تقوے کا ہیضہ ـ از قاری حنیف ڈار
گنہگاروں کو مار کر دنیا میں برائی مٹانے والی ذھنیت ایسے ہی ہے جیسےڈاکٹر مریضوں کو مار کر مرض ختم کرنے کا دعوی کریں ـ
اللہ پاک نے بھی اپنا آئیڈیل قرآن میں بیان کیا ھے ، اور وہ ھے انسان اور اس کی ساری صفات بیان فرمائی ھیں جو اسے مومن میں پسند ھیں ،، پورا قرآن ان صفات سے بھرا پڑا ھے ،، پھر اللہ کو چند لوگ ایسے مل بھی گئے جو کہ اس کی حسبِ منشا تھے ، اس نے ان کو رضا کے سرٹیفیکیٹ بھی دے دیئے مگر گلہ بھی کر دیا ” و قلیلٓ من عبادی الشکور ” میرے شکر کرنے والے بندے تو بس تھوڑے سے ھی ھیں،، اب سوال یہ ھے کہ کیا ھم اللہ کے آئیڈیل انسان ھیں ؟
نہیں ناں ؟
تو خدا بھی قادرِ مطلق ھو کر ھم پر اکتفا کر رھا ھے ناں ؟ ھمیں مسلمان کے نام پر اپنے ساتھ لئے پھرتا ھے ناں ،،حرم انہی چوروں ، دو نمبر مسلمانوں سے ھی بھرا ھوتا ھے ناں ،، اگر اسے ھم اس حال میں منظور نہ ھوتے تو وہ کب کا ھمیں ھلاک کر چکا ھوتا ،، یاد رکھیں اگر رب کو آئیڈیل مسلمان دستیاب نہیں ھیں تو ھمیں کہاں سے ملیں گے ؟ مگر یہ بات بھی یاد رکھیں کہ آئیڈیل ڈنڈے کے زور پہ نہیں بنائے جاتے ،، ورنہ ڈنڈا چلانا اللہ پاک سے زیادہ کس کو آتا ھے ،، اس نے صاف صاف فرما دیا ھے ” ولوا شاء ربک لآمن من فی الارض کلھم جمیعاً ، أَفانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین ،، اگر آپ کا رب زبردستی کرنا چاھتا تو زمین پر بسنے والے سارے کے سارے اجتماعی طور پر مومن بن جاتے ،پھر جب رب لوگوں کو مجبور نہیں کرتا تو اے نبی کیا آپ لوگوں کو جبراً مومن بنائیں گے ؟
گویا اللہ کی انا کا تقاضہ بھی یہی ھے کہ لوگ خود سوچ سمجھ کر اس کا احسان مانیں اور اس کی تابعداری کریں ،،
جب اللہ دستیاب مسلمانوں پہ گزارہ کر رھا ھے تو ھمیں تقوے کے ھیضے کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ھو کر انسانیت کو لہو لہان نہیں کرنا چاھئے ،بلکہ پیار محبت سے لوگوں کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا چاھئے !