الفاظ کی موت و حیات تحریر:قاری حنیف ڈار
لفظ بڑے روح پرور بھی ھوتے ھیں ،، یہ جاں افزا بھی ھوتے ھیں ،یہ حیات بخش بھی ھوتے ھیں ، یہ ظالم بھی ھوتے ھیں ،یہ قاتل بھی ھوتے ھیں ،، یہ زندہ بھی ھوتے ھیں اور یہ مر بھی جاتے ھیں ،، پوری کائنات اور اس کا گورکھ دہندہ ایک لفظ ” کُن ” کی تخلیق ھے ،کن سے ھی انسان بھی بنے ھیں اور حیوان بھی ، کُن نے ان کو زندگی بھی دی تھی اور کُن ھی ان کو مار دیتی ھے ، اللہ کی کن کے بغیر کوئی مر نہیں سکتا ، وما كان لنفس أن تموت إلا بإذن الله كتابا مؤجلا( آل عمران- 145 ) بندہ اخلاص شو کراتا ھے تو” کُن ” ھی اس کو ایمان سے نواز دیتی ھے ،،وما كان لنفس أن تؤمن إلا بإذن الله ويجعل الرجس على الذين لا يعقلون ( یونس – 100) کوئی شخص مومن نہیں ھو سکتا جب تک کہ اللہ کا اذن نہ ھو اور جو عقل استعمال نہیں کرتے وھی گندگی کا مسکن ھیں ،، جو اخلاص سے خالی ھوتے ھیں ان کی حیثیت انسانیت کے گٹر کی سی ھوتی ھے ،، جہاں ھر قسم کی گندگی ھی جمع ھوتی ھے ،،، یہی لفظِ کن پوری کائنات کو نئے سرے سے بنا کھڑا کرے گا ،، فرمایا کہ تم سب کو ایک ایک کر کے بنانا اور پھر تم سب کو بیک وقت اٹھا کرنا ھمارے لئے ایسا ھی ھے جیسے ایک فرد کو بنانا ،کیونکہ ایک فرد پر بھی ھمارا ” کُن ” ھی خرچ ھوتا ھے اور تم سب کو بیک وقت اٹھا کھڑا کرنے پہ بھی ھمارا ایک ” کُن ” ھی خرچ ھو گا ،،
(ما خلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحده ان الله سمیع بصیر) لقمان -28
ایک دکاندار بینک میں روزانہ ھزار اور پانچ پانچ سو کر کے جمع کراتا ھے اور روز اس کو سائن کرنا پڑتا ھے ،،اور جب اکٹھا دو ملین نکلواتا ھے تو بھی اس کا ایک سائن ھی لگتا ھے ،،
لفظ گھِستے بھی ھیں اور لفظ مرتے بھی ھیں ،، جو لفظ کثرتِ استعمال سے گھِس جاتے ھیں نہ ان میں تھرل ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کسی فرد کی گراری کو گھما سکتے ھیں جب گراری نہ گھومے تو نہ بندے کا قبلہ تبدیل ھوتا ھے اور نہ کردار تبدیل ھوتا ھے ،، اسی طرح الفاظ مر بھی جاتے ھیں ان میں جان نہیں رھتی نہ ان میں تحریک ھوتی ھے اور نہ وہ کسی کو متحرک کر سکتے ھیں ،،،
امام علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ھے کہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ،،میری امت پر وہ زمانہ بھی آئے گا کہ اسلام کے نام کے سوا ان کے پاس کچھ ( کردار) نہ بچے گا اور قرآن کے صرف حرف رہ جائیں گے ( ان کا اثر باقی نہیں رھے گا ) ان کی مساجد خوب سجی سجائی ھوں کی بظاھر پر رونق مگر ان میں ھدایت نام کی کوئی چیز نہ ملے گی ، ان کے علماء اس آسمان کے نیچے کی شریرترین مخلوق ھونگے ،، فتنے انہیں میں سے نکلیں گے اور انہیں میں لوٹ جایا کریں گے ،، یعنی انہیں کے اندر کھول کھول کر فتنوں کی یخنی بنتی رھے گی ،، ان کا سب سے بڑا غم ان کا پیٹ ھو گا ۔ ان کا دین درھم ھوں گے ، عورتیں ان کا قبلہ ھونگی ،تھوڑے پہ قانع نہیں ھونگے اور کثرت سے ان کے پیٹ نہیں بھریں گے ،،،
