتے ہیں، راغب لکھتے ہیں کہ وقت کا ایک حصہ الساعۃ کہلاتا ہے. یہ الساعۃ عام طور پر گھڑی کو کہا جاتا ہے جیسے راغب ابن فارس کی تصریحات سے معلوم ہو چکا. لیکن یہ کوئی نارمل گھڑی نہیں ہوتی. جس گھڑی میں مشقت بعد اور دوری بلکہ ہلاکت شامل ہو اسی گھڑی کو الساعۃ کہتے ہیں. تاج العروس میں اس مادے کے اصلی معنی ہلاکت اور زوال لکھے ہیں. قرآن کریم میں جہاں کہیں الساعۃ کا لفظ آیا ہے وہ کسی معمول کی گھڑی سے تعبیر نہیں ہے بلکہ الساعۃ سے مراد ایسی متوقع گھڑی ہے جو ہلاکت بدوش ہو. قرآن کریم میں یہ لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے اور قرائن کے اختلاف سے مفاہیم بھی مختلف بیان ہوئے ہیں. اکثر مقامات پر اس ہلاکت خیز گھڑی سے قیامت ہی کی گھڑی مراد ہے، لیکن عموماً اردو تراجم میں الساعۃ کا ترجمہ ان جگہوں پر بھی قیامت کردیا گیا ہے، جہاں درحقیقت آیات کا مفہوم، اور سیاق و سباق اس معنی کی ابا کر رہا ہو-
مولانا ابو الکلام آزاد اسی بابت فرماتے ہیں کہ قرآن میں الساعۃ کا لفظ کہیں تو روز قیامت کے لئے بولا گیا ہے اور کہیں اسے فیصلہ کن دن کے لئے جو دعوت حق اور اس کے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا. (ترجمان القرآن جلد دوئم).
ذیل میں قرآن کریم کی چند وہ آیات پیش کی جا رہی ہیں جن میں الساعۃ کا لفظ تو استعمال ہوا ہے لیکن اس میں بیان کردہ ھلاکت خیزی کا تعلق قیامت کے دن سے نہیں ہے.
۱) سوره الاعراف:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ —- (١٨٧)
یہ لوگ (مشرکین مکہ) تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ ہلاکت خیز گھڑی (الساعۃ) کب واقع ہو گی. کہو اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے. اسے اپنے وقت پر وہ ہی ظاہر کرے گا. آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہو گا. وہ تم پر اچانک آ جائے گا.
سوره الاعراف مکی دور کی اختتامی سورتوں میں سے ایک ہے. اور یہاں جس ہلاکت خیز گھڑی (الساعۃ) کی بات ہو رہی ہے وہ یقیناً دنیاوی عذاب ہے کیونکہ پچھلی آیتوں میں اسی سے متعلق گفتگو ہو رہی ہے. آیت ١٨٢ ار ١٨٣ میں ارشاد ہوتا ہے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ان کو بتدریج اس طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا (١٨٢) اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر (بڑی) مضبوط ہے (١٨٣)
آیتیں بالکل واضح ہیں کہ یہاں الله تعالیٰ مشرکین مکہ کو دنیاوی عذاب کی خبرد دے رہا ہے. غزوہ بدر کے موقع پر پورے لاؤ لشکر کے ساتھ انتہائی غرور و تکبر میں ڈوبے ہوئے مشرکین، مدینہ منورہ کی جانب مسلمانوں کو ختم کردینے کے زعم میں نکلے تھے لیکن اس کا انجام ایسا ہوا کہ انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا. جنگ میں آنے والے تمام سردار مارے گئے. ابو جہل جو اس تمام جنگ کا سرخیل تھا وہ دو کم عمر بچوں کے ہاتھوں مارا گیا.
۲)سوره الحجر:
—– وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ (٨٥)
اور یقیناً مقررہ وقت آنے والا ہے. پاس (اے پیغمبر!) چاہیے کہ حسن و خوبی کے ساتھ (مخالفوں کی مخالفتوں) سے درگزر کرو.
اس آیت سے بالکل متصل پچھلی آیات میں مختلف اقوام کے دنیاوی عذابوں کا ذکر ہوا ہے. جس کا اختتام اصحاب حجر پر ہوا ہے. آیت ٨٣ اور ٨٤ میں ارشاد ہوتا ہے
آخرکار ایک زبردست دھماکے نے اُن (اصحاب حجر) کو صبح ہوتے آ لیا (٨٣) اور اُن کی کمائی اُن کے کچھ کام نہ آئی (٨٤)
آخر دنیاوی عذابوں کے سلسلے میں ہونے والی تقریر میں مشرکین مکہ کے لئے قیامت کے عذاب کا ذکر کیونکر ہو گا؟ لہٰذا یہاں پر مشرکین مکہ پر عنقریب آنے والے دنیاوی عذاب یعنی غزوہ بدر کا ہی ذکر ہے.
