انتظاری عقیدہ؟ از منظور ربانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل تمام مذاہب میں ایک نجات دہندہ کے آنے کا عقیدہ موجود تھا۔
ہندو ایک کلکی اوتار کے انتظار میں تھے ۔
بدھ مت کے پیرو متھیا بدھ کے انتظار میں ہیں۔
مجوسی عیسائیوں کی طرح متیھرا کو آسمان پر زندہ تصور کرتے ہیں اور آخری زمانے میں اس کی آمد کے منتظر ہیں۔
یہود کا دعوی تھا کہ وہ آخری نجات دہندہ ان میں آئے گا
نصاری کا عقیدہ تھا چونکہ یسوع خداوند۔ یعنی عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اس لیئے وھی آخری نجات دہندہ بن کر آئیں گے۔
ان میں سے ھر ایک کا عقیدہ یہ ھے کہ آنے والا ان کے مذہب کو دیگر تمام مذاہب پر نہ صرف غالب کردے گا بلکہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا اور وہ قرب قیامت آئے گا۔
قرآن کریم کہتا ھے کہ
فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹
جب وہ آگیا ما عرفوا جسے وہ خوب جانتے تھے۔ جس کے آنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔اور اسی پرانے عقیدہ پر اڑے بیٹھے ہیں کہ نہیں جناب چونکہ عیسی آسمان پر زندہ موجودہیں لہذا وھی قرب قیامت آسمان سے اتریں گے اور دنیا میں عدل و انصاف کا نظام قائم کریں گے۔ آخری دور عیسی علیہ السلام کا ھوگا
محمد رسول اللہ صلعم کی آمد کے بعد ایک آنے والے کا والے کا انتظار کرنے والوں پر اللہ تعالی نے لعنت فرمائی ھے
فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۸۹
یہ تو تھا عیسائیوں کا عقیدہ۔
اب آئیے ذرا مسلمانوں کے عقائد کی طرف۔
ان کا وطیرہ یہ ھے کہ ایک عقیدے پر دوسرا اس پر تیسرا اور پھر یہ سلسلہ جاری ھو جاتا ھے۔
1۔سنیوں کے خواجہ خضر ابھی تک زندہ ہیں۔
2۔شیعوں کے امام غائب بھی سرمن رائے غار میں زندہ ہیں ۔
3۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ امام مھدی کے انتظار میں ھے ۔۔جبکہ سنیوں کے مہدی کا انتظار جاری ہے اور شیعوں کا مہدی ہزار سال سے ظاہر ھو کر غار میں چھپا ھوا ہے۔۔
4۔ مسلمانوں کی اکثریت اس عیسائی عقیدہ پر ہیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے اصل جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔
5۔ راویتی عقیدے کے مطابق وہ شام کی جامع مسجد کے مینار پر اتر کر سیڑھی طلب کریں گے ، بعد میں روایت کو سچا کرنے کے لئے ایک جامع مسجد بھی بنائی گئی جس میں سفید مینار بنایا گیا۔جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کا نہ مینار تھا نہ محراب تھی۔ راویوں کے زمانے میں ہی میناروں کا رواج ہؤا اور یوں ایک مینار حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی الاٹ کر دیا گیا۔ وہ آسمان سے تو بڑے آرام کے ساتھ اتر آئے مگر مسجد کی چھت سے نیچے اُترنے کے لئے سیڑھی مانگیں گے۔ مطلب کچھ بھی لکھ یہ غم ںکم عمی امت سے پلٹ کر سوال نہیں کرے گی ۔
سوال یہ ھے کہ کیا قرآن کریم کی کسی آیت سے یہ ثابت ھوتاھے کہ جناب عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں؟
پس آگر یہ ثابت ھو جائے کہ عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں تو تمام بحثیں ھی ختم ھو جاتی۔
اگر عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو سنیوں کے خواجہ خضر بھی زندہ ہیں؟ اور شیعوں کے امام مہدی پردہ غیبت میں بھی زندہ ہیں اور مرزا قادیانی مسیح موعود بھی ھے
اب دیکھیں اس عقیدہ کے متعلق قرآن کریم فرقان حمید کیا کہتا ھے جو عقائد کی اصل بنیاد ھے؟
