خلاصہ قرآن پارہ نمبر 26
چھبیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحقاف سے ہوتا ہے جس میں ارشاد ہے کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں ان سے کہیے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں. مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر استقامت دکھائی تو نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ غم، اور یہ لوگ جنتی ہیں جو ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ان کو ان کے کیے کی جزا ملے گی۔
آگے اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو والدین سے اچھے برتاؤ کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اس کو اٹھائے رکھا اور تکلیف کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ پینے کی مدت تیس ماہ ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کی انتہا کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو دی اور مجھے توفیق دے کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جنھیں تو پسند کرتا ہے اور تو میری اولاد کی اصلاح کر دے، میں تیری بارگاہ میں آکر توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی خطاؤں کو ہم معاف کرتے ہیں، اور یہ لوگ جنتی ہیں اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے دنیا میں کیا جاتا تھا.
نیز اللہ نے حضرت محمد علیہ السلام کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ویسے صبر فرمائیں جس طرح آپ سے قبل اولوالعزم انبیا یعنی حضرت نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ صبر فرماتے رہے، اور آپ نے جب دعوتِ دین میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کیا تو آپ کا صبر پچھلے تمام نبیوں کے صبر پر سبقت لے گیا۔
سورۃ الاحقاف کے بعد سورۃ محمد ہے جس میں اللہ پاک اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ان کے اعمال گمراہ کن ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائے جس کو اللہ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا، تو اللہ نے ان کی خطاؤں کو معاف کر دیا اور ان کے معاملات کو سنوار دیا ہے۔
اللہ پاک نے اپنی ذات کے منکروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اہلِ کفر کا رہن سہن اور کھانا جانوروں کے کھانے کے مانند ہے اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ جس طرح جانور حلال حرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں اسی طرح کافر بھی حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں اور اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں کو تیار کر دیا ہے۔اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ قرآنِ مجید پر کیوں غور نہیں کرتے۔ کیا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟ جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکتے رہے اور ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود نبی کی مخالفت کی وہ اللہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے اعمال برباد ہو چکے ہیں۔
آخرِ سورت میں استبدالِ قوم کی آیت ہے جس میں ارشاد ہے کہ اے وہ لوگو جنھیں اللہ کے راستے میں نکلنے اور خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں کے کچھ بخل کرتے ہیں اور یاد رکھو جو بخل کرتا ہے وہ اپنی جان کے ساتھ بخیلی کرتا ہے. اللہ غنی ہے اور تم سب فقیر ہو. اللہ اس بات پر قدرت رکھتا کہ تمھیں تبدیل کرکے کسی اور قوم سے اللہ کے راستے میں نکلنے اور خرچ کرنے کا کام لے لے، وہ قوم جو تمھارے جیسی بخیل نہ ہو.
اس کے بعد سورۃ فتح ہے جس میں رسول اللہ کو فتحِ مبین کی بشارت دی گئی ہے۔ یہ فتحِ مبین کی خوشخبری صلح حدیبیہ کے پس منظر میں ہے. اس معاہدے کی بعض شقوں سے مسلمانوں کی کمزوری ثابت ہوتی تھی لیکن اللہ نے اس کو فتحِ مبین قرار دیا کیونکہ اس معاہدے کے بعد اشاعت دعوت کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹیں ختم ہوگئی تھیں اور صرف دو سال کے عرصے میں مسلمانوں کی تعداد چودہ سو سے دس ہزار ہوگئی. یہ سورت دو متضاد گروہوں کا تذکرہ کرتی ہے. ایک وہ جو غیر مسلح اور گھر سے دور ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ پر بیعتِ جہاد کرتا ہے اور عہد کرتا ہے فتح یا شہادت تک آپ کی وفاداری کروں گا. اللہ کو ان کا جذبہ پسند آیا اور اللہ نے فرمایا جو بیعت کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے. پھر فرمایا اللہ ان مومنوں سے راضی ہے جنھوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ نے آپ کو فتحِ مبین کی بشارت دی۔ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ اور صحابہؐ کے دل خوشی سے معمور ہوگئے اور صرف دو برس کے قلیل عرصے میں مسلمانوں کو فتحِ مکہ جیسی عظیم کامیابی حاصل ہوگئی۔
دوسرا گروہ منافقین کا تھا جو مدینہ سے ہی آپ کے ساتھ نہیں گئے تھے. ان کا خیال تھا کہ مسلمان مکہ سے زندہ واپس ہی نہیں آ سکیں گے. اللہ ان کے بارے میں بتایا کہ جب آپ واپس جائیں گے تو وہ جھوٹے اعذار پیش کریں گے. اس کے تین امور ارشاد فرمائے. اسلام کو غلبہ ملے گا (علمی اور عالمی)، دوسرا آپ کے ساتھیوں کی تعریف اور تیسرے نمبر پر ان کے لیے اجرِ عظیم اور مغفرت کا وعدہ فرمایا. نیز جاہلیت کی حمایت یعنی برے گروہی مفادات (Collateral benefits) کے حصول کے لیے جتھہ سازی کی سخت مذمت کی گئی ہے.
