اللہ سے شکوہ ! از قاری حنیف ڈار
شکوہ وہیں ھوتا ھے جہاں امید ھوتی ھے ـ
مگر شکوے کے بھی آداب ہیں ـ
اللہ پاک سے شکوہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی طائف کی گھاٹی میں کیا ھے ،
اللھم الیک اشکوا ضعف قوتی و قلۃ حیلتی و ھوانی فی الناس ـ
اللہ پاک سے شکوہ حضرت یعقوب نے بھی کیا ھے ،،
انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ ،،،
مگر شکوے میں عاجزیاں پیش کی جاتی ہیں اور شکوہ فریاد کی شکل میں کیا جاتا ھے جیسے کوئی اپنی عزیز ہستی مثلاً ماں کو کھول کھول کر درد بتا رھا ھوتا ھے ،، اس طرح اللہ پاک کے سامنے اپنے درد بیان کرنا شکوہ کہلاتا ھے اگرچہ اللہ پاک سب جانتا ھے مگر ھم اس کے باوجود بتاتے ہیں اور رسول ﷺ بھی بتاتے آئے ہیں کہ اس میں بےبسی جھلکتی ھے ، بے نیازی صرف اور صرف اللہ کو سجتی ھے ،،
حضرت موسی علیہ السلام مصر سے نکلے تو رستہ اور منزل دونوں معلوم نہیں تھیں ، فریاد کی عسی ربی ان یھدینی سوآء السبیل ،، امید ھے میرا رب مجھے منزل کی سیدھی راہ پر لگا دے گا ،، درخت کے نیچے کھڑے ھوئے تو عرض کی مولا تُو تو جانتا ھے میں گلی میں سے نکل آیا ھوں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ، جو بھیک بھی ڈال دے میرے لئے غنیمت ھے کیونکہ میں بالکل ھی بےکس اور بےبس خالی ھاتھ فقیربنا کھڑا ھوں ،،
رب انی لما انزلت الی من خیرٍ فقیر ،، اس عاجزی پر اللہ پاک نے گھر ، بیوی اور نوکری سب کچھ دے دیا ،،
نمازیں روزے اور وظیفے گن گن کر رب کے سامنے رکھنے کا نام شکوہ نہیں ھے ، یہ تو بالکل ایسی صورتحال ھے جیسے کوئی کسی ایجنٹ سے بات کر رھا ھو کہ میرے پیسے بھی کھا گئے ھو اور یونان کا ویزہ بھی نہیں دیا ،،