رجم کی حد… سنت نبویہ کی روشنی میں محمد رفیق چودھری
رجم کی حد… سنت ِنبویہ کی روشنی میں
محمد رفیق چودھری
اسلام میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر ہے جو کہ حد شرعی ہے ۔اس حد کو بدلنے کا کسی کو اختیار نہیں ۔اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے سفارش کرنا بھی نا پسندیدہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانی پر رجم یعنی سنگساری کی سزا نافذ فرمائی ہے۔کبھی مجرم کے اعتراف (Confassion) پر اور کبھی چار گواہوں کی شہادت(Witness) دینے پر یہ حد جاری کی گئی۔ اب جولو گ اس حد شرعی کو اپنے طور پر یا کسی بیرونی اشارے سے بدلنا یا منسوخ کرنا یا تعزیر میں تبدیل چاہتے ہیں ، وہ در اصل اسلامی شریعت کو اپنی خواہشاتِ نفسانی کا کھلونا بنانا چاہتے ہیں ۔ان کی یہ آرزو ان شاء اللہ کبھی پوری نہیں ہوگی اور ایسی ہر مذموم کوشش ناکام ہو کر رہے گی۔ کتب ِاحادیث سے رجم کرنے کے واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ آزاد زانیوں پر کوڑوں کی بجائے رجم کی سزانافذ کی۔ اس سلسلے میں ہم پہلے فرامین ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد فعل رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں :
(1) ا قوالِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(1) عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اﷲﷺ (خذوا عني،خذوا عني،خذوا عني فقد جعل اﷲ لہن سبیلا،البکر بالبکر جلد مائة ونفي سنة والثیب بالثیب جلد مائة والرجم) 1
” مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو، مجھ سے حکم لے لو۔ بدکار عوتوں کے لیے اب اللہ نے راستہ بنا دیا۔(یعنی حکم نازل فرما دیا) اور وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ کوسو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور شادی شدہ کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی۔”
(2) قال زید سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول:(الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموها البتة) 2
” زید بن ثابت کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد(i) اور عورت زنا کا ارتکاب کریں تو اُنہیں لازماً رجم کر دو۔”
(3) عن عبداﷲ قال: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأني رسول اﷲ إلا بإحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزاني والمفارق لدینه التارك للجماعة) 3
”حضرت عبداللہ (بن مسعودؓ) سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا خون جائز نہیں جب کہ وہ یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں مگر تین حالتوں میں اس کا خون مباح ہوگا۔ پہلی یہ کہ قصاص کی حالت میں ، دوسری یہ کہ شادی شدہ زانی ہونے کی صورت میں اور تیسری یہ کہ دین کو چھوڑنے اور جماعت ِمسلمین سے الگ ہونے کی شکل میں ۔”
(4) عن عائشة قالت: قال رسول اﷲ ﷺ (لا یحل دم امرئ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ إلا في إحدٰی ثلاث: رجل زنیٰ بعد إحصان فإنه یرجم ورجل خرج محاربًا باﷲ ورسوله فإنه یقتل أو یصلب أو ینفی من الأرض أو یَقتل نفسا فیُقتل بھا)4
”حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”کسی مسلمان کا خون بہاناجائز نہیں ہے جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ، مگر تین صورتوں میں اس کا خون مباح ہوجاتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے، اس جرم پر اسے سنگسار کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت کرے تو (اس جرم کی پاداش میں ) اسے قتل کیا جائے گایا اسے سولی دی جائے گی یا اسے جلاوطن کردیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل کردے تو اس پر اسے بھی (قصاص کے طور پر) قتل کردیا جائے گا۔”
