جنات کی حقیقت اور آدم و ابلیس کے قصے پر مکالمہ۔۔ محمد نعیم خان
ایک فورم میں جناب عبدللہ صاحب سے جنات کی حقیقت اور آدم و ابلیس کے قصے پر مکالمہ ہوا . لیکن دوسرے احباب کی دخل اندازی اور عبدللہ صاحب کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مکالمہ آگے نہ بڑھ سکا اور پھر مجھے فورم سے ہی نکال دیا گیا یہ کہ کر کہ میرا رویہ درست نہیں ہے .
وہاں عبدللہ صاحب نے کچھ بے تکے سے سوال کیے میرا استدلال جانے بغیر . یہ جانے بغیر کہ کسی بھی آیت کو سمجھنے کے لیے پورے قرآن کی تعلیمات کو سامنے ہونا چاہیے . قرآن کی بنیادی تعلیم سامنے ہو تو آیت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے .اصل اختلاف اس بات پر تھا کہ کیا جنات کا وجود اب بھی ہے یا نہیں ؟. میرا موقف تھا کہ جنات کی پیدائش انسان سے پہلے کی گی لیکن پھر یہ نوع معدوم ہوگی .
اپنے اس پوسٹ میں میری کوشش ہوگی کہ جیسا میں نے سمجھا ہے اس خیال سے کہ یہ حرف آخر نہیں ہے اور اس میں غلطی کی گنجائش ہے .
١. میرا پہلا استدلال سوره الحجر کی آیت ٢٧ سے جس میں الله کا ارشاد ہے ….
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ﴿٢٧﴾
اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے (2777)
اس میں لفظ مِن قَبْلُ سے میرا استفسار یہ تھا کہ اگر قرآن سے اس لفظ کو دیکھا جاے تو اس نے جہاں جہاں اس لفظ کو استعمال کیا ہے جیسے پچھلے رسولوں کا ذکر ، کسی قوم کا ذکر وغیرہ ، وہاں جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ موجود نہیں ہے .وہ ہلاک ہو چکا ہے یا پھر اپنی موت مر کر اس دنیا سے چلا گیا ہے قرآن اس کو ان ہی معنوں میں لیتا ہے اس ہی طرح جب وہ ایک مختلف نوع کا ذکر کرتا ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اب وہ نوع موجود نہیں ہے . اس کی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کہ جب یہ زمین ایک آگ کا گولہ تھی تو ایسے وقت میں ایسی مخلوق تخلیق کی گی جو ایسے ماحول کے لیے سازگار تھی اور جب زمین ٹھنڈی ہو کر موجودہ شکل کی ہوئی تو پہلی مخلوق معدوم ہوگی اور پھر الله نے ایک نئی مخلوق کی تخلیق کی جس کو اس نے زمین سے سبزے کی طرح اگیا .
اب یہ سوال کہ کیا الله ایسا نہیں کر سکتا کہ ایسی مخلوق بناے جو نظر نہ اے ، جو ایسے ماحول میں رہ لے ، پھر جنّات کا وجود نہ مانے سے فرشتوں اور الله کے وجود پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ان کو پھر بغیر دیکھے کیوں مانا جاے ؟؟؟. ہر چیز دیکھ کر نہیں مانی جاتی . یہ اور اس قسم کے اور بلاوجہ کے سوالات پیدا کرنا . الله کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں یہ زیرے بحث ہی نہیں اس وقت قرآن زیرے بحث ہے کہ وہ ہمیں کیا بتا رہا ہے . اندھیرے میں ایسے تیر چلانے سے سواۓ وقت ضایع کرنے کے اور کچھ نہیں …
پھر عبدللہ صاحب نے ایک کہانی بنائی کہ استاد نے ایک قصہ بیان کیا اس قصہ میں کچھ طالب علموں کو کسی واقعہ کی سمجھ نہیں ای تو اس کو حل کرنے کے لیے انہونے اس واقعہ سے ہی انکار کردیا . سبحان الله . اگر دلیل یہی ہے کہ جو ہم نے سمجھا وہ حرف آخر ہے باقی جو دوسرے نے سمجھا وہ باطل . تو پھر میری دلیل میں کیا کمی ہے ؟؟؟. میں نے جو سمجھا وہ حق اور اپ کا سمجھنا باطل …
٢. دوسرا استدلال میرا آدم و ابلیس کے قصے میں لفظ خلیفہ سے ہے . خلیفہ کا مطلب جانشینی ہے اس کے مزید مطلب میں اقتدار و اختیاربھی شامل ہے . کسی کی موجودگی میں اس کا جانشین نہیں بنا جا سکتا . اس کی عدم موجودگی ضروری ہے . میرے نزدیک انسان اس زمین پر جنوں کا جانشین ہے . جنّات کے بعد اب اس زمین پے خلیفہ انسان کو بنایا گیا ہے جسے انگلش میں successor کہتے ہیں خلیفہ کے لفظ کو سمجھنے کے لیے قرآن کی مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کریں . ان سب میں اپ کو یہی مطلب ملے گا ….
٧:٦٩، ٧:٧٤ ، ٧:١٢٩ ، ٧:١٤٢، ٧: ١٥٠ ، ٧: ١٦٩
١٠ : ٧٣ ، ١١:٥٧ ، ١٩: ٥٩ ، ٢٤: ٥٥ ، ٢٥:٦٢
٣. میرا تیسرہ استدلال سوره الانعام کی آیت ١٢٨ اور ١٣٠ سے ہے . جہاں جن و انس کے لیے لفظ مَعْشَرَ استعمال ہوا ہے . جس کا اطلاق ایک شخص کے اہل پر ہوتا ہے ، اگر یہاں الگ نوع کے جن مراد ہوتے تو ان کو انسانوں کے ساتھ ایک مَعْشَرَ قرار نہیں دیا جاتا .
مَعْشَرَ کے لفظ کو سمجھنے کے لیے قرآن کی آیات ٤:١٩ ، ٩:٢٤ ، ٢٢:١٣، ٢٦:٢١٤٤، ٥٥:٣٣، ٥٨:٢٢ کا مطالعہ کریں .
٤. چوتھا استدلال سوره الانعام کی آیت ١٢٨ سے ہے جس میں اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کے الفاظ اے ہیں . جس کے معنی ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں . انسان تو ایک دوسرے انسان سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن وہ نظر نہ آنے والی ہستیاں انسانوں سے اور انسان ان سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟؟؟؟؟.
٥. پانچواں استدلال سوره الانعام کی آیت ١٣٠ سے ہے جس میں الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ کے الفاظ اے ہیں . جس کے معنی جنوں اور انسانوں کے پاس ان ہی میں سے رسول آے .
اس آیت میں لفظ رُسُلٌ مِّنكُمْ سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جنوں (جو کے ایک الگ نوع ہے ) میں سے جن اور انسانوں میں سے انسان رسول اے اس کی تائید سوره الاحقاف کی آیت ٢٩-٣٣ سے ہوتی ہے ….
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣١﴾ وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٣٢﴾
اورجب ہم نے آپ کی طرف چند ایک جنوں کو پھیر دیا جو قرآن سن رہے تھے پس جب وہ آپ کے پاس حاصر ہوئے تو کہنے لگے چپ رہو پھر جب ختم ہوا تو اپنی قوم کی طرف واپس لوٹے ایسے حال میں کہ وہ ڈرانے والے تھے (29) کہنے لگے اےہماری قوم بیشک ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے ان کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہو چکیں حق کی طرف ا ور سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے (30) اے ہماری قوم الله کی طرف بلانے والے کو مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ وہ تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے گا (31) اور جو الله کی طرف بلانے والے کو نہ مانے گا تو وہ زمین میں اسے عاجر نہیں کر سکے گا اور الله کے سوا اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں (32) کیا انہوں نے نہیں دیکھا جس الله نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے میں نہیں تھکا اس پر قاد رہے کہ مردوں کو زندہ کردے کیوں نہیں وہ تو ہر ایک چیز پر قادر ہے(33)
ان آیات کے الفاظوں پر غور کریں … ان آیات میں لفظ كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ کے اے ہیں . حلانکے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد بہت سے نبی آ چکے تھے لیکن تفصیلی شریعت حضرت موسیٰ کے بعد کسی پر نازل نہیں کی گئی . بنی اسرائیل کو انذار میں قرآن میں یہی الفاظ استعمال ہوے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کوئی نظر نہ آنے والے الگ نوع کی مخلوق نہیں بلکے انسانوں ہی کے گروہ کا ایک حصہ ہے .
پھر اس پر مزید شواہد ان ہی آیات کی ان الفاظ سے ہوتا ہے يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ اس میں الفاظ وَآمِنُوا بِهِ خاص طور پر توجہ طلب ہیں . قرآن میں تمام احکامات انسانوں کے متعلق ہیں اگر اس قرآن پر ایمان لانا ان جنوں کے لیے بھی ضروری ہوتا تو اس میں کچھ نہ کچھ احکامات کی تفصیل ان جنوں کے لیے بھی ہوتی جو کہ قرآن میں نہیں ملتی .