۳)سوره الاحزاب:
سوره الاحزاب ٥ ہجری ذو القعدہ میں نازل ہوئی جب کہ مدینہ کی پوری آبادی مسلمانوں پر ہی مشتمل تھی. جن میں اس وقت تک بعض منافقین بھی شامل تھے. یہ وہ زمانہ ہے جب منافقین مدینہ غزوہ خندق کے بعد اب کسی بھی بیرونی امداد سے مایوس ہو چکے تھے اور اب دوسرا ہتھکنڈا انہوں نے ہیجان انگیز افواہیں پھیلا کر مدینہ کا ماحول خراب کرنے کا شروع کیا تھا. آیت نمبر ٦٠ میں ارشاد ہوا کہ اگر یہ منافقین اپنی حرکتوں سے باز نہ ائے تو الله تعالی اپنے رسولؐ کو ان کے خلاف کاروائی کے لیے کھڑا کر دیں گے. اور پھر اس کا انجام یہ ہو گا کہ ان کے مدینہ منورہ سے قدم اکھڑ جائیں گے. آیت نمبر ٦١ میں ارشاد ہوا کہ لعنت زدہ ہو جایئں گے اور کہیں بھی جائیں گے تو پکڑے جایئں گے اور بری طرح مارے جایئں گے یعنی منافقین مدینہ کے پاس دو ہی راستہ رہ گئے تھے کہ یا تو کچھ وقت میں اپنی اصلاح کرلیں ورنہ ان کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہین رہے گی. اور آیت نمبر ٦٢ میں اس چیز کا اعلان ہوا کہ ایسے لوگوں کے لئے یہ ہمیشہ سے الله کی سنت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آے گی لہٰذا اب اگر ان لوگوں نے اپنے اندر خود تبدیلی پیدا نہ کی تو اس سنت الہی کا اعادہ ان پر بھی ہو جائے گا. اس کے بعد آیت ٦٣ میں ارشاد ہوتا ہے
"لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ انجام کی یہ گھڑی (الساعۃ) کب آے گی. کہو اس کا علم تو الله ہی کو ہے تمہیں کیا خبر شاید کے وہ قریب ہی آ لگی ہو.
ظاہر ہے یہاں روز قیامت کا ذکر نہین ہورہا تھا- جب مدینہ کی تمام آبادی منافقین سمیت مسلمان ہی تھی تو ان کو قیامت کے بارے میں تردد ظاہر کرنے کی وضہ ہی کیا تھی جب کہ وہ اس پر پہلے ہی ایمان لا چکے تھے. یہاں پر منافقین کو ایک سخت تنبیہ دی گئی ہے کہ اگر انھوں نے اپنے طرز عمل پہ نظر ثانی نہ کی تو وہ یقیناً رسول کی زندگی میں ہی ایک دنیاوی عذاب کا مزہ چکھیں گے. اسی آیت میں یہ "شاید” کے الفاظ اس بات کو بھی واضح کر رہے ہیں کہ اس کا آنا لازمی امر نہیں تھا اور اگر وہ اپنا عمل درست کر لیتے ہیں تو اس گھڑی کا آنا روک بھی سکتا ہے. یہاں سے اس بات کا بھی علم ہوا کہ کیونکہ منافقین مدینہ کے خلاف رسول اللہ کی زندگی میں کوئی جہاد نہیں ہوا، اسکا مطلب ہے کہ وصال نبویؐ کے وقت تمام مدیہ کے مسلمان مخلص ہی تھے، یا تو منافقین مرچکے تھے (جیسے عبداللہ ابن ابی) یا پھر وہ توبہ کرکے درست راستہ پر آچکے تھے۔ لہذا اصحاب رسول میں سے کسی کی نیت پر شک کرنا ازروئے سورہ احزاب ہی قرآن کا انکار ہوجاتا ہے، کیونکہ وصال کے وقت جو بھی کلمہ گو مدینہ میں تھا وہ مخلص مسلمان ہی تھا۔
۴)سوره محمّد:
سوره محمد غزوہ بدر رمضان ٢ ہجری سے بالکل پہلے نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ کا طریقہ بیان کیا گیا تھا. کیونکہ غزوہ بدر مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان پہلا باقاعدہ معرکہ ہونے والا تھا اور اس لیے مسلمانوں کو زبردست تحریک دی گئی تھی کہ جہاد کے لئے نکلا جائے تو بعض انصاری نومسلم ہچکچاہٹ کا شکار تھے. اور اس چیز کا اظہار سوره کی آیت ٢٠، ٢١ ، ٢٢ میں بھی کیا گیا ہے. جب کہ آیت نمبر ١٨ میں فرمایا
فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ (١٨)
کیا پھر وہ اس گھڑی (الساعۃ) کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان پر ناگہانی آئے پس یقیناً اس کی علامات تو ظاہر ہو چکی ہیں. تو جب وہ آ گئی تو ان کا سمجھنا کیا فائدہ دے گا.
