تعددِ ازواج ! از قاری حنیف ڈار
تعددِ ازواج لگژری یا عیاشی نہیں ،ایک امتحان ہے اور اس امتحان کا ایک بیک گراؤنڈ ہے ـ اسلام نے آتے ہی تعددِ ازواج کو موضوع نہیں بنایا ـ جب غزوہ احد میں ۷۰ صحابہ شھداء کے رتبے پر فائز ھوئے تو ، اس چھوٹی سی بستی کے لئے یہ ایک قیامت تھی ـ درجنوں بیوائیں اور درجنوں یتیم بچے اور بچیاں ایک دم سے حقیقت بن کر سامنے آ گئے ، اسلام سماجی معاملات کو عبودی معاملات کی نسبت زیادہ حساسیت سے ڈیل کرتا ہے ـ لوگ ترس کھا کر ان بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرتے تھے مگر منافقین جو مسلمانوں پر کسی نہ کسی پہلو سے وار کرنے کے مواقع ڈھونڈتے رھتے تھے ، ان کی چاندی ھو گئ ، کبھی کسی پر الزام لگا دیا کہ فلاں کے فلاں بیوہ سے تعلقات ہیں ، یا فلاں تو آج کل فلاں کے گھر سامان ہی ڈھوتا رھتا ہے ،، اس قسم کی صورتحال میں صحابہؓ کے لئے حکم نازل ھوا کہ وہ ان بیواؤں سے شادی ہی کر لیں جن کی کفالت کرتے ہیں تا کہ ان کے گھروں میں آنے جانے سے کسی کو طعن یا زبان درازی کا موقع نہ ملے ـ اس پر صحابہؓ نے عذر پیش کیا کہ چونکہ ہم اللہ کے حکم پر نکاح کرنے چلے ہیں تو کم ازکم حق مہر تو ہم کو معاف ھونا چاہئے ،جس پر کہا گیا کہ حق مہر ان کا حق ہے وہ لازم ادا کرو ، لیکن اگر لینے کے بعد وہ تم کو دان کر دیں تو اس کو بلا جھجھک کھا سکتے ہو ، کہا گیا کہ جس عورت سے نکاح کر لو اور خلوتَ صحیحہ حاصل ھو جائے تو اب اس کی بیٹی سے شادی نہیں کر سکتے ، بیٹی سے کر لو تو اس کی ماں سے نہیں کر سکتے اگرچہ ایک کو طلاق دے دو تب بھی ـ اسی سلسلے میں واحد آسمانی کتاب ھے جس میں دوسرے نکاح کے لئے عدل کی شرط رکھی گئ اور فرمایا گیا کہ اگر تم کو خدشہ ھو کہ عدل نہیں کر سکتے تو پھر دوسری شادی کا احسان اسلام پر چڑھانے کی ضرورت نہیں ، وہی ایک ہی کافی ھے ـ
اللہ پاک سے زیادہ کون اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ عورت بھی انسان ہے اور اس میں غیرت کا جذبہ مرد سے زیادہ نہ ھو تو کم ھر گز نہیں ـ اس کا عملی ثبوت یہ ھے کہ گھریلو استعمال کی ایک چیز جس کی آپ کے نزدیک رائی کے دانے برابر اہمیت نہیں ھو گی عورت کے لئے وہ زندگی موت کا مسئلہ بن جاتی ھے ـ آپ کی بہن یا بھاوج کے گھر کوئی پلیٹ ،رکابی چلی گئ اور دو چار دن واپس نہیں آئی تو آپ کو ذرا سی بھی ٹینشن نہیں ھوتی مگر عورت ھر روز دو چار بار اس پلیٹ کا ذکر ضرور کرے گی ، اوراگر شومئ قسمت سے آپ کی بہن نے پھر کسی دن مطالبہ کر دیا کہ مجھے بھی یہ دال بہت پسند ہے ذرا پلیٹ میں ڈال دیں پلیٹ واپس کر دونگی تو خاتون دال دینا تو دور کی بات پچھلی پلیٹ کے فضائل بیان کرنا شروع کرے گی اور کتے جیسی کر کے پھر بچہ ساتھ بھیجے گی کہ یہ پلیٹ بھی اور پچھلی پلیٹ بھی