حضرت زیؓد، حضرت زینبؓ اور قرآن مجید: (آخری قسط-۳) از ابن آدم
سوره احزاب کی آیت ٢ کے حکم کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح کیا تو مدینہ کا ماحول اسی طرح متاثر ہوا جیسا توقع کی جا رہی تھی۔ اوائل ٥ ہجری میں حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کا رجوع سوره مجادلہ کی روشنی میں کروایا گیا تھا۔ اسی سورت میں مسلم معاشرے کو گناہ، تعدی، اور رسول کی نافرمانی پر مشتمل باتوں سے متعلق شرگوشیاں نہ کرنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ لہٰذا بعد میں جس وقت حضرت زینبؓ کا رسولؐ اکرم سے نکاح ہوا ، اس وقت مومنین صالحین کی طرف سے برملا یا کنایتاً کسی تردد کا اظہار نہیں ہوا۔ تاہم منافقین کے لئے یہ طوفان اٹھانے کا ایک سنہری موقع تھا کیونکہ غزوہ احزاب میں مشرکین مکہ اور ان کے حواریوں کی عبرت ناک شکست اور بنو قریظہ کے مدینہ میں خاتمے نے منافقین کو سیاسی طور پر بالکل کمزور کر دیا تھا۔ اسلام کے خلاف اب ان کے پاس یہی راستہ رہ گیا تھا کہ معاشرتی پہلوؤں سے حملہ آور ہوا جائے، رسولؐ الله کی ذات کو سماجی اعتبار سے معطون کیا جائے اور یوں اسلامی ریاست کی جڑیں سیاسی اور دفاعی اعتبار سے نہ سہی سماجی اور معاشرتی لحاظ سے کھوکھلی کر دی جائیں۔ ان کا ہتھیار یہی تھا کہ کہا جائے کہ خولہؓ بنت ثعلبہ کا رجوع تو پھر انہی کے شوہر سے کروایا گیا تھا، جس کا مطالبہ بھی وہ خود ہی لیکر آئی تھیں، جب کہ رسولؐ اکرم اور حضرت زینبؓ کے نکاح کے سلسلے میں ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا، تو پھر اس نکاح کی کوئی حاجت نہیں رہ جاتی تھی۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں سورہ احزاب کی آیات ٣٥ سے ٤٨ تک کی تقریر نازل ہوئی۔
کیونکہ مومنین صالحین، منافقین کے اس غلیظ پروپیگنڈا سے مکمل طور پر دور رہے تو الله تعالیٰ نے تقریر کا آغاز ہی ان لوگوں کے لیے بڑے اجر کے وعدے کے ساتھ کیا گیا۔ آیت ۳۵ میں فرمایا گیا کہ وہ مسلمان مرد اور عورتیں جو مومن، مطیع، راستباز، صابر، عاجز، مخیر، روزہ دار، پاک دامن اور الله کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہوں ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔ اس کے بعد براہ راست رسولؐ الله اور حضرت زینبؓ کے نکاح کے حوالے گفتگو شروع ہوئی۔
آیت ٣٦ میں ارشاد ہوتا ہے:
"کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا”(٣٦)
یہ چیز پہلے ہی واضح کی جا چکی ہے کہ یہ آیت کیوں حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کی شادی کے موقع پر نازل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس صورت میں ایک جانب جہاں اس آیت کو بقیہ سورت سے کاٹ کر کسی دسرے دور میں لیجانا پڑتا ہے اور اس طرح سے سورت کا نظم بری طرح مجروح ہوتا ہے، وہیں شان نزول کے طور پر بتائی جانے والی وجوہات بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہیں۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر حضرت زیدؓ کی حیثیت اُس معاشرے میں محض آزاد کردہ غلام ہی کی ہوتی تو سورہ احزاب کےپہلے رکوع اور زیر بحث آیات کے نزول کی کوئی وجہ رہ ہی نہیں جاتی۔ یہ آیت جس ترتیب سے سورت میں موجود ہے اسی ترتیب سے نازل ہوئی ہے اور یہاں حضرت زیدؓ اور زینبؓ کی شادی کے حوالے سے اللہ اور اسکے رسولؐ کے فیصلے کی بات نہیں ہورہی بلکہ رسولؐ الله اور حضرت زینبؓ کی شادی کا موضوع زیر بحث ہے۔ کیونکہ اس وقت کے معاشرتی اقدار کے برخلاف جب حضرت زینبؓ کی رسولؐ الله سے شادی ہوئی تو لازماً ان کے اہل خانہ کو بھی منافقین مدینہ اور مشرکین مکہ کے ہاتھوں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، کیونکہ بہرحال حضرت زینبؓ کا تعلق تو مکہ ہی سے تھا، ایک جانب جہاں وہ اور انکے مہاجر رشتہ دار منافقین کے ہاتھوں مدینہ منورہ میں ستائے گئے، تو انکے مکی رشتہ دار مشرکین کے ہاتھوں مکہ مکرمہ میں ،کیونکہ انہوں نے عرب کے معروف فہم کے برخلاف اپنے سابقہ شوہر کے منہ بولے باپ سے شادی کی تھی۔ یہاں اس آیت میں الله تعالیٰ نے بتا دیا کہ کوئی بھی مومن مرد یا عورت اپنے معاملے میں پھر کوئی اختیار نہیں رکھتا جب الله اور اس کے رسولؐ کوئی فیصلہ کر دیتے ہیں۔ یہ نکاح اللہ کے حکم پر منعقد ہوا ہے، اور حضرت زینبؓ اور انکے گھر والوں نے مومن ہونے کی وجہ سے اس پر سر خم تسلیم کیا ہے، لہذا ان لوگوں پر انگلیاں اٹھانا کسی صورت جائز نہیں کیونکہ یہ فیصلہ انکا نہیں الله اور اس کے رسولؐ کا تھا۔
اسکے بعدآیت ٣٧ میں ارشاد ہوتا ہے:
اے نبیؐ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص (حضرت زید بن حارثہ جو کہ اس مکالمے کے وقت زید بن محمد تھے) سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ "اپنی بیوی کو روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اس بات کو اپنے دل میں چھپا رہے ہو جسے اللہ ظاہر کر دے گا، اور تم لوگوں سے ڈر رہے ہو حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو” …(٣٧)
یہاں حضرت زیدؓ کے حوالے سے الله کا یہ احسان بیان ہو رہا ہے کہ کیسے الله تعالیٰ نے انکو اپنے رسولؐ کی آغوش میں پروان چڑھنے کے لیے پہنچایا، اور رسولؐ پاک کا ان پر یہ احسان کہ انھوں نے حضرت زیدؓ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ اس کے بعد اس موقع کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا اور الله کے رسولؐ نے ان کو طلاق دینے سے منع کیا اور کہا کہ جس وجہ سے تم طلاق دینا چاہ رہے ہو وہ تو اللہ طلاق دیے بغیربھی لوگوں پر دوسرے طریقے سے ظاہر کر دے گا۔ یعنی اسامہؓ بن زید ؓکے نسب کے حوالے سے مشرکین کی طرف سے جو طعن زنی ہورہی ہے، وہ اللہ تمہیں کسی خاندانی بیوی کے ذریعے سے اولاد مہیا کر ختم کردیگا کیونکہ اسکے اوپر یہ لوگ نسبی اعتبار سے انگلیاں اٹھانے کی سکت نہیں رکھیں گے۔ تم کو ان لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
رسولؐ اللہ اور حضرت زید ؓکے درمیان یہ مکالمہ اس وقت کا ہے جبکہ حضرت اسامہؓ کی پیدائش ہوچکی تھی اور حضرت زینبؓ بھی حضرت زیدؓ کی بیوی تھیں۔ غالب گمان یہی ہے کہ نبوت کے چوتھے یا پانچویں سال میں یہ مکالمہ پیش آیا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر ۵ ہجری میں نازل شدہ سورہ احزاب میں ہوا۔ تاہم رسولؐ اللہ کے اس فرمان "کہ جو تم چھپا رہے ہو اللہ اسکو ظاہر کردیگا” کا ظہور سورہ احزاب کے نزول کے بعد ۷ اور پھر ۸ ہجری میں ہوا۔ وہ اس طرح کہ ٦ ہجری میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ ہوئی ۔ معاہدے کی دیگر شرائط کے ساتھ یہ بھی شق تھی کہ جو آدمی مکہ سے آدمی مدینہ جائے گا ، اسکو لوٹا دیا جائے گا۔ اس صلح کے کچھ عرصہ بعد مکہ سے حضرت ام کلثومؓ بنت عقبہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں۔ معاہدے کی روسے مشرکین مکہ نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا، لیکن تحریر میں آدمی کے لفظ لکھے ہونے کے باعث تکنیکی بنیادوں پر رسولؐ الله نے حضرت ام کلثومؓ بنت عقبہ کو عورت ہونے کے ناطے واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ صلح حدیبیہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے متعلق ۷ ہجری میں سوره ممتحنہ نازل ہوئی، جس کی آیت ١٠ حضرت ام کلثومؓ بنت عقبہ کی اسی ہجرت کے متعلق تھی۔ ارشاد ہوا:
"مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کرلو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو۔۔۔۔”(سورہ ممتحنہ، آیت ۱۰)
حضرت ام کلثوم ؓبنت عقبہ رسولؐ الله کی پھوپھی ام حکیم بیضاء کی نواسی تھیں اور نسباً قریشی تھیں۔ مکہ کے اس وقت کے برسر اقدار خاندان بنو امیہ کی بیٹی تھیں اور مدینہ کے امیر ترین شخص حضرت عثمان غنیؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ رسولؓ اللہ نے انکا نکاح حضرت زیدؓ سے کردیا۔ واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت زیدؓ بن محمدؐ سورہ احزاب کے نزول کے باعث زیدؓ بن حارثہ بن چکے تھے۔ یعنی ابن الرسول ہونےکی نسبت اب ختم ہوچکی تھی۔
اگر اسلام میں خاندانی برتری کی کوئی اہمیت ہوتی تو حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کی شادی کے مقابلے میں حضرت زیدؓ اور حضرت ام کلثومؓ بنت عقبہ کی شادی میں فرق پہاڑ سے بھی زیادہ تھا۔ حضرت زینبؓ ایک غیر قریشی عورت تھیں جن کی شادی نبی وقت کے بیٹے زیدؓ بن محمؐد سے ہوئی تھی۔ دوسری جانب ام کلثومؓ بنت عقبہ ایک قریشی عورت تھیں جو کہ سیاسی طور پر ایک انتہائی بااثر خاندان بنو امیہ کی بیٹی بھی تھیں اور مالی طور پر بھی مدینہ منورہ میں ایک مضبوط پس منظر رکھتی تھیں کہ حضرت عثمانؓ غنی ان کے ماں جائے تھے۔ حضرت زینبؓ اگر نبی کریمؐ کی ایک پھوپھی کی بیٹی تھیں، تو یہ بھی ایک دوسری پھوپھی کی نواسی تھیں۔ مزید یہ کہ جس وقت ان کی شادی حضرت زیدؓ سے ہوئی تو ان کے اعزاز میں قرآن کی آیت (سوره ممتحنہ ١٠) بھی نازل ہو چکی تھی، جبکہ دوسری جانب حضرت زیدؓ اس وقت زیدؓ بن حارثہ بن چکے تھے۔
آیت میں جو یہ الفاظ بیان کے گئے کہ جس چیز کو تم چھپا رہے ہو الله اس کو ظاہر کر دے گا وہ اس صورت میں ظاہر ہو گئی کہ الله تعالیٰ نے حضرت زیدؓ کوحضرت ام کلثوم ؓبنت عقبہ سے بیٹا اور بیٹی دونوں عنایت کیے اور مشرکین نے جو طعنہ زنی حضرت ام ایمنؓ کی اولاد کے حوالے سے کی تھی، وہ اب کی بار ممکن نہیں تھی۔
یہاں ایک چیز کی وضاحت بھی ضروری ہے، کہ قران نے ہرگزبھی یہ شائبہ نہیں دیا ہے کہ حضرت زیدؓ نے طلاق حضرت زینبؓ کے رویے سے بدظن ہوکر دی تھی۔ قران تو اس طلاق کو مکمل طور پر حضرت زیدؓسے ہی منسوب کر رہا ہے۔ آیت میں وَاتَّقِ اللہ (اور اللہ سے ڈرو) کے الفاظ اسی بات کی شہادت دے رہے ہیں ، بلکہ آیت میں اللہ کے رسولؐ اور حضرت زیدؓ کا مکالمہ پوری طرح ظاہر کر رہا ہے کہ طلاق کی وجوہات میں حضرت زینبؓ بنیادی وجہ نہیں تھیں۔ یہ ام المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش پر شدید افترا ہے کہ وہ نسب کی بنیاد پر غرور میں مبتلا تھیں اور انکے اس تکبر کی وجہ سے ان دونوں میں نباہ نہ ہوسکا اور نتیجتاً حضرت زیدؓ طلاق دینے پر مجبور ہوئے۔
