زاھد اور صوفی کا جھگڑا! تحریر قاری محمد حنیف ڈار
زاھد صاحب ڈر ڈراوے سے کام نکالنا چاھتے ھیں تو صوفی پیار محبت سے بات سمجھانا چاھتا،،
صوفی کا موقف یہ ھے کہ ھم سے تو ایسے اللہ سے ڈرا نہیں جاتا جو ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتا ھے،، ھم جیسے ناھنجاروں کو کھلائے پلائے اور دوڑائے چلا جا رھا ھے،ھمیں تو بس لاڈ آ جاتا ھے،،
ھم نے تو دیکھا ھے کہ ایک ماں جو بچے کو ڈانٹ رھی ھوتی ھے تو وہ اسی کے گلے میں لٹک کر اس کو مسکرانے پہ مجبور کر دیتا ھے ! پھر وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا جب دیکھتا ھے کہ یہ جتنا ڈرتا ھے مجھ ھی سے چمٹتا ھے ! تو اپنے پیار کے خزانے کھول دیتا ھے،، قرآن میں ایک آیت ھے،، و ان من شئٍ الا عندنا خزائنہ ،، کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ھمارے پاس بھرے ھوئے نہ ھوں ،، بس زاھد عذاب کے خزانے ڈھونڈتا پھرتا ھے کہ اللہ سے ڈرائے اور صوفی محبت کے خزانوں کی تلاش میں در در کھٹکاتا پھرتا ھے کہ اللہ کی طرف بلائے !
ڈر اور خوف دوری پیدا کرتا ھے !
محبت قرب اور بے تکلفی چاھتی ھے !
زاھد رب کو اختیارات کی کرسی پہ بٹھا کر ڈراتا ھے،، صوفی اسے سارے اختیارات سمیت اپنے گھر میں دیکھنا چاھتا ھے !
قرآن اشارے کرتا ھے کہ اللہ کو سوچی سمجھی بے ساختہ بے ریا محبت درکار ھے،، وہ ایمان کی شرط شدید محبت رکھتا ھے !
والذین امنوا اشدُۜ حباً للہ !
محبت تو بدلے میں محبت کی طلبگار بھی نہیں ھوتی !
کسی چیز کی طلب ،، کسی کے وجود کا ثبوت ھوتا ھے!
محب اپنا وجود ختم کر چکا ھوتا ھے،وہ اپنی ذات کو صیقل کر کے شیشہ بنا چکا ھوتا ھے جس میں صرف محبوب کی خواھش کا عکس نظر آتا ھے،،
اے اللہ میں اگر جنت کی طلب میں تیری عبادت کرتی ھوں تو جنت مجھ پر حرام کر دے !
اے اللہ میں اگر جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ھوں تو جہنم مجھ پر واجب کر دے !
اے اللہ میں تو تجھے اس لئے سجدہ کرتی ھوں کہ تو ھے ھی سجدوں کے قابل !
اے اللہ میرا جو دنیا میں حصہ ھے وہ اپنے دشمنوں کو دے دے!
اے اللہ جو میرا آخرت کا حصہ ھے وہ اپنے دوستوں کو دے دے !!
اے اللہ میرے لئے بس تو اور تیری محبت ھی کافی ھے !
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں !
بے لوث عبادت کــرتا ھوں ، بنــــدہ ھـــوں تیرا مـــزدور نہیں !
ایسی باتیں صرف محبت ھی کـــرواتی ھے ! واعظ کے پسینے چھوٹ چھوٹ جاتے ھیں ایسی گستاخیوں سے !!
محب ادھار کی محبت کا قائل نہیں !
وہ اپنی جنت اپنے دل میں رکھتا ھے،جی ھاں !!
اسی دل میں جہاں اس کا محبوب رھتا ھے ،وھیں اس کی جنت ھے !
اللہ نے صرف لفظ محبت نازل نہیں کیا ،،
بلکہ محبت میں شعلہ جوالہ بنا اپنا محبوب بھیجا ھے !
جس طرح مشعل سے مشعلیں روشن کی جاتی ھیں اسی طرح نبیﷺ کی ذات سے محبت ،، اللہ کی محبت کو بھڑکا دیتی ھے !
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ھیں،،
لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین !
تم میں کوئی پکا سچا مومن نہیں ھو سکتا جب تک میں اسے محبوب نہ ھو جاوں ،اپنے باپ سے بیٹے سے اور تمام انسانوں سے،،
یہ ھے وہ محبت جس کا صلہ اللہ کی محبت ھے !
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ !
ائے نبی ان کو بتا دیجئے کہ اگر تم اللہ کی محبت کا دعوی رکھتے ھو تو مجھے فالو کرو ،، اللہ تم سے محبت کرنے لگےگا،، کیونکہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان کوئی بھی قدرِ مشترک نہیں سوائے محبوب کے،، اللہ کے محبوب کو اپنا محبوب بنا لو ! وہ تم سے بھی محبت کرنے لگے گا !
اسرائیلی روایات میں بیان کیا جاتا ھے کہ فرعون کے دربار میں ایک مسخرہ تھا جو فرعون کو مختلف روپ دھار کر خوش کیا کرتا تھا،، خاص کر جب وہ موسی علیہ السلام کی طرح جبہ عمامہ پہنتا اور عصا اٹھا کر ان کی سی چال بنا کر چلا کرتا تو فرعون باغ باغ ھو جاتا ،، فرعون جب ڈوبا تو وہ مسخرہ اسی لباس میں موسی علیہ السلام کا روپ دھارے جبے عمامے اور عصا سمیت کنارے پہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا اور ڈوبنے سے بچ گیا !
موسی علیہ السلام نے عرض کیا مولا اس کو کیوں بچا لیا ؟
فرمایا موسی ،،،،،،،،
تیرے جیسی صورت بنائے کھڑا تھا ،، ڈبوتے ھوئے شرم آئی ھے !
قل ان کنتم تحبون اللہ !
فأتبعونی یحببکم اللہ و یغفر لکم ذنوبکم !
اللہ جب تم سے محبت کرے گا تو سب سے پہلا کام تمہیں پچھلے گناھوں سے صاف کرے گا اور اگلے گناھوں سے بچائے گا کیونکہ محب کبھی بھی اپنے محبوب میں عیب پسند نہیں کرتا !!.