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔ 21/7-
تجھ سے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہم نے بھیجے سبھی انسان تھے جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے پس تم لوگ اہل کتاب سے پوچھ لو اگر تم لوگ نہیں جانتے ۔
وَ مَا جَعَلۡنٰہُمۡ جَسَدًا لَّا یَاۡکُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَ مَا کَانُوۡا خٰلِدِیۡنَ ۔
ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھائیں(یعنی وہ ملائکہ نہیں انسان تھے) اور نہ وہ ہمیشہ رہنے والے تھے ۔21/8-
اے رسول جس طرح سے آپ کھاتے پیتے ہیں 25/8- اور
آپ کو خلد/ دائمی زندگی نہیں دی ایسے ھی من قبلك آپ سے پہلے بھی کسی نبی ع کو ایسا جسدا۔ جسم نہیں دیا کہ وہ بن کھائے پیئے زندگی گزار سکے اور نہ اس پر موت وارد ھوئی ھو۔
وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ 21/34- آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی کیا اگر آپ مر گئے تو کیا وہ زندہ رہ جائیں گے ۔
یہ آیات نص قطعی ہیں کہ نزول قرآن کریم کے وقت آپ سے پہلے کا کوئی بندہ بشر زندہ نہیں تھا اور نہ ھے۔
وَ مَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ۔ قرآن کریم کے اس قطعی فیصلہ کے بعد کسی بندہ بشر کے آسمان یا زمین پر زندہ ھونے کا عقیدہ رکھنا خلاف قرآن ھے اور سراسر گمراھی ھے۔
2۔ نیز ان آیات کے مطابق۔جسداً. اس جسم و جان سے زندہ رھنے کے لیئے کھانا پینا اور بول براز لازم ھے کہ ان لوازمات کے بغیر زندگی کا دعوی خلاف قرآن ھے
3۔ جنت کی نعمتوں کا وعدہ موت کے بعد حیات اخروی میں ھے ۔ذالك دین القیم
اس عقیدہ کے مؤيدين نے قرآن کریم سے کس طرح سہارا لیا یہ نکتہ غور طلب بھی ھے اور دلچسپ بھی۔ملاحظہ ھو
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵۔ روایتی ترجمہ ملاحظہ ھو
جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں اور کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک۔
پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا ۔
اس آیت میں جو یہ کہا گیا ھے۔ انی متوفیك و رافعك الى..
منتظرین اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔ میں لے لوں گا تجھ کو اور اٹھا لوں گا اپنی طرف۔ اور الیَ کا ترجمہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے عیسی کو اپنی طرف یعنی انہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا۔ اس آیت میں لفظ۔ الی ۔اور ۔ رفع قابل غور ہیں کیا ان کا یہ مفھوم درست ھے جو یہ لیتے ہیں؟
۔لفظ ۔الیَْ.۔۔ اور رفع کے معنی قرآن کریم میں۔
جب ابراہیم علیہ السلام نے ھجرت کی تو فرمایا ۔
انی مھاجرٌ الى رَبِىْ 29/26-
میں اپنے رب کی طرف ھجرت کررھا ھوں ۔
دوسری جگہ ھے کہ
انی ذاھب الی ربی سیھدین 37/99-
میں اپنے رب کی طرف جارھا ھوں وہ مجھے راستہ دیکھائے گا۔ ظاہر ھے کہ ابراھیم کا الی ربی کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ آسمان کی طرف تشریف لے گئے بلکہ اس طاغوتی نظام کو چھوڑ کر ایسے مقام کی طرف منتقل ھوگئے تھے جہاں پر وہ اسلامی نظام قائم کرسکیں۔ باقی رھا لفظ رفع تو اس کے معنی بلندی مدارج ھے یہ لفظ قرآن کریم میں ان معانی میں متعدد مقامات پر آیا ھے مثلا سورہ یوسف میں ھے
نرفع درجات من نشاء 12/76-
ھم اپنی مشیت کے مطابق بلند درجات عطا کردیتے ہیں ۔
نبی اکرم کے متعلق ھے ورفعنالك ذكرك.
