اللہ سے باتیں کرنا سیکھیں ، تحریر: قاری محمد حنیف ڈار
جب میں کہتا ھوں کہ مروجہ وظیفوں اور دعاؤں سے کچھ نہی ھوتا ، اس کی بجائے اللہ پاک سے بے تکلفی پیدا کرو ، اس سے اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح اپنے مسائل ڈسکس کرو اور انہیں حل کرنے کے لئے اسی اعتماد سے کہو جیسے کسی اپنے کسی خیر خواہ دوست کو کہا جاتا ھے ،، یہ بات اللہ پاک کے ساتھ آپ کا جزء وقتی نہیں بلکہ کل وقتی فطری تعلق قائم کرے گی اور آپ کی ضرورت سے بڑھ کر آپ کی عادت بن جائے گی کہ کوئی معاملہ درپیش ھوتے ھی سب سے پہلے آپ اللہ پاک کو ھی کال کیا کریں گے کہ ” انی مغلوب فانتصر ” جس طرح آپ اپنے کسی قریبی دوست کو فون کرتے ھیں کہ یار مین رش میں پھنسا ھوں ،، کسی معاملے میں مصروف ھوں ، ایمیگریشن میں بیٹھا ھوں ، اسپتال میں لائن میں لگا ھوں اور گھر یہ معاملہ ھو گیا ھے ،،ذرا دیکھ لینا پلیز ،، اسی طرح اللہ کو ایک زندہ ھستی اور فعال لما یرید سمجھ کر اس سے دوستانہ درخواست کریں کہ میں تو پھنس گیا ھوں آپ ھی سب کچھ کر سکتے ھیں ،، پلیز ذرا کلمہ ” کُن ” عنایت فرما دیجئے ،،، مجھے یقین ھے کہ یہ اعتماد و یقین اور یہ بے تکلفی اللہ پاک کو اس طرح بھائے گی کہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا ،، وہ جو مطلبی کی طرح دو گھڑی کا تعلق ھے وہ کوئی اور چیز ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
تو کچھ لوگ کہتے ھیں کہ بھائی بھلا کیا اللہ ھی کو پتہ نہیں کہ مجھے کیا مشکل درپیش ھے ؟ مجھے بتانے کی کیا ضرورت ھے ؟ جو اس نے لکھا ھے وہ ھو کر رھے گا ،، اور پہلے سے لکھ رکھا ھے ، اس کو بتانا تو گویا یوں ھو گیا کہ اسے کچھ معلوم ھی نہیں ھم بتائیں گے تو ادھر توجہ ھو گی ،،،
ایسے احباب سے گزارش ھے کہ کیا اللہ کو ھی معلوم نہیں تھا کہ حضرت زکریا بوڑھے ھو گئے ھیں ،بڑھاپے کی مشعل ان کے سر میں جا بھڑکی ھے اور ان کی ھڈیاں کھوکھلی اور بیوی بانجھ ھے ،،، وہ نبوت کی وراثت کے معاملے میں پریشان ھیں کہ کہیں ان کے خاندان سے نکل ھی نہ جائے ؟؟؟؟؟؟؟
انہوں نے یہ فریادیں بھلا کیوں کیں اللہ پاک کے ساتھ اور سرگوشیوں میں کیوں گڑگڑائے ؟ اور ایک ایک بات بڑی تفصیل سے بیان فرمائی ،،،
(بسم الله الرحمن الرحيم
كهيعص
ذِكْرُ رَحْمَةِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا
إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاء خَفِيًّا
قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا
قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا)
کیا حضرت ایوب علیہ السلام کو ھی پتہ نہیں تھا کہ اللہ ان کی تکلیف سے آگاہ ھے ،، جب انہوں نے کہا کہ پروردگار مجھے بیماری لگ گئ ھے اور سب سے زیادہ تو ھی رحم کرنے والا ھے ( اس لئے تیرے پاس فریاد لئے آیا ھوں )
تمام نبیوں کی فریادیں پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ اللہ کے سامنے اپنے مسائل رکھنا تعلق کو ظاھر کرتا ھے ،، یہ علمِ غیب کا مسئلہ نہیں کہ جس پہ مناظرے کا بازار گرم کیا جائے ،،