بیٹی اللہ کی رحمت اور جنت کا دروازہ ـ از قاری حنیف ڈار
جنت صرف بحیثیت ماں عورت کے قدموں تلے نہیں بلکہ اس کے ھر طرف ھے ،یہ بطور ماں ، بیوی ، بہن اور بیٹی ھر حیثیت میں جنت ھی جنت ھے ،،
1- اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی پرورش اچھے طریقے سے کی یہانتک کہ ان کو بالغ کر دیا تو میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ھونگے ، آپ ﷺ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی ملا کر دکھائی ،، ( مسلم شریف )
2- جو شخص بچیوں کے ذریعے آزمایا گیا یعنی اس کے گھر صرف بچیاں ھی پیدا کی گئیں اور اس نے ان کو خوش دلی سے پال پوس کر جوان کر دیا تو وہ بچیاں قیامت کے دن اس کے اور آگ کے درمیان پردہ بن جائیں گی ،،( بخاری و مسلم )
3- رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ جس کی ایک بچی ھو اور وہ اس بچی کو زندہ در گور بھی نہ کرے اور اس کے ساتھ حقارت سے بھی پیش نہ آئے اور نہ بیٹوں کو اس پر فوقیت دے تو اللہ اس کو اس عمل کے بدلے جنت میں داخل کر دے گا ( ابوداؤد )
4- جس کے گھر دو بیٹیاں ھوں اور وہ ان کو اچھی طرح پالے تو وہ اس کو جنت میں داخل کر دیں گی ( بخاری )
5- اللہ کے رسول ﷺ نے سراقہؓ بن جعثم سے فرمایا کہ ،، میں تمہیں سب سے بہترین اور بڑے صدقے سے آگاہ نہ کر دوں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مہربانی فرما کر ضرور آگاہ کیجئے ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیری وہ بیٹی جسے طلاق دے دی گئ اور وہ اجڑ کر تیرے پاس واپس آ گئ اور اس کا کوئی سہارا یا کمانے والا تیرے سوا نہیں ھے ، اس پر خرچ کرنا اور اس کی خدمت کرنا تیرا سب سے بڑا صدقہ ھے ،،
زمانہ جاھلیت میں حضرت صعصہؓ نے نہ صرف اپنی بیٹیاں پالیں ، بلکہ جس بچی کے بارے میں معلوم ھوتا کہ اس کے ماں باپ اس کو دفن کرنا چاھتے ھیں تو آپ وہ بچی دو اونٹ دے کر خود لے لیتے اور اس کو پال لیتے ، اس طرح آپؓ نے 360 بچیاں پالیں ، اللہ پاک نے قبل الاسلام ھی ان کے دل کو رحمت اور شفقت سے بھر دیا تھا ،،
جو لوگ بیٹی کا حق مار کر بیٹوں کو کھلاتے ھیں اور بچیوں کو بوجھ سمجھ کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتے ھیں ، وہ اکثر اپنے بیٹوں کے ھاتھوں ذلیل و خوار ھوتے ھیں ، یہ تو نقد سزا ھے جبکہ آخرت میں رحمتِ عالم ﷺ اس کے خلاف خود استغاثہ دائر کریں گے ،،