خلاصہ قرآن پارہ نمبر 24

چوبیسویں پارے کا آغاز سورۃ زمر کے بقیہ حصے سے ہوتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اس تک پہنچ گئی تو اسے جھٹلا دیا۔ جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں وہ تمام گروہ شامل ہیں جنھوں نے اللہ کی ذات کے ساتھ شرک کیا۔ کفارِ مکہ نے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا مسیح کو جب کہ یہودیوں نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ یہ تمام کے تمام گروہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ نے جہنم کو کافروں کے لیے طے فرما دیا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ سچائی کی دعوت لے کر آئے اور جنھوں نے آپ کی تصدیق کی وہ اہلِ تقویٰ ہیں اور ان کے لیے پروردگارِ عالم کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے جو وہ چاہیں گے. رسول اللہ ﷺ اس پر رنجور ہوجاتے تھے کہ کافروں کو صراطِ مستقیم کی دعوت دینے پر وہ آپ کی حق پر مبنی بات کو ٹھکرا دیتے ہیں، اس پر ارشاد ہوا کہ جو ہدایت کو قبول کرے گا وہ اپنے فائدے کے لیے کرے گا اور جو گمراہ ہوگا اس کا نقصان اسی کی ذات کو ہوگا۔

اس کے بعد اللہ پاک نے نبی کریم کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں کہ اے وہ بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کرچکے ہو، خدا کی رحمت سے مایوس مت ہونا، بے شک اللہ سارے کے سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔

اس سورت میں قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ قیامت کے دن تمام زمین اللہ کی مٹھی میں ہوگی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان اور زمین میں جتنے رہنے والے ہیں سب بے ہوش ہو جائیں گے سوائے ان کے جنھیں اللہ چاہے گا۔ پھر دوسری بار پھونک ماری جائے گی تو وہ کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور تمام اعمال نامے رکھے جائیں گے اور انبیا اور شہداء لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔

سورۃ الزمر کے بعد سورۃ المومن ہے جس کے شروع میں اللہ نے اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے کہ وہ گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتے اور جو فرشتے اس کے ارد گرد جمع ہیں، سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اپنی رحمت اور علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ پس تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنھوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی اور تو انھیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔ اے ہمارے رب تو انھیں ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ہمراہ ان کے ماں باپ، بیویوں اور اولادوں میں سے ان لوگوں کو بھی داخل فرما جو نیکی کی راہ پر چلے ہوں۔ بے شک تو زبردست حکمتوں والا ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ کافروں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتے اور زمین پر ان کے ٹھاٹ باٹھ اور شاہانہ اندازِ زندگی کو دیکھ کر انسان کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے. فرشتوں کی اہل ایمان کے لیے دعا کے بعد کفار کا حال بیان کیا گیا کہ جب کفار کو جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا تو وہ پریشان و نادم ہوں گے اور اپنے آپ سے نفرت کریں گے کہ کاش ہم اس وقت اللہ کی بات مان لیتے اور انبیاء کی دعوت قبول کر لیتے.

اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں کا بھی ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ شدید غضب ناک ہوگا اور بار بار یہ آواز بلند فرمائے گا کہ آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ اور کہیں سے جواب نہ پاکر پھر خود ہی جواب دے گا کہ آج خدائے واحد و قہار کی بادشاہی ہے۔ اللہ نے فرعون کے اس عزم کا بھی ذکر کیا کہ اس نے جنابِ موسیٰ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو جنابِ موسیٰ نے فرعون سے کہا کہ میں اپنے اور تیرے پروردگار کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس متکبر کے شر سے جو یومِ حساب پر یقین نہیں رکھتا۔

اللہ نے فرعون کے قبیلے کے ایک مومن شخص کا بھی ذکر کیا ہے جو دربارِ فرعون میں منصب دار تھا اور اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتا تھا لیکن جب فرعون نے جنابِ موسیٰ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت ہوگئی اور اس نے اس موقع پر موسیٰ کی علانیہ حمایت کی اور اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا۔ اللہ نے اس کے ایمان کو قبول کیا اور اسے فرعون کے مکر سے نجات دلا دی۔ اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کی دنیا میں بھی مدد کریں گے اور قیامِ قیامت پر بھی کریں گے۔

اس کے بعد اللہ نے چند نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے کہ اس نے رات کو آرام اور دن کو معاش کا ذریعہ بنایا. آسمان کو زمین کا چھت بنایا. خوبصورت صورتیں بنائیں. رزق کے طور پر پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں. انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائے. نیز اعلان فرمایا گیا کہ تم مجھے پکارو، میں تمھاری دعاؤں کو سنوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں، ان کو جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔ پھر انسان کو خود اپنی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی کہ کیسے اللہ نے نطفے سے لوتھڑا اور پھر ہڈیاں بنائیں، اور پھر بچپن، جوانی اور بڑھاپا عطا کیا. اس کے باوجود لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں. ارشاد ہوتا ہے کہ کیا ہوا ہے ان کو؟ یہ کہاں پھرے جا رہے ہیں؟

سورۃ المومن کے بعد سورۃ حم سجدہ ہے جس کے آغاز میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کو بشارت دیں، مگر لوگوں کی اکثریت قرآنِ مجید کی دعوت سے اعراض کر لیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہمارے کان اور دل آپ کی دعوت کو سننے اور ماننے سے قاصر ہیں۔ یہ کافروں کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ کی کھلی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے بعد زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے لوگ مشرک اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں۔ ان کے مدِمقابل جو لوگ ایمان لائے اور عملِ صالح کرنے والے ہیں ان کے لیے اللہ نے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔

اس کے بعد قومِ عاد و ثمود پر آنے والے عذابوں کا ذکر ہے۔ قوم عاد و ثمود پر دنیاوی عذاب کے تذکرہ کے بعد اخروی عذاب کا ذکر فرمایا گیا کہ جب مشرکوں کو اللہ کے دربار میں جمع کیا جائے گا تو اس وقت ان کے اعضا یہاں تک کہ ان کی کھال بھی ان کے خلاف گواہی دے گی. ارشاد ہوا کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اس پر استقامت اختیار کی تو اللہ ان پر موت کے وقت فرشتوں کا نزول فرمائے گا اور فرشتے ان کو کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ، تم کو اس جنت کی بشارت دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ان اصحابِ استقامت میں سے بھی وہ لوگ اعلی درجے پر ہیں جو حکمت کے ساتھ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں.

اس پارے کے آخر میں اللہ پاک نے عدل کا تذکرہ کیا. اللہ کی عدالت میں عدل ہوگا، وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوگا. جو لوگ نیک عمل کرتے ہیں سو اپنے لیے کرتے ہیں اور جو برا عمل کرتے ہیں اس کا وبال انھیں پر ہوگا.

اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.