بہت ھی کٹھن ھے ڈگر پنگھٹ کی ـ ۔۔ قاری حنیف ڈار
اپنے خیالی کیمرے کو استعمال فرمایئے اور اس مثال کا ایک اسکیچ اپنے دماغ میں بنایئے کہ ایک کنواں ھے جس تک جانے اور واپس آنے والا رستہ کیچڑ سے بھرا ھوا بھی ھے اور ڈھلوان والا بھی ھے ، یہ نہایت پھسلن والا رستہ ھے جو گرتا وہ پھر سنبھل نہیں سکتا بس نیچے ھی آ کر رکتا ھے ،، اس پھسلن رستے کے دونوں طرف کچھ شرارتی لوگ کھڑۓ ھیں جو ھر آتے جاتے کو دھکا دے دیتے ھیں ،بظاھر وہ آپ کا ھاتھ مدد کرنے کے نام پر تھامتے ھیں مگر جونہی آپ ان پہ بھروسہ کر کے ذرا سا ایزی ھوتے ھیں وہ جھٹ آپ کو دھکا دے دیتے ھیں ،، اب آپ نے اس کیچڑ زدہ پھسلن والے غیرمتوازن رستے پر جانا بھی ھے اور پانی بھر کر واپس اس طرح آنا ھے کہ گھڑا بھی سلامت رھے ، آپ بھی سلامت رھیں اور پانی بھی گرنے نہ پائے ،،،،،،
یہ رستہ دنیا ھے ، وہ کنواں معاشرہ ھے ، وہ پانی بھرنے والے آپ ھیں گھڑا آپ کا ایمان ھے اور رستے کے بائیں طرف کھڑے لوگ شیاطین الجن ھیں اور دائیں طرف والے آپ کے اپنے دوست و احباب ،عزیز و اقارب ھیں جن کا کام آپ کو مشتعل کر کے آپ کی توجہ اس رستے کی نزاکت سے ھٹا کر پھسلن کا نشانہ بنانا ھے ،ادھر آپ کی توجہ بٹی گھڑا بھی گیا یعنی ایمان گیا اور پانی بھی گیا یعنی اس ایمان کے کریڈٹ کارڈ پہ لؤڈ شدہ نیکیاں بھی گئیں ،،،
اس مضمون کو امیر خسرو نے کچھ یوں بیان کیا ھے کہ ؎
بہت ھی کٹھن ھے ڈگر پنگھٹ کی ،،
کیسے بھر لاؤں میں جھٹ پٹ مٹکی ،،،
میاں محمد بخش اس کو یوں بیان کرتے ھیں ؎
اکھیوں انۜا تے تلکن رستہ ، کیونکر رھے سنبھالا ،،
دھکے دیون والے بہتے ، تُو ہتھ پکڑن والا ،،
اے اللہ یہ ناچیز آنکھوں سے اندھا ھے، رستہ بھی پھسلن والا ھے ،پھر میں کیسے سنبھل کر چل سکتا ھوں ،، دھکے دینے والے تو بہت ھیں ، بس تو ھی ایک ھاتھ پکڑ کر مجھے سنبھالنے والا ھے ،،
پھر اس کا علاج تقوی بتاتے ھیں کہ جو لوگ نیکی سے اپنا دامن بھر لیتے ھیں وہ پھر سنبھل سنبھل کر قدم رکھتے ھیں کیونکہ انہیں اس متاع کی اھمیت اور نزاکت کا علم ھوتا ھے ،،
سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے ،،
جنہاں بھریا ،بھر سِر تے دھریا ، قدم رکھن جر جر کے ،،،
تمام روحیں ملکر پانی بھرنے آئی ھیں ،مگر بھر کر واپس کوئی کوئی ھی آئے گی، جو گھڑا بھر لیتی ھیں اور پھر اس کو سر پہ رکھ لیتی ھیں تو ان کی چال بتاتی ھے کہ یہ بھرے گھڑے والیاں ھیں اور جو خالی گھڑے سر پہ رکھے کمر لچکاتی مٹکاتی چل رھی ھیں ان کی چال بتاتی ھے کہ یہ خالی گھڑے والیاں ھیں ،،،
یہ ترجمہ ھے سورہ الفرقان کی اس آیت کا جس میں یہی مضمون اللہ پاک کچھ یوں بیان فرمایا ھے کہ "
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَاماً (الفرقان- 63)
رحمان کے بندے زمین پر بڑا تھم تھم کر چلتے ھیں اور جب جھلاء ان کے منہ لگنے کی کوشش کریں تو وہ سلام کر کے نکل لیتے ھیں (وقت اور توانائی ضائع نہیں کرتے )
الغرض ھم نے نیکی کرنی اور بھرنی بھی ھے اور اس نیکی کی حفاظت بھی کرنی ھے کیونکہ نیکی کرنے سے نیکی بچا کر رکھنا زیادہ مشکل ھے ، کبھی تو شیطان اس کو دکھاوے میں تبدیل کر کے شرک بنا دیتا ھے تو کہیں ھم لوگوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتی کے عوض خود اپنا گھڑا توڑ تاڑ کر پھینک دیتے ھیں ،، ڈرائیونگ یہ نہیں کہ آپ کوئی غلطی نہیں کرتے ، بلکہ اچھی ڈرائیونگ اس کا نام ھے کہ آپ دوسروں کی غلطیوں سے بچنا سیکھیں ،، نیک آدمی ھونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خطا نہیں کرتے ،بلکہ یہ ھے کہ دوسروں کی خطا آپ اشتعال دلا کر اپنی نیکیاں اٹھا پھینکنے پر آمادہ نہ کر دے ،، اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بات یوں سمجھائی ھے کہ روزے میں کسی کو نہ تو گالی دو اور نہ کسی سے جھگڑا کرو، کوئی اگر تمہیں گالی دے یا جھگڑا کرے تو اسے بس اتنا جواب دے دو کہ ” انی صائم ” بھائی جان میرا روزہ ھے ، میں اسے ضائع کرنا افورڈ نہیں کر سکتا ،،
اللہ پاک کا انسان کی مدد کو پہنچنا !
