حور و غلمان کی حقیقت تحقیق: رانا محمد عاشق
حور و غلمان کی حقیقت
تحقیق: رانا محمد عاشق
﷽
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں جا بجا بہشتی زندگی میں بہت سی ایسی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہیں جن سے بہشت میں داخل ہونے والے لوگوں مردوں اور عورتوں دونوں کی مہمان نوازی کی جائے گی ۔ ان نعمتوں میں کھانے ، پینے ، پہننے اور رہنے کی مختلف چیزیں شامل ہوں گی۔ ان چیزوں کے علاوہ دو اورخاص قسم کی نعمتوں کا ذکر بھی قرآن پاک میں ملتا ہے۔ ایک غلمان کا جو حسین و جمیل نو عمر لڑکے ہوں گے اور ان کا کام مختلف قسم کے ماکولات و مشروبات سے بہشتی مردوں اور عورتوں کی خاطر تواضع کرنا ہوگا۔ دوسرے حور یں جو حسین و جمیل نو عمر پریاں ہوں گی اور ان کاکام بہشتی مردوں اور عورتوں کا استقبال اور ان کی ہم نشینی اور رفاقت ہوگا ۔ جنسی معاملات بہشتی زندگی کا خاصہ نہیں ہیں اس لئے ان حور پریوں کا جنسی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔اس کا ثبوت ہمیں ابتدائے آفریینش میں حضرت آدمؑ اور اماں حوا کی جنتی زندگی سے بھی ملتا ہے۔جب ان دونوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس درخت کے قریب چلے گئے جس کے قریب جانے سے انہیں روکا گیا تھا تو ان کی شرما گاہیں ان پر ظاہر ہونا شروع ہوگئیں یعنی ان میں جنسی احساس پیدا ہوا اور انہوں نے اپنی شرم گاہوں کو پتوں سے ڈھانپنا شروع کیا تو حکم ہوا کہ اب بہشت تمہارے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔یہاں پر جنسی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۔ پس جنسی خواہشات کو پورا کرنے اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے لئے انہیں زمین پر اتار دیا گیا۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بہشت نہ تو جنسی خواہشات کو پورا کرنے کی جگہ ہے اور نہ ہی بچے پیدا کرنے کی۔ بہشت تو بس ایک اعلٰی قسم کی جمالیاتی کیفیت کا نام ہے۔ اب آئیں دیکھیں کہ قرآن پاک میں باقی نعمتوں کے ساتھ ساتھ حور و غلمان کا ذکر کس پیرائے میں کیا گیا ہے۔
سورہ دھر کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوتا ہے وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا۔ اور دوڑتے پھر رہے ہونگے ان کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے جو ہمیشہ ہی لڑکے رہیں گے۔ جب تم ان کو دیکھوتو خیال کرو کہ گویا موتی ہیں بکھرے ہوئے۔ یہ لڑکے بہشتی مردوں اور عورتوں دونوں کی خدمت کے لئے ہونگے اور خوبصورت ایسے کہ بکھرے ہوئے موتی۔
سورہ واقعہ کی آیت نمبر17 سے 21 تک میں پھر انہی لڑکوں کی خدمات کا ذکر ہے يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ۔ بِأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ ۔لَّا يُصَدَّعُونَ عَنْهَا وَلَا يُنزِفُونَ۔ وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ۔ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَلئے پھریں گے ان کے ارد گرد ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ساغر صراحی اور جام نتھری ہوئی شراب کے ،شراب بھی ایسی کہ نہ سر چکرائے اسے پی کر اور نہ عقل میں فتور آئےاور( پیش کریں گے) لذیذ پھل تاکہ اس میں سے جسے چاہیں پسند کرلیں اور گوشت پرندوں کا تاکہ لے لیں اپنی رغبت کے مطابق۔
