باندیاں رکھنا کیوں اور کیسے؟؟ از طفیل ہاشمی
باندیوں کے بارے میں قرآن کے اس بیان پر کہ ان سے جنسی تعلق جائز ہے، بکثرت لوگ چیں بجبیں ہوتے ہیں. حقوق نسواں کے موجودہ دور میں اس پر اعتراضات کرنے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو کتاب اللہ پر ایمان رکھتے ہیں پھر اس کی گونا گوں توجیہات کرتے ہیں تاکہ کتاب اللہ میں رہ جانے والی "کوتاہی "کو اپنی دانش سے پورا کریں.
اس مسئلہ کو میں جس طرح سمجھا ہوں آپ کی خدمت میں پیش ہے.
غلامی کا ادارہ اسلامی ادارہ نہیں. اسلام نے نہ اسے متعارف کروایا نہ اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ یہ اسلام کو اس دور کے سماج سے ورثہ میں ملا۔ تاہم اسلام نے اس میں ایسی اصلاحات کر دیں جن کی بنا پر اسے بہت جلد ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن بعد کی ملوکیت نے اسے ایسے بھونڈے طریقے سے تحفظ دیا جو انسانیت کے لئے ایک بد نما داغ ہے.
اسلام نے جو اصلاحات کیں وہ درج ذیل ہیں:
1- صرف جنگی قیدی (مرد، عورتیں) اس زمرے میں شامل ہونگے مفتوحہ علاقوں کے عام شہریوں کو قیدی بنا کر غلام باندی نہیں بنایا جا سکے گا.
2- میدان جنگ سے گرفتار ہونے والے قیدی بلا معاوضہ، فدیہ لے کر اور مسلمان قیدیوں کے بدلے میں آزاد کئے جا سکتے ہیں، کوئی بھی جنگی قیدی خود بھی آزادی خرید سکتا تھا۔
3- اس زمانے کی جنگیں اس نوعیت کی ہوتی تھیں کہ ان کے نتیجے میں ریاستیں، حکومتیں، ممالک اپنا وجود کھو بیٹھتے تھے اور جنگی قیدیوں کی واپسی کی راہ نکالنے والے ادارے باقی نہیں رہتے تھے.
4۔ ان جنگی قیدیوں کو کیمپوں میں رکھنے سے حکومت پر اضافی بوجھ، تربیت یافتہ فوجیوں کو منظم ہونے کا موقع اور ان میں اخلاقی اور جنسی برائیاں پیدا ہونے کے امکانات تھے ۔ اس لیے انہیں تقسیم کر دیا جاتا تاکہ ان کی خدمات ملکی اور قومی ترقی کے لئے استعمال ہو سکیں اور انہیں کوئی بحران پیدا کرنے کے مواقع نہ مل سکیں.
5- جن لوگوں کے سپرد کئے جاتے ، ان کی ذمہ داری ہوتی کہ ان کی اور ان کی اولاد کی اپنی اولاد اور کنبے کی طرح کفالت کریں. جس کا نتیجہ یہ ہوا تھا ایک صدی گزرنے سے پہلے اسلامی ریاست کے بڑے بڑے سالار اور اہل علم موالی یعنی غلاموں کی اولاد تھے. موجودہ دور کی سرکاری ملازمت اسی غلامی کی ایک شکل ہے لیکن کمتر مراعات کے ساتھ جس میں صرف تن خواہ دی جاتی ہے، کافی ہو خواہ نہ ہو.
6- جنگی قیدیوں میں کبھی خواتین بھی آ جاتی تھیں جن کے شوہر مارے جاتے اور انہیں واپس لینے والا کوئی نہ ہوتا.
جنسی خواہش انسان کی بنیادی ضروریات کی طرح کی شے ہے. اگر ان غلام باندیوں کی اس ضرورت کو نظر انداز کر دیا جاتا تو سماج میں ہر جگہ غیر منظم قحبہ خانے کھل جاتے اور اسلام کسی طور اپنے سماج کی پاک دامنی برقرار نہ رکھ سکتا. اس کے لیے اسلام نے یہ اہتمام کیا کہ
i- غلاموں باندیوں کے آپس میں نکاح کروا دئیے جائیں یا اگر کوئی آزاد فرد کسی آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بھی کسی باندی سے نکاح کر سکے گا. ایسی باندی صرف اپنے شوہر سے وابستہ ہو گی اور اپنے مالک کے گھر کام کاج کر سکے گی لیکن مالک کا اس باندی سے جنسی تعلق جائز نہیں ہوگا.
ii- اگر باندی کسی کے نکاح میں نہ ہو اور مالک چاہے تو خود بھی اس سے جنسی تعلق رکھ سکے گا لیکن اس کے لیے اسے سماج میں اسی طرح یہ بات مشتہر کرنا ہو گی جیسے نکاح کے بعد کوئی جوڑا اپنے معلوم تعلق سے سماج میں رہتا ہے. ایسی باندی سے اولاد ہو جائے تو اسے ام ولد کہا جاتا ہے اور مالک کی وفات کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جاتی ہے.
اس تعلق میں جو واحد اچنبھے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ اگر مالک باندی کو اپنے سے وابستہ کرنا چاہے تو اس کے لیے باندی کی رضامندی اور نکاح کی ضرورت نہیں بلکہ صرف سماجی اعلان کافی ہے. اس کی وجہ ایک قانونی نکتہ ہے اور وہ یہ کہ نکاح باقاعدہ دو آزاد فریقوں کے درمیان ان کی آزادانہ رضامندی سے ہونے والا ایک معاہدہ ہوتا ہے اور زیر بحث صورت میں ایک فریق سرے سے آزاد ہی نہیں ہے کہ اس کی آزادانہ رضامندی کی بات ہو بلکہ اس کا ولی مالک خود ہے جس کی وجہ سے جہاں اسے باندی کا کسی دوسرے سے نکاح کرنے کا اختیار ہے وہاں خود بھی تعلقات زن آشوئی کا حق ہے. یہ ایک قانونی مجبوری ہے. اس طرح اسلام نے باندیوں کی عزت و عصمت کو بھی تحفظ دیا ہے۔
خرابی تب پیدا ہوئی جب دور ملوکیت میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی، تجارتی اور حاجیوں کے قافلے لوٹے جانے لگے اور بلا امتیاز عورتوں، بچوں سب کو گرفتار کر کے عیش کوش امراء اور حکام کے پاس فروخت کیا جانے لگا تو اس سارے عمل کو اسی طرح اسلامی قرار دیا گیا جیسے ہمارے دور میں دہشت گردی اسلام کے نام پر بکتی رہی.