ھم نے تیرے ذکر کو بلند کردیا 94/4-
سورہ الاعراف میں ھے ۔
ولوشئنا لرفعنه بها ولكنه اخلد الى الارض. 7/176-
ھم چاہتے تھے کہ اپنی تعلیم کی رو سے اسے بلند مقامات عطاء کردیتے لیکن وہ زمین کی پستیوں کے ساتھ چمٹ گیا۔
حضرت ادریس کے متعلق تو رفعت کے ساتھ مکان کا لفظ بھی آیا ھے ورفعنه مكاناً علياً 19/57-
ھم نے اسے نہایت بلند مقام عطا کردیا۔
رفعتء مدارج عطا کرنے کی جہت سے اللہ تعالی نے اپنے آپ کو رفیع الدرجات کہا ھے یعنی بلند مدارج عطا کرنے والا۔ 40/15-
ان تصریحات سے یہ بات واضح ھوگئی کہ ورافعک الی ۔۔۔۔ بل رفعه الله اليه.. سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالی انہیں اٹھا کر آسمان پر لے گیا
یہودیوں کا دعوی تھا کہ عیسی صلیب پر لعنتی کی موت مرے۔ اس کی تردید میں اللہ تعالی نے کہا کہ۔۔۔
وما قتلواہ وما صلبواہ 4/157-
ان کا یہ دعوی ھی سرے سے غلط ھے کہ انہوں نے حضرت عیسی کو صلیب دیکر لعنتی کی موت مار دیا وہ نہ ان کے ھاتھوں صلیب دیئے گئے نہ لعنتی موت مرے اللہ تعالی نے اسے بلند مدارج عطا فرمائے۔
وہ اللہ تعالی جو ابراھیم کو آگ سے بچاکر فلسطین کی سرسبز و شاداب وادیوں میں لے گیا وہ عیسی علیہ السلام کو بھی صلیب کی ذلت آمیز موت سے بچاکر قدرومنزلت والے مقام پر لے گیا تھا۔
یہ ترفع قدرومنزلت میں تھا۔آسمان کی طرف اٹھائے جانے کا عقیدہ محض افسانہ ھے اور خلاف قرآن ھے ۔
قرآن کریم میں رفع کا لفظ آسمان کی طرف اٹھنے چڑھنے یا جانے کے معنی میں آیا ھی نہیں بلکہ اس معانی کے لیئے
ع۔ر۔ج۔ یعرج اور ر۔ق۔ی۔ ترقی۔
اور سلماً۔ جیسے الفاظ آئے
سلْماً. اس قابل اعتماد اور محفوظ ذرائع کو کہتے ہیں جو سلامتی کے ساتھ بلندیوں تک پہنچائے۔ ملاحظہ ھو۔
1۔ مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ ؕ﴿۳﴾
اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے ۔
2۔ تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں
جس کی مقدار پچاس ہزار سال ھے۔34/3-4-
3۔ وَ لَوۡ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ
اور اگر ہم ان پر آسمان کا دروازہ کھول بھی دیں اور یہ وہاں چڑھنے بھی لگ جائیں ۔
4۔ اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ ؕ وَ لَنۡ نُّؤۡمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیۡنَا کِتٰبًا نَّقۡرَؤُہٗ ؕ قُلۡ سُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا ﴿٪۹۳﴾
یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے کا گھر ہو جائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم توآپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار لائیں جسے ہم خود پڑھ لیں ، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں۔
5۔ وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ فَاِنِ اسۡتَطَعۡتَ اَنۡ تَبۡتَغِیَ نَفَقًا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاۡتِیَہُمۡ بِاٰیَۃٍ ؕ ۔۔۔۔۔ الآیہ
اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تو اگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ لو اور پھر کوئی معجزہ لے آؤ 6/35- ۔
1۔ ان آیات میں ملائکہ کا آسمان کی طرف جانے کا تذکرہ ھے اور اس کے علاوہ نبی کریم صلعم سے مطالبہ کیا گیا ھے کہ تم آسمان پر جاکر اپنے رب سے کوئی لکھی ہوئی کتاب لے آؤ جسے ہم خود پڑھ لیں یا آپ آسمان پر جاکر اپنے رب سے کوئی معجزہ لے آئیں۔ آپ نے دیکھا کہ قرآن کریم نے آسمان کی طرف اٹھنے۔ چڑھنے یا جانے کے لیئے رفع کا لفظ استعمال ھی نہیں کیا۔بلکہ دیگر الفاظ استعمال کیئے ہیں
