تختِ بلقیس اور آصف بن برخیاہ ! از قاری حنیف ڈار
ہمارے یہاں پراسرار علوم چونکہ ذہنوں پر غالب ہیں لہذا ہر تفسیر میں زیادہ جھکاؤ پراسرار علوم کو ثابت کرنے کی طرف ہو جاتا ہے ـ جنات حضرت سلیمان کے غلام بنائے گئے تھے ان سے جو کام کرانا مقصود ہوتا تھا کرا لیا جاتا تھا اور کچھ مقرنین بالاصفاد ، ان کے دربار میں دست بستہ کھڑے رہتے تھے ، حضرت سلیمان نے یہ سوال اپنے سرداروں سے کیا تھا کہ تم میں سے کون بلقیس کے تخت کو اس کے سر تسلیم خم کر کے آنے سے پہلے لے آئے گا ؟ فطری طور پر سب سے پہلے انسانوں میں سے کسی کو بولنا چاہئے تھا ،، کیونکہ وہی مقرب تھے مگر وہاں خاموشی تھی ،، اگر عرش لانے والا عفریت کے بعد بولا ہے تو پہلے کیوں نہیں بولا ؟ نفل پڑھ رہا تھا یا چنے کھا رہا تھا کہ پانی کا گھونٹ پی کر چنے اندر کر کے پھر بولا ؟ انسانوں کی لاجوابی پر ہی دربار میں دست بستہ کھڑے جن کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ نہ صرف یہ کام کرنے کا دعوی کرے بلکہ اس پہ شیخی بھی بھگارے کہ ’’ و انی علیہ لقوی امین ‘‘ وہ لقوی کا لفظ استعمال کر ہی اس وقت سکتا تھا جب جن سے امید تھی یا جو سوال کے مخاطب تھے وہ ششدر ہو کر رہ گئے ہوں اور اسے معلوم ہو کہ اب ہم جنوں میں سے ہی کوئی بولے گا ،، اس صورت میں اس کے بولنے کے بعد جنوں میں سے ہی کوئی دوسرا کہہ سکتا تھا کہ میں اس سے بھی پہلے لے آونگا ـ اس کی اس تعلی پر کہ میں دربار برخواست ہونے سے پہلے لے آؤنگا کا جواب سلیمان علیہ السلام نے دیا ہے کہ میں اسے تیرے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤنگا ،، یعنی سیکنڈ کے 0.025 ویں حصے میں جو کہ پلک جھپکنے میں وقت صرف ہوتا ہےـ ان کی بات ختم ہوتے ہی وہ پاس پڑا ہوا تھا ،، ’’عندہ ‘‘ سے مراد وہ چیلنج دینے والا ہی مراد ہے اور اور پھر اس احسان پر شکر بھی اسی کو کرنا چاہئے تھا جو اس کو پلک جھپکتے ہی اس کو لے آیا ،، اور وہ شکر اور اللہ کے احسانات کا ترانہ سلیمان علیہ السلام پڑھ رہے ہیں [عجیب بات نہیں کہ وہ نامعلوم لانے والا تو ہاتھ بغلوں میں دیئے کھڑا ہے اور سلیمان علیہ السلام شکر شکر کر رہے ہیں ،، جو شکر کر رہا ہے کارنامہ بھی اسی سے صادر ہوا ہے اور ان کے تعارف اللہ پاک نے کتاب والے کے طور پر کیا ہے اور دربار میں اللہ کے رسول سے بڑھ کر کوئی کتاب کے علم والا نہیں تھا ،، نہ کوئی آصف برخیاہ تھا اور نہ کوئی اللہ کے رسول سے بڑھ کر اسم اعظم سے واقف تھا ،، [قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (40 النمل ) کہا اس نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا میں اس کو لاتا ہوں تیرے [ عفریت کے] سامنے تیری پلک جھپکنے سے بھی پہلے،پھر جب دیکھا تخت کو اپنے پاس پڑے تو کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تا کہ آزمائے مجھے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں ! اور جو شکر کرے گا وہ شکر کرتا ہے اپنی جان کے [فائدے کے] لئے اور جس نے ناشکری کی تو میرا رب بڑا غنی اور کریم ہے ،
یہی تفسیر امام رازی کی بھی ہے اور یہی زمخشری کی بھی ہے ـ ہر نبی کو الکتاب میں سے اس کا حصہ دیا گیا ہے یعنی اصل الکتاب اللہ پاک کے یہاں مکنون ہے اس میں سے انبیاء کو حصہ یعنی ان کی قسط بھیج دی جاتی ہے قرآن بھی وہیں لکھا ھوا ہے جہاں تورات و انجیل لکھی ہوئی تھیں ،، الذین اوتوا نصیبا من الکتاب کا یہی مطلب ہے وہ لوگ جن کو کتاب میں سے ان کا حصہ دیا گیا یعنی تورات زبور انجیل اور آخر میں قرآن ، اس لئے علم من الکتاب کا یہ مطلب نہیں کہ کتاب میں کوئی ایسا حصہ تھا جو اشیاء کو منتقل کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا بلکہ یہ بطور تعارف سلیمان علیہ السلام کے لئے کہا گیا ہے ، ورنہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ یہ ممکن تھا کہ اس قرآن میں یہ صلاحیت رکھ دی جاتی کہ اس کے ذریعے پہاڑ چلائے جا سکتے ، یا فاصلے فورا طے کر لیئے جاتے یا مردوں سے بات کر لی جاتی مگر سارے کام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں ،جب اللہ کے کلام میں یہ صلاحیت نہیں رکھی گئ تو انسانی کلام یعنی جادو میں یہ صلاحیت کیسے رکھی جا سکتی ھے کہ اس کے ذریعے ایسے کام کیئے جا سکتے ؟ [ وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ ] الرعد ۳۱ ]] جب قرآن میں نہیں تو پھر سلیمان علیہ السلام کے درباری کے پاس یہ کونسی کتاب کا علم تھا ؟