دما دم اللہ ھُو ۔۔۔ از قاری حنیف ڈار

ماں اپنے گھر میں تو بچوں کا خیال رکھا ھی کرتی ھے ، دوسروں کے گھر بھی ھو تو شرمیلے بچے کو خود ڈال ڈال کر دیتی ھے اور ساتھ کہتی جاتی ھے دوسرے تو خود لے لیتے ھیں ، یہ ذرا شرماتا رھتا ھے ، خود خیال نہ رکھو تو بس ایسے ھی دو چار لقمے لے کر اٹھ جاتا ھے ،، وہ کسی کے گھر بھی ھو تو مانگ مانگ کر لیتی اور بچوں کو دیتی ھے ، ذرا دودھ نہیں ھو گا ،یہ سونے سے پہلے دودھ پینے کا عادی ھے ،، ذرا ڈبل روٹی منگوا لینا یہ صبح ڈبل روٹی کے ساتھ ناشتہ کرتا ھے ، رات کو اٹھ اٹھ کر کمبل چیک کرتی اور ٹھیک کرتی رھتی ھے ،، وہ اپنے بچوں کی نیچر سے واقف ھوتی ھے ، جو زیادہ اچھل کود والا ھوتا ھے اس کو پاس بٹھا لیتی ھے ، اور جھڑک جھڑک کر کھلاتی ھے ،کبھی مصنوعی غصہ کرتی ھے تو کبھی ، پیار بھری مار لگا کر بھی کھلاتی ھے ، کبھی گھر جا کر ٹھیک کرنے کی دھمکی بھی دیتی ھے ،، مگر ان سب کے پیچھے اس کی محبت اس کا پیار اور خیر خواھی ھوتی ھے ،، اگر یہ گامے ماجے مجھے میری ماں کے بارے میں یہ سب کچھ بتا کر بدگمان نہیں کر سکتے تو اللہ کی محبت کی قسم وہ مجھے میرے رب کے بارے میں کبھی بدگمان نہیں کر سکتے ،، وہ مجھ سے زیادہ میرے اور میرے رب کے تعلق کے بارے میں نہیں جانتے ،،،

ماں جب بچے کو گھر جا کر اس سے نمٹنے کی دھمکی دے رھی ھوتی ھے تو سننے والے بچوں کا پیشاب خطا ھو جاتا ھے مگر وہ بچہ زیرِ لب مسکرا رھا ھوتا ھے ، بچے حیران ھو رھے ھوتے ھیں اور وہ کہتا ھے مجھے ماں کے منہ سے ھی لگ رھا ھے کہ وہ کچھ نہیں کہے گی ،، اللہ پاک ہمیں سیدھا رکھنے کے لئے ڈراتا تو ھے مگر اس سورت کے ختم ھونے سے پہلے بچنے کا طریقہ بھی بتا دیتا ھے کہ معافی مانگ لو ، توبہ کر لو ، پلٹ آؤ،، پھر جب حشر بپا ھو گا حساب کتاب ھو گا ، سب چھوٹا بڑا دکھا دیا جائے گا اور عدل کے ساتھ حقوق طے کئے جائیں گے ،، پھروہ دعائیں نکالی جائیں گی جو دنیا میں قبول نہیں کی گئیں تھیں ،، ان کا ریٹ لگایا جائے گا اور حق والوں کے حقوق ادا کیئے جائیں گے ،، پھر معافی نامے نکالے جائیں گے ، پھر قبول کئے جائیں گے ، کمال کی عدالت ھو گی ،، پہلے سیشن ،، جرائم ناپ تول کر انکار کی گنجائش ھی ختم کر دی جائے ،، پھر اپیلیٹ کورٹ ،، جج وہ خود ھی ھے ،، دعائیں قبول ھونگی ،، نئے فیصلے ھونگے ،،، پھر سپریم کورٹ ،، جج وھی ھے پھر رحم کی درخواستوں کے فیصلے ھونگے ،، جس نے زندگی میں ایک بار بھی توبہ کی ھو گی اس کا کیس لازم پٹ اپ ھو گا ،، اور رحم کی اپیل منظور کر لی جائے گی ،،، اسی پسِ منظر میں اللہ کے رسول ﷺ ایک شخص کی بدبختی پر افسوس فرما رھے ھیں کہ اس کم بخت نے زندگی میں ایک بار بھی تو نہیں کہا تھا کہ ” رب قد عصیتک فاغفرلی ،، اے رب میں تیری نافرمانی کر بیٹھا ھوں مجھے معاف فرما دے ،،،،