پھر آیت نمبر 22 سے لے کر26 تک پوری تفصیل سے حوروں کا ذکر کیا گیا ہے: وَحُورٌ عِينٌ۔كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ۔جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔ لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا۔ إِلَّا قِيلًا سَلَامًا سَلَامًا۔اور حور پریاں ہونگی خوبصورت آنکھوں والی،ایسی حسین جیسے موتی جنہیں چھپاکر رکھا گیا ہو۔ (یہ سب ملے گا انہیں ) جزا کے طور پر ان اعمال کی جو وہ کرتے تھے، نہیں سنیں گے وہ وہاں کوئی بے ہودہ کلام اور نہ کوئی گناہ کی بات سوائے ایک بول کے سلام ہو تم پر ، سلام ہو تم پر ۔یہ حور پریاں جنسی اشتہا کی سیرابی کے لئےنہیں ہوں گی۔ جنسی اشتہا تو خیر بہشتی زندگی کا خاصہ ہی نہیں ہے وہاں تو کسی بے ہودہ کلام اورکسی گناہ کی بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکے گا ۔ ان حور پریوں کی غرض و غایت صرف اور صرف جنتی مردوں اور عورتوں کا استقبال ہوگا جو وہ ان کلمات کے ساتھ کریں گی ” سلام ہو تم پر سلام ہو تم پر "۔
سورہ الرحمٰن میں باقی نعمتوں کے ساتھ ساتھ حوروں کی خوبصورتی کا تذکرہ بھی نہایت شاعرانہ انداز سے کیا گیا ہے :آیت نمبر 56 اور 58 میں ہے کہ فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ۔ كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ۔ہوں گی ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں کہ نہ چھوا ہوگا انہیں کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے، خوبصورت ایسی کہ گویا وہ یاقوت اور مرجان کے ہیرے ہیں۔پھر آیت نمبر 70، 72 اور 74 میں انہی حوروں کا ذکر ہے: فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ۔ حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ۔لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ۔ان نعمتوں کے درمیان ہوں گی خوب سیرت اور خوبصورت عورتیں، حور پریاں ٹھہرائی ہوئی خیموں میں اور نہیں چھوا ہوگا انہیں کسی انسان نے ان سے پہلے اور نہ کسی جن نے۔ان پانچوں آیات میں ان حور پریوں کی تعریف ہی کی گئی ہے کہ وہ شرمیلی نگاہ والی ہوں گی ، خوب صورت اور خوب سیرت ہوں گی، ان چھوئی ہوں گی، خیموں میں ٹھہرائی ہوئی ہوں گی اور حسن وجمال میں یاقوت اور مرجان ہیروں کو بھی ماند کریں گی۔ یہاں پر کسی جنسی معاملے کا کوئی نام ونشان تک نہیں ہے اور خوب صورتی اور خوب سیرتی کو جنسی معاملات سے جوڑنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
سورہ الصٰفٰت کی آیات نمبر 48اور49 میں حوروں کا ذکر اور ان کی صفات یوں بیان کی گئی ہیں کہ وَعِندَهُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ۔(ان (جنتی مردوں اور عورتوں ) کے پاس ہوں گی حوریں نیچی نگاہوں اور خوبصورت آنکھوں والیاں۔ وہ اتنی نرم و نازک ہونگی جیسے انڈے کے چھلکے کے اندر چھپی ہوئی جھلی ہوتی ہے یہاں پر بھی حوروں کے ساتھ کسی جنسی تعلق کا پتہ نہیں چلتا۔
