شریعت بنام طریقت تحریر یدِ بیضاء
…….تصوف………..
مقدمہ نمبر۱…..
دین میں تصوف کی ابتداء
اللہ تعالی نے انسان کو مکمل اراده و اختیار دے کر پیدا کیا…اسےایک جنت میں رکها اور اس پر کچھ حدود و قیود لگا دیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ انسان اس ارادے اختیار کو کس طرح استعال کرتا ہے… انسان نے اپنے اختیار کے تحت وه حدود توڑ دیے جو اللہ نے مقر ر کیے تهے… اللہ تعالی نے انسان کو کہا کہ یہ جنت ایک کامل دنیا ہے جہاں نہ موت ہے، نہ غم ہے، نہ بیماری ہے.. اس دنیا کا اہل ہونے کے لیے اب میں تمہیں ایک امتحان گاه میں بهیج رہا ہوں تاکہ تم اپنے آپ کو اس دنیا کا اہل ثابت کرو….اس جنت کا اہل ہونے کے لیے تمہارا امتحان سرکشی اور بندگی کی بنیاد پر ہو گا…اگر تم اس شعور کے ساتھ جیو کہ میں ایک بنده ہوں، میرا ایک خالق ہے اور مجهے ایک روز اس کے حضور جواب ده ہونا هے تو تم بندگی اختیار کرو گےاور فلاح پاو گے…… اس بندگی کے اصول و ضوابط سکهانے کے لیے میں زمین پر اپنے پیغمبر اتارتا رہوں گا تاکہ وه تمہیں میرا دین سکها سکیں…
اس کے بعد بات یوں ہے کہ…
اللہ کا دین اسلام ہے… تمام انبیاء نے اسی دین کی دعوت دی. اس دین کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ ہیں اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید ہے.. لیکن یہ دین ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے چند احکام مرتب ہیں اور یہ سنت کی ایک فہرست مرتب ہے یہ اخلاقیات ہیں، یہ معاملات ہیں یہ شریعت ہے… نہیں
بلکہ معاملہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ ساتھ انسان ہیں اور بشری تقاضوں کے مطابق ایک زنده سماج میں اپنی زندگی گزار رہے(یہی معاملہ سارے انبیاء کے ساتھ تها) لوگوں کو دین سکهانا ان کا فرض منصبی ہے….دین کہاں سے آ رہا ہے؟ دین اللہ تعالی وحی کے ذریعے نازل کر رہا ہے…لیکن حقیقت واقعہ ہے کہ قرآن مجید میں دین کا کوئی انڈکس بیان نہیں ہوا… بلکہ اس کے برعکس قرآن میں تاریخ بهی ہے، بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اصلاحی واقعات بهی ہیں، مشرکین عرب کا ذکر بهی ہے، پهر محمد رسول اللہ کی ذاتی زندگی زیر بحث ہے، مقامی معاملات زیربحث ہیں….یعنی معاشرے میں ایک پیغمبر زندگی گزار رہا ہے اور اس پر ایک زنده کلام اتر رہا ہے جو اس دین کو پیش کر رہا ہے جس کا اللہ نے انسان سے وعده کر رکها تها…
پیغمبر زمین پر موجود ہے…کلام مسلسل اتر رہا ہے…معاشرے کی آہستہ آہستہ تربیت ہو رہی ہے….قرآن جو دین لے کر اتر رہا ہے اس کو تئیس سال لگ جاتے ہیں اور جب وه مکمل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ پیغمبر کا وصال ہو جاتا ہے….
لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک اور واقعہ ہوا جو ماضی میں کسی اور پیغمبر کے ساتھ اس طرح نہیں ہوا….عرب میں دین آنے سے پہلے کوئی ریاست نہیں تهی.. . محمد رسول اللہ کے دین کے ساتھ معاشره اس مقام تک پہنچ گیا کہ ایک پوری ریاست وجود میں آ گئی…..ان کے جانے کے بعد دو چیزیں تهیں ایک تو دین تها جو لوگوں کو سکهایا جانا تها اور ایک ریاست تهی جو سنبهالی جانی تهی….شروع میں تومعاملات مسلمانوں کے قابو میں رہے…یعنی دین لوگوں نے خود محمد رسول اللہ سےسیکها تها چونکہ سارے صحابہ کرام تهے جبکہ ریاست ایک مخصوص علاقے تک محدود تهی..اور ریاست کے تقاضے کم تهے…
لیکن جونہی ریاست پهیلی اس سے دو مسائل پیدا ہوئے….پہلا مسلہ یہ پیدا ہوا کہ شریعت کے قانون کا تعلق ریاست کے معاملات کے ساتھ کیسے جوڑا جائے؟..مسلمانوں کے پاس ریاست چلانے کے لیے جو دفتر تها یا جو دیوان تها یا آج کی جدید اصطلاح میں جو سیکریٹریٹ تها وه موجود ہی نہیں تها..چونکہ ریاست تهی نہیں اسلیے ان معاملات میں دلچسپی بهی نہیں تهی…لیکن ریاست کے بعد بہت سارے ایسےمعاملات سامنے آئے جن مین مسلمانوں کے پاس پہلے سے کوئی دستور یا آئین یا اصول وضوابط نہیں تهے…مثلا مالیات کے معاملات، زمین اور جائیداد کے معاملات، ریاست کوحاصل ہونی والی آمدنی کے معاملات، ریاست کے خرچ کے معاملات…. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فقہ پر ابتدائی دور میں بہت زور شور سے کام ہوا تاکہ فرد، معاشره اورریاست کے ساتھ قانون کو متعلق یا ریلیٹ کر دیا جائے…اس بات کو فی الحال یہیں چهوڑ دیجیے…اب آئیے دوسرے مسئلے کی طرف…
دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ جب دین نئے علاقوں میں پہنچا اور نئےلوگ مسلمان ہونا شروع ہوئے تو ان کے سامنے خود دین کا مسئلہ پیدا هو گیا….یعنی فرائض کے حد تک تو معاملات میں کوئی مسئلہ نہیں تها..یہ نماز ہے، یہ روزه ہے، یہ زکاۃ ہے، یہ حج هے…لیکن دین کہاں سے اخذ ہوتا ہے؟ دین کو قرآن سے کیسے اخذ کیاجائے گا؟ دین کو سنت سے کن اصولوں کی روشنی میں حاصل کیا جائے گا؟ قرآن کی کسی آیت کے مخاطب کا فیصلہ کون کرے گا؟ کسی حدیث سے حکم کے متفرع ہونے کی دلیل کیا ہو گی؟.یعنی دین کے اساسی موضوعات جب معاشرے میں زیر بحث آنے لگے اور بہت تواتر سے آنےلگے تو مسلمانوں میں علماء کے مختلف طبقات پیدا ہونے لگے…
ایک طبقہ مفسرین کا پیدا ہوا جنہوں نے قرآن پر غور و خوص شروع کردیا کہ آیت کب اتری، اس کا پس منظر کیا تها، اس کا مفہوم کیا هے؟ اس کے مخاطبین کون ہیں؟ اس کے معنی کا تعین اگر کسی نے کیا ہے تو کن اصولوں کی روشنی میں کیا ہے؟رسول اللہ نے کیا مفہوم بیان کیا ہے؟ صحابہ کرام نے کیا مفہوم بیان کیا هے؟ اورتفسیر کا پورا علم وجود میں آ گیا…
دوسرا طبقہ محدثین کا پیدا ہوا…حدیث کیا ہے؟ اس کا پس منظر کیاہے؟ اسے کس نے نقل کیا؟ نقل کرنے والے کتنے لوگ تهے؟ حدیث میں جو بات کی گئی هے وه حکم ہے؟ وه مشوره ہے؟ وه قانون ہے؟ پهر اس کی سند کیا ہے؟ اس سے دین کیسے اخذ کیاجائے گا… اس لیے حدیث و رجال کا ایک پورا علم وجود میں آیا..امام مالک کی موطا سے لے کر امام بخاری کی بخاری اسی بنیاد پر وجود میں آئے…
تیسرا طبقہ علماء متکلمین کا پیدا ہوا….یعنی ایسے مسائل پیش آنےلگے اور ایسے سوال آنے لگے کہ اللہ تعالی کی ذات کیسی ہے؟ ان کے صفات کیسے ہیں کیا وه وجود ہیں؟ کیا وه عرش پر استوا ہیں؟ ایمان کیا ہے؟ ایمان مرکب ہے یا بسیط؟ایمان کیا کم ذیاده بهی ہوتا ہے؟ اللہ نے دنیا تخلیق کیوں کی؟ کی تو کیسے کی؟ کیا کائنات حادث ہے یا قدیم؟ جب اسطرح کے معلامات زیر بحث آنے لگے تو اس کے لیےباقاعده مسلمانوں کا کلام یا فلسفہ وجود میں آیا….یہ جو ماتریدی، اشعری اورمعتزلی پیدا ہوئے ہیں یہ فلسفہ کلام کی بنیاد پر ہی ہوئے..