عرض کیا تھا کہ ماں سب کی سانجھی ھوتی ھے مگر اس کا رویہ ھر بچے کے ساتھ اس بچے کی فطرت کے مطابق ھوتا ھے ، وہ کھانے پر ٹوٹ پڑنے والوں کو ڈانٹ رھی ھوتی ھے تو شرمیلے بچے کے لئے خود انہی بچوں سے چمچہ چھین کر ڈال بھی رھی ھوتی ھے ، رب کا معاملہ بھی اپنے بندوں کی فطرت کے مطابق ھوتا ھے ،، حضرت عیسی علیہ السلام کے سامنے جب کچھ لوگوں نے اللہ کی رحیمی پر اعتراض اٹھایا کہ جب گناہ کرنے والے باز نہیں آئے تو وہ انہیں معاف کر کے نیکوں کے ساتھ کیوں ملا دے گا؟

آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی ربوبیت کی تمثیل پیش کرتا ھوں ،، ایک باپ کے دو بیٹے تھے ،، ایک سیدھا سادا باپ کا فرمانبردار تھا تو دوسرا تیز طرار اور پارے کی طرح متلون مزاج ،، ایک دن تیز طرار نے اپنے باپ سے کہا کہ میں اس گاؤں میں نہیں رہ سکتا ،میرے منصوبے بڑے وسیع ھیں مجھے آپ میرا حصہ نکال دیجئے تا کہ میں اپنے منصوبوں پر عمل کر سکوں ،، باپ نے پہلے تو اسے سمجھایا کہ تو ایک باپ کا شفیق سایہ چھوڑ کر مت جا ، تجھے زمانے کے رنگ ڈھنگ اور دشمن سجن کا پتہ نہیں ،مگر بیٹے کی ھٹ دھرمی پر اس نے اس کا حصہ اس کے حوالے کر دیا جس کو لے کر وہ چل پڑا ،،

اس نے مختلف لوگوں سے معاملات کیئے مگر لوگ اس سے زیادہ سیانے تھے وہ اس کو لوٹ کر کھا گئے یہانتک کہ وہ روٹی کے عوض ایک یہودی کے یہاں خنزیر چرانے پر ملازم ھو گیا ،، وہ یہودی نہایت تندخو اور کمینہ صفت تھا ،جو اس سے اس کی استطاعت سے زیادہ کام لیتا اور حق سے کم اجرت دیتا اور اس کی توھین کرتا ،، آخر ایک دن جب اس نے حد کر دی تو اس بیٹے کو باپ کی شفقت شدت سے یاد آئی ، اس نے سوچا کہ میں واپس چلا جاؤں ، باپ میری بے عزتی تو کرے گا مگر اتنی بھی نہیں کرے گا جتنی یہ ظالم شخص روز کرتا ھے ،،

اس نے ملازمت چھوڑ دی اور واپسی کا سفر شروع کیا ، جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو شدت سفر سے اس کی حالت بری تھی اور صورت پہچانی نہیں جاتی تھی ،، اس نے کانپتے ھاتھوں سے اپنے باپ کے گھر کے دروازے پر دستک دی ،، دروازہ باپ نے خود کھولا اور دروازے پر ایک اجنبی کو کھڑے دیکھ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا ،، ادھر بیٹا توقع کر رھا تھا کہ اس کا باپ یا تو اس کو گالی دے گا ،دھتکار دے گا یا دھکا دے کر دروازہ بند کر لے گا ،، جوں جوں وقت گزر رھا تھا بیٹا مایوس ھوتا جا رھا تھا ، وہ شرم سے پلٹنے کو تھا کہ باپ نے اس کو پہچان لیا اور کھینچ کر سینے سے لگا لیا ،، بیٹا کم اور باپ زیادہ درد سے سسک رھا تھا ،، میرے بیٹے میں نے تجھے کتنا سمجھایا تھا کہ لوگ تیرے ساتھ زیادتی کریں گے ، تو لوگوں جیسا نہیں ھے تیرے منصوبے اور عقل اپنی جگہ مگر جہاں جھوٹ بولے جائیں اور وعدہ خلافیاں خوب کی جائیں وھاں نہ عقل کام آتی ھے نہ منصوبے پورے ھوتے ھیں ،، اس نے بیٹے کو چارپائی پر بٹھایا اور دوسرے بیٹے سے کہا کہ فلاں بیل کو ذبح کرو اور محلے میں اعلان کر دو کہ میرے بیٹے کی واپسی کی خوشی میں ان کی دعوت ھمارے گھر ھے ،،،

