رحمت اللہ و برکاتہ علیکم اھل البیت ! از قاری حنیف ڈار
رحمت اللہ و برکاتہ علیکم اھل البیت !
از: قاری حنیف ڈار
اللہ کے رسول ﷺ نے حقِ زوجیت بھی اس طرح ادا فرمایا ھے کہ شوھروں کے لئے اس پہ پورا اترنا ناممکن نہ سہی مگر مشکل بہت ھے – رسول اللہ جیسا بلند مرتبہ رکھنے کے باوجود آپ نے اپنی بیویوں کو ھر وہ حق دیا جو ھر بیوی کو اپنے شوھر کے معاملے میں حاصل ھے مثلاً روٹھ جانا ، موڈ بنا لینا ، جرح کرنا ، سوال و جواب کرنا ،، کسی بات پر اعتراض کرنا کہ ایسا کیوں ھوا ؟ آپ فلاں بیوی کی طرف زیادہ کیوں مائل ھیں – عام امتی کی آواز نبی ﷺ کے سامنے بلند ھو جائے تو اعمال حبط و ضبط – بیویوں کو جھگڑے کا بھی حق حاصل ، امتی رسولﷺ کی کسی بات کے خلاف کوئی اعتراض کرے تو ایمان کی خیر نہیں – بیوی کو یہ حق بھی حاصل – امتی اور اپنے نبی سے ناراض تو ایمان ختم ، بیوی کو ناراض ھونے کا حق بھی حاصل اور اللہ کے رسول ﷺ اس کو اپنی انسلٹ نہیں سمجھتے تھے بلکہ بیوی کا حق اور ناز سمجھتے تھے ، اس کو مناتے تھے ، اپنے فعل کی وضاحت فرماتے تھے ،
آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ جب تم ناراض ھوتی ھو تو مجھے پتہ چل جاتا ھے ،،، ام المومنینؓ نے عرض کیا کہ بھلا وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا تم جب ھم سے ناراض ھوتی ھو تو پھر کوئی قسم کھاتی ھو تو کہتی ھو ” رب ابراھیم کی قسم ،، اور جب تم ھم سے راضی ھوتی ھو تو کہتی ھو ” ربِ محمد ” کی قسم – حضرت عائشہؓ آپ کی اس کلوز آبزرویشن پہ حیران ھوئیں اور مسکرا کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ میرے دل میں ھوتے ھیں بس منہ سے نام نہیں لیتی ،،
آپ ازواج سے صلح میں ھمیشہ پہل فرماتے ،حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ اللہ کے رسولﷺ مجھ سے پانی کا گلاس چھین لیتے اور مسکرا کر جہاں سے میں پانی پی رھی ھوتی ٹھیک اسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیتے ،،یہ اظہارِ محبت کا انوکھا انداز ھے ،ھم میں سے شاید ھی کوئی شوھر اس سنت کو ادا کرتا ھو ،، ایک دفعہ حجرے میں کسی بات پہ بحث ھو رھی تھی کہ ابوبکر صدیقؓ تشریف لے آئے ،بیٹی کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بے باکی سے مکالمہ کرتے دیکھ کر آپ ناراض ھوئے اور اپنا ھاتھ بیٹی کو مارنے کے لئے اٹھایا ،مگر اس ھاتھ کو حضرت عائشہؓ تک پہنچنے سے پہلے ھی اللہ کے رسولﷺ نے پکڑ لیا ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ حجرے سے باھر نکلے تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جس رفتار سے آپ کے ابا جی کا تھپڑ آرھا تھا اگر میں نہ پکڑتا تو ؟ کام ھو گیا تھا تیرا ،، اس پر حضرت عائشہؓ ھنس دیں ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے باھر سے عرض کیا کہ میں نے لڑائی میں مداخلت کی تھی ،لہذا مجھے صلح میں بھی شامل کر لیجئے ،جس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں اندر بلوا لیا ،،