کھڑے کھڑے واپس لے کر آؤ ،، اس قدر Possessive عورت چھ فٹ کا چھاج کسی دوسری عورت کو کیسے ٹھنڈے پیٹوں دے سکتی ھے ـ اس کے لئے مرد کا دوسری عورت سے شرعی ازدواجی تعلق بھی زنا کے برابر ھراس کرنے والا ھوتا ھے ، اور وہ مرد کو پلید ہی تصور کرتی ہے ـ لونڈی سے ازدواجی تعلق کو جائز قرار دینے کے باوجود صحابہؓ چھپ چھپا کر ہی یہ فریضہ سر انجام دیتے تھے ، ایک صاحب بیوی کو کھیتوں میں کام کرتے چھوڑ کر گھر آ گئے ، بیویوں کی ناک بڑی تیز ھوتی ھے وہ بھی پیچھے ہی گھر پہنچی صاحب فارغ ھو چکے تھے کہ بیوی نے آتے ہی چھری ان کے پیٹ پر رکھ لی ، انہوں نے بہت یقین دلایا مگر وہ خون کرنے کے درپے تھی آخر انہوں نے اس سے کہا کہ دیکھو حالت جنابت میں قرآن پڑھنا تمہیں معلوم ہے ناں کہ گناہ ھے ، اگر میں حالت جنابت میں ھوتا تو کبھی تمہارے سامنے قرآن نہ پڑھتا اس کے بعد انہوں نے کسی جاھلی شاعر کے توحید پر چند شعر تلاوت فرمائے جس سے بیوی کا شک دور ھوا ،، اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا قصہ بیان کر کے توبہ کی کہ میں نے جان بچانے کے لئے بیوی کو اس طرح دھوکا دیا ،مگر اللہ کے رسولﷺ اس طرح کھلکھلا کر ہنس رھے تھے کہ داڑھیں بھی نظر آ رھی تھیں ،، اس کے بعد فرمایا کہ کبھی پھر پھنس جاؤ تو جان بچانے کے لئے اس کی اجازت ہے ـ
اسی طرح ایک عورت نے لونڈی کا دودھ دوہ کر اپنے شوھر کو بکری کے دودھ کے بہانے پلا دیا ، اور پلا کر پھر اس سے کہا کہ آج سے یہ تیری والدہ ماجدہ ہیں ان کے قریب مت جانا ، وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور سارا ماجرا بیان کیا ، جس پر آپ مسکرا دیئے اور فرمایا کہ دودھ سے اسی بچے کی حرمت ثابت ھوتی ھے جو دودھ کو بھوک مٹانے کے لئے پیتا ہے ـ یہ لونڈی سے متعلق واقعات ہیں ، ازواج سے متعلق واقعات چونکہ بڑی ھستیوں سے متعلق ہیں لہذا ان کو جان بوجھ کر کوٹ کرنے سے پرھیز کر رھا ھوں ـ موجودہ دور میں حلقہ جات میں درسِ قرآن دینے والی باجیاں بھی جب اپنے گھر پہ آتی ھے تو کہہ دیتی ہیں کہ درس اپنی جگہ مگر میں یہ کام کبھی نہیں ھونے دونگی ، ڈاکٹر فرحت ھاشمی ایک درس میں عورتوں سے فرمائش کر رہی تھیں کہ وہ اپنے شوھروں کو دو دو شادیاں کرائیں تا کہ معاشرے میں بن بیاھی بچیوں کا مسئلہ حل ھو ، اس پر کسی خاتون نے ان سے کہا کہ آپ اپنے گھر سے بسم اللہ کیوں نہیں کرتیں ؟ تو کھسیا کر بولیں کہ میرے شوھر دوسری کرتے ہی نہیں ، اس پر خواتین نے کہا کہ ہمارے شوھروں نے کیا آپ کو ٹیلگرام بھیجی ہے کہ ہم نے دوسری شادی کرنی ہے ؟