1- عن علي – رضي الله عنه – أنه قال: (يأتي على الناس زمان لا يبقى فيما يبقى من الإسلام إلا اسمه, ولا من القرآن إلا رسمه, مساجدهم عامرة وهي خرابٌ من الهدى, علماؤهم شر من تحت أديم السماء, من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود،،
2- قال رسول الله-صلى الله عليه وسلم-: (سيأتي زمانٌ على أمتي لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ومن الإيمان إلا رسمه، ومن القرآن إلا حرفه، همهم بطونهم، دينهم دراهمهم، قبلتهم نساؤهم، لا بالقليل يقنعون، ولا بالكثير يشبعون)
کثرت استعمال سے بعض الفاظ ” Use Too ” ھو کر اپنا اثر کھو دیتے ھیں ،، آپ اردو ترجمہ پڑھتے ھیں تو ایک آیت آپ پر کوئی اثر نہیں چھوڑتی مگر اسی آیت کا آپ انگلش ترجمہ پڑھیں تو آپ کانپ جاتے ھیں اور آپ کا اللہ پر پیار امڈ امڈ کر آتا ھے ، وہ ترجمہ زندہ ھوتا ھے ،، آپ استغفار کی تسبیح کرتے اور تعداد پہ نظر رکھتے ھیں مگر وہ استغفار آپ کو رب سے لائیو رابطہ نہیں کراتی ،،مگر وھی استغفار آپ اپنی مادری زبان مثلاً پنجابی اردو پشتو میں مانگیں کہ میرے مولا مجھ گنہگار کو معاف فرما دے ،، یا اللہ پلیز مجھے معاف کر دیں ،، پارڈن می پلیز ،، آئی ایم ریئلی ویری سوری ،، انسان کو خواہ مخواہ لگنا شروع ھو جاتا ھے کہ وہ کسی زندہ سے بات کر رھا ھے اور وعدہ کر رھا ھے ،،،
اللہ پاک نے لفظوں کو انسان کو جگانے اور چونک جانے پر مجبور کرنے کے لئے استعمال فرمایا ھے ،مثلاً غیبت سے منع کرتے ھوئے فرمایا کہ "
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ ( الحجرات-12)
اور نہ ایک دوسرے کی عدم موجودگی میں اس کی بات کیا کرو ،، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ھے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟ پس اس سے تو تمہیں کراھت آتی ھے ( حالانکہ وہ تمہارا غائب بھائی بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتا جس طرح مردہ بھائی اپنا دفاع نہیں کر سکتا ، جو چاھو الزام اس پہ رکھ لو ،،
اب مردہ بھائی کا گوشت کھانے والی مثال نے معاشرے کو ھلا کر رکھ دیا ،،،
اللہ کے رسول ﷺ نے بھی یہی اسلوب اپنایا اور سود کی برائی اور بدبو کو اس مثال سے واضح کیا کہ ایک سلیم الفطرت انسان کی روح تک کانپ جاتی ھے ،، فرمایا کہ سود کے ستر اور کچھ درجے ھیں ان میں ادنی درجہ ایسے ھے جیسے کوئی شخص اپنی ماں پر جا پڑا ،،، اپنی ماں سے منہ کالا کر لیا ،، اپنی ماں سے نکاح کر لیا ،، یہ تین متبادر الفاظ استعمال فرمائے ھیں ،، آپ اب اندازہ کر لیں کہ کوئی مسلمان جب یہ الفاظ سنتا ھے تو کس قدر نفرت پیدا ھوتی ھے سود سے ، نفرت پیدا کرنے کے لئے ھی یہ مثال دی گئ ھے اور نفرت پیدا کرنے کے لئے ھی بھائی کا گوشت کھانے کی مثال بھی دی گئ ھے اگر آپ کو مثال سے مزہ ملے تو پھر مثال دینے کا تو نتیجہ ھی الٹا نکلے گا ،،
