حضرت زیؓد، حضرت زینبؓ اور قرآن مجید: (قسط۔۲) از ابن آدم
زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے میں منہ سے بولے گئے رشتوں کی حرمت بالکل حقیقی رشتوں کی مانند ہوتی تھی۔ جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دیدے تو بس اب وہ اس کے لیے ماں جیسی حرمت ہی رکھتی تھی۔ یا کثیر الشو عورتیں اپنی ہونے والی اولاد کو جس بھی شوہر کی طرف نسبت دیدیتی تھیں، وہ اسی شوہر کا مانا جاتا تھا۔ اسی طرح بیٹے بنانے کی بھی رسم تھی۔ اس زمانے میں منہ سے بولے گئے رشتوں کی اہمیت صرف اس ایک واقعہ سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ۴ نبوی میں جب قریش نے رسولؐ الله کو ان کی دعوت سے روکنے کے لئے قتل کا منصوبہ بنایا تو یہ فیصلہ کیا کہ بنو ہاشم کو نبی کریمؐ کے بدلے میں کوئی دوسرا لڑکا دے دیا جائے، جس کو وہ اپنالیں، بدلے میں جو خاندان رسول اللہ کو اپنائےگا تو قتل کرنے کی صورت میں بنو ہاشم اس خاندان سے بدلہ لینے کے استحقاق سے محروم ہو جائیں گے۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ بن ولید کے بارے میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کو بنی ہاشم کے حوالے کر دیا جائے اور رسولؐ الله کو بنی مخزوم کو دے دیا جائے۔ نبی اکرمؐ کے چچا جناب ابو طالب جو کہ اس وقت بنی ہاشم کے سردار تھے، انہوں نے اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہم تو تمہارا بیٹا پالنے کے لیے لیں اور تم ہمارا بیٹا قتل کرنے کے لیے لو۔آج اگر اس واقعہ کو پڑھا جائے تو کچھ غیر سنجیدہ سا محسوس ہوتا ہے، کیونکہ آج کے معاشرے میں منہ بولے رشتوں کی اہمیت ویسی نہیں ہے، جو اس وقت کے عرب معاشرے میں تھی، لیکن اسی ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ رسومات وہاں کتنی شدت اور قطعیت سے موجود تھیں۔
حضرت زیدؓ کو تو بعثت سے قبل ہی رسولؐ الله خانہ کعبہ کے سامنے اپنا بیٹا بنانے کا اعلان کر چکے تھے۔ لہٰذا وہ زیدؓ بن محمدؐ بن چکے تھے۔ بعثت نبویؐ کے آس پاس (جبکہ انکی عمر ۳۰ سال کے لگ بھگ تھی، زیدؓ بن محمدؐ کی شادی رسول الله کی پھوپھی زاد بہن (زینب بنت جحش) جو کہ نسباً غیر قریشی تھیں، سے ہوئی۔ تاہم یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔ حضرت زینبؓ کے علاوہ حضرت زیدؓ کی شادیاں قریش میں بھی ہوئیں، مگر وہاں بھی اولاد نہیں ہوئی۔ ان میں سے ایک درہؓ بنت ابی لہب ہیں جو کہ رسولؐ اللہ کی چچا زاد بہن تھیں، دوسری ہند بنت العوام ہیں جو کہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بھائی کی پوتی تھیں۔ اتنے قریبی رشتوں میں شادیاں ہونا، جبکہ خاندان بھی قریش ہو، یہ ثابت کرتا ہے کہ معاشرے کی نظر میں حضرت زیدؓ کم نسب ہرگز نہیں تھے۔ لہذا ام المومنین حضرت زینبؓ بنت جحش کے اوپر خاندانی تفاخر رکھنے کا الزام نہایت غلط اور حقائق کے خلاف ہے۔ بعثت کے ابتدائی دور میں ہی رسول الله کی عمر رسیدہ لونڈی برکہؓ (جن کی کنیت ام ایمن تھی) بیوہ ہو گئیں۔ حضرت ام ایمنؓ حبشی نژاد تھیں۔ حضرت زیدؓ نے عمر رسیدہ حضرت ام ایمنؓ سے شادی کر لی اور کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ اور حضرت ام ایمنؓ کو اسامہؓ بن زیدؓ کی صورت میں بیٹا عطا کیا۔ حضرت اسامہؓ بن زیدؓ اپنی والدہ کی طرح حبشی نقوش ہی کے مالک تھے، جبکہ حضرت زیدؓ یمنی الاصل تھے۔اب کیونکہ حضرت زیدؓ بھی رسولؐ الله کے گھر سے تعلق رکھتے تھے اور ام ایمنؓ بھی رسولؓ الله ہی کی لونڈی رہی تھیں، لہٰذا رسولؓ الله کو اذیت دینے کے لئے کفار مکہ نے اسامہؓ بن زیدؓ کے نسب پر طعن زنی شروع کی تاکہ حضرت زیدؓ کے ساتھ ساتھ رسولؐ الله کو بھی تکلیف پہنچے۔ خاندانی بیوی(وں) سے اولاد نہ ہونے کے باعث حضرت زیدؓ کچھ اضطراب کا شکار تھے۔کیونکہ خاندانی بیوی(وں) سے ہونے والی اولاد کے حوالے سے طعن زنی کرنا مشرکین کے لئے ناممکن تھا۔ جبکہ حضرت ام ایمنؓ تو ایک لونڈی تھیں۔ لہٰذا وہاں پریہ کام خاصا سہل تھا۔
حضرت زیدؓ نے اسی اضطراب کے تحت حضرت زینبؓ کو طلاق دینے کا قصد کیا اور اس وجہ کو پوشیدہ رکھتے ہوئے رسولؐ الله کی بارگاہ میں اطلاع کی۔ جواب میں الله کے رسولؐ نے فرمایا کہ طلاق نہ دو، جو عذر تمھارے دل میں ہے اس کا اظہار الله کر دے گا کیونکہ کسی اور آزاد عورت سے شادی کی صورت میں بھی وہ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے تھے۔اور جو طعنہ مشرکین مکہ حضرت اسامہؓ کے حوالے سے انکی دل آزاری کے لئے دے رہے تھے اس کی بنیاد ختم ہو جاتی۔ تاہم یہ شادی پھر بھی نہ چل سکی اور طلاق پر منتج ہوئی۔ اس وقت تک مشرکین مکہ کے مسلمانوں پر مظالم خاصے بڑھ چکے تھے اور مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد حبشہ کی طرف ہجرت کر گئی تھی۔ ان ہی مہاجروں میں حضرت زیدؓ کی مطلقہ حضرت زینبؓ بھی اپنے میکے کے متعدد افراد کے ساتھ شامل تھیں۔
نبوت کے تیرھویں سال ہجرت مدینہ ہوئی اور خانوادہ نبویؐ جس میں اس وقت کے حضرت زیدؐ بن محمدؐ، ام ایمنؐ اور اسامہؐ بن زیدؐ بھی شامل تھے، مدینہ ہجرت کر گئے۔شوال ٣ ہجری میں غزوہ احد ہوئی جس میں مسلمانوں کی کثیر تعداد شہید ہوئی اور بہت سی صحابیات بیوہ ہوئیں۔ اس جنگ کےفوری بعد سوره نساء کا نزول شروع ہوا جس میں عائلی قوانین پر جامع احکامات بیان ہوئے جن میں رشتوں کی حرمت بھی زیر بحث آئی۔آیت ٢٣ میں ارشاد ہوا:
"۔۔۔اور (حرام کی گئیں) تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں۔۔۔”(سورہ نساء، آیت ۲۳)