پهر اس کے بعد جب فقہ، تفسیر، حدیث اور کلام پر کام ہونے لگا اورخصوصا فقہ پر زور و شور سے کام ہونے لگا کیونکہ یہ ریاستی امور کے لیے اہم تهی تویہ سوال آنے لگے کہ یہ تو ٹهیک ہے کہ قرآن کی آیت کا تعین کیا جائے، ان کے مفاہیم واضح کیے جائیں، حدیث پر کام ہو، کلام پر کام ہو تاکہ دین کو واضح کیا جاسکے…..لیکن یہ تو دین کے ظاہری احکام ہیں…دین کا مقصد کیا هے؟ دین کی حقیقت کیا هے؟ دین اپنے باطن میں انسان سے کیا تقاضا کرتا هے؟؟؟
اس کے لیے صوفیا کا ایک اور طبقہ پیدا هوا جنہوں نے دین کا مقصد اسکے باطن میں متعین کرنے کی کوشش کی….
مقدمہ نمبر ۲….
تصوف حقیقت دین سے فلسفہ کلام تک……
تصوف کی ابتداء جیسے کہ عرض کر چکا ہوں کہ اپنے پہلے دور میں دین کی حقیقت کو سامنے لانے کے لیے تها…..دین اپنے باطن میں کیا تقاضا کرتا ہے…..اس کے لیے اس زمانے کی ایک مثال لیتے ہیں…حاملین تصوف نے فقہا کے سامنےسوال رکها کہ "ایمان” کیا کم ذیاده ہو سکتا ہے؟
فقہا نے جواب دیا کہ نہیں ہو سکتا….یعنی قانونی طور پران کی بات ٹهیک ہے کہ آدمی مسلمان ہو گا تو مسلمان ہو گا یہ 80 فیصد مسلمان تو نہیں ہو سکتا…نہ ہی 20 فیصد مسلمان ہو سکتا ہے…تو ایمان کم یا زیاده نہیں ہوسکتا….یہ ظاہر کا بیان ہے…قانونی طور پر بالکل ٹهیک نکتہ ہے لیکن دین کی حقیقت کے لحاظ سے یہ بات غلط ہے….