نیز فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو ان کے ساتھی ہیں وہ کفار پر سخت لیکن آپس میں رحم دل ہیں، اور اے مخاطب تو دیکھے گا کہ وہ رکوع و سجود میں اپنے رب کا فضل اور اس کی رضا تلاش کرتے ہیں اور ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہیں اور ان کی مثال تورات اور انجیل میں مذکور ہے. ان کا غضب کفار کے لیے ہے. اور اللہ ایمان اور اعمالِ صالحہ والوں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کرتا ہے. (اس آخری آیت میں عربی کے تمام حروفِ تہجی موجود ہیں۔)
اس کے بعد سورۃ الحجرات ہے۔ اس میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسول سے آگے قدم نہیں بڑھانا چاہییں۔ ارشاد ہے کہ اے ایمان والو، نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح تم میں کے کچھ لوگ ایک دوسرے کے سامنے اونچی آواز میں بات کرتے ہیں ورنہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمھیں اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جب کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم بغیر سبب کے کسی قوم کے خلاف ہو جاؤ اور بعد میں تمھیں اپنے کیے پر ندامت ہو۔
آگے ارشاد وارد ہوا ہے کہ اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں جنگ و قتال شروع کر دیں تو ان کے درمیان صلح کروا دینی چاہیے۔ اگر ایک گروہ سرکشی پر تلا رہے تو ایسی صورت میں باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنا چاہیے یہاں تک کہ وہ صلح پر آمادہ ہو جائے۔ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس بھائیوں میں صلح صفائی کروا دیا کرو۔
ارشاد ہے کہ اے ایمان والو، اسی اخوت کا تقاضہ ہے کہ نہ تمھارے مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ اپنوں کو عیب لگاؤ اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو برے القاب دو۔ یہ سب فسق کی باتیں ہیں، اور ایمان کے بعد تو فسق کا نام بھی بہت برا ہے۔ اور جو اس تنبیہ کے بعد بھی توبہ نہ کریں تو وہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔
اس سورت میں اللہ نے چھ گناہوں سے بچنے کی تلقین کی: مذاق اڑانا، نام بگاڑنا، عیب لگانا، بدگمانی، تجسس اور غیبت. ان گناہوں کی شدت سے مذمت کی گئی ہے۔ یہ ارشاد ہوا کہ انسانوں میں قبائل اور گروہ آپسی تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں جب کہ فضیلت کا اصل سبب تقویٰ ہے، جو پرہیزگار ہے وہ اللہ کے نزدیک اکرام والا ہے۔
اس کے بعد سورۃ ق ہے جس میں تخلیقِ ارض کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا تھا اور چھ دن میں بنانے کے بعد اس کو تھکاوٹ بھی نہیں ہوئی۔ نیز اس امر کا بھی ذکر کیا گیا کہ جہنم میں جب جہنمی ڈال دیے جائیں گے تو جہنم کہے گی کہ میرے اندر اور لوگوں کو ڈالا جائے۔ جہنم سے بچ نکل کر جنت میں داخل ہو جانے والے خوش نصیب وہی ہوں گے جنھوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اختیار کیا ہوگا۔
یہ سورت انسان کو مسئولیت اور خدا کی حضوری کا احساس دلاتی ہے اور ارشاد ہوتا ہے کہ خدا تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور انسانی ذہن میں پیدا ہونے احساس کو بھی جانتا ہے. دو فرشتے موجود ہیں جو سب کچھ لکھ رہے ہیں اور قیامت کے دن وہ سب کچھ اللہ کے سامنے پیش کر دیا جائے گا.
اس سورت کے آخر میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ آپ قرآنِ مجید کے ذریعے ان کو نصیحت کریں جن کے دلوں میں خوف ہے۔
سورۃ ق کے بعد سورۃ الذاریات ہے۔ اس میں اللہ پاک نے بہت سی قسمیں اٹھانے کے بعد کہا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ مومنین کا ایک اہم وصف یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ راتوں کو جاگنے والے اور سحری کے وقت استغفار کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ارشاد ہوا کہ انسانوں کے رزق کا فیصلہ آسمانوں پر ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