ھم جو بظاھر دیندار بنے پھرتے ھیں اور دینی جماعتوں میں اللہ کے کلمے کے غلبے کے لئے جدوجہد کے حلف لئے ھیں اور تن ،من ،دھن لگانے کی قسمیں کھائی ھیں ،، جب اپنے گھروں اور فیملی کے اندر فیصلے کرنے کا وقت آتا ھے تو فیصلہ ھمارا چلتا ھے اللہ کا نہیں چلتا ،، اللہ کا فیصلہ صرف ھمارے وضو اور غسل پہ چلتا ھے ،گھریلو معاملات کو ھم اپنی سیاست کے مطابق چلاتے ھیں ،، اس کو میں اپنی ذات اور اپنے گھر میں اللہ پاک کا تختہ الٹنے کا نام دیتا ھوں تا کہ ھم پہ واضح ھو کہ ھم کہاں کھڑے ھیں ،، نافرمانی ، نافرمانی کی گردان اب مردہ ھو چکی ھے نافرمانی کا لفظ اب چاکلیٹ سا لگنا شروع ھو گیا ھے جو ھر تھوڑی دیر بعد چھوٹی چھوٹی باتوں پر استعمال ھو کر اپنی حقیقت کھو بیٹھا ھے ،ماں کا نافرمان ،شوھر کی نافرمان ،بڑوں کا نافرمان اساتذہ کا نافرمان اور اسی قطار میں اللہ کا نافرمان ، یہ لفظ ھمارا کچھ بھی نہیں بگاڑتا ،، ویسے یہ تختہ الٹنا ھوتا کیا ھے ؟ جب مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تھا تو وہ تختہ پرائم منسٹر ھاؤس سے اٹھا کر آرمی ھاؤس لے گیا تھا اور اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا تھا ، یا اس تختے کو کرال چوک میں الٹا لٹکا دیا تھا ؟ تختہ الٹنا ھوتا ھے کسی کے اختیارات کو معطل کر کے اپنا حکم چلانا ،، اللہ بےشک اپنے عرش پر ھے اور اسے فرشتوں نے اٹھا رکھا ھے اور قیامت کے دن ان کی تعداد دگنی ھو جائے گی ،،مگر میرے گھر میں تو میری چلتی ھے ،وھاں تو اللہ کے اختیارات معطل ھیں ،، میری انا اور میری ناک راج کرتی ھے ، اسی کو اللہ پاک نے کہا ھے کہ مجھے تو نام کا الہ بنا رکھا ھے ، اصل الہ تو ان کی اپنی انا ھے اپنے الہ یہ خود ھیں ،،، اسی اختیار کی بحالی کے لئے انبیاء کو بھیجا جاتا ھے کہ ” ان تکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء ،،اللہ ھی کی بات بلند ھو ،، اسی کو مانا جائے اور انسان کی بات پست ھو جائے، انبیاء اسی تخت کی بحالی کے لئے ھی تو لڑے ھیں ،، اللہ کے رسول ﷺ کو پہلی سورتوں میں ھی یہ منشور دیا گیا تھا کہ ” و ربک فکبر ” اپنے رب کو بڑا کر ( المدثر) اور نبئ کریم ﷺ نے ساری زندگی تکبیرِ رب کے فریضے میں گزار دی اور میدانِ عرفات میں رب کی کبریائی کا ثبوت دے کر کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ،کوئی فضیلت حاصل نہیں ، الا بالتقوی ،، سوائے تقوے کے ، جو تقوے میں زیادہ ھے وہ رب کے زیادہ قریب ھے ،،،
یہی بات اسی انداز میں ایک حدیثِ قدسی میں کہی گئ ھے ،،
عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : { إن الله تعالى قال : من عادى لي وليّاً،فقد آذنته بالحرب ، وما تقرب إليّ عبدي بشيء أحب إليّ مما افترضته عليه ، ولا يزال عبدي يتقرب إليّ بالنوافلحتى أحبه ، فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به ، وبصره الذي يبصر فيه ، ويده التي يبطش بها ،و رجله التي يمشي بها ، ولئن سألني لأعـطينه ، ولئن استعاذني لأعيذنه } .