سماجی طور پر دوسری شادی کے نتیجے میں پہلی بیوی اور پہلی اولاد دونوں مرد سے بدظن ھو جاتے ہیں ـ بیوی نہ صرف خود بدتمیز اور خودسر ھو جاتی ھے اولاد کو بھی اسی لائن پر چڑھا دیتی ھے اور پھر خون خون سے ٹکرا جاتا ھے ، اولاد منافق ھو جاتی ھے ، وہ نہ ماں کی بنتی ھے اور نہ باپ کی لہذا پڑھنے لکھنے سے بھی فارغ ہی ھو جاتی ھے الا ما شاء اللہ ، پہلی بیوی کی طرف سے تلخی کے نتیجے میں شوھر دوسری بیوی کی طرف زیادہ مائل ھوتا جاتا ھے یوں بے انصافی شروع ھو جاتی ھے ۔ انصاف کا حکم ہی پہلی بیوی کی تلخی کو سامنے رکھ کر دیا گیا ھے ،کہ اگر تجھ میں اس کی تلخی کے باوجود اس کےحقوق پورے کرنے کا یارا نہیں تو پھر دوسری مت کرو ـ وظیفہ زوجیت کا تعلق انسان کے موڈ اور ذھنی ہم آہنگی کے ساتھ ھوتا ھے ، ایک پھنکاریں مارتی عورت کے قریب بھلا بندہ جائے گا ہی کیوں ؟ یہاں سے نئی قباحت کے دروازے کھلتے ہیں ـ دوسری جانب دوسری بیوی بھی تو عورت ہی ہوتی ھے اور اس میں بھی سارے فنکشنز پہلی بیوی والے ھوتے ہیں یعنی وہ بھی Possessive ھوتی ھے لہذا شوھر کو پہلی سے بھڑکائے رکھتی ھے ، اگر شوھر جھوٹ موٹ اس سے کہے کہ پہلی کو تو دیکھنے پر بھی میرا دل نہیں کرتا اور پھر وہ کسی دن اس کو دوسری کے پاس بیٹھے باتیں کرتے دیکھ لے تو وھیں سے آواز دیتی ھے ’’ شاواشئ منافقا ،، مجھے کہتے تھے اس کو دیکھنے کا دل نہیں کرتا ،، اس کے بعد بندہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا رھتا ہے ـ
دونوں بیویوں کی اولاد بھی ایک دوسرے سے نفرت کرتی ھے اور آگے چل کر یہ نفرت بڑے گہرے اثرات مرتب کرتی ھے ، حضرت یوسف کے بھائی ان کے سوتیلے بھائی تھے یعنی دوسری ماں سے تھے لہذا وہ ان کو جان سے مارنے پر آ گئے تھے مجرد اس بات پر کہ ابا جی یوسف اور بن یامین کے ساتھ ہم سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں ، پھر حضرت یعقوب علیہ السلام اور ہوسف علیہ السلام ، ان کی بہن زینب سلام اللہ علیہا چالیس سال جس عذاب سے گزرے اس کے پیچھے یہی دوسری شادی اور سوتیلے بھائی تھے ، اگر حالات کو مثبت اینڈ تک پہنچایا ھے تو اللہ پاک نے پہنچایا ھے یہانتک کہ پورا قبیلہ اپنا مادر وطن چھوڑ کر مصر شفٹ ھو گیا ، پھر مصریوں سے جان چھڑانے کے لئے موسی علیہ السلام کے بھی چالیس سال خرچ ھو گئے اور صحرائے تیہہ میں اس در بدری کی حالت میں اس طرح فوت ھوئے کہ ان کی قبر تک نامعلوم ہے ،یعنی پوری پوری قومیں اس چکر میں پھنس گئیں اور صدیوں تک مسائل حل نہ ھوئے ـ
دوسری شادی والا بہت جلد بیماریوں کا گھر بن جاتا ھے اور زندگی کی شمع کو دونوں اطراف سے آگ دکھا دیتا ھے ، مرنے کے بعد بھی اس کو سکون نصیب نہیں ھوتا کیونکہ بیوائیں اور بچے اس کے مرنے کے بعد بھی تراوڑی کی جنگ جاری رکھتے ہیں ـ بقول شاعر ؎
چھوڑ کر تُو مر گیا ہے ایک درجن نونہال !
بیوہ کیسے ان یتیموں کی نگہبانی کرے ؟
جس طرح جلتی ھوں میں، تُو بھی سدا جلتا رہے !
آسماں لحد پہ تیری آتش فشانی کرے !!