اب اللہ پاک نے کچھ تو ھستیاں ایسی بھیجیں جن کے ذریعے ھمیں ھدایات دیں ، اگر ھم ان ھدایات پر عمل کریں تو ھماری یہ ڈگمگاھٹ کم ھو جائے ،،نیز ان ھستیوں نے عملی طور پر وہ سب کر کے دکھایا اور حکم دیا کہ بس جس طرح میں کر رھا ھوں اسی طرح کرتے جاؤ تو تمہارے حصے کی مٹکی بھر جائے گی،، اللہ پاک نے انسان کو توبہ جیسی نعمت عطا فرمائی کہ سیکڑوں سال کے گناہ ایک جملہ ادا کرنے سے معاف فرما دیتا ھے اور اگر نیت کا خلوص اپنی انتہاء کو پہنچا ھو تو ان گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیتا ھے ،، سورہ الفرقان میں ھی یہ فرمایا ھے کہ رحمان کے بندے جب یہ اور یہ کرتے ھیں تو "
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (70)
کسی کا دھیان اللہ کے فضل کی طرف نہ گیا ،فرشتوں نے بھی Mission impossible کا نعرہ انسان کی کمزوری کو دیکھ کر لگایا اور شیطان ملعون نے بھی انسان کی بناوٹ کے مد نظر چیلنج کر دیا ، دونوں کے وھم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالی جو اس نازک سی مخلوق کو میدان میں اتار رھا ھے تو وہ اس کمزور کی کمزوری کو اپنے فضل سے قوت میں تبدیل کر دے گا ،، سانس کے غرغرے تک عمر کی پرواہ کیئے بغیر گناہ اور خطائیں ،لغزشیں اور کوتاھیاں مجرد توبہ کرنے پہ اس طرح صاف کر دے گا کہ گویا آج ھی رحمِ مادر سے معصوم پیدا ھوا ھے ،، بلکہ اس کے گناھوں کے عوض بھی اسے نیکیاں عطا کر دے گا ،، اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ھے کہ میرے سمیت کوئی بھی اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کے فضل کے سبب جنت میں جائے گا ،،
گویا اگر اللہ کے ساتھ ایمان کا تعلق موجود رھے اور اس تعلق پر آپ کی جان جائے تو آپ کا کچھ بھی گم نہیں ھوا ،، اور اگر اس کے ساتھ تعلق ختم ھو گیا تو سب کچھ ھو کر بھی تمہارے پاس کچھ نہیں ھو گا ، ایسے گناہ جو انسان کو ڈرا کر رب کے ساتھ جوڑے رکھیں ان اعمال کی نسبت اچھے ھیں جو انسان کو متکبر کر کے رب سے دور کر دیں ، جو اپنی کمزوری سے آگاہ ھو اور رب کا دامن تھامے رکھے اس سے اچھا ھے جو اپنے تقوے کے زعم میں رب کا دامن چھوڑ کر اپنی نیکیوں پر توکل کر لے ،، بچہ جب تک اپنی کمزوری سے آگاہ رھتا ھے اور والد کا ھاتھ پکڑے رکھتا ھے اغوا سے بچا رھتا ھے ، مرغی کے جو بچے ماں کے ساتھ رھتے ھیں بلی سے بچ جاتے ھیں جو شوخے اور لاپرواہ بن کر دور چلے جاتے ھیں اچک لئے جاتے ھیں ،،
جو لوگ یہ سمجھتے ھیں کہ جنت ان کی عبادات کا ھی صلہ ھے ، ان سے نعمتوں کی کٹوتی کر کے پھر تولا جائے گا ،ثمہ لتسئلن یومئذٍ عن النعیم ،، جو اپنی عبادت کو حقیر سمجھتے ھیں اور جنت صرف اور صرف اللہ کا فضل و کرم سمجھتے ھیں ،ان میں کبھی بھی دوسروں کی حقارت پیدا نہیں ھوتی اور اپنی عظمت و سطوت کا احساس نہیں جاگتا ،
اللہ پاک کا کرم اور رحمت جب اپنے بندوں پہ برسے گی تو ایک دفعہ ابلیس جیسا مایوس ملعون بھی سر اٹھا کر امید بھری نظر سے دیکھے گا کہ شاید اس پہ بھی رحمت کا کوئی چھینٹا پڑ جائے ،، اھل مصائب کو جس جس طرح سے اللہ حشر میں دلاسے دے گا اور ان کے صبر کی تعریف کرے گا ،، تو وہ جنہیں کوئی مصیبت پیش نہیں آئی ان پہ رشک کریں گے اور حسرت کریں گے کہ کاش وہ اس امتحان سے گزرے ھوتے ،، یوں انسان کی طرف دیکھا جائے تو یہ مشن ناممکن سا لگتا ھے ،مگر جب اللہ کی رحمت کا طرف نظر کی جائے تو حشر کے فیصلوں کے بعد بھی اللہ کی تعریف کی جائے گی کہ اس کی اسکیم میں کوئی خطا نہیں تھی !