روزہ قضا کرنے کے شرعی عذر کا معیار از عمار خان ناصر
اس رمضان میں سوشل میڈیا پر جاری مذہبی بحثوں میں سے ایک نمایاں بحث یہ ہے کہ روزہ چھوڑنے کے لیے شرعی عذر کا معیار کیا ہے؟ قرآن مجید میں تصریحاً مرض یا سفر کی وجہ سے رمضان کا روزہ چھوڑ دینے اور بعد میں اس کی قضا کر لینے کی اجازت بیان ہوئی ہے۔تاہم اس پر فقہاء کا اتفاق ہے کہ یہ اجازت انھی دو اعذار تک محدود نہیں، بلکہ اس نوعیت کے دوسرے اعذار میں بھی اس رخصت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حاملہ نیز بچے کو دودھ پلانے والی خواتین اگر روزے کی متحمل نہ ہوں تو وہ روزہ چھوڑ کر بعد میں قضاء کر سکتی ہیں۔گویا قرآن نے دو عام طور پر پیش آنے والے اعذار کا ذکر کر کے ایک اصول واضح کر دیا ہے جس کے تحت دوسرے مختلف اعذار کا حکم بھی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ان اعذار کا تعلق ہے جن کی بنیاد پر روزہ ترک کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کا تعین ایک اجتہادی امر ہےجس میں اہل علم کا اختلاف ہو سکتا ہے، بلکہ جن دو اعذار کا نص میں تصریحاً ذکر ہے، خود ان کی بنیاد پر روزہ ترک کرنے کے معاملے میں بھی شریعت نے اجتہادی اختلاف کی پوری گنجائش رکھی ہے۔ چنانچہ یہ معلوم ہے کہ نہ تو مرض کی کوئی ایسی حد شرعی نصوص میں طے کی گئی ہے جو بالکل متعین اور واضح ہو اور نہ سفر کی۔ ان دونوں معاملوں میں مکلفین، اہل علم واجتہاد کی آرا یا خود مبتلیٰ بہ کی اپنی صواب دید کی روشنی میں رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس میں اختلاف بھی واقع ہو سکتا ہے۔ مثلاً سفر کی مقدار کے بارے میں فقہاءکے متعدد اقوال ہیں جو تین میل سے لے کر پینتالیس یا اڑتالیس میل تک پھیلے ہوئے ہیں اور، مثال کے طور پر، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے متعلق نقل ہوا ہے کہ وہ تین میل کے سفر پر جاتے تو نماز بھی قصر کر لیتے تھے اور روزہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۸۸۶۸)اب ظاہر ہے کہ مذکورہ مقداروں کے مابین بے حد تفاوت ہے، لیکن چونکہ یہ اجتہادی معاملہ ہے، اس لیے پینتالیس میل کو سفر کی کم سے کم مقدار شمار کرنے والے تین میل پر رخصت سے فائدہ اٹھانے والوں کو یہ الزام نہیں دے سکتے کہ وہ شرعی عذر کے بغیر روزہ ترک کر رہے ہیں۔ یہی معاملہ بیماری کا ہے جس میں خود مکلفین کے احوال اور اذواق بھی مختلف ہو سکتے ہیں اور اطباء وماہرین فقہ کی آرا میں بھی اختلاف واقع ہو سکتا ہے۔ کچھ طبائع اس کو ترجیح دیں گی کہ جب تک مرض جان لیوا نہ ہو یا اس کے ساتھ روزہ رکھنا انتہائی ناقابل برداشت نہ ہو، رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ اس کے برعکس کچھ دیگر مزاج اس کو کافی سمجھیں گے کہ اگر کسی بیماری کی وجہ سے روزے کی مشقت، عام معمول سے نسبتاً بڑھ جاتی ہے تو ایسی صورت میں رخصت سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔ طبائع اور مزاجوں کا یہ اختلاف اہل فتویٰ میں بھی پایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا عمر کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ لوگوں کو حج کے سفر عمرہ کرنے سے سختی سے منع کرتے تھے اور بعض اوقات اس پر ان کی تادیب بھی کر دیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے خاص ذوق کی بنا پر اس کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں لوگ احرام باندھ کر حرم میں آئیں اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کھول کر بیویوں سے استمتاع جیسی لذتوں سے محظوظ ہوں۔ گویا اس رخصت سے فائدہ اٹھانا ان کے طبعی دینی ذوق پر گراں گزرتا تھا۔ اسی طرح کا معاملہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا تھا جن کا ذوق، تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھانے میں جمہور صحابہ سے مختلف تھا۔ وہ اسے انتہائی شدید حالات تک محدود رکھنا پسند کرتے تھے اور عام حالات میں اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کے قائل نہیں تھے۔ اس حوالے سے ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کو یہ رخصت دے دیں تو وہ پانی ٹھنڈا لگنے پر وضو چھوڑ کر تیمم کرنے لگیں گے۔ اس تناظر میں،اب موجودہ دور میں سامنے آنے والے سوالات کو دیکھیےتو دو بڑے اعذار اہل علم کے ہاں زیر بحث ہیں: ۱۔ کیا ایسے علاقوں کے لوگ جہاں دن کا دورانیہ دنیا کے باقی خطوں کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر طویل ہے، رمضان میں روزے چھوڑ کر دوسرے دنوں میں ان کی قضا کر سکتے ہیں؟ ۲۔ کیا ایسے لوگ جو جسمانی محنت مزدوری کر کے اپنی روزی کماتے ہیں اور شدید گرمی میں روزے کی حالت میں ان کے لیے مزدوری کی مشقت اٹھانا قابل برداشت نہیں، وہ روزہ قضا کر سکتے ہیں یا ان کا فدیہ دے سکتے ہیں؟ ان دونوں سوالات کے جواب میں اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم چونکہ دونوں صورتوں میں شدید مشقت کی ایک غیر معمولی صورت حال بدیہی طور پر موجود ہے، اس لیے ان صورتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت نہ دینے والے حضرات بھی اجازت کے قائل اہل علم کے موقف کا وزن ضرور محسوس کرتے ہیں۔ حالیہ بحث میں، البتہ، بعض موقر اہل علم کی طرف سے یہ سوال عذر کے ایک نسبتاً وسیع تر مفہوم کے حوالے سے اٹھایا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اگر رمضان میں طلبہ کے لیے روزے کے ساتھ امتحانات کی تیاری مشکل ہوتو اسے بھی روزے کی قضا کا ایک جائز شرعی عذر تصور کیا جانا چاہیے۔ جدید معاشرے میں اس نوع کے اعذار کی کئی دوسری شکلیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثلاً پیشہ ور کھلاڑیوں کو، جن کا سلسلہ معاش ان کے کھیل سے وابستہ ہے، اگر رمضان میں کھیل کے مقابلوں میں حصہ لینا پڑے تو کیا یہ ان کے لیے روزہ چھوڑنے کا جائز عذر ہوگا؟ اسی طرح ہمارے ہاں عید کی خریداری عموماًخواتین کیا کرتی ہیں اور ان میں سے بہت سی خواتین کے لیےروزہ افطار کرنے کے بعد شام کے وقت بازار جا کر خریداری کرنا ممکن نہیں ہوتا، جبکہ گرمی میں روزے کے ساتھ پر ہجوم بازاروں میں سارا دن گھوم پھر کر خریداری کرنا بھی شدید مشقت کا باعث ہے۔ تو کیا ایسی خواتین بازار کی خریداری کے دن روزہ چھوڑ کر بعد میں اس کی قضا کر سکتی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ہمارے خیال میں اس نوعیت کے اعذار کے متعلق اہل فتویٰ کے اختلاف کو سمجھنے کے لیے کسی اصولی اور فقہی بحث سے زیادہ طبائع اور رجحانات کے اختلاف کو پیش نظر رکھنا زیادہ مددگار ہوگا، اس لیے کہ اصولی طور پر نہ تو اعذار کی کوئی متعین فہرست شریعت میں دی گئی ہے اور نہ کسی چیز کے ’’عذر شرعی’’ کی تعریف پر پورا اترنے کا کوئی ایسا قطعی اور حتمی معیار موجود ہے جسے ہر ہر صاحب علم قبول کرنے کا پابند ہو۔ یہ دراصل رجحانات اور اذواق کا اختلاف ہے۔ ایک رجحان یہ ہے کہ جب تک کوئی چیز واضح طور پر کسی ناقابل تحمل مشقت کی موجب نہ ہو، اسے عذر شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔اس کے برعکس دوسرا رجحان یہ ہے کہ عذر کا کم سے کم درجہ بھی رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کافی ہے اور روزے کی معمول کی مشقت کے ساتھ اگر کوئی بھی ایسی اضافی مشقت شامل ہو جائے جس سے بچنا اپنے حالات کے لحاظ سے مکلفین کے لیے ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ قضا کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر صحابہ وتابعین کے مابین پائے جانے والے بعض فقہی اختلافات کو بطور مثال سامنے رکھ لیا جائے تو مذکورہ دونوں رجحانات کی تفہیم میں آسانی ہوگی۔ صدر اول کے اہل علم کے سامنے ایک سوال یہ آیا کہ اگر آدمی روزے کی حالت میں منہ کی خشکی کو کم کرنے کے لیے گوند کو چبا لیا کرے تو کیا یہ درست ہوگا یا نہیں؟ اس کے جواب میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، ابراہیم نخعی، شعبی اور عطاء نے کہا کہ یہ ناپسندیدہ ہے، کیونکہ یہ پیاس کو مٹاتا ہے (گویا روزے کے مقصد اور روح کے منافی ہے)۔ لیکن انھی حضرات سے اور ان کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ فتویٰ بھی منقول ہے کہ اگر آدمی اپنی تھوک کو نہ نگلے تو پھر گوند چبانے میں کوئی مضایقہ نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۹۲۷۰ تا ۹۲۷۷) ہمارے ہاں اہل افتاء عموماً اس کی اجازت دیتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا شوہر بدمزاج اور جھگڑالو ہو اور ہانڈی میں نمک مرچ کم ہو جانے کی وجہ سے مصیبت کھڑی کر دیتا ہو تو ایسی عورت کے لیے مجبوری کی حالت میں سالن کو چکھ کر تھوک دینا جائز ہے۔ تاہم اکابر صحابہ وتابعین سے منقول ہے کہ وہ کسی شدید مجبوری کے بغیر بھی روزے کی حالت میں کسی چیز کو چکھ کر تھوک دینے کو درست اور جائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ عطاءروایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی روزے کی حالت میں سرکہ یا اس طرح کی کوئی چیز چکھ لے، بشرطیکہ وہ اس کے حلق میں نہ چلی جائے۔ہشام بیان کرتے ہیں کہ حسن بصری اس میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے کہ روزہ دار شہد یا گھی یا اس جیسی کوئی چیز چکھ کر اسے تھوک دے۔ ضحاک بن عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے عروہ بن زبیر کو منیٰ کے ایام میں دیکھا، وہ روزے کی حالت میں شہد چکھ رہے تھے۔شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے حکم سے پوچھا کہ کیا روزہ دار روشنائی کو چاٹ (کر اسے صاف) سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۹۳۶۸ تا ۹۳۷۳) یہی معاملہ روزے کی حالت میں منہ میں دوا لگوانے کا ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن مبارک بیان کرتے ہیں کہ اوزاعی نے کہا: روزے دار اپنے مسوڑھوں پر کوئی دوا لگانا چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ہشام بتاتے ہیں کہ حسن بصری نے اس آدمی کے متعلق جس کے منہ میں کوئی زخم یا تکلیف ہو، کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس پر رسوت یا اس جیسی کوئی دوا لگا لے۔یحییٰ بن عتیق بتاتے ہیں کہ محمد بن سیرین نے اس آدمی کے متعلق جس کے ہونٹوں پر پھنسیاں نکل آئی ہوں، کہا کہ رسوت استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۹۳۷۵ تا ۹۳۷۷) آخر میں اس موضوع پر اپنی ایک سابقہ تحریر کا کچھ حصہ یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ’’شریعت میں ایک طرف آسانی اور سہولت اور دوسری طرف احتیاط اور تقویٰ کے دونوں پہلو موجود ہیں اور شرعی احکام میں دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں بلکہ ان کے مابین توازن کو ملحوظ رکھنا ہی شریعت کی منشا اور فقہ واجتہاد کی حقیقی روح ہے، چنانچہ شارع کا مقصود نہ یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں آسانی ہی کی راہ کو اختیار کیا جائے اور نہ اس چیز کو اس نے پسند کیا ہے کہ احتیاط کا پہلو اس قدر غالب ہو جائے کہ دین میں سہولت اور یسر کا پہلو ہی معدوم نظر آنے لگے۔ پہلا رویہ انسان کو بالکل سہل پسند اور بعض اوقات شرعی حدود کی پاس داری سے بے پروا بنا دیتا ہے اور بالآخر وہ مشقت برداشت کرنے کے اس جذبے سے ہی عاری ہو جاتا ہے جو شریعت کو ایک خاص درجے میں بہرحال انسان سے مطلوب ہے، جبکہ دوسرا رویہ انسان کو شرعی احکام اور پابندیوں سے نفور بنا دیتا اور انسان کی طبیعت میں آمادگی اور شوق کے اس پہلو کو ختم کر دینے کا موجب بن جاتا ہے جو اطاعت اور امتثال امر کا اصل حسن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اکابر اہل علم اور مجتہدین کی آرا میں ہمیں ان دونوں پہلووں کی رعایت دکھائی دیتی ہے۔ صحابہ اور تابعین اور ائمہ مجتہدین کی فقہی آرا کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی مجتہد ایسا نہیں جو ہر مسئلے اور ہر حالت میں یک طرفہ طور پر صرف یسر یا صرف احتیاط کے پہلو پر زور دیتا ہو۔ تمام مجتہدین اپنی اپنی بصیرت کے لحاظ سے کہیں ایک پہلو کو ترجیح دینے کو شریعت کی منشا تصور کرتے ہیں اور کہیں دوسرے پہلوکو۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی ترجیح کے لیے کوئی بے لچک ریاضیاتی یا منطقی قواعد وضع نہیں کیے جا سکتے، اس لیے کہ اس کا مدار زیادہ تر اس بات پر ہوتا ہے کہ فقیہ کے سامنے جو متعین مسئلہ یا صورت حال رکھی گئی ہے، اس میں اس کے فہم اور بصیرت نے برسرموقع اس کی کیا راہنمائی کی ہے، چنانچہ ایک فقیہ درپیش صورت حال، مبتلی بہ کے حالات اور معاملے سے متعلق دوسرے پہلووں کی روشنی میں یہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے کہ یہاں یسر اور سہولت کا پہلو اختیار کیا جانا چاہیے اور یہ رائے بھی قائم کر سکتا ہے کہ یہاں احتیاط اور تورع کے پہلو کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں قلت علم اور قلت تحمل کی وجہ سے عام طور پر یہ رویہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کسی مسئلے میں ایک خاص پہلو سامنے آنے پر جو لوگ اس کے ساتھ زیادہ طبعی موافقت محسوس کرتے ہیں، ان کے ہاں اس سے مختلف رجحانات کے لیے تحقیر کا رویہ پیدا ہو جاتا ہے اوروہ علمی آرا کے احترام کو ملحوظ رکھنے کے بجائے ایک غیرمعتدل اور جذباتی طرز فکر کے نمائندہ بن جاتے ہیں۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابل اصلاح ہے۔ شارع کی نظر میں اصل قدر وقیمت اس چیز کی ہے کہ کسی صاحب علم نے دیانت داری کے ساتھ اپنے فہم، ضمیر اور احساسات کی روشنی میں کس طریقے کو شارع کی منشا کے قریب تر تصور کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب شریعت میں یسر اور احتیاط کے دونوں پہلو اصولی طورپر موجود ہیں تو فروعی اجتہادی مسائل میں ان میں سے کسی ایک پہلو کو متعین کرتے ہوئے اصحاب علم کا اختلاف ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے، چنانچہ اپنے مقصود یعنی شارع کی منشا کے قریب تر رہنے کے لحاظ سے سہولت کا انتخاب کرنے یا احتیاط پر کاربند رہنے کے دونوں رویے قابل احترام ہیں اور اس احترام کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔’’