ایمان اللہ سے تعلق کا ایک مظہر ہے جو کم بهی ہو سکتا ہے اور ذیاده بهی ہو سکتا ہے..ایمان کی حالت نہایت غیر معمولی بهی ہو سکتی ہے اور ایمان کی حالت نہایت پستی میں بهی ہو سکتی ہے…یہ بڑهایا بهی جا سکتا ہے اور گهٹ بهی سکتا هے…اللہ کے ساتھ تعلق کی نوعیت مضبوط بهی ہوتی ہے اور نہایت کمزور بهی..تو حقیقت کے لحاظ سے ایمان بڑھ بهی سکتا هے اور گهٹ بهی سکتا هے…
تصوف کے ابتدائی دور میں اس کے آغاز کا مقصد یہی تها کہ ایمان کے حقائق زیر بحث آنے چاهیں…
خدا کے ساتھ تعلق کی نوعیت زیر بحث آنی چاہیے…انہوں نےصرف چیزوں کے سمجهنے کے فقہی اسلوب کے خلاف احتجاج کیا لیکن کوئی نیا نقطہ نظر پیش نہیں کیا…
اس کے بعد تصوف کا جو دوسرا دور شروع ہوتا هے….تصوف کے اس دوسرےدور میں دین کی حقیقت یا اس کے باطن کے مظاہر دیکهنے اور اللہ کے ساتھ قرب بڑهانےکا جو عمل تها وه اب زہد، فقر،تجرد، توکل اور انسان کی باطنی رزائل جیسے بغل، انا پرستی، دنیا طلبی، حسد، کینہ اور بغض سے نجات کی باتیں تهی..یعنی ایمان کے حقائق زیر بحث آنے چاهیں….لوگوں کو دیکهنا چاہیے کہ کا تعلق خدا کے ساتھ کیسا ہے…جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اسی دور میں معاملہ آہستہ آہستہ ترک دنیا اور راہبانیت تک چلا گیا…یہ دور جنید بغدادی اوربایزید بسطامی کا دور تها….لیکن اس دور میں بهی ابهی تصوف کا اپنا فلسفہ کلام پیدا نہیں ہوا تها…
اس کے تیسرے دور میں جس کو شاه ولی اللہ "توجہ” کے دورسے تعبیر کرتے ہیں…یہ وه دور ہے جس میں صوفیاء نے کلامی مباحث کا آغاز کردیا….حقیقت الحقائق تک پہنچنا…ذات ربانی کے مشاہدات اور اس کا صحیح ادراک…اس دور کے بارے میں شاه صاحب لکهتے ہیں ” اس دور میں طریقہ تصوف میں ایک اورتغیر رونما ہوا، اہل کمال میں سے عوام حسب سابق شرعی اور امر پر کاربند رہے ،جبکہ خواص نے باطنی احوال و کیفیات کو اپنا نصب العین بنایا، خواص الخواص نے اعمال و احوال سے گزر کر جذب تک رسائی حاصل کرنے کا مقصود ٹھہرایا اور اس جذب کی وجہ سےان کے سامنے توجہ کی نسبت کا دروازہ کھل گیا اور اس وجود کے تعینات کے سب پردے انکے لئے چاک ہوگئے اور اُنہوں نے عالم محسوسات میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا”
اس دور سے کلامی مباحث وجود میں آ گئے…..اور اس کے بعد تصوف کاچوتها دور شروع ہوا جو ابهی تک جاری و ساری ہے اور جسے تصوف کا دور "فلسفہ وجود” کہا جاتا ہے. اس دور میں تصوف کے موضوعات اب اب زہد، فقر،تجرد، توکلاور انسان کی باطنی رزائل جیسے بغل، انا پرستی، دنیا طلبی، حسد، کینہ اور بغض سےنجات کی باتوں سے نکل کر صرف "مشاہدہ حق” پر رک گئے اور ایک پورے فلسفہکلام کو وجود بخشا گیا….وجود مطلق کیا ہے؟ ذات واجب الوجود سے کائنات کا کیا تعلق ہے؟ کائنات کا صدور ذات فیاض سے کیسے ہوا؟ جذب و سکر کی ،ظہور کائنات کےمدارج اور تنزلات ، قدیم اور حادث کا باہمی تعلق…..گویا یہاں سے وحدت الوجود کی بنیاد پڑی…یہ دور حلاج سے ہوتے ہوئے ،ابو القاسم قشیری ،امام غزالی، علی ہجویری،عبدالقادر جیلانی، معین الدین چشتی، فریدالدین عطار، ابن عربی، بہاوالدین نقشبندی،شہاب الدین سہروردی، مجدد الف ثانی، شاه ولی اللہ اور شاه عبد القادر تک آتا ہے….