سوره نساء کی اس آیت نے مستقبل کی ایک منظر کشی کردی تھی کہ اب منہ بولے رشتوں کی تقدیس خونی رشتوں کی مانند نہیں رہے گی جو کہ زمانہ جاہلیت سے اب تک چلی آ رہی تھی۔سن ٥ ہجری کا آغاز ہوا اور مدینہ منورہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مدینہ کے ماحول کو شدید متاثر کیا۔حضرت اوسؓ بن ثابت انصاری نے اپنی بیوی حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کو ماں سے تشبیہ دے دی۔ واضح رہے کہ اس وقت تک سوره بقرہ اور سوره طلاق نازل ہو چکی تھیں جن میں طلاق کے حوالے سے احکامات زیر بحث آ چکے تھے۔ طلاق دینے کی صورت میں تو رجوع ہو سکتا تھا لیکن اب کیونکہ وہ ماں سے تشبیہ دے چکے تھے، لہٰذا عرب کے سابقہ دستور کے مطابق حضرت خولہؓ انکے لئے ماں کی طرح ہمیشہ کے لئے حرام بن گئی تھیں۔ حضرت خولہؓ رسولؐ الله کے دربار میں حاضر ہوئیں اور فریاد کرنے لگیں کہ میرے شوہر نے طلاق تو نہیں دی، لہذا اگر رجوع نہ ہوا تو اس طرح سے تو ہمارا خاندان ہمیشہ کے لئے بکھر جائے گا۔نتیجتاً سوره مجادلہ نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا کہ بیویوں کو ماں بول دینے سے وہ مائیں نہیں بن جایا کرتیں۔ لہٰذا قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے الله کے رسولؐ نے ان دونوں کا رجوع کروا دیا۔
صدیوں سے جاری ایک معاشرتی رسم کے خلاف اس فیصلے کو مدنی معاشرہ بہت آسانی سے قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ اس وقت مدینہ میں منافقین کا بھی ایک گروہ موجود تھا اور یہودی بھی بستے تھے۔ لہٰذا انھوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس فیصلے کو قبولیت عام بخشوانے میں رکاوٹ پیدا کرنے لگے۔ یہ واقعہ ٥ ہجری کا ہے، حضرت زینبؓ جنھوں نے اب تک دوسری شادی نہیں کی تھی، حبشہ سے مدینہ آچکی تھیں۔الله تعالیٰ نے نبی کریمؓ کو اشارہ دے دیا کہ وہ حضرت زینبؓ بنت جحش سے شادی کر لیں کیونکہ وہ بھی ایک منہ بولے رشتے کی ہی بنیاد پر رسول الله کی سابقہ بہو تھیں۔ جب اللہ کے رسول خود منہ سے بولے ہوئے رشتوں کے خلاف اقدام اٹھالیں گے تو معاشرے کے اذہان سے بھی اس چیز کی تقدیس نکلتی رہے گی۔ اس چیز کا ذکر سوره مجادلہ کے بعد نازل ہونے والی سوره تحریم میں اشارتاً کیا گیا ہے۔
حضرت خولہؓ کے واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، رسولؐ الله کو اندازہ تھا کہ منافقین مدینہ اس نکاح کے ہونے کی صورت میں کس طرح کا طوفان برپا کریں گے، تاہم الله کا فیصلہ تو اٹل تھا۔اور نبیؐ کریم آخری رسول ہیں، اگر وہی عرب کی اس غلط رسم کی مکمل بیخ کنی نہ کرتے تو اس کی تقدیس اس معاشرے سے کبھی ختم نہ ہوتی۔سوره تحریم کی آیت نمبر ٩ میں ارشاد ہوا کہ:
"اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش اؤ اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے” (سوره تحریم، آیت ۹، نزول ٥ ہجری)