سورہ الطور آیت نمبر 20 میں حوروں کا ذکر ہےکہ مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ ۖ وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ۔ وہ (جنتی مرد اور عورتیں )تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے مسندوں پر قطار اندر قطار اور رفاقت (company)دیں گے ہم انہیں خوبصورت آنکھوں والی حوروں کی۔ یہاں پروَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍ کا عام ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ہم بیاہ دیں گے ان کو خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے۔ شاید یہی وجہ بنی ہے کہ ان حوروں کا جنسی تعلق جنتی لوگوں سے پیدا کردیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بیاہنا یہاں بیچ میں کیسے ٹپک پڑا ۔ ذکر ہورہا ہے ایک پرسرور مجلس کا جس میں جنتی مرد اور عورتیں تکیے لگائے قطار اندر قطار مسندوں پر بیٹھے ماکولات ، مشروبات اور دوسری نعمتوں کے (جو ان کو اللہ نے عطائی فرمائی ہونگی ) مزے لوٹ رہے ہونگے ۔ مجلس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ رفاقت اور کمپنی کی ہوتی ہے نہ کہ بیاہ کی۔ بیاہ کی ضرورت تنہائی کی ضرورت ہے۔ دوسرے بیاہنے کے لئے قرآن پاک میں نکاح کا لفظ عام استعمال ہوا ہے زوج کا نہیں۔ تیسرے زوج کا مطلب میاں یا بیوی ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی تو اس کے کئی معنی مستعمل ہیں۔ مثلًا دو مطابق یا مقابل چیزیں بھی ایک دوسرے کا زوج کہلاتی ہیں۔زوج کے معنی جوڑ یا ساتھی کے بھی ہوتے ہیں۔ ازواج کے معنی جماعت کے بھی ہوتے ہیں جیسے: اُحْشِرُوْاالَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَھُمْ (37:22) کے معنی ہوتے ہیں اور اکٹھا کرو ظالموں کو اور ان کی جماعت کو بھی۔وَاِذَ االنَّفُوْسُ زُوِّجَتْ(81:7 ) کے معنی ہیں جب ہر انسان اپنے ہم مزاج یا ہم جماعت سے مل جائے گا۔دنیا میں میاں بیوی کے تعلقات میں افزائش نسل بھی شامل ہوتا ہے۔ لیکن آخرت میں میاں بیوی کی مواصلت یا افزائش نسل کا تصور قرآن سے نہیں ملتا اس لئے وہاں (مردوں اور عورتوں) کی زوجیت باہمی رفاقت کی ہی ہوگی۔ پس وَزَوَّجْنَاهُم بِحُورٍ عِينٍکے ترجمے میں بیاہنے کا عنصر نہیں بلکہ رفاقت(Companionship) کا عنصر نمایاں ہوگا۔
آیت نمبر 24 میں ارشاد ہوتا ہے وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ۔ اور دوڑتے پھریں گے ان کی خدمت کے لئے ایسے غلمان (لڑکے) جو ان ہی کے لئے مخصوص ہوں گے گویا کہ وہ چھپا کر رکھے ہوئے موتی ہیں۔یہاں پھر انہی لڑکوں کا ذکر ہے جو جنتی مردو ں اور عورتوں کی خدمت کے لئے ہی مخصوص ہونگے جنہیں غلمان کہا گیا ہے۔
پس ہماری بہنیں ،مائیں ، بیٹیاں اور بیویاں جمع خاطر رکھیں کہ جنت الفردوس میں اللہ تعالیٰ عورتوں کو بھی انہی نعمتوں سے نوازے گا جو مردوں کو دی جائیں گی ۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ عدل کے دن اور پھر خود اللہ تعالیٰ عورتوں اور مردوں کے انعامات میں تفریق کرے۔ دنیا میں مرد وعورت کے درمیان اللہ نے جو تھوڑی بہت تفریق رکھی ہے وہ ان کے فرائض منصبی کی وجہ سے ہے اس لئے اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے ۔ لیکن قیامت میں تو تمام فرائض ختم ہوجائیں گے صرف انعامات اور رحمتوں کی بارش ہوگی ۔ وہاں پر انعامات کے دینے میں تفریق برتنا اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہی نہیں ۔پس منجملہ اور نعمتوں کے، خاطر تواضع کے لئے لڑکے اور جنت میں خوش آمدید کہنے اور رفاقت دینے کے لئے نو عمر ،ان چھوئی، شرمیلی، خوبصورت آنکھوں اور خیموں میں رہنے والی حور پریاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لئے بھی موجود ہوں گی۔بس ہم جنت میں جانے کے لئے اپنے آپ کو کوالیفائی (Qualify) کرلیں۔اور مرد حضرات حوروں کا خیال دل سے نکال کر اپنے اللہ کو راضی کرنے والے بنیں۔