اللہ کی عدالت میں شیطان کا آخری حلفیہ بیان ،، از قاری حنیف ڈار
اللہ کی عدالت میں شیطان کا آخری حلفیہ بیان ،،
شیطان کا جو آخری بیان قرآن میں اللہ پاک نے کوٹ کیا ھے ، اس کو پڑھ کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ھو جاتے ھیں ،ساری دلیلیں دم توڑ دیتی ھیں اور بندے کے کپڑے اتر جاتے ھیں،، ((وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ابراھیم-22)))
اور کہے گا شیطان جب فیصلے ھو چکے ھونگے کہ بےشک اللہ نے تم سے جو وعدے کیئے تھے وہ سارے سچے تھے اور جو وعدے میں نے تم سے کیئے تھے وہ سب جھوٹے تھے ،میرے پاس تمہارے خلاف کوئی طاقت نہ تھی ( کہ تم کو جبر سے گناہ پر آمادہ کروں ، اور نہ دلیل و برھان کی طاقت تھی کہ جس سے گناہ کو ثواب ثابت کر سکتا ) اس کے باوجود میں نے تمہیں دعوت دی اور تم نے اس کو ( بلا دلیل) مان لیا ،( جبکہ رسولوں نے دلیل و برھان کے ساتھ دعوت دی اور تم نے ان کو رد کر دیا ) پس مجھے ملامت مت کرو ، ملامت کرو اپنے آپ کو( کیونکہ آخرکار فیصلہ تمہارے ہاتھ میں تھا گویا اس میں تقدیر کا بھی کوئی ہاتھ نہیں تھا کہ جبرا تمہیں کافر یا مسلمان بنائے اگر ھوتا تو شیطان اس اھم موقعے پر ضرور کہتا کہ تمہارا بھی کوئی قصور نہیں تم رب کے لکھے کا شکار بنےھو، لہذا میری بجائے نعوذ باللہ اپنے رب سے گلہ کرو)) ،آج نہ میں تمہیں بچا سکتا ھوں اور نہ تم ھی مجھے بچا سکتے ھو ، میں انکار کرتا ھوں ان الزامات کا جن کے ذریعے تم اپنے گناھوں میں مجھے شریک ٹھہراتے آئے ھو بے شک ظالموں کے لئے دردناک سزا ھے ـ اللہ پاک کا ابلیس کے قول کو من و عن قبول فرما لینا اور اس کا رد نہ کرنا بلکہ تائیدی تبصرہ فرمانا یہ ثابت کرتا ھے کہ انسان مجرد اپنے کئے پر پکڑا جائے گا !