اس پر مزید دلائل اس بات پر ہیں کہ ایک نوع کا رسول دوسرے نوع کے رسول کے لیے حجت نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے حالت ، واقعیات ، معاشرت کا فرق دوسرے سے کہیں زیادہ ہے جس کی تائید اس آیت میں ملتی ہے
قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا ﴿٩٥﴾
کہہ دو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چلتے پھرتے ہوتے تو ہم آسمان سے ان پر فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے (95)
سوره بنی اسرائیل آیت ٩٥
یہ انسانوں کو جواب تھا جب وہ یہ کہتے کہ ان پر کوئی فرشتہ رسول کیوں نہیں اتارا گیا . کیوں کہ الله کی سنت یہی ہے کہ جس نوع کے لیے رسول بھیجتا ہے وہ اس ہی نوع میں سے بھیجتا ہے .
اس پر مزید دلائل روایات ہیں . جن میں حضرت ابن مسعود کی روایات جن میں وہ خود رسول الله کے ساتھ شریک تھے بیان کرتے ہیں اور اس میں جو باتیں مشترک ہیں وہ صرف اس قدر ہیں کہ ایک نفر یا چند آدمیوں کی ایک جماعت تھی جن کے آنے کی خبر رسول الله کو تھی مگر اپ تنہائی میں رات کے وقت ان سے ملے ہیں اور قرآن شریف ان کو پڑھ کر سنایا ہے اور جہاں وہ رہے ہیں وہاں ان کے نشانات اور آگ جلانے کے نشانات بھی ان کے چلے جانے کے بعد بھی ملے تھے اور یہ باہر سے اے تھے اور یہ واقعہ مکہ کا تھا . رسول الله کا مکے سے باہر جا کر ان سے ملاقات کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کوئی غیر مری ہستیاں نہیں تھیں . اگر ہوتیں تو تو پھر مکے میں ملاقات کرنے میں کون سا امر مانع تھا ؟؟؟؟ تنہائی کی ضرورت ہی اس لیے پیش ای کہ کفار انکو تنگ نہ کریں اور پھر ان کے چلے جانے کے بعد ان کے اپنے نشان اور آگ جلانے کے نشان باقی تھے جو انسانوں کو کھانا پکانے وغیرہ کے لیے ضرورت ہوتی ہے . ان پر جن کے لفظ کا اطلاق کیوں ہوا اس کی مفصل بحث اس کے لفظ کی تفصیل میں اے گی انشاللہ .
٦. چھٹا استدلال اس لفظ جن سے ہے . جن کے لفظی معنی وہ شے جو نظروں سے اوجھل ہو ، چھپی ہوئی ہو ، قرآن میں اس کو اصطلاحی اور لغوی دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے . عرب ملائکہ کو بھی جن کہتے تھے کیوں کہ وہ نظر نہیں آتے اور نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں . اس ہی طرح ہمارا نفس ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے نظر نہیں اتا اس لیے اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے
عربوں کے ہاں یہ عقیدہ مشہور تھا کہ ملائکہ الله کی بیٹیاں ہیں اور اس کو قرآن نے متعدد آیات میں بیان کیا ہے . جیسے سوره النساء آیات ١١٧ . سوره النحل آیت ٥٧ – ٥٨ ، بنی اسرائیل آیت ٤٠ ، سوره الزخرف آیات ١٦ تا ١٩ ، النجم کی آیات ٢١ تا ٢٧ .
سوره الصفات کی آیت ١٥٨٨ میں ملائکہ کے لیے لفظ الجنه آیا ہے جو اس کے لغوی معنوں میں ہے کیوں کہ ملائکہ بھی پوشیدہ مخلوق ہے . آیت ملاحظہ ہو …
وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا ۚ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿١٥٨﴾
اِنہوں نے اللہ اور ملائکہ کے درمیان نسب کا رشتہ بنا رکھا ہے، حالانکہ ملائکہ خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ مجرم کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں (158)
اس آیت کا سیاق و سباق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیا جاے جس کی تائید قرآن کے دوسرے مقامات سے ہوتی ہے . اس پے مزدیک دلائل سوره الانعام کی آیت ١٠٠ ہے جہاں ملائکہ کے لیے لفظ جن استعمال ہوا ہے
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٠٠﴾
اِس پر بھی لوگوں نے ملائکہ کو اللہ کا شریک ٹھیرا دیا، حالانکہ وہ اُن کا خالق ہے، اور بے جانے بوجھے اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کر دیں، حالانکہ وہ پاک اور بالا تر ہے اُن باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں (100)
اس لیے قرآن میں ایک لفظ اپنے اصطلاحی اور لغوی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس ہی طرح دوسرے الفاظ جن میں رسول ، ملائکہ وغیرہ شامل ہیں اصطلاحی اور لغوی دونوں معنوں استعمال ہوے ہیں ..
٧. ساتھواں استدلال حضرت آدم کی پیدائش ہے . اگر آدم و ابلیس کے قصے میں آدم کو وہ پہلا انسان مانتے ہیں تو پھر اس پے بہت سے سوالات اٹھتے ہیں جن کے جوابات دے بغیر اس کو حل نہیں کیا جا سکتا .
جب میں نے یہ اعتراض اٹھایا اور اس کے حق میں سوره الاعراف کی آیت ١١١١ لگائ جو کہ یہ ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿١١﴾
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا (11)
جب یہ آیت پیش کی اور یہ بتایا کہ سوره نوح کی آیت ١٧ پیش کی کہ الله نے آدم کا بت بنا کر اس میں روح نہیں پھونکی تھی بلکے سبزے کی طرح زمین سے اگیا تھا .
وَاللَّـهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ﴿١٧﴾
اور اللہ نے تمہیں سبزے کی طرح زمین سے اُگایا (177)
اس پر عبدللہ صاحب نے یہ آیت پیش کی
إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٣٣﴾
بیشک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آ ل اولاد اور عمران کی آ ل کو سارے جہاں سے (33)
جب اس پر میں نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں تو لفظ چنا آیا ہے جو کسی ایک انسان پر اطلاق نہیں ہوتا جب کے ہمارے پاس سوره الاعراف کی آیت ١١ دلیل کے طور پر موجود ہے کہ زمین پر انسان کی پیدائش کا سلسلہ مختلف حصوں سے شروع ہوا ایک نہیں کئی آدم وجود میں اے اور اس ہی عمل سے ان کی زوج بھی بنائی . اس تشریح کے بعد یہ آیت صحیح قرار پاتی ہے جو عبدللہ صاحب نے پیش کی کہ آدم کو نبوت کے لیے چن لیا . اس پر عبدللہ صاحب کا یہ کہنا کہ یہ کوئی امریکا کا الیکشن تو نہیں ہے کہ اس میں امیدوار چنے جائیں .
اس پر مزدیل دلیل یہ ہے کہ نبوت کے لیے قوم کا ہونا لازمی ہے ورنہ ایک اکیلا انسان کو نبوت و رسالت کے منصب پے فائز کرنا علم و حکمت دونوں کے خلاف ہے . اس لیے اس واقعہ کو تمثیلی انداز قرار دینے میں ایک نہیں بہت سے شواہد قرآن سے ہی موجود ہیں .
پھر اس پر ایک اور آیت جس کا ذکر قرآن میں آدم اور ابلسس کے قصے میں بیان ہوئی ہے جس میں شیطان آدم کو ابدی زندگی اور لازوال سلطنت کا لالچ دیتا ہے . سلطنت یا بادشاہی بغیر کسی عوام کے ؟؟؟؟؟؟. حیرت سے زیادہ کچھ نہیں …
٨. آٹھواں استدلال آدم و ابلیس کے قصے میں ملائکہ کا آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے ہے . جب حکم ملائکہ کو دیا گیا تو پھر اس کی نافرمانی بھی ملائکہ نے ہی کی . اب کیوں کہ یہاں ملائکہ کو صرف فرشتے ہی تسلیم کیا گیا ہے . اس کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں لیا گیا اس لیے اس بات کی تاویل کرنی پڑی کہ حکم تو ملائکہ کو دیا گیا تھا لیکن اس میں جن بھی بلواسطہ شامل تھا . اب یہ جن کہاں سے آیا اس کی کوئی تفصیل قرآن میں نہیں ملتی . اب چونکے ایک آیت میں ابلیس کو جن قرار دیا گیا اس لیے یہاں بھی جن کے وہی معنی لیے گے جو عام ذہنوں میں ہے . اس کے لغوی معنوں نہیں لینا اس سارے قصے کو سمجھنے میں سہو ہے . جب کہ میں اوپر اپنے بیان میں یہ ثبوت پیش کر چکا ہوں کہ قرآن ایک لفظ کو اصطلاحی اور لغوی دونوں معنوں میں استعمال کرتا ہے اور اس کی مثالیں بھی قرآن سے ہی دی ہیں .
اس کے علاوہ اس قصے میں سجدہ بھی صرف وہی لیا ہے جو عام ذہنوں میں ہے کہ جو ہم خدا کے آگے کرتے ہیں . جب کہ قرآن میں ایک واضح آیت موجود ہے کہ اس کائنات کی تمام چیزیں انسان کے لیے مسخر کر دی گیں ہیں . آج انسان انہی کو اپنے سامنے جھکا کر ان سے ترقی کرتا ہوا آج یہاں تک پہنچا ہے .