(5) عن أبي أمامة بن سھل قال: کنا مع عثمان وھو مع عثمان وھو محصور في الدار، وکان في الدار مدخل من دخله سمع کلام من علی البلاط، فدخله عثمان، فخرج إلینا وھو متغیر لونه فقال: إنھم لیتواعدونني بالقتل آنفا، قال: قلنا یکفیکم اﷲ یا أمیر المؤمنین قال: ولم یقتلونني؟ سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول: (لا یحل دم امرئ مسلم إلا بإحدی ثلاث: کفر بعد إسلام، أو زنا بعد إحصان، أو قتل نفس بغیر نفس) فواﷲ ما زنیت في جاھلیة ولا في إسلام قط، ولا أحببتُ أن لي بدینی بدلا منذ ھداني اﷲ، ولا قتلت نفسا، فبم یقتلوننی؟
”حضرت ابوامامہ بن سہلؓ کہتے ہیں کہ میں اور دوسرے لوگ حضرت عثمانؓ کے پاس موجود تھے جب وہ اپنے گھر میں محصور تھے اور اس گھر کا ایک راستہ تھا جس کے اندر کھڑا آدمی مقام بلاط پرکھڑے لوگوں کی بات بآسانی سن سکتا تھا۔ حضرت عثمانؓ وہاں تشریف لائے، ان کے چہرے کا رنگ متغیر تھا، وہ باہر نکلے اور فرمایا: ابھی یہ لوگ مجھے قتل کردینے کی دھمکی دے رہے تھے۔” ہم نے عرض کیا: ”اے امیرالمؤمنین ان کے مقابل میں اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ ” فرمایا: ” یہ لوگ کیوں میرے قتل کے درپے ہیں ؟” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ”کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ، سواے اس کے کہ تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت واقع ہو: وہ اسلام لانے کے بعد کفر اختیارکرے یا شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کرے یا کسی کوناحق قتل کردے۔ اللہ کی قسم! میں نہ تو جاہلیت میں زنا کا مرتکب ہوا اور نہ اسلام لانے کے بعد، دوسرے یہ کہ میں نے اپنا دین بدلنا بھی کبھی پسند نہیں کیا، جب سے مجھے اللہ نے ہدایت کی توفیق دی ہے۔ تیسرے یہ کہ میں نے کسی کو ناحق قتل بھی نہیں کیا، پھر یہ لوگ کس بنا پر قتل کرنا چاہتے ہیں ۔” 5
ان فرامین ِنبویہؐ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ازروے سنت شادی شدہ زانی کے لئے کوڑوں کی بجائے قتل بصورتِ رجم کی سزا مقرر ہے۔
(2) فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(1) عن بریدة قال جاء ماعز بن مالك إلی النبي ﷺ فقال یا رسول اﷲ! طهرني فقال: (ویحك ارجع فاستغفر اﷲ وتب إلیه) قال: فرجع غیر بعید ثم جاء فقال: یا رسول اﷲ! طهرني۔فقال رسول اﷲ ﷺ: )ویحك ارجع فاستغفر اﷲ وتُب إلیه) قال: فرجع غیر بعید ثم جاء فقال: یا رسول اﷲ! طهرني فقال النبي ﷺ مثل ذلك۔ حتی إذا کانت الرابعة قال له رسول اﷲ ﷺ: (فیم أُطهرك؟) فقال: من الزنا۔ فسأل رسول اﷲ ﷺ : (أبه جنون؟) فأُخبِر أنه لیس بمجنون فقال: (أشرب خمرا؟) فقام رجل فاستنکه فلم یجد منه ریح خمر۔قال: فقال رسول اﷲﷺ: (أزنیتَ؟) فقال نعم۔ فأمر به فرُجم 6
”بریدہ ؓ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالکؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسولؐ!مجھے پاک کر دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا:تیرا ستیاناس ہو، چلا جا اوراللہ سے بخشش مانگ اور توبہ کر۔تھوڑی دور بعدوہ پھر لوٹ آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے۔ اللہ کے نبیؐ نے پھر اسی طرح کہا حتیٰ کہ جب چوتھی مرتبہ ایسا ہوا تو آپ ؐ نے پوچھا میں تجھے کس چیز سے پاک کروں ؟اُنہوں نے کہا: زناسے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ دیوانہ تو نہیں ؟ بتایا گیا کہ یہ مجنوں نہیں ۔ پھر آپ ؐنے پوچھا کیا اس نے شراب پی ہے؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور ان کو سونگھا تو شراب کی بو نہ پائی، پھر آپؐ نے فرمایا :کیا تو نے زنا کیا ہے ؟ ماعز ؓ بولے: ہاں ! پس آپؐ کے حکم پر اُنہیں رجم کر دیا گیا۔”
(2) عن جابر بن عبد اﷲ أن رجلا من أسلم جاء إلی رسول اﷲ ﷺ فاعترف بالزنا فأعرض عنہ ثم اعترف عنہ، حتی شھد علی نفسہ أربع شہادات فقال لہ النبي: (أبك جنون؟) قال: ”لا” قال:(أحصنت)قال: ”نعم” قال: فأمر به النبي ﷺ فرُجم في المُصلّٰی، فلمّا أذلقته الحجارة فَرَّ،فأدرك فرُجم حتی مات 7
”حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اَسلم کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرمِ زنا کا اعتراف کیا، آپؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، اس نے پھراقرار کیا اور جب چار دفعہ قسم کھا چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:کیاتو پاگل ہے؟” اُس نے جواب دیا:’نہیں ‘ آپؐ نے پوچھا: ”کیا تو شادی شدہ ہے؟”وہ بولا: ‘جی ہاں ‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔لوگ اسے عیدگاہ کی طرف لے گئے اور رجم کرنے لگے۔جب اسے پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، لوگوں نے تعاقب کرکے اسے پھر جالیا اور سنگسار کردیا۔”
(3) عن أبي ھریرة أنه قال أتی رجل من المسلمین رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه فتنحّٰی تلقاء وجھه۔ فقال له یارسول اﷲ! إني زنیتُ فأعرض عنه حتی ثنی ذلك علیه أربع مرات۔فلما شھد علی نفسه أربع شهادات دعاہ رسول اﷲ ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال: (فھل أحصنت؟) قال: نعم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ :(اذھبوا به فارجموہ) 8
”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس شخص نے آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔” حضورؐ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے دوبارہ کہا: ”اے اللہ کے رسولؐ! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں ۔” آپؐ اس پر بھی متوجہ نہ ہوئے۔ اس نے چار دفعہ اپنی بات دہرائی، پھر جب اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ”تو پاگل تو نہیں ؟ بولا: ‘نہیں !’ پھر آپؐ نے پوچھا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ وہ بولا: ‘جی ہاں ‘ (میں شادی شدہ ہوں ) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے لے جاکر سنگسار کردو۔”
(4) عن أبي ھریرة قال: أتی رجل رسول اﷲ ﷺ وھو في المسجد فناداہ فقال یا رسول اﷲ! إني زنیت فأعرض عنه حتی ردَّدَ علیه أربع مرات، فلما شھد علی نفسه أربع شھادات، دعاہ النبي ﷺ فقال: (أبك جنون؟) قال: لا۔قال:(فھل أحصنت؟)قال : نعم۔ فقال النبي! : (اذھبوا به فارجموہ) 9
”حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضورؐ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس آدمی نے آپؐ کو آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔” آپؐ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی، اس آدمی نے آپ کو چار مرتبہ متوجہ کرنے کی کوشش کی پھر جس وقت اس نے چار دفعہ قسم کھا کر اپنے جرم کا اقرار کرلیاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا: ”کیا تو پاگل ہے؟ وہ بولا: ‘نہیں ‘ آپؐ نے پوچھا: ”کیا تو شادی شدہ ہے؟” جواب ملا: ‘جی ہاں ‘ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”لوگو! اسے لے جاکرسنگسار کردو۔”
(5) جاء ته امرأة من غامد من الأزد فقالت: یا رسول اﷲ! طهرني فقال: (ویحك ارجعي فاستغفري اﷲ وتوبي إلیه) فقالت: أراك ترید أن تردّدني کما ردّدت ماعز بن مالك قال: (وما ذاك؟) قالت: إنها حبلی من الزنا فقال: (آنتِ) قالت: نعم فقال لها: (حتی تضعي ما في بطنك) قال فکفلها رجل من الأنصار حتی وضعت قال: فأتي النبي ﷺ فقال قد وضعت الغامدیة فقال: (إذًا لا نرجمها وندع ولدها صغیر لیس له من یرضعه) فقام رجل من الأنصار فقال إلیَّ رضاعه یا نبي اﷲ۔قال: فرَجَمَها 10
