توبہ از قاری حنیف ڈار ،، A surprise Weapon-
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (الاعراف- 13)
نکل یہاں سے تجھے روا نہ تھا کہ تو تکبر کرتا ( تکبر تو مجھے کرنا چاھئے تھا جس نے تجھے بنایا ) پس نکل جا یہاں سے تجھے تیرے تکبر نے چھوٹا بنا دیا ،، اللہ نے آگ والے کو بھی تکبر کے لئے نہیں بلکہ فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا تھا اور مٹی والے کو بھی فرمانبرداری کے لئے بنایا تھا –
وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون – ( الذاریات)
– اللہ پاک نے شریعت ( Do’s & Don’ts ) امتحان کے لئے بنائی ھے –
اب شیطان انسان کو بھی نافرمانی کی پٹی پڑھاتا ھے، آدم علیہ السلام سے ھی اس نے یہ کام کر دکھایا تھا مگر آدم علیہ السلام کی توبہ نے پانسا پلٹ دیا اور قیامت تک پلٹتی رھے گی ، ابن آدم کی بے گناھی اس کا کمال نہیں ، بےگناہ فرشتوں کی موجودگی میں اس کی تخلیق کسی اور ھی مقصد کی طرف اشارہ کرتی ھے ،
توبہ ھی اس کا سب سے بڑا کمال اور شیطان کے لئے سرپرائز ویپن ھے –
انسان کا امتحان گناہ سے نہیں توبہ سے کیا گیا ھے ، یہ وہ بات ھے جو ابلیس سمجھ نہ سکا ،
خطا ابلیس کی بھی مثلِ آدم معاف ھو جاتی-
اگر کمبخت کہہ دیتا، یہ مٹی کی مورت بڑی چیز ھے-
مسلم شریف کی حدیث میں یہی حقیقت عیاں کی گئی ھے کہ ،،
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ھے اگر تم گناہ نہ کرو اور پھر توبہ نہ کرو تو اللہ تمہیں مٹا ڈالے اور ان کو لائے جن سے خطا ھو پھر وہ توبہ کریں اور اللہ ان کو معاف کرے –
وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللہُ بِکُمْ وَلَجَآءَ بِقَوْمٍ یُّذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ َیَغْفِرُ لَھُمْ (مسلم)
ایک خاتون فرماتی ہیں مجھے شک ھے کہ میری دعا قبول نہیں ھوتی ، وجہ یہ ھے کہ بار بار میرے گناہ میرے سامنے آ جاتے ہیں ،،
عرض کیا کہ جب بندے کو اپنے گناھوں سے ڈر لگنا شروع ھو جاتا ھے ، اور وہ اپنے گناہوں پر پچھتاتا ھے تو اللہ پاک اس کے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے ، (( إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رحیما ـالفرقان ـ ۷۰) اس لئے وہ گناھوں کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان کبھی حائل نہیں ھونے دیتا ـ اپنے گناھوں سے ڈر کر بڑے مگرمچھ پاپیوں کے چنگل میں پھنسنے کی بجائے اپنے رب سے حسن ظن رکھنا چاھیے۔