جمع قرآن کا فسانہ ، مقاصد و عواقب ۔۔۔ ؟ ““۔۔۔ قاری حنیف ڈار
جمع قرآن کا فسانہ ، مقاصد و عواقب ۔۔۔ ؟ ““
مقدمہ قرآن میں بڑے مدلل انداز سے یہ بات ثابت کی گئی کہ قرآن رسول عربی کے دور مبارک میں ہی آپ ﷺ کی زیرِ نگرانی ترتیب پا کر اُمت کے لئے کتابی صورت موجود تھا ۔۔
۔
جبرائیل کے بعد انسانوں میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے پہلے حافظ تھے اور آپ نے اسے کتابی شکل میں ویسے ہی ترتیب دیا جس طرح یہ نازل ہوتا تھا ۔۔۔۔ اور اس کی ترتیب وحی کے وقت ھی جبرائیل بتا دیتے تھے کہ کس سورت میں کس جگہ رکھنا ھے لہذا ترتیبِ نزولی والے کسی قرآن کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا تھا ،، ترتیب لوح محفوظ والا قرآن ھی ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر مرتب ھو رھا تھا ،جسے ھجرت کے بعد مدینہ منتقل کیا گیا اور مسجد نبوی میں اس جگہ ایک صندوقچے میں رکھ دیا گیا جہاں اسطوانہ مہاجرین ھے ، یہ اسطوانہ المصحف کہلاتا تھا جہاں اسے اس لئے رکھا گیا تھا کہ انصارِ مدینہ اس میں سے مکہ میں نازل ھونے والی 86 سورتوں کو اپنے اپنے مصحف میں درج کر لیں ،جب انصار کا کام مکمل ھوا تو نبئ کریمﷺ کے حکم کے مطابق تمام صحیفے نماز میں ھاتھ میں پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے کاؤنٹر چیک سے گزرے ،جس سے آج بھی لوگ استدلال کر کے جماعت میں امام کے پیچھے اپنے اپنے قرآن پکڑے حرم میں امامِ کعبہ کے پیچھے کھڑے نظر آتے ھیں ،، انصار کے لکھ لینے کے بعد یہ صحیفہ جسے ” الاُم ” یا الامام ” کہتے تھے اٹھا کر حضرت حفصہ کے حجرے میں منتقل کر دیا گیا جہاں سے منگوا کر تازہ وحی درج کی جاتی اور پھر واپس حجرہ ام المومنین میں واپس کر دیا جاتا ،، یہ قرآن نبی کا تیار کردہ نسخہ تھا ،روایتوں کے زور پر اس مصحف کا تعلق نبی کریم ﷺ سے توڑ کر ابوبکرؓ و عمرؓ کے جمع کردہ قرآن سے جوڑ دیا گیا ھے ،،یہ تھی سازش قرآن کو اس کی اصل سے الگ کرنے کی ، اس کے بعد پھر شیخین رضی اللہ عنھما پر بہتان لگانا آسان ھو گیا کہ انہوں نے قرآن کی ترتیب میں چھیڑ چھاڑ کی ھے اور موجودہ قرآن Man Made ٹائپ چیز ھے جسے ان حضرات نے اپنی اپنی سیاسی پسند و ناپسند سے مرتب کیا ھے ،، بکری کے قرآن کھا جانے والی حدیث تو بالاجماع موضوع ھے ،، قیامت اس حدیث نے ڈھائی ھے جسے امت قوی ترین حدیث ،صحیح ترین کتاب میں مانتی چلی آ رھی ھے ،،
۔
3- بَاب جَمْعِ الْقُرْآنِ
3- بَاب جَمْعِ الْقُرْآنِ (1) .
49866- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ فَكَانَتْ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
49877- حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّأْمِ فِي فَتْحِ إِرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى (2) فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ (3) فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِي شَيْءٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنْ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ (4).
