حجیت حدیث از ابن آدم
اگر تمام روایات کو (یا چلیں ان میں بھی صحیح مانی جانے والی تمام احادیث کو) وحی غیر متلو کہہ کر کتاب الله مانا جائے تو پھر ان کے مابین تضادات میں تطبیق/ترجیح کرنے کا اختیار بحیثیت امتی ہمارے پاس کیسے آگیا؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بُھلا دیتے ہیں، اس کی جگہ اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی؛ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟ ﴿۱۰٦﴾
اگرچہ یہاں شریعتوں کی بات ہورہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ماضی کی کسی قوم کی شریعت کو منسوخ یا فنا کردیتا ہے، تو اسی جیسی یا اس سے بہتر دوسری شریعت عطا کردیتا ہے- تاہم ناسخ و منسوخ کے قائلین اس آیت سے اگر شریعت محمدیؐ کے ہی احکامات میں نسخ کے قائل ہیں، تو اللہ نے تو یہ فرمایا ہے کہ ناسخ حکم عطا کرنا بھی اللہ کی ہی ذمہ داری ہے، اس چیز میں فیصلہ کرنے کا بار اس نے نبیؐ سمیت امت کے کسی فرد پر نہیں ڈالا ہے۔
اگر تو احادیث کو منزل من اللہ ماننا ہے تو کسی ایک حدیث کا انکار بھی تمام احادیث کا ہی انکار ہوا، اور اس امت میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کہ اس کام سے بچا ہو گویا کہ پوری امت ہی کافر قرار پاتی ہے۔ اور اگر بعض احادیث کو صحیح السند قرار دیکر محض انکو کتاب اللہ کے برابر یا اس پر راجح مانا جائے، تو ہم جب ہم ان صحیح الاسناد مانی جانے والی روایات کی تطبیق کر رہے ہوتے ہیں تو کیا ہم درحقیقت وحی غیر متلو میں نقائص کو مان کر ان کو بہتر کرنے کی جسارت نہیں کر رہے ہوتے؟ یعنی ہم الله کے نازل شدہ آیات میں سے نقص نکال رہے ہوتے ہیں. (نعوز بالله)
یا تو ہم اس بات کا اقرار کریں کہ ہر حدیث وحی غیر متلو نہیں ہے اور اس دور کے لوگوں کی ایک کوشش تھی جس میں نیک اور شریر ہر قسم کے لوگ موجود تھے اس لئے ان کو قرآن سے پرکھ کر قبول و رد بھی کیا جا سکتا ہے یا ان میں تطبیق بھی کی جا سکتی ہے . یا پھر حدیثوں کو وحی غیر متلو مان کر اس کلام الله میں رد و قبول کے صریح جرم سے باز آ جائیں.
صحیح بات یہی ہے کہ روایات کو آیات قرانی کے ہم پلہ قرار دیکر ہم خود اپنے اوپر الله کے کام میں مداخلت اور اس میں نقص نکلنے کا فتویٰ لگا رہے ہوتے ہیں۔