” آپؐ کے پاس اَزد قبیلے کی شاخ غامد کی ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ؐ! مجھے پاک کر دیجئے ۔آپؐ نے فرمایا: تیرا ستیاناس ہو، چلی جا اور اللہ سے بخشش طلب کر اور توبہ کر۔ کہنے لگی: آبؐ مجھے ماعز بن مالکؓ کی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں ۔آپ ؐنے پوچھا:تیرا کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگی: میں زنا کی وجہ سے اُمید سے ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو خود؟ اس نے کہا: جی ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا: اچھا (تو اس وقت تک انتظار کر) جب تک تیرا حمل وضع نہ ہو جائے۔ ایک انصاری صحابی ؓ نے اس کی دیکھ بھال کا ذمہ اُٹھایا، جب وضع حمل ہو گیا تو وہ انصاری ؓ نبیؐ کے پاس آیا اور غامدیہ کے وضع حمل کی اطلاع دی۔آپؐ نے فرمایا: ہم اسے اس کے بچے کے دودھ پینے کے انتظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ابھی رجم نہیں کریں گے۔ایک انصاری صحابی ؓنے کہا : اللہ کے رسول بچے کو دودھ میں پلواؤں گا تب آپؐ نے اس کو رجم کیا۔”
(6) عن أبي ھریرة وزید بن خالد الجُھني أنھما قال: إن رجلا من الأعراب أتی رسول اﷲ فقال: یا رسول اﷲ ! أنشدك اﷲ ألا قضیتَ لي بکتاب اﷲ، فقال الخصم الآخر وھو أفقه منه: نعم، فاقض بیننا بکتاب اﷲ وائذن لي۔ فقال رسول اﷲ ﷺ(قُل)قال: إن ابني کان عسیفا علی ھذا فزنی بامرأته وإني أُخبرت أن علی ابني الرجم فافتدیت منه بمائة شاة وولیدة۔فسألت أھل العلم فأخبروني أنما علی ابني جلد مائة وتغریب عام وأن علی امرأة ھذا الرجم۔ فقال رسول اﷲ ﷺ:(والذي نفسي بیدہ لأقضین بینکما بکتاب اﷲ: الولیدة والغنم ردّ،وعلی ابنك جلد مائة وتغریب عام،واغد یا أنیس إلی امرأة هذا،فإن اعترفت فارجمھا)قال فغدا علیھا فاعترفت فأمربھا رسول اﷲﷺ فرجمت۔ 11
”حضرت ابوہریرہؓ اور زید بن خالد جہنیؓ دونوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا اور آکرکہنے لگا: اے اللہ کے رسولؐ! میں آپؐ کو اللہ کی قسم کا واسطہ دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کی کتاب کے مطابق میرا فیصلہ فرما دیں ۔ اور دوسرا شخص جو پہلے سے زیادہ سمجھدار تھا کہنے لگا: ”مجھے اجازت دیجئے کہ میں واقعہ بیان کروں ۔” آپ نے فرمایا: ”بیان کرو۔” وہ بولا: ”میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اور وہ اس کی بیوی سے زنا کا مرتکب ہوگیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے لڑکے پر رجم کی سزا پڑتیہے تو میں نے اس کے فدیے کے طور پر اس آدمی کو ایک سوبکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔ پھر جب میں نے اہل علم لوگوں سے مسئلہ دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ میرے لڑکے پرتو سو کوڑوں کی سزا واجب ہے اور اس کے ساتھ ایک سال کی جلاوطنی جبکہ عورت پر رجم کی سزا واجب ہے۔ ” یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان کتابِ الٰہی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اور بکریاں واپس کردی جائیں اور تمہارے لڑکے پر سو کوڑوں کی سزا واجب ہے اور ایک سال کے لئے جلاوطنی اور اے انیسؓ (ایک انصاری صحابی کا نام ہے) اس کی عورت کے پاس جاؤ، اگر یہ اپنے جرم کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کردینا۔ پھر جب وہ (صحابی) اس عورت کے پاس گئے تو اس نے اعترافِ جرم کرلیا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اسے رجم کیا گیا۔”
(7) عن جابر بن عبد اﷲ قال: جاء ت الیهود برجُلٍ وامرأة منهم زنیا، قال:(ائتوني بأعلم رجلین منکم) فأتوہ بابنَي صُورِیا، فنشدهما (کیف تجدان أمر هذین في التوراة؟) قالا: نجد في التوراة إذا شهد أربعة،أنہهم رَأوا ذکرہ في فرجها مثل المِیل في المکْحُلَة رُجِمَا، قال:(فما یمنعکما أن ترجموها؟) قالا: ذهب سلطانُنا، فکرهنا القتل،فدعا رسولُ اﷲ ﷺ بالشهود فجاء وا بأربعة فشهدوا أنهم رأوا ذکرہ في فرجها مثل المیل في المکحلة، فأمر النبي ﷺ برجمها۔ 12
” حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کوجنہوں نے زنا کیا تھا، یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے لوگوں میں سے دو زیادہ جاننے والے میرے پاس لاؤ۔وہ صوریا کے دونوں بیٹوں کو لے آئے۔ آپؐ نے ان دونوں کو قسم دے کر پوچھا کہ تورات میں ایسے لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اُنہوں نے کہا: ہم تورات میں یہ حکم پاتے ہیں کہ جب چار گواہ گواہی دیں کہ اُنہوں نے مرد اور عورت کے زنا کو اس طرح دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں تو وہ رجم کیے جائیں گے۔آپؐ نے فرمایا: پھر تم لوگ ان دونوں کو رجم کیوں نہیں کرتے؟وہ بولے : ہماری حکومت نہیں رہی، اس لیے ہمیں کسی کو قتل کرنا برا معلوم ہوتا ہے۔پھر نبیؐ نے چار گواہ طلب کیے تو وہ چار (عینی) گواہ لے آئے جنہوں نے مرد اور عورت کو اس طرح زنا کرتے دیکھا جیسے سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے ،پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔”
بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ زنا کے وقوعہ کے چار گواہ ملنے ناممکن ہیں ، جبکہ اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ خود دورِ نبوی کے بعض واقعات میں چار عینی گواہ میسر آئے تھے۔
(8) عن خالد بن اللجاج حدثه أن اللجاج أباہ أخبرہ أنه کان قاعدا یعتمل في السوق فمرت امرأة تحمل صبیا فثار الناس معها وثرت فیمن ثار وانتهیت إلی النبي ﷺ وهو یقول: (من أبو هذا معك؟) فسکتت فقال شاب حذوها: أنا أبوہ یا رسول اﷲ! فأقبل علیها فقال: (من أبو هذا معك؟) فقال الفتی أنا أبوہ یا رسول اﷲ! فنظر رسول اﷲ ﷺ إلی بعض من حوله یسألهم عنه، فقالوا: ما علمنا إلا خیرا۔فقال له النبي ﷺ(أحصنت؟)قال نعم،فأمر به فرُجم13
”خالدبن لجاج ، لجاج ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بازار میں بیٹھے کام کر رہے تھے، اسی اثنا میں ایک عورت بچہ اٹھائے اُدھر آ نکلی۔ لوگ اس کی طرف لپکے۔ میں بھی اس طرف چلا گیا جب نبی ؐ کے پاس پہنچا تو آپؐ اس سے پوچھ رہے تھے:اس بچے کا باپ کون ہے؟ تو وہ خاموش تھی۔ ایک نوجوان جو اس کے برابر کھڑا تھا، کہنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا باپ ہوں ۔ آپؐ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اورپوچھنے لگے: اس کا باپ کون ہے ؟ وہی نوجوان کہنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا باپ ہوں ۔آپ ؐ نے ارد گرد کے بعض لوگوں سے اس نوجوان کے متعلق استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ ہمارے علم کے مطابق تو یہ آدمی ا چھا ہے پھر آپؐ نے اس نوجوان سے پوچھا کہ تم شادی شدہ ہو؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپؐ کے حکم پر اسے رجم کر دیا گیا۔”
ان تمام احادیث کی روشنی میں جو علم حدیث کی اصطلاح میں ‘متواتر معنوی’ کا درجہ رکھتی ہیں ، یہ امربالکل واضح ہوجاتا ہے کہ سنت ِمطہرہ نے محصن زانی کے لئے رجم کی سزا مقرر کی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدماتِ زنا مںن ملزم کے عاقل ہونے کے ساتھ ان کی حالت ِاحصان کو من جملہ ان شرائط کے پیش نظر رکھا ہے جن کے ثبوت کے بعد آپؐ نے حد رجم کانفاذ فرمایا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دورِ رسالت کے کسی ایک مقدمہ زنا کی روداد میں بھی یہ بات نہیں ملتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ملزم کی ‘غنڈہ گردی’ پر رجم کی سزا آیت ِحرابہ کے تحت نافذ کی ہو اور نہ ایسی کوئی حدیث ملتی ہے جس میں آپ نے کسی کنوارے زانی کو اس کے’غنڈہ’ ہونے کی بنا پر رجم کی سزا دی ہو۔ کوئی ایک حدیث بھی اس بات کے ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شادی شدہ زانی کو رجم کی بجائے صرف سو کوڑوں کی سزا دی ہو۔ اس سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ شادی شدہ زانی کیلئے حد رجم سنت کی نص سے ثابت ہے۔
قرآنِ مجید میں اس کا واضح ذکر نہ آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ حد شرعی نہیں ہے بلکہ اس حد کا انکار باطل اور گمراہی ہے۔
(3) حد ِ رجم کے بارے میں خلفاے راشدین کا طرزِعمل