عبدللہ صاحب کا یہ بھی کہنا کہ میں ملائکہ کو فرشتے نہیں سمجھتا بلکے طبی قوانین ہیں اور جن انسان کے دل کا حال ہے . جب ان سے اس بات کا جواب مانگا کہ کوئی کمنٹ پیش کریں جہاں یہ بات کی گئی ہو تو اس پر بھی خاموشی اختیار کی گی .
اس پر مزید دلائل ہیں لیکن یہ اتنا مفصل ٹوپک ہے کہ اس کو جتنا اختصار سے پیش کیا جاے بہت سے گوشے ایسے ہیں کہ جو تشنہ رہ جاتے ہیں .
یہ مضمون حرف آخر ہر گز نہیں لیکن اندھیرے میں تیر چلانے سے بھی گریز کیا جاے . صرف یہ کہنا کہ الله ایسا کیوں نہیں کرسکتا ، ویسا کیوں نہیں کرسکتا علمی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتا . وللہ و عالم
جنات کی حقیقت حصہ دویم : عبد اللہ صاحب کا جواب اور اس پر مزید جواب :
١. میرا پہلا استدلال سوره الحجر کی آیت ٢٧ سے جس میں الله کا ارشاد ہے ….
وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ ﴿٢٧﴾
اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے (277)
>>>اس میں لفظ مِن قَبْلُ سے میرا استفسار یہ تھا کہ اگر قرآن سے اس لفظ کو دیکھا جاے تو اس نے جہاں جہاں اس لفظ کو استعمال کیا ہے جیسے پچھلے رسولوں کا ذکر ، کسی قوم کا ذکر وغیرہ ، وہاں جس کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ موجود نہیں ہے .وہ ہلاک ہو چکا ہے یا پھر اپنی موت مر کر اس دنیا سے چلا گیا ہے قرآن اس کو ان ہی معنوں میں لیتا ہے اس ہی طرح جب وہ ایک مختلف نوع کا ذکر کرتا ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اب وہ نوع موجود نہیں ہے . <<<
_____________________________________________________________________________
من قبل کا سادہ سا مطلب یہ ہے ‘اس سے پہلے’- اب اگر اس لفظ کو پچھلے رسولوں یا پچھلی قوموں کے ساتھ استعمال کیا جاے گا تو اس کا لازمی مطلب یہی ہو گا کہ مذکورہ قوم اور رسول اب موجود نہیں ہیں- یعنی ‘من قبل’ کے الفاظ میں کوئی ایسا داخلی قرینہ نہیں ہیں جو کسی بھی رسول یا قوم یا شے کے ساتھ لگ جائیں تو معدوم ہو جاتی ہیں بلکہ معدوم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس چیز کی نوعیت کو دیکھ کر کیا جاے گا- اب اگر یہی الفاظ جنات کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے تو جنات چونکہ (ہمارے فہم کے مطابق) ایک موجود مخلوق ہے لهذه محض من قبل کا استعمال انھیں معدوم نہیں بناتا- ذیل میں میں دوبارہ چند مثالیں پیش کرتا ہوں جن سے یہ ظاہر ہے کہ ‘من قبل’ کا استعمال ہونے کے باوجود مذکورہ شے معدوم نہیں ہوتی-
مثال نمبر 1
Surah: 4 Ayat: 94
يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا
اے ایمان والو! جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں تم چاہتے ہو اسباب دنیا کی زندگی کا سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے پہلے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا سو اب تحقیق کر لو بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
مثال نمبر 2
Surah: 33 Ayat: 15
وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ وَكَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسُْوْلًا
اور اقرار کر چکے تھے اللہ سے پہلے کہ نہ پھیریں گے پیٹھ اور اللہ کے قرار کی پوچھ ہوتی ہے
مثال نمبر 3
Surah: 12 Ayat: 100
وَرَفَعَ اَبَوَيْهِ عَلَي الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَه سُجَّدًا وَقَالَ يٰاَبَتِ هٰذَا تَاْوِيْلُ رُءْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّيْ حَقًّا وَقَدْ اَحْسَنَ بِيْ اِذْ اَخْرَجَنِيْ مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ اِنَّ رَبِّيْ لَطِيْفٌ لِّمَا يَشَاءُ اِنَّه هُوَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ١٠٠
اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر اور سب گرے اس کے آگے سجدہ میں اور کہا اے باپ یہ بیان ہے میرے اس پہلے خواب کا اس کو میرے رب نے سچ کر دیا٨ اور اس نے انعام کیا مجھ پر جب مجھ کو نکالا قید خانہ سے اور تم کو لے آیا گاؤں سے بعد اس کے کہ جھگڑا ڈال چکا تھا شیطان مجھ میں اور میرے بھائیوں میں میرا رب تدبیر سے کرتا ہے جو چاہتا ہے بے شک وہی ہے خبردار حکمت والا ف
مثال نمبر 4
Surah: 62 Ayat: 2
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِه وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ
وہی ہے جس نے اٹھایا ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں کا پڑھ کر سنایا ہے ان کو اس کی آیتیں اور ان کو سنوارتا ہے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور عقل مندی اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھےصریح بھول میں ف
مثال نمبر 5
Surah: 12 Ayat: 77
قَالُوْا اِنْ يَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّه مِنْ قَبْلُ فَاَسَرَّهَا يُوْسُفُ فِيْ نَفْسِه وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ قَالَ اَنْتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَصِفُوْنَ
انھوں نے کہا اگر یہ چوری کرے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ اس سے پہلے اس کا ایک بھائی بھی چوری کر چکا ہے۔ یوسف نے اس بات کو اپنے دل ہی میں رکھا، اس کو ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ دل میں کہا تم خود ہی بدقماش لوگ ہو۔ اور جو کچھ تم بیان کر رہے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
مثال نمبر 6
Surah: 52 Ayat: 28
اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلُ نَدْعُوْهُ اِنَّه هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيْمُ
ہم پہلے سے پکارتے تھے اس کو بے شک وہی ہے نیک سلوک والا مہربان ہے
آپ نے مزید لکھا:
“ یہ زمین ایک آگ کا گولہ تھی تو ایسے وقت میں ایسی مخلوق تخلیق کی گی جو ایسے ماحول کے لیے سازگار تھی اور جب زمین ٹھنڈی ہو کر موجودہ شکل کی ہوئی تو پہلی مخلوق معدوم ہوگی اور پھر الله نے ایک نئی مخلوق کی تخلیق کی جس کو اس
نے زمین سے سبزے کی طرح اگی”
جاوید صاحب کے نزدیک پہلے مرحلے پر انسان کی تخلیق اس زمین کے پیٹ سے ہوئی ہے- پہلے مرحلے میں جنوں کی تخلیق بھی بلکل اسی اصول پر اسی زمین کی آگ سے ہونا ایک ممکن بات ہے- لیکن جس طرح انسان دوسرے محلے میں براہ راست زمین سے نہیں اگتا اسی طرح آگ کا ٹھنڈا ہو جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اب جنات معدوم ہو چکے ہیں- آپ کا قیاس ایک عقلی قیاس ہے اگر اس کو قرآن سے ثابت ہونا ہے تو ‘من قبل’ والی دلیل کافی نہیں ہے
___________________________________________
<<<خلیفہ انسان کو بنایا گیا ہے جسے انگلش میں successor کہتے ہیں خلیفہ کے لفظ کو سمجھنے کے لیے قرآن کی مندرجہ ذیل آیات کا مطالعہ کریں . ان سب میں اپ کو یہی مطلب ملے گا ….
