خلاصہ قرآن پارہ نمبر 10
دسویں پارے کا آغاز سورۃ انفال کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ اس کے شروع میں مالِ غنیمت کی تقسیم کا ذکر ہے کہ اس مال میں اللہ اور اس کے رسول کا صوابدیدی اختیار پانچویں حصے کا ہے یعنی نبی کریم علیہ السلام کو یہ اختیار تھا کہ آپ مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کو اپنی مرضی کے ساتھ تقسیم کر سکتے تھے۔
اس کے بعد کامیابی کے لیے دعا اور دوا کا الوہی نسخہ ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! جب کسی فوج سے ملو تو ثابت قدم رہو (بلند ہمتی) اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پاؤ (مسلسل دعا) اور اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو (اللہ اور اس کے رسول کے قائم کردہ اصول و ضوابط کی ہر حال میں پاسداری) اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی (اتفاق و اتحاد، ٹیم ورک) اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (مستقل مزاجی) اور ان لوگوں جیسا نہ ہونا جو اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے (شیخی بگھارنے اور ڈینگیں مارنے سے گریز، عجز و انکساری کا رویہ)۔
آگے بدر کے معرکے کا ذکر ہے کہ شیطان اس معرکے میں انسانی شکل میں موجود تھا اور کافروں کو لڑائی کے لیے اکسا رہا تھا۔ وہ کافروں کو یقین دلا رہا تھا کہ مسلمان کافروں پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ جب اللہ نے جبریل کی قیادت میں فرشتوں کی جماعتوں کو اتارا تو شیطان میدانِ بدر سے فرار ہونے لگا۔ کافروں نے اس سے پوچھا کہ تم تو ہمیں فتح کی نوید سنا رہے تھے، اب کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ اس پر شیطان نے جواب دیا کہ میں وہ یکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ مجھے اللہ کا خوف دامن گیر ہے اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔
اس سورت میں اللہ نے یہود کی متواتر بدعہدیوں اور خیانت کے بعد یہ آیت نازل فرمائی کہ اگر آپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت کا ڈر ہو تو اس کا معاہدہ لوٹا کر حساب برابر کر دیجیے۔ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اس سورت میں مسلمانوں کو اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ کافروں سے مقابلہ کے لیے ہر ممکن طاقت اور فوجی گھوڑوں کو تیار رکھیں۔ اس تیاری کی وجہ سے اللہ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن مرعوب ہوں گے اور وہ دشمن بھی جن کو مسلمان نہیں جانتے اور اللہ کے راستے میں جو خرچ کریں گے ان کو پورا پورا اجر ملے گا۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ مسلمان افرادی اعتبار سے کمزور بھی ہوں تو کفار پر غالب رہتے ہیں۔
سورۃ الانفال کے بعد سورۃ توبہ ہے۔ اس کے شروع میں ارشاد ہے کہ جو شخص نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے دیتا ہے ایسا شخص مسلمانوں کی جماعت سے منسلک ہے اور دینی اعتبار سے ان کا بھائی ہے۔ آگے ارشاد ہے کہ بعض کافر اس بات پر اتراتے تھے کہ ہم حرم کی صفائی کرتے ہیں اور حاجیوں کو ستو پلاتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ حرم اور حاجیوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر اللہ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کی خوشنودی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔
مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارے قبیلے، تمھارے مال جو تم اکٹھا کرتے ہو، تمھاری تجارت جس سے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور گھر جن میں رہنا تمھیں مرغوب ہے، تم کو اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں کیے جانے والے جہاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ کا عذاب نہیں آجاتا۔
آگے حنین کے معرکے کا ذکر ہے۔ مسلمانوں کا ہمیشہ یہ طرزِ عمل رہا کہ وہ قلتِ وسائل اور افرادی قوت میں کمی کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر ثابت قدم اور اللہ کی غیبی نصرت و حمایت کے طلب گار رہے، لیکن حنین کا معرکہ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد اور افرادی قوت بہت زیادہ تھی۔ اس تعداد کی کثرت اور فراوانی نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک گھمنڈ کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ جب مسلمان کافروں کے آمنے سامنے ہوئے تو ہوازن کے تجربہ کار تیر اندازوں نے یکلخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تاہم نبی کریم علیہ السلام پورے وقار اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے۔ آپ کی استقامت کی وجہ سے مسلمان بھی دوبارہ حوصلے میں آگئے اور خدا سے مدد طلب کی۔ خدا نے مسلمانوں کو کفار پر غلبہ عطا فرما دیا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ جنگوں میں فتح وسائل کی کثرت اور فراوانی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہوتی ہے۔
اس کے بعد اللہ نے یہودیوں اور نصرانیوں کے برے عقیدے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہودی ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، اللہ کہتا ہے کہ یہ باتیں انھوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں اور اللہ کی ان پر مار ہو جو یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
سورۃ توبہ ہی میں اللہ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں مگر اس کو راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن سونے چاندی کو آگ میں پگھلانے کے بعد ان کی پیشانیوں کو، پہلوؤں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ اس چیز کے سبب ہے جو تم اکٹھا کرتے ہو پس اکٹھا کرنے کا مزہ چکھ لو۔
اس سورت میں اللہ نے مصارفِ صدقات (زکوٰۃ) کا ذکر کیا ہے کہ اس کے آٹھ مصارف ہیں: مفلس، محتاج، عاملین یعنی صدقات جمع کرنے والے کارکنان، جن کی تالیفِ قلب منظور ہو یعنی اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے، رقاب یعنی قیدی اور غلام (کے آزاد کرانے میں)، غارمین یعنی قرضہ و تاوان کے تلے دبے ہوئے لوگ، اللہ کی راہ میں اور مسافر (کی مدد میں خرچ کرنا چاہیے)۔ نیز ارشاد ہے کہ منافق مرد اور عورت ایک دوسرے میں سے ہیں اور یہ بھی کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔
اس کے بعد اللہ نے اپنے نبی علیہ السلام کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انھیں کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے اور ان پر سختی کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اللہ نے بعض منافقین کے اعمال کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اللہ ہمیں مال دے گا تو ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے، جب اللہ نے ان کو مال دے دیا تو وہ بخل کرنا شروع ہوگئے۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے ایسے لوگوں کے دلوں میں نفاق لکھ دیا اس دن تک جب ان کی اللہ کے ساتھ ملاقات ہوگی۔
اس سورت میں غزوۂ تبوک کے موقع پر فتنے کا عذر پیش کرکے پیچھے رہ جانے والے اس منافق کا بھی ذکر ہے جس نے کہا تھا کہ روم کی خوبصورت عورتیں دیکھ کر مجھ سے صبر نہیں ہوسکے گا اور میں فتنے میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ رسولِ اکرم علیہ السلام نے اس کو رکنے کی اجازت دی تو اللہ نے واضح کر دیا کہ درحقیقت یہ بہانہ بناکر پیچھے رہنے والے لوگ فتنے کا شکار ہوچکے ہیں اور اللہ نے جہنم کو منکروں کے لیے تیار کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین