خوفِ خدا، اور قیامت کے احوال از قاری حنیف ڈار
بعض کتب احادیث میں لوگوں کو دبکا کر رکھنے اور بارہ بور کے زور پر متقی بنا کر رکھنے کے لئے قیامت کے احوال کے بارے میں نہایت غلو سے کام لیا گیا ہے ، قرآنِ حکیم میں جھنم کے احوال کافروں کے لئے تو ضرور بیان فرمائے ہیں ، مگر ایمان والوں کو توبہ کی ترغیب دی ھے اور خطائیں معاف کرنے کی امید دلائی ہے ، مومن جب توبہ کر لیتا ھے تو اللہ پاک اس کے گناہ اس طرح معاف فرماتا ھے کہ اب انہیں حشر میں دوبارہ رسوا نہیں کرے گا اسی کا نام مغفرت ہے ،مِغفَر ہیلمٹ یا خود کو کہتے ہیں جو سر اور چہرے کو ڈھانپ لیتا ھے ، مگر یہ روایتیں خود انبیاء کا بھی حشر نشر کرتی نظر آتی ہیں ، کہ انبیاء بھی تھر تھر کانپ رھے ھونگے اور نفسی نفسی پکار رھے ھونگے ،، جبکہ قرآن انبیاء کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کرتا ، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر عام مومنین کو بھی لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون کی بشارت دیتا ہے پھر انبیاء کا تو مقام ھی سرکاری ہے وہ تو خود اللہ کی عدالت کے اہلکار ہیں ان پر خوف اور دھشت کا کیا جواز ہے ؟ کیا قرآن کی وہ آیات نعوذ باللہ ناقابلِ اعتبار ہیں ؟
[ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (32) حم السجدہ
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ھمارا رب اللہ ھے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ھوتے ہیں ( عالم نزع میں ) کہ نہ خوف کھاؤ اور نہ غمگین ھو اور ھم سے بشارت لو اس جنت کی کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا ،، ھم دنیا میں بھی تمہارے خیرخواہ تھے اور آخرت میں بھی ، اس جنت میں ھر وہ سامان موجود ھے جس کی خواھش تمہارے اندر پائی جاتی ھے اس کے علاوہ اور بھی جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا ، یہ میزبانی ھو گی ایک بخشنے والے رحیم کی طرف سے ،،
[ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (63) لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (64) یونس ]
خبردار بیشک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی ڈر ھو گا نہ وہ غمگین ھونگے ، جو ایمان لائے اور اللہ کی حدیں توڑنے سے بچتے رھے ، ان کے لئے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ، اللہ کی بات تبدیل نہیں ھو سکتی ،یہ ہے وہ عظیم کامیابی ،،
کیا انبیاء کو ان آیات پر اعتبار نہیں تھا ؟ اللہ کے اپنی بات سے مُکر جانے کا ڈر تھا نعوذ باللہ من ذلک ؟
قرآن پڑھ کر جتنا رب پر پیار اور اعتبار آتا ھے یہ روایتیں خواہ مخواہ ڈرا ڈرا کر اھل ایمان کے ایمان کو متزلزل رکھتی ہیں۔