٧:٦٩، ٧:٧٤ ، ٧:١٢٩ ، ٧:١٤٢، ٧: ١٥٠ ، ٧: ١٦٩
١٠ : ٧٣ ، ١١:٥٧ ، ١٩: ٥٩ ، ٢٤: ٥٥ ، ٢٥:٦٢>>>
______________________________________
ان آیات کے مطا لعے سے ہمارے فہم کی حد تک یہ بات مبرہاً نہیں ہوتی کہ انسان جنوں کا جا نشین ہے- آپ کو چاہیے کہ ایک ایک آیت کو موضوع بنا کر سمجھا دیجیے- مثال کے طور پر آیت ٢:٣٠ لفظ ’خَلِیْفَۃً‘ استعمال ہوا ہے ۔ سورۂ ص (۳۸) کی آیت ۲۶ سے واضح ہے کہ یہ جس طرح نائب اور جانشین کے معنی میں آتا ہے ،اِسی طرح نیابت اور جانشینی کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض صاحب اقتدار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ صاحب اقتدار ہی کے معنوں میں فرشتوں نے بھی آگے جا کر انسان کے بارے میں اِس اندیشے کا اظہارکیا کہ یہ اپنے اقتدار کا غلط استعمال کر کے فساد بھی کر سکتا ہے۔ اُنھوں نے محسوس کیا کہ جب ایک صاحب اختیار مخلوق کو زمین کی بادشاہی دی جائے گی تو اقتدار پا کر وہ بہکے گی اور اِس بہکنے کا نتیجہ لازماً خوں ریزی اور فساد کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اس زاویہ سے جاے تو اس بات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ یہاں انسان کو جنوں کے پیچھے آنے والی مخوق کے طور پر خلیفہ قرار دیا جا رہا ہے
____
<<<اگر یہاں الگ نوع کے جن مراد ہوتے تو ان کو انسانوں کے ساتھ ایک مَعْشَرَ قرار نہیں دیا جاتا .>>>
اس قانون کا ماخذ کیا ہےکہ ایک الگ نوع کو انسانوں کے ساتھ ایک مَعْشَرَ قرار نہیں دیا جاتا ؟- ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف قرآن کی تعبیر پر ہو رہا ہے اور قران میں دو چار سے زیادہ مخلوقات کا ذکر چونکہ بیان نہیں ہوا اس لئے مثال عربی زبان سے دجیۓ گا- اس آیت کی تفسیر میں اصلاحی و غامدی نے آیت کا مدعا تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:
میں انتہائی اختصار کے ساتھ اہم نکات پیش کرتا ہوں:
’وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا‘۔ ’ھم‘ سے مراد وہی اکابر مجرمین ہیں جن کا ذکر آیات ۱۲۳۔۱۲۴ میں گزرا اور ’جَمِیْعا‘ کی تاکید اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ شیاطین انس کے ساتھ ساتھ وہ شیاطین الجن بھی جمع کیے جائیں گے جن کے القا و الہام کی انھوں نے پیروی کی، جیسا کہ اوپر آیت ۱۱۲ سے ان کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ ان سب کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کر کے شیاطین الجن کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ
’یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ‘
(اے جنوں کے گروہ تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا)
ظاہر ہے کہ یہاں ’جنوں کے گروہ‘ سے مراد جنوں کی پوری امت نہیں ہے بلکہ ان کے اندر کا وہی گروہ مخاطب ہے جس نے اپنے مرشد و پیشوا ابلیس کی پیروی کی جو خود بھی، جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے، جنوں ہی میں سے تھا اور جس نے آدم کو دھوکا دیا اور سجدے کے حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے بڑے فخر سے دعویٰ کیا تھا کہ
یعنی سب کو اکٹھا کرے گا، خواہ وہ انسانوں میں سے تھے یا جنوں کے اشرار و شیاطین میں سے جو انسانوں کو اپنی خرافات القا کرتے رہے، جیسا کہ اوپر آیت ۱۱۲ میں بیان ہوا ہے۔
یہ ابلیس کے اُس قول کی طرف نہایت لطیف تلمیح ہے جس کا ذکر قرآن کے دوسرے مقامات میں ہوا ہے کہ آدم کی ذریت میں سے بہت تھوڑے میری تاخت سے محفوظ رہیں گے اور پروردگار، تو اِن میں سے اکثر کو اپنا شکرگزار نہ پائے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’…یعنی اللہ تعالیٰ ابلیس کے اِن فرزندان معنوی کو خطاب کرکے فرمائے گا کہ تم نے تو اپنے پیشوا ابلیس کا مشن بڑی کامیابی سے پورا کیا کہ ذریت آدم میں سے بہتوں کو اپنے فتراک ضلالت کا نخچیر بنا لیا اور بڑی سعادت مند نکلی یہ اولاد آدم کہ سادہ لوحی کے ساتھ تمھارے دام فریب میں پھنس گئی۔‘‘ (تدبرقرآن۳/ ۱۶۳)
<<<<<<<<<<٤. چوتھا استدلال سوره الانعام کی آیت ١٢٨ سے ہے جس میں اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کے الفاظ اے ہیں . جس کے معنی ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں . انسان تو ایک دوسرے انسان سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن وہ نظر نہ آنے والی ہستیاں انسانوں سے اور انسان ان سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟؟؟؟؟.>>>>>>>>>>>
سیاق سباق کی رعایت سے یہ بات واضح رہے کہ یہاں ’جنوں کے گروہ‘ سے مراد جنوں کی پوری امت نہیں ہے بلکہ ان کے اندر کا وہی گروہ مخاطب ہے جس نے اپنے مرشد و پیشوا ابلیس کی پیروی کی جو خود بھی، جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے، جنوں ہی میں سے تھا اور جس نے آدم کو دھوکا دیا اور سجدے کے حکم کی تعمیل سے انکار کرتے ہوئے بڑے فخر سے دعویٰ کیا تھا- ’اس سے پہلے وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا‘میں ’ھم‘ سے مراد جن و انس کے اکابر مجرمین ہیں-
اوپر کی وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ یہاں فوائد سے مراد یہ ہے کہ اُنھوں (جنوں) نے ہماری عبادت، نیاز مندی اور نذروں اور قربانیوں کے مزے لیے اور ہمارے (یعنی ساحروں، کاہنوں اور سیانوں نے اپنے پیش نظر مقاصد کے لیے اُن کو طرح طرح سے استعمال کیا۔ چنانچہ جن و انس، دونوں ایک دوسرے سے حظ اٹھاتے رہے
_____________
<<<٥. پانچواں استدلال سوره الانعام کی آیت ١٣٠ سے ہے جس میں الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ کے الفاظ اے ہیں . جس کے معنی جنوں اور انسانوں کے پاس ان ہی میں سے رسول اے .
اس آیت میں لفظ رُسُلٌ مِّنكُمْ سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جنوں (جو کے ایک الگ نوع ہے ) میں سے جن اور انسانوں میں سے انسان رسول اے اس کی تائید سوره الاحقاف کی آیت ٢٩-٣٣ سے ہوتی ہے …>>>
________________________
آپکا پانچواں استدلال ہماری راے میں اس بنیادی غلط فہمی پر مبنی ہے کہ انسانوں کے رسول جنوں کے بھی رسول تھے- اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لئے اور طول کلام سے بچنے کے لئے آپ کو مندرجہ ذیل لنک اٹیچ کر رہا ہوں:
http://www.understanding-islam.com/…/regarding-the…
http://www.understanding-islam.com/…/further…
جوابات میں دے گئے نکات کو پڑھنے کے بعد ہماری راے میں وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتے جو آپ نے استدلال نمبر ٥ میں اٹھائے ہیں- آپ نے ایک روایت بھی پیش کی ( معلوم نہیں آپ نے وہ روایت پیش کیوں نہیں کی جس میں ایک جن نے رسول الله سے ملاقات کی اور اپنے آپ کو ابلیس کی نسل سے قرار دیا) اور لکھتے ہیں:
"رسول الله کا مکے سے باہر جا کر ان سے ملاقات کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کوئی غیر مری ہستیاں نہیں تھیں . اگر ہوتیں تو تو پھر مکے میں ملاقات کرنے میں کون سا امر مانع تھا ؟؟؟؟””
یہ استدلال بھی حیران کن ہے- یعنی اگر ملاقات جن سے ہوتی تو ہر حال میں رسول الله غار ہر کی طرف نہ جاتے (یعنی مکّہ میں رہتے)- یہ کہاں لکھا ہے کہ جنوں سے ملنا ہے تو غار سے باہر ہی ملنا پڑے گا- آپ نے سوچا ہو گا کہ جن تو غیب میں ہوتے ہیں تو اوپن ایئر میں ان سے ملاقات کیوں نہیں ہو سکتی تھی- بھائی اگر کوئی جن آپ سے پرائیویسی کا تقاضہ کرے تو آپ اس کو یہ دلیل دیں گے کہ میرے ساتھ آپ کو نہیں دیکھ رہے چنانچے آپ اپنی بات مکمّل کریں- کیا جنوں کے ساتھ کی جانے والی گفتگو بھی غیب میں ہوتی ہے؟؟
آپ نے لکھ
"”اس آیت کا سیاق و سباق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی اور مطلب لیا جاے جس کی تائید قرآن کے ا دوسرے مقامات سے ہوتی ہے "”