2۔ قرآن کے مطابق زمین پر استخلاف قائم کرنا انسان کا کام ھے ملائکہ کا نہیں۔ زندہ و جاوید اللہ کے پاس جانا ملائکہ کا کام ھے انسان کا نہیں۔ افلایتدبرون القران
یہ بھی معلوم ھوا کہ یہ انتظاری عقیدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل تمام مذاہب میں پایا جاتا تھا
محمد صلعم ہی وہ آخری ھستی ہیں جن کی بشارت تمام سابقہ کتب میں دی گئی تھی۔تمام مذاہب کے لوگ انہیں کی آمد کے
رسولوں پر ایمان کا اصول۔
1۔ قرآن کریم کے مطابق جب موسی علیہ السلام تشریف لائے تو یعقوب ع کی قوم موسی پر ایمان لائی تو یعقوب ع کی قوم موسی ع کی قوم کہلائی
2۔ موسی کی قوم عیسی پر ایمان لائی تو عیسی کی قوم کہلائی اسی بنا دنیا انہیں عیسائی کہتی ھے ۔
3۔ قوم موسی و عیسی میں سے جو لوگ محمد رسول اللہ پر ایمان لائے وہ قوم محمدصلعم کہلائے ۔
4۔ قوم محمد صلعم میں سے جو لوگ مرزا قادیانی مسیح موعود پر ایمان لائے وہ قادیانی کہلاتے ہیں۔
امت مسلمہ کے منتظرین جب عیسی پر ایمان لائیں گے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے ھوئے آئے ہیں تو یہ لوگ عیسی پر ایمان لانے کے بعد بھی محمدی ھی رہیں گے؟ ؟
ھذا شیئ عجیب ۔
آج یہ لوگ کسی نو مسلم عیسائی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ محمد صلعم پر ایمان لانے کے بعد عیسائی کہلائے۔
یہ۔۔ وہ ۔۔ دراصل ۔۔۔ امتی ۔۔نبی ۔۔ رسول؟ ؟؟؟
سب قرآن اور سنت اللہ کے خلاف منہ کی باتیں ھے۔
یاد رکھیں۔ کہ تقلید حنفی ھو یا جعفری یا سلفی بندے کو قرآن کے نزدیک نہیں آنے دیتی۔
اللہ تعالی ھم سب کو قرآن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
[ وہ آخری آنے والا تو آچکا۔
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ۔48/28-
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ھر دین پر غالب کرے ، اور اللہ تعالٰی کافی ہے گواہی دینے والا۔
محمد رسول اللہ صلعم ھی وہ آخری ھستی ہیں جو بالھدی دین الحق کے ساتھ مبعوث ھوئے اور قرآن کریم ھی وہ الھدی ھے جسے تمام ادیان کا مصدق و مظہر بنا کر نازل کیا گیا۔
ذرا اس عقیدے پر غور کریں کہ جس آخری نبی ع کو اپنا دین تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیئے بھیجا تھا اج وہ دین اپنے غلبہ کے لیئے عیسی کا محتاج و منتظر ھے۔
کہ غیرت نام تھا جس کا رخصت ھوئی مسلم کے گھر سے!
1۔ خاتم المرتبت محمد الرسول اللہ صلعم کی امت کا ابھی تک ایک آنے والے کے انتظار میں ھونا کیا باعث حیرت نہیں؟
2۔ نبی علیہ السلام کو امتی بنانے کا فارمولا کہاں سے نکالا؟
قرآن کریم میں تو اس کی کوئی دلیل سرے سے موجود ھی نہیں۔ بلکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ھے
سنت اللہ ھے کہ اللہ تعالی جب کسی بشر کو انسانوں کی ھدایت اور دین کی سر بلندی کےلئے بھیجتا ھے تو شرعیت میں اسے رسول اللہ کہتے ہیں۔
سُنَّۃَ مَنۡ قَدۡ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ مِنۡ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِیۡلًا
ایسا ہی دستور تھا جو آپ سے پہلے رسول ہم نے بھیجے اور آپ ہمارے دستور میں کبھی ردو بدل نہ پائیں گے ۔17/77-
ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَا۔۔
یہ ایک پیمانہ ھے جسے متعین کر دیا گیا ھے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ھوئی۔
رسول کو امتی بنانے کا فارمولا سنت اللہ کے بالکل خلاف ھے۔ اللہ تعالی ھمیں ھدایت نصیب فرمائے۔ آمین ۔
منظور ربانی۔