ابتداء میں ذکر کیا گیا تھا کہ فحش اور تاویلی دونوں قصوں کے واضعین نے اپنے اپنے قصوں میں وزن ڈالنے کے لیے جس آیت کے مکالمہ کو درمیان سے توڑا ہے، وہ یہی آیت ہے۔ آیت کا ابتدائی حصہ تو سبھی مانتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا کلام حضرت زیدؓ سے ہے، لیکن درمیان میں اچانک مکالمہ کو کاٹ کر حال کے صیغوں کو ماضی میں فرض کرتے ہوئے اسکو اللہ اور رسولؐ کے درمیان کا مکالمہ بنادیتے ہیں۔ اور اس پر پھر بیانیہ کا خول چڑھ جاتا ہے۔ ترجمہ یوں کیا جاتا ہے:
” اور (اے نبی یاد کرو )جب تم اس شخص (زید) سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے اور خدا سے ڈر اور (یہ کہتے وقت اے نبی)تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے۔ حالانکہ خدا ہی اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔۔۔۔”
یہاں پر دو گروہ نے نبیؐ کریم اور قران پاک دونوں کے ساتھ شدید زیادتی کی ہے۔ جہاں اپنی پسند کا مطلب نکالنے کے لیے آیت قرانی کو مضمون کے درمیان سے کاٹا، اور پھر ایک ٹکڑے کے صیغے ماضی میں فرض کرلیے، وہیں نبیؐ پاک پر بھی کئی الزامات دھردیے۔ ٖفحش بیانیہ کا تو کیا ہی کہنا، لیکن تاویلی بیانیہ بھی نبیؐ پاک پر متعدد الزامات لگادیتا ہے۔ اگر اللہ تعالی نے حضرت زیدؓ کے طلاق دینے سے پہلے ہی نبیؐ کریم کو انکے اور حضرت زینبؓ کے نکاح کے متعلق اگاہ کردیا تھا، اور اسکو وہ ساری دنیا پر کھولنا بھی چاہتا تھا تو نبیؐ پاک کے لیے جائز ہی نہیں تھا کہ وہ اس بات کو محض لوگوں کے ڈر سے چھپاتے۔ سورہ مائدہ آیت ۶۷ میں ارشاد ہوتا ہے:
"اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا” (سورہ مائدہ؛ آیت ۶۷)
سورہ مائدہ کی اس آیت کی روشنی میں ان نام نہاد مروجہ بیانیوں پر غور کیا جائے تو کیا یہ صاف مطلب نہیں نکلتا کہ ان بیانیوں میں اگر ذرا بھی حقیقت ہوتی تو نبیؐ پاک پر ازروئے قران یہ الزام آتا ہے کہ انہوں نے حق پیغمبری ادا ہی نہیں کیا (نعوذ باللہ)۔
سورہ احزاب کی آیت ۳۷میں ہی آگے اشاد ہوتا ہے:
"۔۔۔۔ پس جب زیدؓ اس (حضرت زینب) سے اپنی حاجت پوری کر چکا، ہم نے اس (حضرت زینب) کا نکاح تم (رسول کریم) سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہیے تھا” (٣٧)
یہاں سب سے پہلے تو یہ بات مدنظر رہے کہ پورے قرآن میں واحد صحابی جن کا ذکر نام لے کر ہوا ہے وہ حضرت زیدؓ بن حارثہ ہیں۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے منہ بولے رشتوں کی حرمت کے خاتمے کے لئے ان سے زیدؓ بن محمدؐ ہونے کا اعزاز واپس لیا تھا (سورہ احزاب، آیات ۴،۵) تو اس کے بدلے ان کو ایک دوسرے اعزاز سے نواز دیا کہ تمام امت محمدی میں واحد شخص ہیں جن کا ذکر قرآن میں نام لے کر ہوا ہے اور جو قیامت تک پڑھا جاتا رہے گا۔ اور اس امت کی بدنصیبی دیکھیے کہ اس صحابی کا تعارف محض ایک آزاد کردہ غلام کے طور پر کیا جاتا ہے۔
آیت کا بقیہ حصہ اسی معاملے سے متعلق ہے کہ جو منہ بولے رشتوں کی حرمت کو لے کر تھا، جسکا اشارہ ابتداً سورہ نساء میں دیا گیا، پھر سورہ مجادلہ میں ایک پہلو کے حوالے سے واشگاف لفظوں میں بیان ہوا، اور اب دوسرے پہلو سے سورہ احزاب میں انجام کی طرف پہنچایا جارہا ہے۔ یعنی الله تعالیٰ نے بیان کردیا کہ اس نے رسولؐ الله کا حضرت زینبؓ سے نکاح اسی واسطے کرایا تھا تاکہ ان رشتوں کی تقدیس کا خاتمہ ہو۔ یہاں سے بھی ان فرضی قصوں کی بیخ کنی ہوجاتی ہے جو یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ نکاح نبؐی کریم کے حضرت زینبؓ پر (نعوذباللہ) فریفتہ ہونے کے باعث ہوا تھا، یا جو یہ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے یہ نکاح حضرت زینبؓ سے اس وجہ سے کیا تھا کہ رسولؐ اللہ ہی کے دباؤ پر حضرت زیدؓ سے انہوں نے شادی کی تھی، اور حضرت زیدؓ نے پھر بھی طلاق دیدی، لہذا ان کی دلجوئی کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا تھا کہ رسولؐ اللہ خود انؓ سے نکاح کرلیں۔ آیت اپنے اختتام پر خود بھی واضح کر رہی ہے کہ یہ سارا معاملہ حکم الہی کے تحت ہوا تھا، اس میں نبیؐ کریم کی کسی قسم کی نفسانی خواہش کا کوئی دخل نہیں تھا۔
آیات ۳۸ اور ۳۹ میں ارشاد ہوتا ہے:
"نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے (٣٨) (یہ اللہ کی سنت ہے اُن لوگوں کے لیے) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے، اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے ” (٣٩)
آیت نمبر ٣٨ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس شادی کا حکم الله کی طرف سے آیا تھا جس کا ابتدائی اظہار سوره تحریم میں ہو چکا تھا اور اس کا برملا اظہار سوره احزاب کے ابتدائی رکوع میں ہوا تھا ۔ جب انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کوئی حکم دیتا ہے، تو وہ اس کی تکمیل میں لوگوں کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوتے ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت ۷ میں نبیؐ کریم کے ساتھ ساتھ پچھلے انبیاءحضرت نوحؑ، ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ ابن مریمؑ کے حوالے سے بھی یہی بات بیان ہوئی تھی کہ سب ہی رسولوں سے اس نوعیت کے عہد لیے گئے تھے۔ اور آیت ۸ میں انبیاء کے اقدامات پر ردعمل دینے والوں کے انجام سے آگاہی دی گئی تھی۔ سورہ احزاب کا پہلا رکوع اس شادی سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اور سورہ احزاب کی زیر بحث آیات اس کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ لہذا آیت ۳۸ اور ۳۹ میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ اللہ کے رسول اس کے حکم کے مطابق ہی اقدامات کرتے ہیں، اور اس معاملہ میں محض اللہ ہی سے ڈرتے ہیں۔ نبی کریمؐ کے سامنے حضرت خولہؓ کا پورا معاملہ ہوا تھا اور جو کچھ طوفان اٹھا تھا اس سے بھی اگاہ تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اس شادی کے بعد کتنے اطراف سے انگلیاں اٹھائی جائیں گی لیکن کیونکہ یہ حکم الہی تھا تو الله کے رسولؐ نے بجاوری میں کسی تردد سے کام نہ لیا۔ یہ آیات بھی اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ اس نکاح سے متعلق دونوں ہی مروجہ کہانیاں کتنی غلط ہیں۔
آیت ۴۰ میں ارشاد ہوتا ہے:
(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے (٤٠)