آپ بیویوں کی ایک دوسرے کے خلاف کی گئ بات ھمیشہ راز میں رکھتے اور ایک حجرے کی بات کبھی دوسرے حجرے والی کو نہ بتاتے ،، حضرت عائشہؓ فرماتی ھیں کہ حضرت صفیہؓ ھم سب ازواج میں سے گوشت بہت اچھا بناتی تھیں،کیونکہ وہ جہاں سے آئی تھی وھاں کی آسودگی کی وجہ سے گوشت کثرت سے پکایا اور کھایا جاتا تھا ،، اور جس دن وہ گوشت پکاتیں حضورﷺ کی باری جس بھی زوجہ کے گھر ھوتی وھاں گوشت بھیج دیتیں ،، ایک دفعہ میرے حجرے میں بھی گوشت بھیج دیا ، جس پر میں نے غلام کے ھاتھ پر ھاتھ مار کر رکابی سالن سمیت الٹا دی ،، میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ بوٹیاں اٹھا کر ایک ٹکڑے پہ رکھ رھے تھے ،، اس کے بعد آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ نئ رکابی لاؤ ،، آپ نے وہ رکابی غلام کو پکڑائی اور فرمایا کہ ” غارت امک ” تیری ماں نے غیرت محسوس کی ھے ،، یہ رکابی صفیہ کو واپس دے دینا اور اس واقعے کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ،،
حضرت عائشہؓ ھی بیان کرتی ھیں کہ جس حجرے میں حضورﷺ کی باری ھوتی ھم سب ازواج وھاں اکٹھی ھو جاتیں اور گپ شپ کے بعد اپنے اپنے حجروں میں چلی جاتیں ،، حضرت سودہؓ میرے حجرے میں آئی ھوئی تھیں اور میں نے پتیرا یعنی پتلا شیرہ نما حلوہ بنایا ھوا تھا ، میں نے حضرت سودہؓ کو ایک رکابی میں ڈال کر دیا ،، انہوں نے کہا کہ وہ نہیں کھائیں گی ، جس پر میں نے کہا کہ یہ آپ کے لئے ڈالا ھے ، یا تو آپ اس کو کھائیں گی یا میں یہ آپ کے چہرے پہ مَل دونگی ،، ان کے مسلسل انکار پر میں نے ایک ھاتھ سے ان کو قابو کیا اور دوسرے ھاتھ سے حلوہ ان کے چہرے پہ مل دیا ،اور اللہ کے رسولﷺ مسکراتے رھے ، اس کے بعد اچانک رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی کہنی سے دبا لیا اور حضرت سودہ سے کہا کہ اپنا بدلہ لے لیں جی ،،، اب حضرت سودہؓ نے حلوہ میرے منہ پہ ملا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رھے ،،،
حضرت عائشہؓ بتاتی ھیں کہ ایک دفعہ ایک زوجہ میرے حجرے میں تشریف لائیں اور مجھے ڈانٹنا شروع کیا کہ میں حضورﷺ کو اپنی طرف مائل رکھتی ھوں ،، جب ان کی بات طویل ھو گئ تو میں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف دیکھا ،، میں چاھتی تھی کہ وہ جواب دیں ، ورنہ مجھے بات کرنا اچھی طرح آتا تھا ،، اللہ کے رسولﷺ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتیں ؟ اس کے بعد جو میں شروع ھوئی تو غالباً ام سلمہؓ کو چپ لگ گئ اور وہ بس میرا منہ تکتی رہ گئیں ،، اس پر آپ ﷺنے مسکرا کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ھے ،،،،،،،،،،،،،،
یہ پیار محبت اور بے تکلفی ھمارے گھروں میں نایاب ھے ، ھم ایک بیوی اس طرح نہیں رکھ سکتے جس طرح نبئ کریم ﷺ نے 9 بیویاں رکھ کر دکھایا ،،