آیت سے بالکل متشرح ہے کہ اب تو حق و باطل کا معرکہ ہونا ٹھہر چکا ہے اور اگر متردد مسلمانوں نے اب بھی جہاد کے لئے پس و پیش سے کام لیا تو کفار مکہ کا لشکر سروں پر آن کھڑا ہو گا تو اس وقت نصیحت کا کوئی موقع باقی نہیں رہ جائے گا- لہذا یہاں بھی الساعۃ کی گھڑی اسی غزوہ سے متعلق ہے جس کو مسلمان غزوہ بدر کے نام سے جانتے ہیں۔
۵)سوره قمر:
سوره قمر میں الساعۃ کا لفظ تین بار استعمال ہوا ہے. ایک بار آیت نمبر ١ میں، دوسری اور تیسری بار آیت نمبر ٤٦ میں آیا ہے. اگرچہ آیت نمبر ١ میں وارد الساعہ سے فوری یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں جس ہلاکت خیز گھڑی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ دنیاوی عذاب کا ذکر ہے یا قیامت کے دن کی ہلاکت خیزی کا، کیونکہ یہاں تو مضمون کی ابتداء ہوئی ہے۔ لیکن سوره کا مضمون اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ یہاں پر مشرکین مکہ پر دنیاوی عذاب ہی زیر بحث ہے. اس سوره میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کے دنیاوی عذابوں کا تذکرہ ہوا جن کا احوال آیت نمبر ٤٢ میں مکمل ہوا. اور اس کے بعد آیت نمبر ٤٣ میں فرمایا گیا کہ تمہارے کفار ان کفار سے بہتر نہیں جن کا تذکرہ پچھلی آیات میں گزر چکا ہے اور پھر آیت نمبر ٤٤ میں مشرکین مکہ کا یہ استدلال بیان ہوا کہ وہ مضبوط جتھا ہیں اور وہ اس قسم کے ممکنہ غیبی عذابوں سے بچنے کی سکت رکھتے ہیں. آیت نمبر ٤٥ اور ٤٦ میں ارشاد ہوتا ہے
عنقریب یہ جماعت بھی شکست کھائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے (٤٥)
بلکہ وہ موعودہ گھڑی(الساعۃ) بلاشبہ (صرف شکست سے) زیادہ دہشت ناک گھڑی
(الساعۃ) اور تلخ تر ہو گی (٤٦)
یعنی ان کی شکست ایک شکست محض ہی نہیں ہو گی بلکہ انتہائی رسواکن اور تلخ نتائج کی حامل ہو گی. آیت نمبر ۴۵ کے لیے ازروئے روایات بھی ثابت ہے کہ یہ غزوہ بدر کے ہی متعلق ہے. اور تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ بدر ہی کے جنگ نے کفار کا سارا غرور و گھمنڈ خاک میں ملایا اور یہ دن یوم فرقان کہلاتا ہے. اور یہیں سے پتہ چلا کہ آیت نمبر ١ میں بھی الساعۃ سے مراد اسی دنیاوی عذاب کی گھڑی کو کہا گیا ہے-
٦)سوره زخرف:
سوره زخرف کی آیت ٦١ اور ٦۲ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ (٦١) وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (٦٢)
اور بیشک یہ (قرآن) اس ہلاکت خیز گھڑی (الساعۃ) کا علم دیتا ہے. پس تم اس (ہلاکت خیز گھڑی) میں شک نہ کرو اور میری تابعداری کرو. یہی سیدھا راستہ ہے. اور تمہیں شیطان نہ روکنے پائے کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے.