[رواه البخاري:6502] .
اس حدیث میں کہا تو یہ گیا ھے کہ بندہ سب سے زیادہ اللہ کا قرب فرائض سے حاصل کرتا ھے مگر کچھ لوگ تو فرائض پر ھی اکتفاء کر کے بیٹھ جاتے ھیں جبکہ کچھ آگے بڑھ کر نوافل کا اس قدر اھتمام کرتے ھیں کہ اللہ ان سے محبت کرنے لگ جاتا ھے اور جب اللہ اس سے محبت کرتا ھے تو اس کی سماعت بن جاتا ھے جس سے وہ سنتا ھے ،بصارت بن جاتا ھے جس سے وہ دیکھتا ھے ، ھاتھ بن جاتا ھے جس سے وہ پکڑتا ھے اور ” اس کے پاؤں بن جاتا ھے ” جس سے وہ چلتا ھے ،، اس میں اللہ کا اپنے بندے کے پاؤں بن جانے کا جملہ ایک گستاخی ھی شمار ھو گی اگر اس کو کسی دولے شاہ کے چوھے کی نظر سے دیکھا جائے مگر یہ جملہ جو حقیقت بیان کر رھا ھے وہ کوئی اور ھے ،، پاؤں اس کا ھوتا ھے مگر چلتا اسی طرف ھے جدھر رب حکم دیتا ھے ، ھاتھ اس بندے کا ھے مگر بڑھتا اسی طرف ھے جدھر رب اجازت دیتا ھے ،کان اس بندے کا ھے مگر بات اللہ کی سنتا ھے ،، آنکھ اس کی ھے مگر جھکتی رب کے حکم پر ھے ، بس اتنی ساری بات ھے ، گھر ھمارا ھو مگر حکم اللہ کا چلے ،، تب تو اس گھر پہ اللہ کی حکومت ھے اور اگر حکم اور مرضی میری چلتی ھے چاھے وہ اللہ کے حکم اور مرضی کے خلاف ھو تو پھر اس گھر میں ایک فرعون ھے جس نے دعوئِ خدائی کر رکھا ھے بےشک پانچ وقت کا نمازی ھو ،،
مولانا روم نے فرمایا تھا کہ ،،،،،،،،
نفسِ ما ھم کمتر از فرعون نیست ،،،
لیکن او را عون ایں را عون نیست ،،
میرا نفس بھی فرعون سے کم نہیں ھے ،مگر اس کے پاس لاؤ لشکر تھا تو اس نے زیادہ رقبے پر بغاوت کی ھوئی تھی ،میرا فرعون مسکین سا ھے یہ بس میرے چھ فٹ پر ھی قبضہ کر کے مطمئن ھے اور اپنی مرضی چلا رھا ھے ،،
امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ھے کہ ” الصوم عادۃ و الصلاۃ عادۃ ،یعرف دین المرءِ باثنین ، المال والنساء ،،
روزہ بھی عادت بن جاتا ھے اور نماز بھی عادت بن جاتی ھے ، انسان کا ایمان دو چیزوں سے آزمایا جاتا ھے ، مال کے بارے میں اس کا رویہ اور عورتوں کے بارے میں اس کا رویہ ،،