سباق کا لفظ استعمال کر لیا ہے تو اس کو دیکھ بھی لیتے- آیت ١٣٧ میں مشرکین کے اس گھنونے عقیدے کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے جنوں سے متعلق قائم کر رکھا تھا- ان کے شرکیہ عقائد ہر گز فرشتوں تک محدود نہ تھے- اہل عرب جن چیزوں کو خدا کا شریک مانتے تھے اس میں ملائکہ، جنات، کواکب سب ہی شامل تھے۔ لیکن یہاں سب سے پہلے جنات کا ذکر کر کے قرآن نے شرک کے انتہائی گھنونے پن کو واضح کیا ہے کہ کہاں خدا کی وہ شانیں جو بیان ہوئیں اور کہاں ان بوالفضولوں کی یہ بوالفضولی کہ پیپل تلے کی بھتنی اور شیطان کو بھی خدا کا شریک بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ اہل عرب جنات کی پرستش اسی قسم کے تصورات کے تحت کرتے تھے جس قسم کے تصورات کے تحت عام طور پر حال کی مشرک قومیں بھوت پریت کی پرستش کرتی ہیں۔ فلاں دادی کا جن، فلاں درخت کی بھتنی، فلاں ٹیلے کا بھوت، اس قسم کے توہمات ان کے اندر پھیلے ہوئے تھے اور عام طور پر ان کی آفتوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان کو چڑھاوے، نذریں، قربانیاں پیش کی جاتیں اور ان کی جے پکاری جاتی۔ بعض جن تو اتنے خطرناک سمجھے جاتے کہ ان کو راضی رکھنے کے لیے، جیسا کہ آگے آیت ۱۳۷ کے تحت ذکر آئے گا، اولاد تک کی قربانی کی جاتی۔ غالباً یہ ظالمانہ حرکت وہ لوگ کرتے رہے ہوں گے جو اس وہم میں مبتلا ہوتے ہوں گے کہ اگر فلاں جن کو خوش کرنے کے لیے اپنے کسی بیٹے کی قربانی نہ دی تو ان کی ساری اولاد کو تباہ کر دے گا۔ اس قسم کا وہم دنیا کی وحشی قوموں میں عام رہا ہے۔
آیت ۱۳۷ درج ذیل ہے:
اِسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے اُن کی اولادکے قتل کو اُن کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں نے خوش نما بنا دیا ہے، اِس لیے کہ اُن کو برباد کر ڈالیں اوراِس لیے کہ اُن کے دین کواُن کے لیے مشتبہ بنا دیں۔ اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے۔ لہٰذا اُنھیں چھوڑو کہ اپنے اِسی افترا میں پڑے رہیں۔ (تفسیر)
یہ سنگین جرم بعض مزعومہ جن بھوتوں کو راضی کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ عرب جاہلیت میں اُن کے استھان بنے ہوئے تھے اور اُن کے پروہت، کاہن اور مجاور لوگوں کو اُن کی ناراضی کا خوف دلا کر اِس طرح کے جرائم اُن سے کراتے رہتے تھے یعنی اُس دین کو مشتبہ بنا دیں جو اُنھیں ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی وراثت میں ملا تھا۔
لیکن اللہ نے نہیں چاہا، اِس لیے کہ اِس طرح کا جبر اُس اسکیم ہی کو باطل کر دیتا جو انسانوں کے امتحان کے لیے روبہ عمل ہے۔
جب مشرکین کے اندر یہ تمام عقائد موجود تھے اور آیت ١٣٧ کے ہوتے ہوے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں سیاق سباق کو ملائکہ تک محدود کیا جا رہ ہے؟
___________
آپ نے لکھا
"”سوره نوح کی آیت ١٧٧ پیش کی کہ الله نے آدم کا ت بنا کر اس میں روح نہیں پھونکی تھی بلکے سبزے کی طرح زمین سے اگیا تھا””
کیا یہ ہمارا دعوی ہے کہ الله نے پتلا بنا کر روح پھونکی؟- جاوید صاحب سوره نوح کی آیت ١٧کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:
"”یہ ایک حقیقت کا بیان ہے، اِس لیے کہ ماں کے پیٹ سے انسانوں کی پیدایش کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اُنھیں براہ راست زمین کے پیٹ ہی سے پیدا کیا ہے۔ موقع کلام کے لحاظ سے دیکھیے تو اِس میں بلاغت کا یہ اعجاز ہے کہ جو دعویٰ ہے ، وہی اُس دعوے کی دلیل بھی ہے۔ یعنی خدا نے سبزے کی طرح تمھیں زمین سے اگایا ہے، لہٰذا مرے ہوئے سبزے کو جس طرح وہ ازسرنو زندہ کر دیتا ہے، اُسی طرح جب چاہے گا، تمھیں بھی زمین سے دوبارہ نکال کھڑا کرے گا۔”””
http://www.javedahmadghamidi.com/quran/151
آپ نے مزید لکھا: "اس میں تو لفظ چنا آیا ہے جو کسی ایک انسان پر اطلاق نہیں ہوتا جب کے ہمارے پاس سوره الاعراف کی آیت ١١ دلیل کے طور پر موجود ہے کہ زمین پر انسان کی پیدائش کا سلسلہ مختلف حصوں سے شروع ہوا ایک نہیں کئی آدم وجود میں اے اور اس ہی عمل سے ان کی زوج بھی بنائی . اس تشریح کے بعد یہ آیت صحیح قرار پاتی ہے جو عبدللہ صاحب نے پیش کی کہ آدم کو نبوت کے لیے چن لیا”
ہماری اور آپ کی راے میں زمین کی مختلف ادوار میں پیدائش کا عمل ایک مشترک پہلو ہے- جاوید صاحب سوره الاعراف کی آیت ١١کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
…”اِس کی تفصیل قرآن کے دوسرے مقامات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلے زمین کے پیٹ میں انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا، پھر اُس میں اپنی نسل آپ پیدا کر لینے کی صلاحیت ودیعت ہوئی، پھر اُس کا تسویہ کیا گیا، اِس طریقے سے جو مخلوق وجود میں آئی، اُس میں سے دو کا انتخاب کرکے پھر اُن میں روح پھونکی گئی جس سے آدم و حوا کی صورت میں نطق و بیان کی صلاحیت اور عقل و شعور سے بہرہ یاب ایک نئی مخلوق، یعنی انسان کی ابتدا ہوگئی۔ یہ نوع انسانی پر گزرنے والے مختلف مراحل کی تفصیل ہے جن میں سے ہر مرحلے کی مدت ہزاروں سال ہو سکتی ہے۔ ہڈیوں، کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کے اوراق میں سائنس دان جو کچھ پڑھ رہے ہیں، وہ یہی سرگذشت ہے، اِس کا ارتقا کے اُس تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ڈارون نے پیش کیا تھا۔ "
http://www.javedahmadghamidi.com/quran/87
اب سوال یہ ہے کہ اگر تخلیقی مراحل کا پہلو مشترک ہیں تو اختلافی پہلو کیا ہے- اس کا جواب ہمارے فہم کے مطابق یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قران میں مذکور واقعہ آدم و ابلیس میں جس آدم کا ذکر ہوا ہے وہ آدم وہی آدم ہے جو نطق و بیان کی صلاحیت اور عقل و شعور سے بہرہ یاب ایک نئی مخلوق کی صورت میں سامنے آیا تھا- اور إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ میں بھی آدم وہی ایک ہی آدم ہے- باقی رہی بات چننے کی تو اس معاملے میں ہم نے اپنی بات اس کے دلائل کے ساتھ پہلے عرض کر دی تھی-
رہی بات اس امر کی کہ نبوت کے لیے قوم کا ہونا لازمی ہے تو ہم نے بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ آدم علیہ السلام بے قومے نبی تھے٠ آپ سے اختلاف یہ ہے کہ آپ شاید إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ والے آدم سے پہلے اس کی قوم کو پیدا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ہم بعد میں- شیطان کا آدم کو لالچ دینے سے متعلق اعتراض کو بھی اسی اصول پر دیکھ لیں، حل ہو جائے گا-
آپ نے لکھا:
” آٹھواں استدلال آدم و ابلیس کے قصے میں ملائکہ کا آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے ہے . جب حکم ملائکہ کو دیا گیا تو پھر اس کی نافرمانی بھی ملائکہ نے ہی کی . اب کیوں کہ یہاں ملائکہ کو صرف فرشتے ہی تسلیم کیا گیا ہے …. "””
امین ااحسن اصلاحی نے اس بات کا جواب دیا ہے:
یہاں ایک بات بعض لوگوں کو کھٹکے گی۔ وہ یہ کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا نہ کہ جنات کو تو ابلیس کو جو جنات میں سے تھا سجدہ نہ کرنے پر لعنت کا مستحق کیوں قرار دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنات اور فرشتوں میں اصلی فرق خصائص اور صفات کے پہلو سے ہے اپنی خلقت کے لحاظ سے جنات فرشتوں سے زیادہ دوری نہیں رکھتے، فرشتے نور سے پیدا ہوئے اور جنات نار سے۔ اس وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی سبیل التغلیب جنات بھی اس حکم سجدہ میں شامل تھے، لیکن ان کے گمراہ فرد ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا۔ یہ رائے ہمارے بعض پچھلے مفسرین نے بھی ظاہر فرمائی ہے اور مجھے یہ رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔۱
( ۱ قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
او الجن ایضًا کانوا مامورین مع الملئکۃ لکنہ استغنی بذکر الملئکۃ عن ذکرھم فانہ اذا علم ان الاکابر مامورون بالتذلل لاحد والتوسل بہ علم ان الا صاغر ایض مامورون بہ والضمیر فی فسجدوا راجع الی القبیلتین
(یا جن بھی فرشتوں کے ساتھ سجدہ کے حکم میں شامل تھے لیکن فرشتوں کے ذکر کے بعد جنات کے ذکر کی ضرورت اس وجہ سے باقی نہیں رہی کہ جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ بڑوں کو کسی کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا ہے تو اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ چھوٹے بھی اس حکم میں شامل ہیں۔ اس صورت میں فسجدوا کی جو ضمیر ہے وہ دونوں کی طرف لوٹے گی)
مہر افشاں بہن ، یہ میرا جواب عبدللہ صاحب کو میری نیک تمناؤں اور ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ پہنچا دیجئے گا . ساتھ میں میرا سلام بھی .