سوره تحریم کے نزول کے بعد بعض لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ منہ بولے رشتوں کے خلاف اگلا اقدام کیا ہو گا۔اسی اثناء میں مدینہ کے سیاسی حالات میں تغیر آیا اور اہلیان مکہ خیبر کے یہودیوں اور نجد کے دیگر قبائل کے ساتھ مل کرمدینہ پر حملہ آور ہو گئے اور ذوالقعدہ ٥ ہجری میں غزوہ احزاب وقوع پذیر ہوا۔غزوہ احزاب کے فوری بعد سوره الاحزاب کا نزول شروع ہوا اور جسکی پہلی تقریر ٢٧ آیات پر مشتمل تھی۔اگرچہ اس پہلی تقریر کا نزول غزوہ احزاب سے پیدا شدہ صورتحال سے بھی متعلق تھا لیکن مسلمانوں کے لیے معاشرتی پہلوؤں سے متعلق آیات(۱-۸) کو غزوہ احزاب سے متعلق آیات(۹-۲۷) پر فوقیت دے کر یہ واضح کیا گیا کہ معاشرے کے استحکام کے لئے دفاعی معاملات سے زیادہ سماجی مضبوطی اہمیت رکھتی ہے۔
سورہ احزاب کی آیت ٢ میں رسولؐ الله کو بتا دیا گیا کہ پیروی کرو اس بات کی جس کا اشارہ تمہیں دیا جا رہا ہے (حوالہ سورہ تحریم آیت ۳) یعنی کہ اب آپؐ منہ بولے رشتوں کی معاشرے کی سوچ میں سے حرمت کو ختم کرنے کے لئے اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ کی مطلقہ (حضرت زینبؓ بنت جحش) سے شادی کریں۔آیت ٤ میں بتایا گیا کہ جن بیویوں کو تم ماں بول دیتے ہو وہ تمہاری ماں نہیں بن جاتیں (حوالہ سورہ مجادلہ آیت ۲) اور جن لڑکوں کو تم اپنا بیٹا بول دیتے ہو وہ بیٹے نہیں بن جاتے ہیں۔اس آیت سے تو گویا تمام ہی لوگوں کو واضح ہونا شروع ہو گیا تھا کہ جیسے ماں بول دینے کے باوجود بھی خولہؓ بنت ثعلبہ کا رجوع ہو گیا ہے، ایسے ہی اقدام کا حکم اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے حوالے سے رسولؓ اللہ کو کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اب رسولؐ الله اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کریں گے کیونکہ آیت میں صاف بتا دیا گیا تھا کہ منہ سے بول دینے سے کوئی شخص آپ کے حقیقی بیٹے کی مانند نہیں ہو جاتا۔آیت ٥ میں بتا دیا گیا کہ منہ بولے بیٹوں کو اب ان کے باپوں کے نام سے ہی پکارو یعنی اب اس رشتے کی آخری قانونی کڑی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔حضرت زیدؓ بن محمدؐ اس آیت کےنزول کے بعد زیدؓ بن حارثہ بن گئے۔آیت نمبر ٧ میں نبی کریم کو یاد دلایا گیا کہ معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی کے لئے آپؐ کی مانند پچھلے رسولوں سے بھی عہد لیا گیا تھا۔آیت ۹ سے ۲۷ تک پھر غزوہ خندق اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال زیر بحث آئی ہے۔
سوره احزاب کی اس تقریر کے بعد نبی کریمؐ کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے دوسری تقریر کا نزول ہوا۔آیت ٢٨ سے ٣٤ تک نبیؐ کریم کی اس وقت کی موجود بیویوں یعنی حضرت سودہؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ سے بعض حوالوں سے خطاب ہوا ہے۔اس کے بعد تیسری تقریر آیت ۳۵ تا ٤۸ پر مشتمل ہے جس میں بنیادی موضوع کے طور پر حضرت زینبؓ کے رسولؐ الله کے ساتھ ہونے والے نکاح کے حوالے سے خطاب ہوا۔
جاری ہے۔۔۔۔