۔۔
ان روایات میں دیکھ لیجئے کہیں نبئ کریم ﷺ کا کوئی کردار پایا جاتا ھے قرآن کی حفاظت کے معاملے میں ؟
یوں لگتا ھے کہ اللہ کے رسول ﷺ انتہائی افراتفری میں سارا قرآن چیتھڑوں کی صورت میں چھوڑ چھاڑ کر چلتے بنے اور اب صحابہؓ ان چیتھڑوں کو اکٹھا کر کر کے مرتب فرما رھے ھیں ،، جب بات صحابہؓ تک پہنچی تو قرآن کی عصمت و حفاظت بھی مشکوک کر دی گئ کیونکہ ایک ھی ھستی معصوم اور اللہ کے ساتھ رابطے میں تھی ،بعد والے تو ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے رھے تو ایک دوسرے کے مرتب کردہ قرآن پر سوال کیوں نہیں اٹھائیں گے ؟ بس فتنے کا یہی بیج بونا چاھتے تھے مدینے کے منافق ،، مگر یہ بھی قرآن کا معجزہ ھے کہ وہ امت جو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز پر متفق نہیں قرآن کے محفوظ ھونے کے عقیدے پہ کوہ ھمالیہ کی طرح ڈٹ کر کھڑی ھے ، یہ میرے خدائے قہار و جبار کی قدرت اور جبروت کا معجزہ ھے کہ جس نے موسی علیہ السلام کے شک میں ھزاروں بچے قتل کرنے دینے والے فرعون کو موسی کو پالنے پہ لگا دیا ،،،
خلاصہ روایت بخاری ،،،
1۔اس روایت میں عبید ابن السباق مجہول النسب راوی شامل ھے جس سے ابن شھاب زھری روایت کر رھا ھے ، ابن شہاب زھری جیسے شخص کا نام آتے ھی ھمارے محدثین کی آنکھوں پر تقدس کی پٹی چڑھ جاتی ھے اور اس کے بعد وہ جو کچھ ان کو کھلا دیتا ھے بلا حیل و حجت کھا لیتے ھیں قرآن جیسی خدا کی حفاظت میں محفوظ کتاب پر وار کرنے کے لئے ایک ایسے شخص کی بات پر اعتبار کر لینا جس کے باپ دادا پردادا کا نام و نسب کسی کو پتہ نہیں ، جس کی سوائے اس روایت کے جو کہ سرے سے جھوٹی اور من گھڑت ھے ، اور دوسری روایت جو مذی سے متعلق ھے جو کہ خلاف عقل ھے ،کوئی تیسری حدیث ذخیرہ حدیث میں نہیں پائی جاتی یہ شخص ھمیشہ اس سے روایت کرتا ھے جو اس کی پیدائش سے پہلے مر چکا ھوتا ھے ،،(عبید ابن السباق پیدائش 50 ھجری بقول امام بخاری در تاریخ کبیر – تاریخ وفات زید بن ثابتؓ 48 ھجری بقول ابن حجر بقلم خود ) اس عبید ابن سباق کواس کی پیدائش سے دو سال پہلے رحمِ مادر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا اور عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس تھے ، جنگ یمامہ کے زمانہ میں اورکہا کہ اے زید یہ عمر میرے پاس آیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنگ میں بہت خونریزی ہوئی ہے اور بہت سے قرآن کے قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ اور جنگوں میں بھِ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے قرآن کا بڑا ذخیرہ یا بہت زیادہ قرآن ضائع ہوجائے گا اس لئے عمر کہتا ہے کہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ قرآن کے جمع کا حکم دیا جائے –تو میں نے عمر کو کہا کہ میں وہ کام کیسے کروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہں کیا تو عمر نے کہا کہ یہ کام بہت ضروری ہے اور بہتر اور خیر ہے اور اس پر اصرار