قرآن کریم کی یہ وہ آیت ہے جس کی قادیانی لابی گمراہ کن تفسیر کرتی ہے اور کہتی ہے کہ خاتم النبین سے خاتمیت زمانی نہیں بلکہ خاتمیت مرتبی مراد ہے۔ اس سلسلے میں وہ لوگ بعض صوفیاء کی آراء یا بعض مبالغہ آمیز تشریحات کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایسے مسائل تب پیدا ہوتے ہیں کہ جب آیات کو اگلی پچھلی آیات میں موجود مضمون سے کاٹ کر پیش کیا جائے۔ خاتمیت مرتبی کی بات اگر ہوتی تو یہاں اس بات کا ذکر بنتا ہی نہیں تھا کہ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں یہ بات اسی پس منظر میں کی گئی ہے کہ بعض حلقے حضرت زیدؓ کو قانونی نہ سہی (سورہ احزاب کی آیات ۴،۵ کی روشنی میں)، سماجی طور پر اب بھی بیٹے ہی کے روپ میں دیکھ رہے تھے، اور حضرت زینبؓ سے رسول اللہ کی شادی کو ایک غیر ضروری اور رواج کے خلاف اقدام کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ آیت ۳۷ میں نکاح کرنے کی اصل غایت کا تو ذکر کرہی دیا گیا تھا کہ لوگوں پر منہ بولے رشتوں کی بنیاد پر قائم حرمتوں کا خاتمہ ہو۔ اور یہاں اس آیت میں اسکی مزید وضاحت کی کہ اگر یہ کام خود رسولؐ اللہ نہیں کرتے تو اسکے بعد تو کوئی اور نبی آنا نہیں تھا، جو ان رسومات کی تقدیس کا خا تمہ کرتا۔ اور اب اس نبی کے بعد امت وسطی ہونے کی حیثیت سے اس دین کو مسلمانوں نے آگے لیکر بڑھنا تھا، وہ اگر اپنی پرانی رسومات کی زنجیروں سے باہر نہ آ پاتے، تو باقی دنیا میں جو دین کے پھیلانے کا کام کرتے، اس میں بالواسطہ اپنے سابقہ غیر اسلامی رسومات کا بھی حصہ ڈالدیتے۔ سماجی روایات جو نسل در نسل چلتی آرہی ہیں، انکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۰۰۷ میں ہریانہ کے ضلع کیتھل کے ہندو جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد منوج اور ببلی نے گوتر کے قاعدے کے خلاف شادی کرلی۔ نتیجتاً برادری والوں نے انکو غیرت کے نام پر قتل کردیا۔ کیونکہ یہ شادی ہندو میرج ایکٹ کے مطابق تھی، لہذا عدالت منوج اور ببلی کی شادی کو قانونی مانتی تھی، قاتلوں کے دفاع میں پوری برادری سامنے آگئی اور ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کا مطالبہ کردیا۔ شمالی ہند سے تعلق رکھنے والے کئی مسلمان راجپوت گھرانے پاکستان ہجرت کے بعد بھی بڑی حد تک اپنی شادیاں پرانی رسم کے مطابق ہی کرتے ہیں، جو کہ انکے صدیوں پرانے سابقہ دھرم اور دہائیوں پرانے وطن سے تعلق رکھتی ہے، وہ اس سے تعلق نہیں توڑ پائے ہیں۔ اگر عربوں کی ان فرسودہ رسومات پر خود نبیؐ کریم ہی چوٹ نہ لگاتے تو انہوں نے آسانی سے ختم نہیں ہونا تھا۔ اور یہیں سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں خاتم النبیین کا لفظ خاتم مرتبی کے لیے نہیں بلکہ خاتم زمانی ہی کے معنوں میں آیا ہے۔
سورہ احزاب کی یہ تقریر آیت ۴۸ پر ختم ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
"اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے (۴۸)”
اس تقریر کی اس اختتامی آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کو واضح ہدایت کی ہے کہ مسلمان معاشرے سےان غیر اسلامی رسومات بیخ کنی کے سلسلے میں کفار و منافقین کی ملامت گری کی کوئی پرواہ نہیں کرنا اور انکے ہاتھوں پہنچنے والی تکالیف کے سلسلے میں اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا ہے۔ سورہ تحریم میں جب پہلی بار اشارہ دیدیا گیا تھا، کہ اب رسول اللہ کو اپنے متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرنا ہوگا، تو آیت ۹ میں فرمایا گیا تھا "اے نبیؐ، کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے” (سورہ تحریم،آیت۹)۔ اس کے بعد جب سورہ احزاب کا نزول شروع ہوا اور اس میں نبیؐ پاک کو واضح اشارہ دیدیا گیا کہ اب اس نکاح کا وقت آگیا ہے، تو پہلی ہی آیت میں فرمادیا گیا کہ "اے نبی، اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا۔ بےشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے”۔