تصوف کے کلام پر بحث کرتے هوئے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ تصوف کے فلسفہ کلام پر "صوفیاء” نے مباحث نہیں کیے بلکہ "متصوفین علماء” نے ان پر مباحث کیے ہیں…صوفیاء کے یہاں فلسفہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ،مشاہدہ، مراقبہ، اشتغال اور حقیقت الحقائق کے پہنچنے اعمال زیر بحث ہیں ان میں علی ہجویری، عبدالقادر جیلانی، معین الدین چشتی، فریدالدین عطار، ابن عربی، بہاوالدین نقشبندی،شہاب الدین سہروردی شامل ہیں…تصوف کے چار سلسلوں میں سے(چشتی،قادری،نقشبندی ،سہروردی) کلام پر مباحث صرف شہاب الدین سہردوری کے یہاں ملتےہیں…کلامی مباحث متصوفین علماء ابو القاسم قشیری ،امام غزالی،،شہاب الدین سہروردی، مجدد الف ثانی، شاه ولی اللہ اور شاه عبد القادر نے کی ہیں….
چوتهے دور سے جب تصوف کا فلسفہ کلام پورے آب و تاب سے سامنے آیا تو کم و بیش تمام متصوفین کسی نہ کسی صورت وحدت الوجود سے متاثر رہے….وحدت الوجود کے تنزلات ستہ میں پڑے بغیر اس کا ایک اجمالی خاکہ یوں ہے کہ…
یعنی ذات صرف ایک ہے اور وه ہے اللہ تعالی کی ذات…( یہاں وه مشہور حدیث قدسی پیش کی جاتی کہ "کنت کنز مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق” میں ایک مخفی خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ مجھے پہچانا جائے اس لیےمیں نے خلقت پیدا کی…. حالانکہ اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہے) اب جب ذات نے چاہاکہ میں پہچانا جاوں تو اس نے تنزلات قبول کیے اور کائنات وجود میں آئی….یعنی وجود حقیقی تو اللہ ہی کا ہے..باقی تمام کائنات وجود حقیقی نہیں بلکہ مجازی ہے….حقیقت وجود، وجود واحد کے سوا موجود نہیں ہے..وه مثال دیتے ہیں کہ آئینہ خانے میں جہاں بے شمار آئینے جڑے ہوں اور ایک شمع روشن ہو تو وه ہر آئینے میں جگمگاتی نظر آتی ہے..ہر عکس اس ایک شمع کا محتاج ہے..وه شمع نہ ہو تو ہر سو اندهیرا چها جائے گا….یہ کائنات ہست و نیست ہے….وجود صرف ایک باری تعالی کا ہےاور باقی سب مجاز ہے..
اس کلام پر جب شروع کے ادوار میں اعتراض ہوا کہ شے میں خدا کا وجود تسلیم کر لینا تو شرک ہے…اس پر متصوفین نے جواب دیا کہ یہ دراصل مغالطہ ہے…شرک تو اس وقت ہو گا جب خدا کے سوا کسی شے کو تسلیم کرو گے..مانو گے…پهر اسے خدا کی ذات و صفات میں شریک ٹہراو گے…جبکہ ہم کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کچه ہے ہی نہیں…یہ کائنات رنگ و بو…یہ عالم آب و گل…یہ نباتات و جمادات…یہ عالم آب وگل…یہ زمین و آسمان…یہ ستارے و کہکشاں….یہ انس و جن… یہ حجر و شجر اور یہ اجناس و امبار سب کے سب مجاز ہیں…یہ نظر کا فریب ہے…یہ کائنات ساری کی ساری اعتباری اور فرضی ہے…حقیقت صرف خدا کی ذات ہے..ہم اس کے سوا کسی وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے تو اس کی ذات میں کسی کو شریک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا….
یہاں سے صوفیا نے وه تحریک جو دراصل شروع کے ادوار میں فقہ کےقانونی ایپروچ کے خلاف شروع ہوئی تهی جس کی مثال ایمان کی کمی بیشی سے تهی اورانہوں کہا تها کہ دین کو اس کے باطن مین دیکھ کر خدا کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے…اب باقاعدہ ایک کلامی فلسفہ کی صورت اختیار کر گئی….
یہ کلامی فلسفہ کیا تها اور اس کا ماخذ کیا ہےاس پر اگلی نشت میں بات کرتے ہیں….