دراصل یہاں پر سوره زخرف کی ہی آیت نمبر ٤١ سے ٤٤ کا حوالہ دیا گیا ہے. جس میں ارشاد ہوا:
اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں (٤١) یا تم کو آنکھوں سے اِن کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے اِن سے وعدہ کیا ہے، ہمیں اِن پر پوری قدرت حاصل ہے (٤٢) تم بہر حال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو (٤٣) حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی (٤٤)
اصل میں کفار مکہ نبی کریم سے بار بار معجزات کا مطالبہ کر رہے تھے اور یہاں پر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن ہی تمہارے لئے علامت بن کر آیا ہے اور اسی کے حوالے سے تم سے باز پرس بھی ہو گی. مزید یہ کہ اب کیونکہ بار بار کی تنبیہات کے باوجود کفر کی زد پر قائم ہو اور ہدایت سے منہ موڑے ہوئے ہو تو الله نے تم لوگوں پر دنیاوی عذاب مسلط کرنے کر وعدہ کر لیا ہے. اور ان چار آیتوں کے بعد قوم فرعون کا قصہ بیان ہوا ہے جہاں پر ایک سے بڑھ کر ایک نشانی دیکھنے کے بعد بھی وہ ایمان نا لائے تو سب دنیاوی جاہ و جلال کے باوجود غرقابی کا عذاب ان پر نازل ہوا.
اور آیت نمبر ٦١ میں بتایا گیا ہے کہ تم لوگوں کے لئے یہ قرآن ہی تمہارے عذاب کے متعلق خبریں گاہے بگاہے دیتا رہے گا. لہٰذا اس دنیاوی عذاب میں کوئی شک نہ رکھو اس کے تو نازل ہونے کا وعدہ اب الله کر چکا ہے اور تم میں سے وہی لوگ بچ پایئں گے جو شیطان کا راستہ چھوڑ کر الله کے نبی کی اطاعت اپنا لیں گے.
حرف آخر:
جب آیات سے اس قدر واضح ہے کہ سیاق و سباق الساعۃ کے لیے کس عذاب کا ذکر کر رہے ہیں، تو ہمارے لٹریچر میں یہ محض قیامت کے دن کا ہی مترادف کیوں بن گیا۔ اسکی وجہ ہماری سیاسی تاریخ ہے۔ تفسیر کی ابتدائی کتابیں عراق میں تدوین پائیں، اور وہاں ایک بہت بڑا طبقہ صحابہ کرام سے بغض رکھتا تھا، اب کیونکہ سورہ احزاب کے درج بالا بیان سے یہ واضح ہورہا تھا کہ نبی کریمؐ کے وصال کے وقت مدینہ میں جو بھی مسلمان موجود تھا وہ ضرور مخلص مومن ہی تھا- لہذا اس الساعۃ کے لفظ کو غیر ضروری طور پر قیامت کے دن سے نتھی کردیا گیا- اس کا ایک نقصان جہاں قرآن کے بیان میں ابہام پیدا ہونے سے ہوا، وہیں صحابہؓ پر تبرا کرنے کے لیے بھی راہ ہموار ہوئی- یہی کھیل ان الساعۃ کے ساتھ بھی کیا گیا جو خاص غزوہ بدر سے متعلق تھیں- یہاں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ کے اور دین کے حقیقی معنوں میں جو بھی دشمن مشرکین مکہ میں تھے اللہ انکو تو بدر کے میدان میں گھیرلایا تھا، اور انکو بھی ویسے ہی ٹھکانے لگادیا تھا، جیسے آل فرعون کو انکے گھروں سے گھیر کر سمندر برد کردیا تھا- (جبکہ ابولہب اور اسکی بیوی کے لیے تو علیحدہ ہی سے ایک سورت پہلے نازل ہوچکی تھی اور وہ دونوں بدر کے میدان مین نہیں آئے) لیکن کیونکہ عراق میں اٹھنے والی عباسی علوی تحریک بنو امیہ اور بالخصوص حضرت امیر معاویہؓ اور انکے والدین کی شدید مخالف تھی، اور انکو اسلام کا حقیقی مخالف سمجھتی تھی اور وہ تینوں ہی غزوہ بدر کا حصہ نہیں تھے، تو یہ پروپگنڈا کیا گیا کہ فتح مکہ کے وقت جن لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے وہ درحقیقت منافق ہی تھے وغیرہ وغیرہ، حالانکہ قران کا بیان تو یہ ہے کہ حقیقی مجرموں پر دنیاوی استحصال کا عذاب بدر کے موقع پر آچکا تھا، اور اسکے بعد مکہ میں جو لوگ بچے تھے، ان میں اسلام کو قبول کرنے کی رمق موجود تھی- اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانان مدینہ میں کیا خیالات تھے، اس موقع پر کیا حالات تھے، اس سب کا بہتر اندازہ سورہ محمد میں وارد الساعۃ کے درست تعین سے ہوجاتاہے۔