خدا کی تلاش تحریر قاری حنیف ڈار
خدا کی تلاش !
اس کے نام جسے خدا کی تلاش ھے ! مگر وہ اپنے آپ کو دہریہ کہتا ھے !
اگر آپ کو دھریت پہ یقین ھے تو پھر تلاش کیسی ؟
اور اگر تلاش ھے تو پھر دھریت پہ ایمان کیسا ؟
اگر اللہ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو یقین نکل جاتا ھے،، جب تک یقین ھو ، شک پیدا نہیں ھوتا ! یہ دو اضداد ھیں ،، جن کا ایک جگہ جمع ھونا نہ عقل تسلیم کرتی ھے نہ منطق اور نہ سائنس !
پھر دھریت کے بارے میں شک پیدا ھو جائے تو اس پر یقین و ایمان کیسا ،، کیسے اور کس طرح لوگ اپنا تعارف دھریت کے حوالے سے کرا لیتے ھیں !
اگر آپ مومن نہیں تو آپ دھریئے بھی نہیں ،، آپ تلاش میں ھیں ! آپ سب سے پہلے اپنے موقع و محل کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لیں ،،یہیں سے خدا کی تلاش شروع ھوتی ھے ! جب بھی آپ کسی سے رستہ پوچھتے ھیں تو وہ آپ سے پہلا سوال یہ کرتا ھے کہ آپ ھو کس جگہ ؟
آپ ھو کس جگہ ؟
جو شخص یہ تک نہ بتا سکے کہ اس کی لوکیشن کیا ھے ،، وہ کس مقام پہ کھڑا ھے ،، اس کے قریب کوئی بڑی اور اھم عمارت ،،کوئی مشہور اسپتال ،،کوئی فارمیسی ،،کوئی پارک کوئی بینک ،، ؟؟
ایسے شخص کی مدد کوئی بھی نہیں کر سکتا – ایسے بندے شہر کا میئر بھی رستہ نہیں بتا سکتا،، جو اپنے مقام سے غافل ھو !
گویا گھوم پھر کر بات انسان کی اپنی ذات پر آ جاتی ھے ! جو اپنے آپ کو پہچانے گا ، اپنے مقام اور اسٹیٹس کو پہچانے گا ،، بس پلٹ کر دیکھے گا تو رب کو سامنے پائے گا ،،
کائنات میں اپنا مقام دیکھو ؟ ایک دن سر سجدے میں رکھ کر اسے اپنی مادری زبان میں بتا دو کہ تم کہاں کھڑے ھو ؟ چھوڑ گئے ھو تو بھی بتا دو ،،کوئی نوٹس دے دو اسے ،، کسی ادارے کو بھی بندہ چھوڑتا ھے تو کوئی الزام لگاتا ھے ،، کوئی عذر پیش کرتا ھے ،، جتنی اعلی پوسٹ پہ ھوتا ھے اتنا قوی سبب بیان کرنا پڑتا ھے تو لوگ یقین کرتے ھیں ،، رب کی نیابت کو ترک کرنے کا سبب تو بتاتے جاؤ اسے ،، چلو الزام ھی لگا دو ،، میں یقین سے کہتا ھوں کہ جس دن تم نے سر سجدے میں رکھ اس سے اپنی مادری زبان میں گفتگو شروع کی – بات تمہید سے آگے بڑھ ھی نہیں سکے گی ،، وہ تمہیں اس طرح اپنی طرف کھینچے گا جس طرح سمندر قطرے کو کھینچ لیتا ھے تم اپنی بات مکمل نہیں کر پاؤ گے ،،
افسوس یہ ھے کہ اللہ کے کلام کو ھم سمجھتے نہیں ،، اور اپنی زبان میں اس سے بات کرتے نہیں ،،نہ ھمیں نماز میں خدا ملتا ھے ،نہ نیاز میں خدا ملتا ھے،، نہ راز ونیاز ھوتے ھیں نہ دل ھلکے ھوتے ھیں ،، انسان اگر عربی سے واقف ھو تو اللہ کا طرز تخاطب ھی انسان کو اللہ کے پیار سے اس طرح بھر دیتا ھے جیسے شہد کا چھتہ شہد سے بھرا لِچ لِچ کرتا ھے ! انسان الفاظ کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ھے ،، الفاظ پیار کھا جاتے ھیں ،،بعض دفعہ کہنے سے زیادہ چپ کر کے اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا زیادہ سودمند ھوتا ھے ،، جذبوں کو بےلگام چھوڑ دینا زیادہ اچھا ھوتا ھے،، الفاظ رب کی طرف سے آتے ،وہ الفاظ زندگی ھوتے ھیں وھی روح ھوتے ھیں ،، فتلقی آدم من ربہ کلماتٍ ،، فتاب علیہ ،،، آدم علیہ السلام نے صرف آنسو دیئے تھے ،، الفاظ رب نے دیئے تھے !