١. پہلا جواب : اپ نے لکھا …
<<<من قبل کا سادہ سا مطلب یہ ہے ‘اس سے پہلے’- اب اگر اس لفظ کو پچھلے رسولوں یا پچھلی قوموں کے ساتھ استعمال کیا جاے گا تو اس کا لازمی مطلب یہی ہو گا کہ مذکورہ قوم اور رسول اب موجود نہیں ہیں- یعنی ‘من قبل’ کے الفاظ میں کوئی ایسا داخلی قرینہ نہیں ہیں جو کسی بھی رسول یا قوم یا شے کے ساتھ لگ جائیں تو معدوم ہو جاتی ہیں بلکہ معدوم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس چیز کی نوعیت کو دیکھ کر کیا جاے گا- اب اگر یہی الفاظ جنات کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے تو جنات چونکہ (ہمارے فہم کے مطابق) ایک موجود مخلوق ہے لهذه محض من قبل کا استعمال انھیں معدوم نہیں بناتا->>>>
مجھے امید ہے اپ مجھے میرے سابقہ کمنٹ میں سے کوئی کمنٹ یہاں کاپی پیسٹ کر کے بتائیں گے جو میں نے اس سے مختلف بات کہی ہو . میں منتظر رہوں گا
اپ کا ایک جملہ یہاں خاص طور پر پیسٹ کر رہا ہوں تاکے میرا استدلال اچھی طرح اپ کے ذھن نشین ہو جاے
اپ نے لکھا کہ ….
<<لهذه محض من قبل کا استعمال انھیں معدوم نہیں بناتا->>>>
جی میرے بھائی یہی تو میں نے کیا ہے . "محض من قبل ” کی بنیاد پر اپنے استدلال کی بنیاد نہیں رکھی بلکے اس کے علاوہ سات اور دلائل پیش کے ہیں . ان تمام دلائل کی موجودگی میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ جنات معدوم ہیں یا نہیں جس کا ذکر اپ نے اپنے کمنٹ میں بھی کیا . اس لیے اس بات کی تصحیح کر لیں کہ یہ صرف "محض ” من قبل کی بنیاد پر میرا استدلال ہے . امید ہے اس وضاحت کے بعد اپ کا اشکال دور ہو گیا ہوگا .
اپ کی مثالوں کا شکریہ اگر صرف حوالہ ہی دے دیتے تو کمنٹ بھی لمبا نہ ہوتا اور بات بھی اپ کی مجھ تک پہنچ جاتی . اپ کو مثالیں اس لیے دینا پڑیں کیوں کہ اپ کو یہ اشکال تھا کہ شائد میرا استدلال "محض من قبل ” پر ہے میرے پہلے استدلال کے دوسرے کمنٹ پر کچھ کہنا نہیں چاہونگا کیوں کہ یہ کمنٹ بھی اپ کے اس اشکال پر ہے کہ میرا استدلال "محض من قبل ” پر ہے جس کا جواب میں نے اوپر دے دیا ہے . اس سے تشفیح نہ ہوئی ہو تو بتائے گے میں مزید وضاحت کر دونگا انشاللہ
٢. دوسرا جواب :
دوسرے جواب میں اپ نے لفظ خلیفہ پر کہا کہ قرآن کی مثالوں سے یہ بات بلکل واضح نہیں ہوتی کہ انسان جنوں کا خلیفہ ہے . اس کے بعد اپ نے سوره ص کی آیات کا حوالہ دیا اور پھر اپنی بات کی وضاحت کی کہ جس طرح نیابت اور جانشینی کے معنوں میں اتا ہے اس ہی طرح اس سے مجرد ہو کر صاحب اقتدار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے پھر اپ نے فرشتوں کے اندیشے کا اظہار کیا جو آدم کی تخلیق کے وقت کیا گیا تھا .
میرے بھائی جانشینی بغیر اختیار و اقتدار کے کیسے ممکن ہے ؟؟؟؟. یہ اپ نے مجھے سمجھانا ہے . اگر اپ کا مطلب صحیح مان لیا جاے تو یہ بات ماننا پڑے گی کہ فرشتوں کا علم نعوذ باللہ, الله سے زیادہ ہے . اپ کا مطلب لینے سے الله کے علم پر ضرب پڑتی ہے .
انسان کی پوری تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور پھر جو مطلب اپ لے رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ فرشتوں کا اندیشہ بلکل درست ثابت ہوا . انسان نے اپنے تخلیق کے ابتدائی دور سے آج تک خون ریزی ہی کی ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا
. جو مختلف جوابات المورد اور اس سے منسلک دوسرے ویب سائٹس پر ہیں وہاں اس کی تاویل کچھ یوں کی گئی ہے کہ انسانوں میں کچھ اچھے لوگ بھی پیدا ہوے جیسے انبیا اور صالحین اس ہی لیے الله کا یہ کہنا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں درست ثابت ہوتا ہے . یہ خود اپنے اندر ایک کمزور استدلال ہے .
دنیا میں انبیاء اور رسول بھیجنے کا الله کا مقصد ہی یہی تھا کہ جو لوگ گمراہی ، فساد اور قتل غارت گری میں پڑے ہوے ہیں ان کو ہدایت فرہام کی جاے . تاکے جو ہلاک ہو اپنے اختیار سے ہو اور جو بچایا جاے اپنے اعمال سے ہو اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہو . اپ خود سوچیں جو قوم یا معاشرہ پہلے سے ہی ہی صراط مستقیم پر ہو وہاں انبیا اور رسول کی بھیجنے کی ضرورت ہی کیا ؟؟؟؟؟. انبیا اور رسول بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں جہاں معاشرہ فساد ، قتل و غارت اور گمراہی میں پڑے ہوں . اس ہی لیے الله نے کہا کے ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجے .
اپ اس کی کتنی بھی تاویل کرلیں لیکن فرشتوں کا اندیشہ درست ہی ثابت ہوتا ہے (اگر اپ کا مطلب اور تشریح لیا جاے ) .اس لیے ان دلائل پر اپ کا سوره بقرہ کی آیت ٣٠ کی تشریح صحیح نہیں بیٹھتی
٣. تیسرا جواب :
تیسرے جواب پر مجھے حیرت ہے . اس لفظ پر میرا کیا اعتراض ہے اس کی وضاحت بھی میں نے اپنے کمنٹ میں کی تھی . جب کوئی دلیل پیش کرتا ہے تو یا تو اس کی دلیل قبول کی جاتی ہے یا پھر دلائل کے ساتھ رد کی جاتی ہے .
میرے کمنٹ میں شائد اپ کی نظر میری اس وضاحت پر نہیں گئی جو میں نے معشر کے لفظ کا مطلب بتاتے ہوے بیان کیا تھا اور اس پر قرآن کی آیات کا حوالہ بھی دیا تھا .
” جہاں جن و انس کے لیے لفظ مَعْشَرَ استعمال ہوا ہے . جس کا اطلاق ایک شخص کے اہل پر ہوتا ہے ”
اب اگر اپ کو میری دلیل رد کرنی ہے تو اپ کو بتانا چاہیے کہ نہیں اس کا اطلاق ایک ہی شخص کے اہل پر نہیں ہوتا اور پھر اپنے بات کی دلیل میں مثال پیش کرنی ہے . اس کا ماخذ میں اس لفظ کے مطلب میں پہلے ہی بتا چکا ہوں جس کو اپ کو رد کرنا ہے پھر مجھ سے یہ سوال کہ اس کا ماخذ کیا ہے بے معنی ہو جاتا ہے .پھر اپ کا یہ کہنا کہ قرآن میں دو چار مخلوقات سے زیادہ کا ذکر بیان نہیں ہوا اس لیے میں مثال عربی سے دوں . جناب میں نے لفظ کا مطلب پیش کیا ہے یہ مطلب عربی سے ہی دیا ہے . اگر اپ کو اس مطلب پے اعتراض ہے تو اپ عربی سے جو صحیح مطلب ہے بیان کردیں .ویسے اپ کا اعتراض بھی کافی عجیب ہے . جس مخلوق پے ہمارا اور اپ کا اختلاف ہے اس کا ذکر کثرت سے ہے بلکے اس پر تو ایک پوری سوره ہے پھر کس بات کی مشکل ہے .
اس کے بعد اپ نے اس آیت کی تشریح کاپی پیسٹ کر کے لگا دی جس سے مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میرا مکالمہ اصلاحی و غامدی سے سے عبدللہ سے نہیں . میں نے بار بار یہ گزارش کی ہے کہ کاپی پیسٹ سے گریز کریں . جیسا اپ نے سمجھا ہے اپنے الفاظوں میں بیان کردیں . اصلاحی و غامدی الله کے حضور اکیلے ہی کھڑے ہونگے . یہ ان کا فہم ہے . اپ صرف حوالہ دے دیا کریں
٤. چوتھا جواب ….
