امہات المومنین اور رشتہ داریاں ۔۔ از طفیل ہاشمی
قرآن نے ایک جگہ کہا، وازواجہ امھاتھم (نبی کریم کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں) دوسری جگہ قرآن کہتا ہے ان امھاتھم الا اللئ ولدنھم (ماں تو بس وہی ہوتی ہے جس نے جنم دیا ہو)
دونوں آیات کو سامنے رکھ کر واضح ہوتا ہے کہ ازواج رسول کا یہ مقام عزت و تکریم کا ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ولا تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا (نبی کریم کے وصال کے بعد بھی آپ کی ازواج سے نکاح حرام ہے) یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اس طرح کا رشتہ ہے اور اس کے وہی تقاضے ہیں جو حقیقی رشتے کے ہوتے ہیں ورنہ بنات رسول اکرم ہر مومن کی سگی بہنیں قرار پاتیں، ان کے نکاح کیسے ہوتے؟ پھر ان ازواج مطہرات کے ذریعے دوسرے افراد کو مومنین کے اسی درجے کے رشتہ دار قرار دینا جذباتی رویہ ہے. کیا حیی بن اخطب یہودی، جو خیبر میں مارا گیا تھا، مومنین کے نانا سمجھے جائیں گے؟ دیگر رشتے بنانا بھی محض جذباتی بلیک میلنگ ہے.
امہات المومنین اور رشتہ داریاں
میری ایک مختصر پوسٹ پر جس کی بعد میں مزید وضاحت بھی کی تھی کچھ مہربانوں نے اسی سنت کو زندہ کیا جس کے تحت اسی سال تک منبر رسول پر ہمارا تذکرہ ہوتا رہا. ان کو تاریخ کے سپرد کر کے ان مخلص احباب سے عرض ہے جنہیں اس پوسٹ سے کوئی غلط فہمی ہوئی.
قرآن حکیم نے ازواج مطہرات کو امہات المؤمنين کہا. سؤال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حقیقی رشتہ کی طرح ہے جس کی وجہ سے ماں کے ذریعے دوسرے رشتے مثلا نانا، ماموں، خالہ، بھائی، بہن بھتیجے بھانجے وغیرہ کے رشتے پیدا ہوتے ہیں یا یہ ازواج مطہرات کی عزت و تکریم کے لیے ہے؟
ظاہر ہے قرآن نے خود کہا ہے کہ حقیقی ماں وہی ہوتی ہے جس نے جنم دیا ہو اور رشتے اسی سے جنم لیتے ہیں. مزید رشتہ داریاں بھی اسی کے توسط سے چلتی ہیں.
ازواج مطہرات کو حقیقی مائیں قرار دینا ممکن نہیں کیونکہ حضرات شیخین تو دو ازواج مطہرات کے باپ تھے یہ ان کی حقیقی مائیں تو نہیں ہوسکتیں تاہم بیٹیاں ہوکر تکریم کا استحقاق رکھتی ہیں.
ازواج مطہرات خود بھی اسے حقیقی رشتہ نہیں سمجھتی تھیں ورنہ وہ مسلمانوں سے حجاب نہ کرتیں، کہ وہ ان کے بیٹے تھے.
اگر ازواج مطہرات کے عزت و تکریم کے رشتے کو حقیقی رشتہ قرار دیا جائے تو اس کی وجہ سے ایسے ایسے لوگ اس رشتہ داری میں شامل ہو جاتے ہیں جو سرے سے اسلام دشمن ہیں. حقیقی رشتہ داری کے لیے تو اسلام شرط نہیں جیسے ابولہب رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چچا تھا.
اس پوسٹ کا مقصد کسی صحابی پر تعریض نہیں بلکہ ان دانشمندوں کو متوجہ کرنا تھا جو حقیقی اور تکریمی رشتوں میں فرق نہیں کرتے.
والسلام علی من اتبع الھدی