خالق ، مخلوق اور عقلِ سلیم ! از قاری حنیف ڈار
اللہ پاک کو انسان پر اعتماد ھے ، انسان کی عقل پہ فخر ھے وہ اسے عقل استعمال کرنے کی دعوت دیتا ھے اور عقل استعمال نہ کرنے پہ تعجب کا اظہار فرماتا ھے! افلا تعقلون ؟ یہ عقل کس لئے رکھ چھوڑی ھے ؟ کب استعمال کرو گے ؟ لعلکم تعقلون ،، یہ عقل میں نے تو اس لئے پیدا کی تھی کہ تم عقل استعمال کرو ،، اس کے سارے فنکشن نام لے لے کر گنوائے !
لعلکم تذکرون !
لعلھم یتذکرون !
لعلکم تتفکرون !
افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوبٍ اقفالھا ،، یہ قرآن پہ تدبر نہیں کرتے یا دل لاک ھیں ( اور پاس ورڈ بھول گئے ھیں )
انسان اپنی عقل ہی کی بنیاد پر انسان اور احسن التقویم ہے ، باقی اس کی ساری صفات حیوانات میں انسان سے بڑھ کر ہیں ،، جب عقل ہی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی تو گویا اپنی انسانیت سے استعفی دے کر حیوان کی سطح پر تشریف لے آئے ،، اولئک کالانعام ، یہ لوگ مویشی ہیں انہی کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے جھنم ایسے ڈھور ڈنگروں سے بھرنی ہے جن کے دل ہیں مگر تفقہ نہیں کرتے ، کان ہیں مگر حق بات کو سننے سے قاصر ہیں ، آنکھیں ہیں مگر بصیرت سے خالی یہ لوگ مویشی ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے [ ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولائک کالانعام بل ھم اضل اولائک ھم الغافلون ۔
اگر عقل کو معزول کر دیا جائے تو پھر جبر ہی جبر ھے جس طرح گدھے کو جبر کا متقی بنا دیا ھے مر جائے گا مگر گوشت نہیں کھائے گا ، اور شیر کو متقی بنا دیا ھے کہ مر جائے گا مگر گھاس نہیں کھائے گا ،، جبکہ اللہ پاک جبر کی پرزور نفی فرماتا ھے اور اپنے رسول ﷺ کو بھی جبر سے منع فرماتا ھے ،،
اے نبی ﷺ اگر تیرا رب چاھے تو اس زمین پر بسنے والے سب کے سب بیک وقت ایمان لے آئیں ، جب اللہ جبر نہیں کرتا تو کیا تم لوگوں پر جبر کرو گے یہانتک کے ان کو جبر سے مومن بنا لو ؟ کوئی جان ایمان نہیں لا سکتی جب تک کہ اللہ کا اذن نہ ھو ، اور بے ایمانی کی گندگی انہی لوگوں کے مقدر میں ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے
[ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (99) وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ( یونس ـ100)
گویا اللہ پاک عقل سے کام لینے والوں کو ایمان کی بشارت سناتا ھے کہ وہ لازم ایمان کی منزل تک پہنچ کر رہیں گے اگر وہ عقل کی راہ چلے ،، اور اگر عقل کو استعمال نہ کیا تو گندگی میں پڑے رہیں گے ـ قرآن سارا دلائل سے بھرا پڑا ہے اور یہ دلائل عقل والوں کی عقل کو Satisfy کرنے کے لئے ہی دیئے گئے ہیں ،مولوی صاحب کی تنخواہ کے لئے نہیں دیئے گئے کہ وہ یہ آیات تراویح میں سنا کر کپڑوں کا جوڑا اور سرخ پرنا بمع ۵ ھزار روپے لے کر جنت میں چلے جائیں گے ، یہ آیات انسانیت کی امانت ہیں جو ان تک پہنچانی ہیں تا کہ ان کی عقول میں پیدا ھونے والوں طوفانوں کو شانت کر سکیں ، اور یہاں اپنی عقل بھی Mute پر لگا رکھی ھے اور غیر مسلموں کو چھونے سے بھی منع کر رکھا ھے پہنچانا تو دور کی بات ھے ! گویا ہم وہ کرپٹ فارماسسٹ ہیں جنہوں نے دوائیاں زیر زمین اسٹاک کر رکھی ہیں تا کہ مریضوں کے باپ کو بھی ان کی ھوا نہ لگے ،، سب سے پہلے اسلام کے ٹھیکداروں کا محاسبہ ھو گا پھر غیر مسلموں کی باری آئے گی۔
شریعت اور حلت و حرمت میں اللہ پاک نے کم سے کم مداخلت کی ھے اور انسانی فطرت و شعور پہ زیادہ سے زیادہ اعتماد کیا ھے ،، باپ اولاد پہ اعتبار نہیں کرے گا تو لوگ کیسے کریں گے ،، خالق اپنی تخلیق پہ اعتماد نہیں کرے گا تو ،، خود اپنی صنعت پہ انگلی اٹھانے کا موقع فراھم کرے گا !