حضرت الیاسؑ انجیل، قرآن، اور نزول مسیح از ابن آدم
یہود اگر کسی مسیح موعود کے ظہور کےانتظار میں ہیں تو یہی عقیدہ نزول مسیح کی صورت میں عیسائیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمانوں میں بھی رائج ہے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں میں نزول مسیح کے قائلین حضرت عیسیٰؑ کو آخرالزمانی مسیح مانتے ہوئے ان کہ نزول کے منتظر ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیونکہ تینوں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والے کسی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں، تو یہ خبر گویا ایک ‘متواتر’ خبر ہوگئی ہے، لہٰذا قرآن میں اگر اسکا ذکر واضح الفاظ میں نہیں ہے، تو اسکی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ ابراہیمؐی مذاہب سے وابستہ لوگ اس بات کو پہلے سے ہی مانتے چلے آئے تھے۔ لیکن یہ مفروضہ اپنی اصل میں ہی غلط ہے، کیونکہ ابتدائی مسلمان یہودی یا عیسائی مذاہب سےاسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، بلکہ مشرک پس منظر رکھتے تھے، اور ان کے یہاں کسی مسیح کے ظہور یا نزول کا نظریہ نہیں پایا جاتا تھا، بلکہ وہ تو دوبارہ جی اٹھنے کے ہی شدید منکر تھے، ساتھ ساتھ قیامت پر بھی انکا ایمان نہیں تھا، اور یہ دونوں ہی باتیں عیسائیوں کے نزول مسیح کی جزو لاینفک ہیں، کیونکہ عیسائی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیؑ صلیب پر جان دے کر دوبارہ جی اٹھے تھے اور اب قیامت سے پہلے ایک بار پھر نزول فرمائیں گے۔ اگرچہ مسلمانوں میں نزول مسیح کے حوالے سے روایات تو بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اور حیران کن حد تک وہ جن راویوں سے منسوب ہیں، ان میں غالب ترین تعداد مدنی دور کے دوسرے آدھے حصے سے تعلق رکھتی ہے، یا تو پہلے راوی کا قبول اسلام 6 یا 7 ہجری کے بعد کا ہے، یا پھر اسکی بلوغت کی عمر اسی آخری دور کی ہے۔ لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ ان روایات میں یہودی اور عیسائی روایتوں کے برخلاف ایک اور نبی حضرت الیاسؑ کے ظہور کا بالکل ذکر نہیں ملتا، بہتر ہوگا کہ مسیح کے حوالے سے یہود عیسائیوں (اور شاید مسلمانوں کے بھی) اس ‘متواتر’ عقیدے میں حضرت الیاسؑ کے حوالے سے قران کیا کہتا ہے اور بائبل کیا کہتی ہے، وہ بھی دیکھ لیا جائے۔
یہود جس مسیح کے منتظر ہیں، انکے مطابق اس کا نزول نہیں بلکہ ظہور ہوگا، اور وہ نبی بھی نہیں ہوگا، گویا معاملہ محض خبر کا ہی ہے، جبکہ دوسری جانب عیسائیوں کے مسیح کا نزول ہونا ہے اور وہ ایک رسول بھی ہے، گویا معاملہ عقیدے کا ہوگیا۔ مسلمانوں میں کیونکہ عیسائی نظریہ ہی رائج ہے، تو بہتر ہوگا کہ عیسائی حوالے سے حضرت الیاسؑ کی شخصیت کو بھی سامنے لایا جائے۔ حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے پہلے حضرت یحییؑ کی ایک معجزاتی پیدائش ہوئی ہے اور اللہ تعالی نے حضرت یحییؑ کے والد حضرت ذکریاؑ کو انکی ولادت کی خوشخبری دیتے وقت فرمایا ہے کہ: (اے زکریا) اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان (عیسیؑ) کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا —” ﴿۳۹﴾ سورہ آل عمران۔ اب کیونکہ حضرت عیسیؑ کی تصدیق حضرت یحییؑ نے کی تو عیسائیوں نے حضرت یحییؑ کو ایک پچھلے دور کے رسول حضرت الیاسؑ سے جوڑ دیا کیونکہ یہودیوں کا پہلے سے ہی ماننا تھا کہ آخر الزمانی مسیح کے ظہور سے پہلے حضرت الیاسؑ کا نزول ضروری ہے، کیونکہ یہودیوں کے خیال میں اللہ تعالی نے حضرت الیاسؑ کو زندہ ہی آسمانوں میں اٹھالیا تھا اور اب وہ بعد کے زمانے میں آکر اس آنے والے مسیح کی توثیق کریں گے(ملاکی؛ باب 4، 5)۔ جب کہ عیسائیوں کی انجیل متی میں یسوع (حضرت عیسیؑ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے (حضرت یحییؑ) ہی دراصل ایلیاہ (حضرت الیاسؑ) ہیں، تاہم لوگ پہچان نہیں پائے ہیں۔ (انجیل متی؛ باب 17، 11-14). یعنی عیسائی حضرت یحییٰ کو ہی حضرت الیاس منوانا چاہتے ہیں تاکہ یہودیوں کی پیشن گوئی کہ حضرت الیاس آخری مسیح کی تصدیق کریں گے کہ مسیح کو حضرت عیسیٰ منوایا جا سکے. لیکن حضرت یحییؑ تناسخ کے قاعدے کے تحت حضرت الیاسؑ کا پنر جنم قرار نہیں دیے جاسکتے کیونکہ وہ تو ازروئے روایات زندہ ہی آسمانوں پر اٹھالیے گئے تھے (دوم سلاطین؛ باب 2، 11)۔ باقی انجیلوں ہی کی دیگر روایات سے بھی یہی ثابت ہے کہ حضرت یحییؑ نے اپنے الیاسؑ ہونے کا خود انکار کیا ہے (یوحنا؛ باب 1، 19-23)، یا پھر جب حضرت زکریا کو بیٹے کی بشارت دی گئی تھی تو اس میں بیان کیا گیا کہ ہونے والے بیٹے کے پاس الیاس کی قوت ہوگی (انجیل لوقا؛ باب 1، 13-17)۔ یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ انجیلوں میں دیے گئے ان بیانات کو بالکل درست بھی مانا جائے (جیسا کہ مسیحی مانتے ہیں)، تو اللہ نے انکے عقیدے کے مطابق زندہ الیاسؑ کو تو دوبارہ مسیح کی تصدیق کے لیے نہیں بھیجا بلکہ ایک نئے شخص یحییؑ کو الیاسؑ کی قوت کے ساتھ پیدا کیا جس نے مسیح کی تصدیق کی۔ تو اب عیسائی عقیدے کے مطابق مصلوب مسیح جو کہ اسی دنیا میں موت سے بھی ہمکنار ہوا تھا، اسی کا نزول کیونکر لازم ماننا ہوگا، کیا یہ ممکن نہیں کہ پچھلے مسیح کی طاقت کا ظہور کسی اور شخص میں صدور کرجائے، جیسا کہ مسیحی انجیلیں ہی یوحنا (یحیی) کو ایلیاہ (الیاس) کا نزول نہیں بلکہ ایلیاہ کی طاقت کا ظہور مانتی ہیں۔ گویا نزول مسیح کے اس مبینہ ‘متواتر’ عقیدے کو خود مسیحی روایات سے بھی لغوی مفہوم میں ثابت کرنے میں ایک معقول حد تک اشکال موجود ہے۔
دوسری جانب قران کا مطالعہ کیا جائے، تو اس میں حضرت الیاس کا ذکر اپنی قوم (اسرائیل کے شمالی دس قبائل) کو شرک سے روکنے کے حوالے سے تو کیا گیا ہے (سورہ صافات؛ 123-132)۔ اس کے علاوہ ایسا کوئی پہلو بیان نہیں کیا گیا کہ انکا کسی مسیح کے ظہور یا نزول سے کوئی تعلق بھی ثابت ہوتا ہو۔ گویا قرآن میں منتظر مسیح کی اس بحث کو حضرت الیاسؑ کے حوالے سے موضوع ہی نہیں بنایا ہے، جبکہ یہود اور عیسائی دونوں مسیح سے متعلق روایتوں میں حضرت الیاس کے حوالے دیتے ہیں۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ نزول مسیح یا ظہور مسیح کے عقیدوں کا اسلام سے کتنا تعلق ہے- سورہ صافات ہی آیت 129 میں فرمایا گیا ہے: اور الیاسؑ کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا ﴿۱۲۹﴾