کرتا رہا تاکہ اللہ پاک نے اس معاملہ میں میرا سینہ کھول دیا اور شرح صدر کردیا – زید نے کہا کہ مجھے ابوبکر نے کہا کہ تو نوجوان آدمی ہے اور ہم نے تجھے کسی تہمت میں بھی ملوث نہیں پایا اور تم رسول اللہ کے لئے بھی وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کی تلاش کرو اور پھر اس کو جمع کرو-سو اللہ کی قسم اگر یہ لوگ مجھے پہاڑ کو ادھر ادھر کرنے کو کہتے تو مجھے اتنا بھاری نہ لگتا جتنا یہ جمع القرآن والا کام بھاری ہے- تو میں نے ان کو کہا کہ آپ یہ کام کیسے کع رہے ہو جو رسول نے نہیں کیا تو ابوبکر نے کہا کہ قسم سے یہ اچھا کام ہے اور مجھے بار بار کھتے رہے تاکہ میرا بھی شرح صدر ہوگیا پھر میں جمع قرآن کے پیچھے پڑگیا اور کھجور کے لکڑیوں، ہڈیوں ، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کیا اور مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت نہیں مل رہ تھی آخر وہ صرف ایک ہی صحابی ابو خزیمہ انصاری کے پاس ملیں – یعنی لقد جاءکم رسول من انفسکم سے آخر سورہ تک – پھر یہ جمع کردہ صحیفے ابوبکر کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمر کے پاس اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ بنت عمر کے پاس رہے-
۔
ان روایات پہ اٹھنے والے سوالات
1- عبید ابن سباق حضرت زید بن ثابتؓ کی وفات کے دو سال بعد پیدا ھوا ھے ، امام بخاری اگر ابن شھاب کے تقدس سے ھپناٹائز نہ ھوتے اور ابن شھاب سے آگے اس کے شیخ عبید ابنِ السباق کی حقیقت پر نظر مار لیتے تو اس کے داؤ میں کبھی نہ آتے ، جبکہ خود امام بخاری اپنی تاریخ کبیر میں اس راوی کی پیدائش 50 ھجری اور وفات 118 ھجری 68 سال کی عمر میں لکھتے ھیں تو پھر وہ اپنے پیدا ھونے سے دو سال پہلے 48 ھجری میں فوت ھو جانے والے صحابی سے روایت پر لازم چونک جاتے ،، عجیب تماشہ ھے کہ اس کے ترجمے میں لوگ یہ تو لکھ دیتے ھیں کہ اس نے ام المومنین سے بھی حدیث روایت کی ھے ، جبکہ ساری امھات المومنین اس کی پیدائش سے پہلے یا بچپن میں فوت ھو گئ تھیں ،، ابن عباس روایت کا ذکر ھے مگر اس کی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں جو ابن عباس سے مروی ھو یا امھات المومنین سے مروی ھو ، اس کے ترجمے میں یہ بڑے بڑے نام ڈالنے کا مقصد صرف اس کے شیئر کا گراف بلند کرنا مقصود ھے ، ورنہ بخاری کا راوی ھو اور ایک حدیث بیان کر کے غائب ھو جائے ، اور بعد والے اگر امام بخاری کی عظمت کی پٹی کا ایک کونا اٹھا کر ایک آنکھ سے بھی اس عبید کی حقیقت کی چھان بین کر لیتے تو کبھی قرآن پر ایک کاری وار کا ذریعہ نہ بنتے ۔
22 جب پہلا راوی ھی جھوٹا نکل آیا تو باقی کے راوی سونے کے بن جائیں تب بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں رھتی ، جس پاسپورٹ پہ امریکہ ،برطانیہ ، کنیڈا ، آسٹریلیا کے ویزے لگے ھوں جب وہ پاسپورٹ ھی جعلی نکل آئے تو ویزے خود بخود جعلی ھو جاتے ھیں ،
3- حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے مکے کے 13 سال قرآن لکھنے والوں کو کیوں نہ بلوایا ؟ کیا یہ قرآن کو جمع کرنے کا معاملہ ان دونوں کا ذاتی معاملہ تھا کہ جس میں کسی شوری کی ضرورت انہوں نے محسوس نہیں کی جبکہ اللہ کا صاف حکم موجود ھے کہ ” و امرھم شوری بینھم ،، تعجب کی بات نہیں کہ جن خلفاء کا ٹریک ریکارڈ یہ ھے کہ کوڑوں کی سزا بڑھانی ھو تو شوری بلاتے ھیں – وہ قرآن کو جمع کرنے کے فیصلے ایک کوٹھی میں چھپ چھپ کر کر رھے ھیں ؟ —
4- پھر حضرت زید بن ثابت کیوں ؟ ان سے بڑے انصار کاتبین موجود تھے ،حضرت زید بن ثابت ان بچوں میں شامل تھے جن کو بدر کے قیدیوں نے لکھنا پڑھنا سکھایا تھا ،حضرت زید بن ثابت کو اسی قرآن کی رد و بدل اور جمع تفریق کی حدیث کو مشہور کرنے کے لئے کندھوں پہ بٹھایا گیا ھے جبکہ حقیقت یہ ھے کہ زید بن ثابتؓ کو تقریباً تین سال یعنی سات آٹھ ھجری کے بعد کتابتِ وحی کا موقع ملا ھے اس میں بھی ان کو کبھی کبھار ھی زحمت دی گئ ،ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خود ابوبکرؓ اور عمرؓ جیسے حافظ قرآن کاتبین وحی دستیاب تھے ،حضرت ابئ ابن کعب رضی اللہ عنہ انصار میں سے کاتبِ وحی تھے جو حضرت زید سے بہت بڑے تھے ،
5-زید تم پر کوئی تہمت بھی نہیں ،گویا باقی کاتبین وحی پر خلط ملط کی کوئی تمہت تھی لہذا ان پر ان دونوں کو اعتبار نہیں تھا
6- صرف انچاس آدمیوں کے شھید ھو جانے سے آخر قرآن کے گم ھو جانے کا خدشہ کیا ثابت کرتا ھے کہ قرآن متفرق سینوں میں تھا ،انچاس سینوں میں موجود قرآن چلا گیا ، باقی کو بچانے کی سعی کرو
7-قرآن جمع کرنے والا انہیں نہ صرف ھڈیوں ،درختوں کی چھال ،چمڑے کے ٹکڑوں بلکہ سینوں سے بھی اکٹھا کر رھا ھے لہذا یہ کہنا کہ سب کو سارا قرآن حفظ بھی تھا اس کو غلط ثابت کرنا مقصود ھے ،،
8- اس بے سر و پا روایت کے ذریعے کہ جس کا راوی اس صحابی سے دو سال بعد پیدا ھوا ھے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ نبئ کریم کوئی سرکاری آفیشل قرآن چھوڑ کر نہیں گئے تھے بلکہ وہ جگہ جگہ رُلتا پھر رھا تھا ،،
9- اب مزید وار کیئے جا رھے ھیں تا کہ ثابت کیا جائے کہ سورتیں اور آیتیں خلفاء راشدین نے اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیں ،مثلاً ایک روایت میں کہلوایا گیا کہ جب سورہ توبہ کے آخر والی دو آیات ملیں تو عمؓر نے کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی نئ سورت بنا دیتے مگر چونکہ یہ دو ھیں لہذا ان کو آخری نازل ھونے والی سورت میں رکھ دو ،، گویا عمر و ابوبکر بیٹھ کر آیتوں کی تعداد و ترتیب طے کر رھے تھے
10- حضرت عثمانؓ کے زمانے میں لکھے جانے والے قرآن کے فسانے میں راوی یہ مسالہ ڈالنا نہیں بھولے کہ عثمانؓ نے تین قریشی قاری زید بن ثابتؓ پر مسلط کر دیئے تھے کہ ان کی نگرانی اورمشورے سے قرآن لکھا جائے اور جہاں اختلاف ھو وھاں قریشی قاریوں کو کہا گیا کہ زید کی رائے کو ایک طرف رکھتے ھوئے تم نے اپنے قریش کے لہجے کو ترجیح دینی ھے ،،
تلک عشرۃ کامل