چلئے میں حسن ظن رکھتا ھوں کہ آپ نے اپنے آپ کو اللہ کے حضور پیش کر دیا ،، اس نے پوچھا کہاں سے رستہ بھولے تھے ؟ تو آپ کے پاس کیا جواب ھو گا ؟ بتانا پڑتا ھے ناں کہ میں نے فلاں جگہ سے دائیں یا بائیں ٹرن لے لیا ھے تا کہ اگلے کو پتہ چلے کہ آپ کس رخ پہ ھیں ؟ یہ سوال اللہ پاک ھر بھولنے والے سے کرتا ھے !
یا ایہا الانسان ! مَا غَرَۜک بِرَبِک الکریم ؟ ائے حضرتِ انسان تمہیں اپنے رب جیسی کریم ھستی کے بارے میں دھوکا کہاں سے لگا ؟ الذی خلقک ،فسواک ،فعدلک ،، فی ائ صورۃٍ ما شاء رکبک؟؟؟
وہ تمہیں سیدھا مسٹر وائی نام کے اس دُمدار کیڑے کے سامنے لا کھڑا کرتا ھے ،، یہاں سے تو چلا تھا ناں ؟ افرأیتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو اسے کبھی غور سے دیکھا ھے؟ یہاں سے تو چلا تھا ،، اسی گندگی سے نکلا تھا تو ،،تو جس کپڑے کو لگا وہ کپڑا چھونے کا روادار بھی کوئی نہ تھا ،اسے پاؤں کی ٹھوکر سے ھینڈل کیا جاتا تھا ،، ھم نے تمہیں اٹھا لیا ،، اپنی جسامت کو دیکھ ! یہ 6 فٹ والی نہیں وہ نمک کے دانے کے پچاسویں حصے والی جو کھلی آنکھ سے نظر بھی نہیں آتی تھی ،، تیرے اس حجم کے حساب سے رحم مادر تک تجھے جانے میں 25 ھزار کلومیٹر کا سفر کرایا گیا،تیرے دائیں بائیں محافظ لگائے گئے رستے میں ھر کیمیکل تجھے کھانے اور مارنے کو کافی تھا ،مگر ھم تمہیں لے گئے تیری منزل تک،، تیری والدہ میں جو تیرا آدھا حصہ رکھا تھا تجھے اس سے جا ملایا ،،
أانتم تخلقونہ ام نحن الخالقون ؟ اب اس مسٹر وائی کو ھم نے تخلیق کے مراحل سے گزارا یا تم نے پیدا کیا یا وہ کیڑا خود ھی فیصلے کر رھا تھا ؟
چلئے آ پ کہتے ھیں کہ وہ تو جینز فیصلے کر رھے تھے ، بفرض محال ھم بھی مان لیتے ھیں کہ بقول آپ کے جینز شکل و صورت کے فیصلے کر رھے تھے، اور ان جینز کے پیچھے کسی بڑے کا ارادا نہیں تھا !!
مگر باپ بھی وھی ھے ،، پھر ایک مسٹر وائی بھی وھی ھے ،، تیری ماں بھی وھی ھے ،، Female Egg بھی وھی ھے ،، ڈی این ائے بھی وھی ھے !