واضح رہے بعد کی نسلوں میں امت محمدیہؐ بھی شامل ہے، اور قرآن میں حضرت الیاسؑ کا ذکر بحیثیت رسول ویسے ہی کیا گیا ہے جیسا کہ مسلمہ وفات شدہ رسل حضرت نوحؑ، ابراہیمؑ، لوطؑ، موسیؑ اور ھارونؑ کا کیا گیا ہے- کسی آیت سے بھی یہ شائبہ تک نہیں ہوتا کہ وہ ایک زندہ نبی ہیں، یا یہ کہ آنے والے کسی مسیح کی توثیق سے انکا کوئی تعلق ہے۔ مزید یہ کہ انجیل لوقا کے میں جہاں حضرت زکریاؑ کو آنے والے بچے کی جب بشارت بیان کی گئی ہے تو اس بچے کا موازنہ الیاسؑ سے بتایا گیا ہے، جبکہ قرآن نے حضرت یحییؑ کی پیدائش کا ذکر تین جگہ (سورہ مریم، انبیاء، آل عمران) بیان کیا ہے، کہیں بھی اس آنے والےبچے کا تذکرہ حضرت الیاسؑ کے موازنے کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے۔حضرت الیاسؑ کا ذکر سورہ صافات کے بعد رسول پاکؐ کے مکہ کے قیام کے آخری دور کی سورت سورہ انعام میں آیا ہے جہاں بنیادی خطاب مشرکین مکہ سے ہورہا ہے، اور جب شرک کے خلاف مختلف انبیاء کی حجت کا ذکر آیا تو حضرت الیاسؑ کا بھی کیا گیا، آیت 85 میں ارشاد ہوتا ہے: اور (شرک کے خلاف یہ حجت ہم نے) زکریاؑ، یحییٰؑ، عیسیٰؑ اور الیاسؑ کو بھی دی؛ ہر ایک ان میں سے صالح تھا ﴿۸۵﴾ یہاں بھی حضرت الیاسؑ کا ذکر دعوتی حوالے سے ہی کیا گیا ہے۔ اور اسی آیت میں ساتھ ہی حضرت یحییؑ کا ذکر بھی ایک مکمل جدا شخصیت کے طور پر کردیا ہے، مزید یہ کہ حضرت عیسیؑ کا تذکرہ بھی اسی آیت میں ہوا ہے مگر لفظ مسیح کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔ گویا قرآن نے تو حضرت الیاسؑ کا ذکر کسی مسیح کے ظہور یا نزول سے وابستہ کرکے نہیں کیا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ سورہ انعام ایک مکی سورت ہے، جبکہ حضرت عیسیؑ کے ساتھ مسیح کا لفظ قرآن کریم نے پہلی بار 3 ہجری میں نازل ہونے والی سورہ آل عمران میں پہلی بار کیا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جن لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ قرآن واضح الفاظ مین نزول مسیح کا ذکر اس لیے نہیں کررہا، کیونکہ عیسائی یہودی پہلے سے ہی اس نظریہ کے قائل تھے، اور قرآن نے محض ثالثی کا کردار ادا کرنا تھا، لہذا جن آیات سے نزول مسیح کا ظنی استدلال نکالا جاسکتا ہے، ان آیات کو یہود اور نصاری کی اس ‘متواتر خبر’ کے ساتھ جوڑ لیا جائے تو یہ خبر یا عقیدہ قران سے ثابت شدہ مانا جائے گا- جبکہ بات یہ ہے کہ یہود و نصاری کی اس ‘متواتر خبر’ میں ایک توثیقی نام حضرت الیاس کا بھی ہے، اور قرآن نے ان کا نام یہود و نصاری کے برخلاف کسی مسیح کے ساتھ کسی طور پر بھی نہیں جوڑا، بلکہ انکو ایک فوت شدہ نبی کے طور پر پیش کیا ہے- اب جب قرآن مسیح کے حوالے سے یہودی اور عیسائی نظریات کی توسیع یا توثیق پیش نہیں کر رہا تو پھر اسکو قطعی دلالت کے ساتھ نزول مسیح کی بات کرنی چاہیے تھی- اور کیونکہ قرآن میں کوئی قطعی الدلالت آیت اس نظریہ کے متعلق نہیں ہے، لہذا قرآن کی بنیاد پر اس عقیدے کو ثابت کرنا کسی طور پر صحیح بات نہیں.