خلافت اور خاندانی اثر و رسوخ یا اجارہ داری ! از قاری حنیف ڈار
نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرکۃ الآراء حدیث ’’ الائمۃ من قریش ‘‘ جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی بنیاد سمجھا جاتا ھے وہ اگر سند کے لحاظ سے کمزور بھی ھوتی تب بھی انصار کے تعامل نے اس کو سند تصدیق عطا فرما دی ھے ، انہوں نے حکومت کی طلب سے کلیۃً دستبرداری اختیار کر لی اور کبھی بھی حکومت کا مطالبہ لے کر نہ اٹھے ـ حکومت اگر دین ھوتی تو انصار کو دین سے دستبردارکرنا کسی صورت معقول نہ تھا ،،
اس اصول کی علت خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرما دی کہ ؎
لوگ قریش کی تابعداری اور اتباع کے عادی ہیں ، ان کے نیک لوگ قریش کے نیک لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے برے لوگ قریش کے برے لوگوں کی پیروی کے عادی ہیں ، گویا یہ کوئی دینی اصول نہیں بلکہ عملی اور فطری اصول کی طرف راہنمائی ہے ،،
قرآنی اصول ، ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ‘‘ آخرت کے بارے میں ھے دنیا اس کا محل نہیں ، اور نبئ کریم ﷺ کا خطبۃ الوداع کا وہ خطاب بھی مجرد آخرت کے بارے میں ھے جس میں فرمایا گیا ھے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اورکسی عجمی کو کسی عربی پر ، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوے کے ، تم سب آدم کی اولاد ھو اور آدم مٹی سے تھے ـ
اب جو لوگ سیاست میں خاندانی اجارہ داری کو عیب کہتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ یہ اجارہ داری کس بنیاد پر غلط ھے ؟ ایک سیاستدان اگر بچوں کو سیاست سکھائے ، ایک جج اگر بیٹے کو وکیل بنائے ، ایک ڈاکٹر اپنی اولاد کو اگر ڈاکٹر بنائے ، ایک جرنیل اگر اپنے بچے کو فوجی بنائے تو اس میں عیب کیا ھے ؟ اگر لوگ ایک خاندان کی اطاعت پر راضی ہیں تو اس میں شرعی طور پر کیا عیب ھے ؟