چوتھے جواب میں اپ نے تو فیصلہ ہی صادر فرما دیا . جن کے جس عقیدے پر ہمارا اختلاف ہے وہاں اپ کا یہ کہنا ….
"جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے، جنوں ہی میں سے تھا”
اس ہی بات پر تو اختلاف ہے کہ کیا وہ جن (جو ایک غیر مری ہستیاں ہیں )ان میں سے تھا یا یہاں جن کا لفظ اس کے لغوی معنوں میں آیا ہے . اس ہی بات پر تو مکالمہ ہو رہا ہے . اس کے بعد اپ نے اپنے بات کی وضاحت کی لیکن یہ نہیں بتایا کیسے ؟؟؟. اپ کا کمنٹ منتقل کر رہا ہوں …
<<اوپر کی وضاحت کے بعد یہ بات واضح ہوجانی چاہیے کہ یہاں فوائد سے مراد یہ ہے کہ اُنھوں (جنوں) نے ہماری عبادت، نیاز مندی اور نذروں اور قربانیوں کے مزے لیے اور ہمارے (یعنی ساحروں، کاہنوں اور سیانوں نے اپنے پیش نظر مقاصد کے لیے اُن کو طرح طرح سے استعمال کیا۔ چنانچہ جن و انس، دونوں ایک دوسرے سے حظ اٹھاتے رہے>>>
جنوں نے مزے کیسے لیے اور انسانوں میں سے ساحر ، کاہنوں نے کیسے اپنے مقاصد کے لیے ان کا استعمال کیا ؟؟؟؟
٥. پانچواں جواب :
یہ غلط فہمی اپ کو میرا استدلال نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوئی . میں نے صرف یہ عرض کیا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ جنوں میں سے رسول اے اور انسانوں میں سے . معشر کے لفظ کی وضاحت پے میں اپنا استدلال بیان کر چکا ہوں کہ اگر ان کو الگ الگ نوع شمار کرتے ہیں تو اس لفظ کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا ، پھر منکم کی ضمیر جن اور انسان دونوں پر اکھٹے لوٹتی ہے . پورے قرآن میں رسولوں کو انسان ہی بتایا گیا ہے کسی جن(الگ غیر مری مخلوق ) رسول کی کوئی معلومات نہیں ہے .
اس کے علاوہ میں نے سوره احقاف کی وضاحت میں اپنے استدلال کو پیش کرتے ہوے کچھ الفاظوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا لیکن اپ نے اس کو مکمل نظر اندار کردیا . اپ کے لیے کمنٹ دوبارہ یہاں لکھ رہا ہوں
"” ان آیات کے الفاظوں پر غور کریں … ان آیات میں لفظ كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ کے اے ہیں . حلانکے بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد بہت سے نبی آ چکے تھے لیکن تفصیلی شریعت حضرت موسیٰ کے بعد کسی پر نازل نہیں کی گئی . بنی اسرائیل کو انذار میں قرآن میں یہی الفاظ استعمال ہوے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کوئی نظر نہ آنے والے الگ نوع کی مخلوق نہیں بلکے انسانوں ہی کے گروہ کا ایک حصہ ہے .
پھر اس پر مزید شواہد ان ہی آیات کی ان الفاظ سے ہوتا ہے يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ اس میں الفاظ وَآمِنُوا بِهِ خاص طور پر توجہ طلب ہیں . قرآن میں تمام احکامات انسانوں کے متعلق ہیں اگر اس قرآن پر ایمان لانا ان جنوں کے لیے بھی ضروری ہوتا تو اس میں کچھ نہ کچھ احکامات کی تفصیل ان جنوں کے لیے بھی ہوتی جو کہ قرآن میں نہیں ملتی . "”
اس پر اپ کا ایک کمنٹ نہیں ہے . اس کے علاوہ اپ کو وہ حدیث بھی یاد دلاتا جاؤں جس میں رسول الله نے فرمایا کہ ہر ایک شخص پر ایک شیطان مسلط ہے . کسی صحابی نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ رسول الله اپ پر بھی،تو اپ نے کہاں ہاں لیکن اس کو میں نے مسلمان بنا لیا ہے .
اب اس حدیث میں شیطان الانسان کا تو ذکر نہیں یہ شیطان الجن مراد ہے اور اپ کے مطابق ایک رسول دوسرے کے لیے حجت نہیں تو پھر اس کا مسلمان بنانا کیا معنی رکھتا ہے ؟؟؟؟ .جب وہ رسول الله کی پیروی کر رہا ہے تو پھر انسان رسول حجت کیسے ہوا ؟؟؟؟ اس ہی بات کو سوره الحقاف کی آیت کی تشریح میں بیان کرنے کی کوشش کی تھی جس کو اپ نے بلکل نظر انداز کیا .
اس کے بعد یہاں سے اپ ڈائریکٹ روایتوں پر آگے لیکن یہاں بھی اپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ روایتیں صحیح ہیں یا غلط . جیسا کہ اوپر میں نے بیان کیا کہ کسی دلیل کو یا تو قبول کیا جاتا ہے یا دلائل سے رد . لیکن ایسا اپ کے کمنٹس میں ظاہر نہیں ہوتا . اپ جیسا میرا گمان ہے (جو یقینن غلط بھی ہو سکتا ہے )، ان ہی دلیل پر کلام کرتے ہیں جو اپ کو آسانی سے اصلاحی و غامدی کی تشریح میں دستیاب ہوں .
ان روایتوں پر بھی کلام کرتے ہوے اپ نے ان کا مدعا نہیں سمجھا . جو عقیدہ اپ کا جنوں کے بارے میں ہے ، یہ غیر مری ہستیاں مکے میں رسول الله سے کسی بھی کمرے میں با آسانی مل سکتی تھیں ، یہ غار والی بات نہ جانے آپ کہاں سے لے اے . کیا ان غیر مری ہستیاں کسی روکاوٹ کے بغیر رسول الله کے حجرے میں داخل نہیں ہو سکتی تھیں ؟؟؟؟. یا اس کے لیے ان کو دروازہ کھٹ کھٹا کر آتے کیوں کہ دیواریں ، دروازے ان کے لیے رکاوٹ ہیں ؟؟؟؟. آخر یہ کون سا ڈر تھا جو انہیں دور دراز علاقے میں لے گیا جب کہ مشرکین خود ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے تھے ، ان سے پناہ مانگتے تھے (اپ کے مطابق ) .
جب ایک فرشتہ بشر کی صورت میں بی بی مریم کے سامنے اکیلے میں بات کر سکتا ہے تو ان جنات کو کس بات نے روک رکھا تھا ؟ . رسول الله کا ایک حکم کسی کو بھی ان کے کمرے میں داخلے کی اجازت نہ دیتا . پھر ان کے نشانات اور آگ کے نشانات پر بھی اپ نے کمنٹ نہیں کیا . پھر جس جن کا تذکرہ اپ کر رہے ہیں جو ابلیس کی نسل سے تھا وہ بھی تو کسی روپ میں ملا ہوگا نہ . یہ خلوت صرف کہیں دور جا کر ہی میسر آسکتی تھی ؟؟؟؟.
٦. چھٹا جواب …
اپ کا جواب میرے لیے انتہائی حیران کن ہے . ہمیں ہر ایک کے لیے حسن ظن سے سے کام لینے چاہیے . اپ یقینن کسی جلدی میں ہونگے یا ذمے داریوں کی وجہ سے میرے کمنٹ کو غور سے نہیں پڑھ سکے . پہلی بات تو یہ کہ اپ نے میرے استدلال کو ایک دفعہ پھر صحیح یا غلط قرار نہیں دیا بلکے نہ جانے کیسے سوره الانام کی آیت ١٣٧ اپنے استدلال کے طور پر پیش کردی جو کہ میری سوره الصفات کی آیت ١٥٨٨ کے سیاق و سباق سے بلکل مختلف ہے .
سوره الصافات کی آیت کا حوالہ دیتے وقت میں نے عرض کی تھی کے اس آیت کا سیاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے علاوہ اور کوئی مطلب لیا جاے . اس پر اپ نے مجھے سیاق و سباق کو دیکھ لینے کا مشورہ دیا جب کے یہ مشورہ مجھے اپ کو دینا چاہیے تھا .
پھر میں نے سوره الانعام کی آیت ١٠٠ کا حوالہ دیا جس کا سیاق و سباق اپ نے ٣٧ آیتیں دور جا کر پکڑا اور وہ بھی اس سے متعلق نہیں تھا . آیت ١٠٠ میں الله کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کرنے کا ذکر ہے اور آیت ١٣٧ میں اولاد کے قتل کا . ان دونوں آیات میں کیا تقابل ؟؟؟؟.
میری بات تو جن کے لغوی معنوں پر ہے کہ اس کو قرآن کس طرح استعمال کرتا ہے ملائکہ کے لیے بھی جن کا لفظ استعمال ہوا ہے . اس لیے میری گزارش ہوگی کہ اس پر دوبارہ سے غور و فکر کریں
پھر اپ نے اس آیت کی تفسیر کے بعد یہ فرمایا کہ اولاد کا قتل بھوتوں کو راضی کرنے کے لیے کیا جاتا تھا . مجھے یقین ہے کہ اس کا حوالہ بھی اپ قرآن سے ہی دیں گے میں منتظر ہوں .