مگر بڑا بھائی کڑھ رھا تھا ، اس نے باپ کو گلہ کیا کہ یہ تو اس وقت ھوشیار بن کر زیادہ کمانے گیا تھا ، اور آپ کی کوئی بات نہیں مانی ، جبکہ میں آپ کے تابع فرمان رھا ، اور آپ کی خدمت کرتا رھا ،مگر میں دیکھ رھا ھوں کہ آپ کو جتنی خوشی اس کے آنے سے ھوئی ھے ایسی میرے حق میں کبھی نہیں ھوئی ، آپ میرے پالے ھوئے بیل کو اس کے لئے ذبح کر رھے ھیں ، آپ عدل سے کام نہیں لے رھے ،، جس پر باپ نے کہا کہ دیکھ بیٹا تم تو میرے پاس تھے ،گمشدہ تو وہ تھا ،اور گمشدہ چیز ملنے پر گھر میں پڑی چیز سے زیادہ خوشی ھوتی ھے ، تجھے اپنے گمشدہ پیسے ملنے پر ان پیسوں سے زیادہ خوشی ھوتی ھے جو تیری جیب میں ھوتے ھیں حالانکہ وہ زیادہ ھوتے ھیں ،، اور دیکھ تو اپنی بکریوں کے ساتھ بھی عدل نہیں کرتا ،، آخر تو سب کو اٹھا کر گھاٹی پار کیوں نہیں کراتا ؟ صرف اس کو اٹھائے اٹھائے کیوں پھرتا ھے جو خود گھاٹی پار نہیں کرتی ؟ تو اس کو چھوڑ دینے کی بجائے خود اس کو اٹھا کر گھاٹی پار کراتا ھے ،،

اسی طرح اللہ پاک لوٹ آنے والوں کو زیادہ پسند فرماتا ھے وہ ان کے گناھوں کو بھی نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ھے ،، اس لئے کہ گناہ کی اپنی کشش اور نشہ ھوتا ھے ، وہ اس سارے نشے کو قربان کر کے پلٹتا ھے جبکہ ایک متقی کو اس نشے کی ھوا تک نہیں لگی وہ کبھی نہیں سمجھ سکتا کہ اللہ پلٹ آنے والے سے اتنا پیار کیوں کرتا ھے ، وہ فرشتوں کے سامنے اس گنہگار کی تعریف فرماتا ھے کہ اس نے گناہ اور نافرمانی کو چکھا پھر بھی اس کی گرفت سے نکل آیا ،،

یہ وہ کام ھے جو ابلیس سے نہیں ھو سکا ، گناہ چکھ کر پلٹ آنا اتنا آسان ھوتا تو ابلیس پلٹ آتا جس کا ابھی صرف ایک گناہ تھا ، اور اللہ نے اس سے نافرمانی کا سبب پوچھ کر بہانہ اور عذر پیش کرنے کا موقع بھی فراھم کر دیا تھا ، مگر وہ زمین و آسمان کے چپے چپے کو سجدوں سے بھر دینے والا گناہ کی تھرل اور کشش سے نہیں نکل سکا،، بشارت اور شاباش ھے توبہ کرنے والوں کو ،،،

اللھم اغفر لنا ذبوبنا ، و اسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا و تب علینا انک انت تواب الرحی

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.