پھر تیرے بھائی کی شکل کیوں اور ھے ؟ تیری اپنی تھیوری کے مطابق اسے تیرے جیسا ھونا چاھئے تھا ناں ،،
بدلا کیا ھے جو تیرے بھائی کی شکل بدل گئ ھے ؟ فی ای صورۃٍ ما شاء رکبک ! یہ کسی اور کا ارادہ بدلا ھے کہ تیرے بھائی کی شکل تجھ سے الگ بنائی جائے !! بس وھی خدا ھے ،، وھی جو یخلقکم فی بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فی ظلماتٍ ثلاث ،، جو تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک کے بعد ایک شکل دیئے چلے جاتا ھے ،، اور وہ بھی تین اندھیروں کے اندر !!! وہ تو تمہیں اندھیروں میں ڈیویلپ کر کے روشنیوں میں لایا تھا ،، اور تم پلٹ کر پھر اندھیروں میں جا پھنسے ھو ! توبوا الی اللہ ،، پلٹو اللہ کی طرف،،، اللہ ھی کائنات میں روشنی کا واحد سورس ھے ،، باقی سارے ذرائع اس کی مخلوق ھیں،، اللہ نور السماوات والارض ،، روشنی کا سورس آسمان پر ھو یا تمہاری اپنی ذات کے اندر کا Visual System ھو اس کا خالق صرف اور صرف اللہ ھے،، وھی اللہ جو آج تمہیں نظر نہیں آتا حالانکہ وہ ھر چیز کے پیچھے سے جھانکتا ھے،،
کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ !
مشرق سے ابھرتے ھوئے سورج کو ذرا دی
خود فراموش یا خدا فراموش ؟
انسان تب ھی دھوکا کھاتا ھے جب وہ یا تو اپنی حقیقت بھلا دیتا ھے ، یا پھر خدا کی عظمت سے نا آشنا ھوتا ھے ،، خدا کو تلاش کرنے والے کو اللہ پاک بار بار اس کی اپنی اصلیت کی طرف لوٹاتا ھے گویا back to main menu جہاں سے بھُولے ھو، اسی جگہ جاؤ , انسان نطفے میں تیرنے والے 250 ملین کیڑوں میں سے ایک کیڑا تھا ، جسے دوسرے کیڑوں کی طرح مرنے دیا جاتا تو آخر خدا کی خدائی پہ کیا فرق پڑنا تھا ؟ آج اسے نہ صرف اپنا آپ بلکہ اپنی ملکیت میں موجود ھر چیز بڑی قیمتی لگتی ھے ،مگر ان تمام چیزوں کی اھمیت اگرچہ وہ ساری دنیا کی بادشاھی ھو، خود اس کی اپنی ذات کے ساتھ جُڑی ھوئی ھے ، اور اس کی اپنی اھمیت یہ ھے کہ اس کی اگلی سانس کی بھی گارنٹی نہیں ، اس کے پاؤن میں پڑی 2 درھم کی قینچی چپل کی گارنٹی ھے کہ کل وہ یہیں ھو گی ،مگر خود انسان کی کوئی گارنٹی نہیں ،بڑی سے بڑی رقم جب زیرو کے ساتھ ضرب کھاتی ھے تو زیرو ھو جاتی ھے ،انسان کے ساتھ ضرب کھا کر ھر چیز بے ثبات ھو جاتی ھے ، اپنی وقعت کھو دیتی ھے ،،
آپ سے جب کوئی رستہ پوچھتا ھے تو آپ الٹا اس سے سوال کرتے ھیں کہ ” آپ اس وقت کہاں کھڑے ھیں ؟ ” اور پھر ھدایت کی ابتدا اس کی لوکیشن سے شروع کرتے ھیں نہ کہ اپنے گھر سے ،، جہاں آپ ھیں وھاں آگے دوسرے سنگل سے ٹرن لے لیں وھاں ایک فارمیسی ھو گی اس سے آگے نکل کر دوسرے کٹ سے ٹرن لے لیں ،،،،، اللہ کو کوئی تب ھی بھول سکتا ھے جب اپنی لوکیشن بھول گیا ھے ،، اگر وہ کلورین ملے اس مواد میں تیرنے والے مسٹر ( Y ) کو یاد رکھے تو آسمان والے کو کبھی نہیں بھول سکتا ، البتہ جب وہ خود کو آسمان والے کی طرح خود مختار سمجھنا شروع کر دیتا ھے تو پھر اپنا آپ بھی بھلا دیا جاتا ھے ،یہ اللہ کی طرف سے سزا ھے ، آپ نے سورہ الحشر کی وہ آیت تو پڑھی ھو گی جس اللہ پاک فرماتا ھے کہ
"وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ( الحشر-19)
ان کی مانند مت ھو جاؤ جو اللہ کو بھُولے تو اللہ نے بھلا دیا ان کو اپنا آپ، ایسے لوگ ھی فاسق ھوتے ھیں
یہ اپنا آپ بھلانے کا مطلب کیا ھے ؟
جب تم اپنی لوکیشن اور پوزیشن ھی بھول چکے ھو گے تو اب تمہیں کوئی راہ نہیں سجھا سکتا کیونکہ تم یہ ھی نہیں بتا پاؤ گے کہ تم کہاں کھڑے ھو ، اب وہ تمہیں کونسا دائیاں بائیاں بتا کر راہ دکھائے گا ؟
اب دیکھئے کہ اللہ پاک کیسے انسان کو اس کی حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ھے ،
مارا جائے انسان یہ کتنا ناشکرا ھے ، کیا دیکھتا نہیں کہ اسے کس چیز سے بنایا گیا ھے ،، نطفے سے بنایا بھی ھے اس کو اور بہترین قدرتوں سے نوازا بھی ھے اس کو ،، اے انسان تجھے تیرے رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں مبتلا کر دیا ؟ وہ رب جس نے تجھے سوچا پھر ٹھیک اس سوچ کے مطابق پورا پورا اور ٹھیک ٹھیک اعتدال کے ساتھ بنایا ، جس صورت میں اس نے چاھا تجھے جوڑا ،Assemble کیا ،اور تو نے اپنے خالق سے ملاقات کی خواھش کی بجائے اس سے ملاقات کے دن سے ھی انکار کر دیا ؟
اللہ وھی تو ھے جس نے پانی میں تمہیں بنایا ،پھر پانی سے خشکی میں لایا ، پھر تیری صورت کشی کی ،، اس نے تمہیں ماؤں کی رحم میں تخلیق کے مختلف مراحل سے گزارا اور یہ سارے کام تین اندھیروں میں کیئے ،، یہی اللہ ھی تو تمہارا رب ھے ،اسی کی بادشاھی ھے ، اس کے سوا کوئی الہ نہیں ھے ،پھر تم کیسے اس سے پھیر لیئے جاتے ھو؟
يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِّن بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر-6)
اس کے بعد وہ اپنی عظمتوں کی طرف متوجہ کرتا ھے ، کائنات کی ھر چیز اس کی تسبیح کرتی ھے ، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی شان بیان نہ کر رھی ھو اپنے قول یا اپنے حال سے ،، کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی ھر چیز اس اللہ کی تسبیح کرتی ھے اور پرندے صفیں باندھ کر پروں کے پرے اس کی تسبیح کرتے ھیں ان میں سے ھر ایک اپنی نماز بھی جانتا ھے اور اپنی تسبیح بھی ، اور اللہ کو بھی علم ھے کہ وہ کیا کرتے ھیں
ألم تر أن الله يسبح له من في السماوات والأرض والطير صافات كل قد علم صلاته وتسبيحه والله عليم بما يفعلون
شیطان نے جب کہا کہ وہ انسان پر سامنے سے بھی وار کرے گا اور پیچھے سے بھی ،دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی ،، تو دو سمتیں وہ بھول گیا اوپر سے اور نیچے سے،، اگر انسان اوپر اللہ کو یاد رکھے اور نیچے اپنی حقیقت سے آگاہ رھے تو کوئی چیز اس کے اور رب کے درمیان حائل نہیں ھو سکتی –