یہاں ایک بات اپ کو یاد دلا دوں کہ بتوں پر انسانی جان کا نذرانہ چڑھانے کی رسم بہت پرانی ہے . ایسا مواد بہت آسانی سے اپ کو نیٹ پر مل جاے گا .
پھر اپ نے لکھا ….
<<< جب مشرکین کے اندر یہ تمام عقائد موجود تھے اور آیت ١٣٧٧ کے ہوتے ہوے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں سیاق سباق کو ملائکہ تک محدود کیا جا رہ ہے؟>>>
یہاں بھی آپ سے میرا مدعا سمجھنے میں سہو ہوا ہے . یہ آیات اس تناظر میں پیش کی تھیں کہ جن کا لفظ قرآن میں صرف جن ، جو اپ سمجھ رہے ہیں، ان کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکے ملائکہ کے لیے بھی ہوا ہے . یہاں میرا مقصد مشرکین کے شرک کا ذکر کرنا ہرگز نہیں تھا . یہاں اپ کو اس لفظ کا مطلب قرآن سے واضح کرنا تھا . یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ جب ملائکہ کے لیے یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے تو پھر ابلیس ، نفس اور انسانوں پر کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟؟؟؟. اب اپ نے دلیل یہ دینی ہے کہ نہیں بھائی یہاں جن کا لفظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوا .
٧. ساتھواں جواب …..
یہاں اپ نے سوره نوح کی آیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ جاوید صاحب (جب کے مکالمے میرا اور اپ کے درمیان ہے ، میرے اور جاوید صاحب کے درمیان نہیں )، کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے اور پھر اپ نے وضاحت کی . میری اپ سے گزارش ہوگی کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر سوره الحجر کی آیت ٢٨ کی تشریح کیسے کریں گے ؟؟؟؟؟
پھر اپ نے میرے اس اعتراض کا جواب دیا جو میں نے حضرت آدم کو چنے کے معملے میں اٹھایا تھا اور اپ نے کہا کہ یہاں بھی اپ کا اور میرا موقف ایک ہی ہے . جب کہ ایسا نہیں ہے . میں اس کی اپ سے کچھ وضاحت چاہتا ہوں .
اپ نے سوره الاعراف کی آیت ١١١١ کی تشریح جاوید صاحب صاحب کے حوالے سے پیش کی . اس میں کچھ باتیں سمجھ نہیں این اس لیے اپ سے وضاحت طلب کر رہا ہوں تاکے اپ کی دلیل کو قبول یا رد کر سکون .
<<پہلے زمین کے پیٹ میں انسان کا حیوانی وجود تخلیق ہوا،>>
کیا یہ حیوانی وجود انسان تھا یا روح پھونکنے کے بعد انسان ہوا ؟؟؟؟
پھر اپ نے لکھا …
<<اِس طریقے سے جو مخلوق وجود میں آئی، اُس میں سے دو کا انتخاب کرکے پھر اُن میں روح پھونکی گئی>>
اوپر سوره الحجر کی آیت ٢٨٨ کی تشریح اپ سے مانگی ہے . اس میں الله ایک بشر بنانے کا حوالہ دے رہا ہے اور اس میں روح پھونکنے کی بات کر رہا ہے لیکن اپ کی تشریح میں انتخاب دو کا کر رہا ہے ؟؟؟؟؟
پھر اپ نے اس آیت کا بھی حوالہ دینا ہے جہاں الله نے حیوانی وجود تشکیل دینے کے بعد دو کا انتخاب کرنے کی بات کی ہو میں اس کا منتظر ہوں .
پھر اپ نے کہا کہ یہ نوع انسانی پر گزرنے والے مختلف مراحل تھے . میرا سوال پھر سے یہی ہوگا کہ کیا ان مراحل سے جب انسان گزر رہا تھا تو کیا انسان تھا ؟؟؟؟. جو سائنس دان کھوپڑیوں اور ہڈیوں کی صورت میں دریافت کر رہے ہیں کیا وہ انسان تھے ؟؟؟؟؟
پھر آگے اپ کا یہ کہنا کہ آدم و ابلیس میں آدم وہی آدم ہے جو ان تمام مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچا لیکن پھر اس کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ آدم پہلے وجود میں آگیا اس کی قوم ابھی بعد میں وجود آنی ہے ،کیسے ؟؟؟؟. اس وقت اپ کے پاس ایک آدم اور ایک حوا ہے ، نسل انسانی کو کیسے بڑھائیں گے ؟؟؟؟. بھائی اور بہن کی شادی سے ؟؟؟؟؟ .جہاں آپ نے الله سے دو کا انتخاب کروایا ہے وہیں پر چار کا انتخاب کروا دیتے تو نسل انسانی کا مسلہ حل ہو جاتا . پھر نہ بھائی بہن کی شادی کروانی پڑھتی اور نہ ہی الله نہ حق کا حکم دیتا .
اس کے بعد مزید اپ اس آدم کو وہی آدم قرار دے رہے ہیں جس کا ذکر انبیا کے ساتھ آیا تھا ، کیا آدم نبوت پر فائز ہوگے بغیر کسی قوم کے ؟؟؟. جب کے اپ کے پاس نسل بڑھانے کے لیے صرف ایک آدم اور ایک حوا ہے ؟؟؟؟؟. شیطان کی سلطنت والا بھی مسلہ اس سے حل نہیں ہوتا اپ کی تشریح سے اور الجھتا ہے ..مجھے امید ہے اپ اس پر اپنے دلائل سے واضح کریں گے ..
٨. آٹھواں جواب …
میرے بھائی جیسے من قبل کا مطلب سادہ سا” اس سے پہلے” ہیے اس ہی طرح اس آیت میں سجدہ کرنے کا سادہ سا حکم ملائکہ کو ہے. میرے نزدیک یہ اتنی مشکل بات نہیں کہ اس کو سمجھنے میں اتنی دقت ہو .
اس کو ایک مثال سے سمجھیں . کلاس میں استاد تمام لڑکوں کو کلاس سے جانے کا حکم دے لیکن لڑکیوں کے کلاس سے نہ جانے پر ان کو ہمیشہ کے لیے لعنت اور سزاوار ٹھیراے . ایسا ہم اپنی عام زندگی میں بھی نہیں سوچتے الا یہ کہ ہم اس حکیم و علیم کے بارے میں ایسا سوچیں .
جب حکم ملائکہ کو ہے تو نافرمانی بھی ملائکہ ہی نے کی نہ … اب اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی این اسٹائن کا ذہن تو نہیں چاہیے نہ . …
اپنے پچھلے کمنٹ میں ، میں نے چھٹے استدلال میں اس بات کی کھل کر وضاحت کی تھی کہ قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ایک لفظ کو کئی طرح استعمال کرتا ہے . یہاں بھی اس قصے میں ملائکہ کے لفظ سے فرشتوں اور دوسری طبعی قوتوں کو سجدے کا حکم دیا . لیکن یاد رکھئے یہ سجدہ وہ نہیں جو ہم ہر روز نماز میں پانچ وقت الله کے سامنے کرتے ہیں .
اس کے معنی سر جھکا دینا ، اطاعت قبول کر لینا ، حکم بجا لانا ،
اس کو اس آیت سے سمجھیں …
سوره النحل کی آیت ٤٩ میں الله کا ارشاد ہے ..
وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ﴿٤٩﴾
زمین اور آسمانوں میں جس قدر جان دار مخلوقات ہیں اور جتنے ملائکہ ہیں سب اللہ کے آگے سر بسجود ہیں وہ ہرگز سرکشی نہیں کرتے (49)
سب اس کے حکم کی تعمیل کے جاتے ہیں اس کے حکم سے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں کرتے . سرکشی کے لفظ نے سجدے کے مفہوم کو واضح کردیا ہے .
یہ میرے جوابات ہیں . اگر اس میں کہیں اپ کو لہجہ سخت محسوس ہو تو اس پر میں معذرت خواہاں ہوں . جاتے جاتے دو باتیں کرنا چاہوں گا . غامدی صاحب سے اختلاف کا مطلب نہیں کہ ان کی فکر میں اب کوئی خیر نہیں . یہ چیز غامدی صاحب نے ہی سکھائی ہے کہ جو انہونے پیش کیا ہے یہ ان کا فہم ہے ہمیں اس پر اپنے فہم سے غور کرنا ہے .
ایک آخری سوال کہ آدم کو ابلیس یا شیطان نے بھیکایا تھا تو پھر ابلیس یا شیطان کو کس نے بھیکایا تھا ؟؟؟؟. اگر اپ کہتے ہیں اس کا نفس تو پھر یہی آدم پر اپپلائی کیوں نہیں کرتے ؟؟؟؟
شکریہ
Abd Ullah Mehar Afshan I have read response from Naeem sb. Covey my thanks and deepest regards to him. Since the entire discussion is open to public, let this be the end from my side. I don’t see any reason to expand it now. May Allah enable us to accept what’s truth. JzkAllah