خلافت ِ راشدہ کے دور ِ مسعود میں بھی عہد ِ نبویؐ کے سنت کے مطابق زنا کے بارے میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق ملحوظ رکھا گیا اور کنوارے یا شادی شدہ کی اس تفریق کو ایک سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے تسلیم کرکے محصن زانی پر حد ِ رجم نافذ کی گئی۔ ذیل میں ہم اس سلسلے میں چند شواہد پیش کرتے ہیں :
a عن ابن عباس قال: خطب عمر بن الخطاب، فحمداﷲ تعالیٰ وأثنی عليه فذکر الرجم، فقال: ”لا تخد عن عنه، فإنه حد من حدود اﷲ تعالی ألا إن رسول اﷲ ﷺ قد رجم ورجمنا بعدہ۔ ولو لا أن یقول قائلون زاد عمر في کتاب اﷲ عزوجل ما لیس منه لکتبته في ناحیة المصحف” 14
”حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے خطبہ دیا جس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا بیان کی اور پھر رجم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:”لوگو! تمہیں اس کے بارے میں دھوکے میں مبتلانہیں ہوناچاہئے۔ یہ اللہ کی حدود میں سے ایک حد ہے۔ آگاہ رہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور ہم نے بھی بعد میں رجم کیا اور اگر لوگوں کے لئے یہ کہنے کا موقع نہ ہوتا کہ عمرؓ نے خداے عزوجل کی کتاب میں اضافہ کردیا ہے تو میں ضرور اس (رجم) کو قرآن کے حاشئے میں درج کردیتا۔”
(2) عن ابن عباس قال: قال عمر:”لقد خشیت أن یطول بالناس زمان حتی یقول قائل: لا نجد الرجم في کتاب اﷲ فیضلوا بترك الفریضة أنزلھا اﷲ، ألا وإن الرجم حق علی من زنیٰ وقد أحصن إذا قامت البینة أو کان الحمل أو الاعتراف… ألا وقد رجم رسول اﷲ ! ورجمنا بعدہ”15
”حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”مجھے یہ اندیشہ ہے کہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بعض لوگ یہ کہیں گے کہ”ہمیں تو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا۔” یوں وہ اللہ کے ایک نازل کردہ فریضہ کو چھوڑ کر گمراہ ہوں گے۔ خبردار! رجم کی سزا واجب ہے اُس شخص پر جو شادی شدہ ہونے کے بعد مرتکب ِزنا ہو بشرطیکہ اس پر گواہی قائم ہو یا (عورت کا) حمل ظاہر ہو یا (جرم کا) اعتراف موجود ہو …آگاہ رہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حد ِرجم نافذ فرمائی اور ان کے بعد ہم نے بھی حد ِرجم کو جاری کیا۔”
(3) سلمة بن کھیل قال سمعت الشعبي یحدث عن علي حین رجم المرأة یوم الجمعة وقال: قد رجمتھا بسنة رسول اﷲﷺ 16
”سلمہ بن کہیلؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے شعبی سے حضرت علیؓ کے بارے میں یہ بات سُنی کہ جب اُنہوں نے جمعہ کے روز ایک زانیہ عورت کو رجم کی سزا دی تو فرمایا: ”میں نے اس عورت کو سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق رجم کیا ۔”
(4) قال عمر بن عبد العزیز۔۔۔أن النبي! رجم ورجم خلفاؤہ بعدہ والمسلمون 17
”عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حد رجم نافذ کی اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفا اور دوسرے مسلمان حکمرانوں نے بھی رجم کی حد نافذ کی۔”
(5) قال الجمهور أن رسول اﷲ ! قد رجم ۔۔۔ وقد رجم الخلفاء الراشدون بعد النبي ! وصرحوا بأن الرجم حد
”جمہور کاکہنا ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی حد جاری فرمائی اور آپؐ کے بعد خلفاے راشدینؓ نے بھی رجم کی حد جاری کی اور انہوں نے رجم کے حد ِ شرعی ہونے کی صراحت کی۔” 18
11. صحیح مسلم:1697،1698
12. سنن ابو داود:4452،قال الالبانی: ‘صحیح’
13. ابوداود:4435،مسنداحمد:3؍479،قال الألبانی وحمزة الزین حسن الإسناد،انظر:صحیح ابو داود:3728وتحقیق مسند احمد: 12؍378
14. مسند احمد بن حنبل مع شرح احمد محمد شاکر: 1؍232، طبع مصر 1368ھ،اسنادہ صحیح
15. بخاری:6829
16. بخاری:6812
17. المغني لابن قدامة: 9؍310،به تحقیق عبد اللہ بن عبد المحسن وغیرہ، طبع مصر
18. کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة:5؍69
i. امام مالک نے الشیخ والشیخة کے معنی الثیب والثیبة کیا ہے۔
(دیکھئے:موطا، کتاب الحدود)