حرف آخر:
اس ساری بحث سے جو نکات ان آیات سے سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں:
حضرت زیدؓ رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام نہیں بلکہ منہ بولے بیٹے تھے۔ حضرت زیدؓ کے متعدد نکاح قریش کی عورتوں میں بھی ہوئے تھے، لہذا حضرت زیدؓ کی سماجی حیثیت اس معاشرے میں ویسی نہیں تھی، جو اب ہمیں باور کرائی جاتی ہے۔ ام المومنین حضرت زینبؓ ایک غیر قریشی خاتون تھیں، اس لیے نسب کی بنیاد پر انکا اس رشتہ سے انکار بنتا ہی نہیں ہے، اور نہ ہی سورہ احزاب کی آیت ۳۶ اس مبینہ جبری شادی سے متعلق ہے، جو کہ ازروئے تشریحات آیت کے نزول کے بعد بھی ناکام ہوئی۔ لہذا حسب نسب کی بنیاد پر’ کفو’ نامی جو رسم ہمارے یہاں رائج ہے، اسکی دور محمدیؐ میں اصل موجود نہیں ہے۔ متبنی کی رسم کے خاتمہ کے لیے نازل کردہ سورت ‘کفو’ نامی رسم کی بھینٹ نہیں چڑھائی جاسکتی۔
سماجی برائیوں میں جکڑی قوم کو ان عذابوں سے نکالنا قوم کے مصلحین کی ذمہ داری ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے نبیؐ پاک نے اپنے معاشرے کی برائی کے خاتمے کے لیے کسی ملامت کی پرواہ کیے بغیر عملی اقدام کیا۔ اور امت وسطی ہونے کی حیثیت سے یہ اب ہماری ذمہ داری ہے۔ اس معاملہ کا طریقہ کار بھی خود اللہ نے واضح کردیا ہے۔ صدیوں سے رائج (غیر اعتقادی) معاشرتی برائیاں تدریجاً اس طرح ختم کرنی ہیں، کہ معاشرہ بالعموم ان کو سمجھنے کی اہلیت بھی پیدا کرلے۔ سورہ مجادلہ میں ہمیں نظر آرہا ہے کہ حضرت خولہؓ کے واقعہ کے بعد معاشرے میں کچھ بے اطمینانی کی کیفیت تھی۔ سورہ تحریم میں جب رسولؐ اللہ کو اشارہ کیا گیا کہ آپؐ نے منہ سے بولے گئے رشتوں کے معاملے میں اب کیا کرنا ہے تو الفاظ براہ راست حکم کے نہیں ہیں، کہ معاشرے میں ردعمل شدید ہو۔ دوسرے مرحلے میں سورہ احزاب کا پہلا رکوع ہے، جہاں کھل کر حکم آگیا کہ عملدرآمد کس طرح کرنا ہے۔ الفاظ کافی کھلے ہیں، لیکن براہ راست نکاح کرنے کے الفاظ نہیں ہیں، تاکہ رد عمل دیے بغیر معاشرے کا بڑا طبقہ ایسی رسومات پر سوچ بچار خود کرے۔ اور پھر جب نکاح ہوگیا تو اسکے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی، اسکا احوال سورہ احزاب کی زیر بحث آیات میں آیا، اور یہ نظر آگیا کہ معاشرہ کی عدم اطمینانی ویسی نہیں تھی، جیسی سورہ مجادلہ میں حضرت خولہؓ کے معاملہ کے بعد نظر آتی ہے۔
ایک اور اہم بات جو نظر آئی وہ یہ کہ قرن کی آیات کو اسی ترتیب سے سمجھنا ہے جس ترتیب سے وہ مصحف میں موجود ہیں، اپنی مرضی سے ایک ہی تقریر کی کسی آیت کو کسی دور میں اور کسی آیت کو کسی دور میں پہنچادینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طبقہ نے نبیؐ پاک کے کردار پر انگلیاں اٹھادیں، اور اس لٹریچر کو پڑھ کر رنگیلا رسول جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں، یا دوسرے طبقہ نے اس نکاح کو آزاد غلام کی تفریق کے خاتمہ کی ایک ناکام کوشش کے تعبیر کردیا۔ مزید کسر قادیانیوں نے پوری کردی کہ خاتم النبیین کے لفظ کی غایت کو پوری تقریر کے موضوع سے کاٹ کر نئے معنی پہنادیے، کہ آج ایک پورا نیا مذہب اس پر کھڑا ہے۔ یہ چیز اس بات کی طرف دلالت کرتی ہے کہ نظم قرآن کا پاس رکھنا درست معنوں میں تفہیم قرآن کے لیے کس قدر ضروری ہے۔