روایات اور اھلِ ابیت ! از قاری حنیف ڈار
گلہ کیا جاتا ھے کہ اھل بیت اطھار سے روایات نہیں لی گئیں ـ اھل بیت سے مراد اگر قرآن والے اھلِ بیت ہیں تو حضرت عائشہ صدیقہؓ اور دیگر ازواج مطھرات سے ڈھیر ساری اہم روایات دستیاب ہیں ، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی کافی ساری روایات کی گئ ہیں ـ باقی حسنین کریمین رضی اللہ عنھما اس وقت روایت کی عمر کو ہی نہیں پہنچے تھے ابھی ۵ اور چھ سال کے بچے تھے ـ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو نبئ کریم ﷺ کا حلیہ مبارک یاد نہیں تھا تو حضرت حسینؓ تو ان سے بھی چھوٹے تھے ـ حضرت علیؓ اھلَ بیتِ رسولﷺ میں سے نہیں تھے ، ان کے اپنے اھل و عیال تھے جو اھلِ بیتِ علیؓ تھے ، ان میں ان کی زوجہ مطھرہ حضرت فاطمہؓ رسول اللہ ﷺ کے چھ ماہ بعد ہی وفات پا گئ تھیں اور یہ وہ دور تھا جس میں روایت سننے سنانے کا ابھی کوئی رواج ہی نہیں تھا کیونکہ سب لوگ ہی رسول اللہ ﷺ کے ہم عصر تھے ـ روایتیں اس وقت بیان کی گئیں جب تابعین وغیرہ شوق کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی باتیں سنا کرتے اور دوسروں کو سنایا کرتے ـ صحابہؓ کے زمانے میں کسی تنازعے کے سلسلے میں ہی رسول اللہ ﷺ کا قول کوٹ کیا جاتا تھا جو فیصلہ کن اتھارٹی ہوتا ، اس کے علاوہ مجمع لگا کر روایتیں بیان کرنے کی خلفائے راشدین نے خود حوصلہ شکنی فرمائی ـ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابہؓ سے کم سے حدیث قبول کرنے سے انکار کر دیا اور حضرت ابوموسی الاشعریؓ جیسے جید صحابی سے ایک ایسی حدیث قبول کرنے سے انکار کر دیا جس میں حلت و حرمت جیسی یا شانِ رسالت یا شانِ اھل بیت اطھار کے خلاف کوئی بات نہیں تھی ، بلکہ مجرد یہ بات تھی کہ ’’ تین بار سلام کرنے پر بھی اگر جواب نہ دیا جائے تو واپس لوٹ جاؤ‘‘ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بخدا اگر تم دوسرا گواہ نہ لائے تو میں تمہیں دردناک مار ماروں گا ،، اگر یہ شرط قائم رکھی جاتی تو بعد میں جو گند اس دین میں انجیکٹ کیا گیا وہ کبھی نہ ہو سکتا ،مگر یہ شرط قائم رہتی تو کہانی نویسوں کو مواد بہت تھوڑا ملتا ، اس طرح ہاتھ چوم چاٹ کا جو بزنس شروع ھوا وہ کبھی ہو نہیں سکتا تھا ـ
آج اور گزرا کل ،،
انوارِ اسلام پیج پر امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ یعنی تعارف پیش کیا گیا ھے ،قارئین کے لئے پیش کر رھا ھوں کہ جو لوگ زمانہ صحابہ کے قریب تھے وہ قرآن کا کس قدر درد رکھتے تھے ، تمام محدثین کے بالاتفاق شیخ اور امام ھونے کے باوجود جب شعبہؒ نے لوگوں کی قرآن سے بے اعتنائی دیکھی تو تڑپ اٹھے ،،، ان کے قول کا ایک جملہ اس تعارف میں شامل ھے ،ان کا مکمل قول اس طرح ھے ،،
امام شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مشہور محدث و فقیہہ امام سفیان ثوری کو مخاطب کر کے فرمایا ؎
کُلما تقدمتم فی الحدیثِ تأخۜرتم عن القرآن ، وددت ان اکونَ وقۜاد الحمام و لم اعرف الحدیث ،،
تم لوگ جس قدر حدیثوں کی طرف آگے بڑھتے جاؤ گے ،، قرآن کی طرف سے اسی قدر پیچھے ھٹتے چلے جاؤ گے ،، کاش میں حمام میں لکڑیاں جھونکنے والا مزدور ھوتا محدث نہ ھوتا ،یعنی قرآن سے دوری کے اس جرم کا شریک کار نہ بنتا ،،
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ مومن کی فراست سے بچو ،، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ھے ،، گزرے کل میں اللہ کے اس ولی نے جو دیکھا تھا ،آج کے اس زمانے میں وہ سب آنکھوں دیکھا لگتا ھے ،، راویانِ حدیث کے معاملے میں امام شعبہ کی یہ پیش گوئی کچھ یوں سچ ثابت ھوئی کہ ان میں پہلے پہل قرآن سے بے اعتنائی کا رجحان پیدا ھوا ،، پھر وہ رفتہ رفتہ قرآن سے بے خبری کا شکار ھو گئے اور اور بعض کو تو قرآن کے بغض و عناد کے مرض نے آ گھیرا ،،، جب اھل قرآن نے جمع حدیث کو بدعت کہنا شروع کیا تو جواب میں وہ روایتیں گھڑی گئیں جن میں قرآن کو بھی حدیث کی طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرنا بتایا گیا ،، اگر حدیث میں شکوک شبہات نے جگہ پائی تو کچھ روایتوں میں یہ ثابت کیا گیا کہ آخر خود قرآن بھی کونسا حضورﷺ چھوڑ کر گئے تھے ۔جمع قرآن بھی تو بدعت ھی تھی اور فلاں فلاں آیت کے بارے میں اور فلاں فلاں سورت کے بارے میں بھی تو جید صحابہ بلکہ خلفاء راشدین کو شکوک و شبہات لاحق ھو گئے تھے ،، یوں اھل قرآن کی تنقید کا بدلہ قرآن کو مشکوک کر کے لیا گیا ،،
امام شعبہ رحمہ اللہ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے، مگروہ اپنے علم وفضل، دیانت وتقویٰ اور بعضی دوسری خصوصیات کی وجہ سے تابعین کے زمرہ میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں؛ انہوں نے دوصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ کودیکھا تھا؛ اگران کے تابعی ہونے کے لیے کوئی دوسری وجہ نہ بھی ہوتی توتنہا روایت صحابہ رضی اللہ عنہ کا فضل ہی ان کی تابعیت کے لیے کافی تھا؛ مگرارباب تذکرہ ان کا ذکر تبع تابعین کے ساتھ کرتے ہیں، غالباً ان کے نزدیک صرف رویت صحابہ تابعیت کے لیے کافی نہیں، اس لیے ان کواس فہرست میں لے لیا گیا ہے۔