امت کی تقسیم اور اختلاف کی ابتدا از قاری حنیف ڈار
جب تک عبادات ایک وحدت تھیں امت میں بھی وحدت تھی اور کم از کم عبادات کی حد تک کوئی اختلاف نہیں تھا ،،،،،،،،،
اس کے بعد عبادات کو بریک ڈاؤن کیا گیا ،، اور اس کے مختلف سپیئر پارٹس کے نام رکھے گئے ،، اب یہاں سے اختلاف شروع ھوا ،،،
ایک امام کے نزدیک یہ واجب ھے تو دوسرے کے نزدیک فرض ھے تو تیسرے کے نزدیک شرط ھے تو چوتھے کہ نزدیک سنت ھے ،،
ایک کہتا ھے یہ واجب ھے دوسرا فرماتا ھے یہ سنت مؤکدہ ھے اور تیسرا کہتا ھے کہ یہ یہ مستحب ھے ،،،،،،،،،،
ایک کہتا ھے یہ گردہ ھے ،دوسرا کہتا ھے یہ لبلبہ ھے ،تیسرا کہتا ھے یہ تو جگر ھے اور چوتھا کہتا ھے یہ دل ھے ،،،،
خود صحابہؓ کے زمانے تک امت ،، واجب ،سنت مؤکدہ، غیر مؤکدہ ، مستحب ،، مکروہ تحریمی ،مکروہ تنزیہی اصطلحات سے واقف نہیں تھی ،، آج اگر خلفائے راشدین بھی آ جائیں اور ان سے نماز کے مسائل سنے جائیں تو ھمارے علماء کے بنائے گئے معیار کے مطابق شاید وہ امامت کے لئے بھی قبول نہ کیئے جائیں کہ ان کو تو نماز کے واجبات کا ھی علم نہیں ،،،،، ستم ظریفی ھے کہ نماز کی آخری التحیات کو فرض قرار دیا گیا ،،پھر جب اس اصول پہ خود نبئ کریم ﷺ کی نماز کو ناپا گیا کہ آپ ﷺ نماز میں بھول گئے اور آخری رکعت میں بیٹھنے کی بجائے پانچویں رکعت کے لئے کھڑے ھو گئے پھر وہ رکعت پڑھ کر آپ نے دو سجدے سہو کے لئے اور نماز مکمل کر لی اور تمام صحابہ نے بھی ،،،،،،،،، نبئ کریم ﷺ کا یہ عمل جب ایک صحیح حدیث میں ایک امام صاحب کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ اگر نبی آخری التحیات نہیں بیٹھے تھے اور براہِ راست پانچویں کے لئے کھڑے ھو گئے تھے تو آپ کی نماز اس تنکے کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی اور تنکا پھینک دیا ،،،،،،،، اب رسول ﷺ کے نزدیک ھو گئ ھے امام کے نزدیک نہیں ھوئی ،،،، اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ھو گی ،،،
حج کے لئے جب فرائض اور واجبات اور سنن مؤکدہ و غیر مؤکدہ طے کی گئیں تو بھی نبئ کریم ﷺ کے حج کو اپنے اصولوں کے رندے پہ چڑھا دیا ،، حالانکہ ھادئ رحمت ﷺ نے حکم دیا تھا کہ اپنے حج کے اصول مجھ سے لو اور میرے حج سے طے کرو ،، اسی وجہ سے آپ نے طواف اور سعی سمیت ھر رکن اونٹنی پر ادا کیا تا کہ قریب و دور والے سب دیکھ سکیں ،، آپ ﷺ سے جب بھی پوچھا گیا کہ میں نے فلاں رکن دوسرے رکن سے پہلے کر لیا ھے اب کیا کروں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں وہ پہلے والا بعد میں کرو لو ، افعل ولا حرج ،، آپ نے ایک آدمی کو بھی دم دینے کا حکم نہیں دیا ،،،،،، مگر جب حج کے سپیئر پارٹس کر لیئے گئے تو اب بھیک مانگ کر بھی دم دو گے تو جان چھوٹے گی ، وہ ﷺ چلے گئے جنہوں نے فرمایا تھا کہ اب کر لو اور کوئی حرج نہیں ، ( افعل ولا حرج )