انسان جب اللہ کے احسانات کو دیکھتا ھے تو اس کا دل شکر سے بھر جاتا ھے ،وہ اس سے محبت کرنا چاھتا ھے ، وہ اسے کچھ تحفے میں دینا چاھتا ھے ، وہ کچھ اس کی نذر کرنا چاھتا ھے ، انسان میں شکر کا بڑا طاقتور داعیہ رکھا گیا ھے ، مگر وہ دیکھتا ھے کہ جسے وہ کچھ دینا چاھتا ھے وہ ھر چیز سے بے نیاز بادشاہ ھے ، اسی کسی چیز کی حاجت نہیں ،ھماری پیش کردہ کوئی چیز اس کے کام اور ضرورت کی نہیں پھر وہ اپنے شکر کے جذبے کی تسکین کیسے کرے کہ اس کو چین مل جائے ،فرمایا جو مجھے دینا چاھتے ھو غریبوں مسکینوں ،مسافروں اور قیدیوں کو بانٹ دو ،، یطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً و یتیماً و اسیراً انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزأءً ولا شکوراً
وہ اس کی محبت مین کھانا کھلاتے ھیں مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو اور ساتھ کہتے ھیں کہ ھم تمہیں کھلا رھے ھیں اللہ کی خاطر ،، تم سے ھم بدلہ نہیں چاھتے بلکہ ھم تم سے شکریئے کے روادار بھی نہیں کیونکہ ھم نے یہ تمہارے لئے کیا ھی نہیں ،،
محبت ھم کفو سے ھو تو کسی کنارے لگتی ھے ورنہ جان لیوا ثابت ھوتی ھے ،، دوسری قوم کی لڑکی سے محبت کرنے اور شادی کا پیغام بھیجنے کے جرم میں کتنے دن سے بیچارہ چھپا بیٹھا ھے ، لڑکی کا بھائی اور باپ اس کو مارنے کے لئے ڈھونڈ رھے ھین ،، اگر اللہ پاک بھی فرما دیتا کہ اگر تم نے مجھ سے محبت کی تو مجھے پتہ چل جائے گا کیونکہ میں دلوں کے راز بھی جانتا ھوں ،اے گندگی میں تیرنے والے دمدار کیڑے اگر مجھے تمہارے دل کی گہرائیوں میں بھی اپنی محبت کا ثبوت ملا تو میں تجھے عبرت بنا کر رکھ دونگا ،، تو ھم کدھر جاتے ، اس کے احسانات ھمیں محبت پر ابھارتے تو ھم اس جذبے کو کہاں جا کر چھپاتے ،،؟؟ اللہ کے رسول ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ کسی فاجر کا مجھ پر احسان مت ھونے دینا میرا دل اس سے محبت کرنے لگ جائے گا ،، اللھم لا تجعل لفاجرٍ علی یداً فیحبہ قلبی ،،،، پھر اللہ کے اتنے احسانات پر دل محبت سے بھر کیون نہ جائے ، اور بھر جائے تو امڈنے سے کیسے روکا جائے ؟
واللہ اگر یہ نمازیں ، روزے نہ ھوتے تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل پھٹ جاتے ، یہ عبادتیں پریشر ککر پہ رکھے وہ ویٹ ھیں جو بظاھر تو وزن لگتے ھیں مگر وہ اس پریشر کو ریلیز کرنے کی راہ ھیں کہ جن کی عدم موجودگی میں ککر کو پھٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا ،مگر کچھ نادان ان عبادات کو مشقت اور سزا سمجھتے ھیں ، کچھ رب پر احسان سمجھتے ھیں اور بدلہ چاھتے ھیں اور وہ بھی نقد
دنیا کی ھر چیز چھن جائے اگر رب نے اپنے سامنے سر رکھنے کی توفیق دی ھوئی ھے تو اللہ کی قسم کچھ بھی نہیں گیا کیونکہ سب کچھ دینے والے نے تمہیں اپنے قدموں میں جگہ دی ھوئی ھے ،، طائف کی گلیوں میں پتھر کھانے والے رب کے محبوب ﷺ نے کیا فرمایا تھا ؟ اے اللہ اس سب توھین اور رسوائی کے باوجود اگر تو مجھ پہ غصہ نہیں تو ” فلا ابالی ” پھر مجھے ان تمام مصائب کی کوئی پرواہ نہیں ،، نمازوں کو مزدوری سمجھ کر روزنامچے میں مت لکھو کہ رب سے مزدوری لو گے ،، بلکہ اس کا انعام سمجھ کر مزید شکر کی راھیں تلاش کیا کرو ، تا کہ شیطان تمہارے اندر رب کے خلاف سازشوں کے جال نہ بُنا کرے اور تمہارے اندر رب کے خلاف گلوں شکوؤں کی آندھیاں اور طوفان نہ اٹھا کری