مقدمہ ۳….تصوف کا کلامی فلسفہ
اس باب میں صرف متصوفین علماء کے فلسفہ تصوف کے چند اقتباسات نقل کرتا هوں کہ وه دراصل کہتے کیا ہیں…اسلام کا پہلا درس توحید ہے….توحید اس اسلام کا پہلا درس ہے جو سیدنا آدم سے شروع ہوا اور سیدنا محمد مصطفی پر ختم ہوا…اس تو حید کا سب سے اعلی درجہ جب قرآن مجید بیان کرتا ہے تو کہتا ہے..
قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، اَللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.”کہہ دو، اللہ یکتا ہے ۔ اللہ سب کا سہارا ہے۔ وہ نہ باپ ہے ، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے ۔‘‘
صوفیاء اس توحید کو تصوف میں توحید کا پہلا درجہ قرار دیتے ہیں..وہ اسے عامۃ الناس کی توحید قرار دیتے ہیں۔ توحید کا سب سے اونچا درجہ اُن کے نزدیک یہ ہے کہ موجود صرف اللہ کو مانا جائے جس کے علاوہ کوئی دوسری ہستی درحقیقت موجود نہیں ہے ۔ تمام کائنات ، خواہ وہ محسوس ہوں یا معقول ، وجود حق سے ہی ہے اور محض اعتبارات ہیں….اُن کے لیے خارج میں وجود حق کے سوا اور کوئی وجود نہیں ہے….ذات باری ہی کے مظاہر کا دوسرا نام عالم ہے …. یہ باعتبار وجود خدا ہی ہے…. لیکن اس کو تعینات اور تنزلات کے اعتبار سے خدا قرار نہیں دیا جا سکتا…حقیقت صرف خداکی ذات ہے..اس کے سوا کسی وجود کو تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا….
تصوف کے جید عالم شیخ الاسلام ابو اسمعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الانصاری الہروی(۱۰۰۶–۱۰۸۸) اپنی کتاب "منازل السائرین "میں لکهتے ہیں..
التوحید علی ثلاثۃ اوجہ، الوجہ الاوّل: توحید العامۃ وھو الذی یصحب الشواھد، والوجہ الثانی: توحید الخاصۃ وھو الذی یثبت بالحقائق، والوجہ الثالث:توحید قائم بالقدم وھو توحید خاصۃ الخاصۃ. فاما التوحید الاول فھو شھادۃ ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، الاحد الصمد الذی لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفواًاحد.( ۴۷)”
توحید کے تین درجے ہیں… پہلا درجہ عوام کی توحید کا ہے ، یہ وہتوحید ہے جس کی صحت دلائل پر مبنی ہے ۔ دوسرا درجہ خواص کی توحید کا ہے …یہ حقائق سے ثابت ہوتی ہے ۔ توحید کا تیسرا درجہ وہ ہے جس میں وہ ذات قدیم ہی کے ساتھ قائم ہے … یہ اخص الخواص کی توحید ہے ۔ اب جہاں تک عوام کی توحید کا تعلق ہے تووہ بس یہ ہے کہ اِس بات کی گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، صرف وہی الٰہ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں ، وہ یکتا ہے ، سب کا سہارا ہے، وہ نہ باپ ہے، نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے۔
امام غزالی اسی باب میں "احیاء علوم میں لکهتے ہیں….
والرابعۃ: ان لا یری فی الوجود الا واحدًا وھی مشاھدۃ الصدیقین وتسمیہ الصوفیۃ الفناء فی التوحید، لانہ من حیث لا یری الا واحدًا فلا یری نفسہ ایضاً واذا لم یر نفسہ لکونہ مستغرقاً بالتوحید، کان فانیاً عن نفسہ فی توحیدہ بمعنی انہ فنی عن رؤیۃ نفسہ والخلق. (احیاء علوم الدین ۴۲۴۵)
”توحید کا آخری مرتبہ یہ ہے کہ بندہ صرف ذات باری ہی کو موجوددیکھے ۔ یہی صد یقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیہ اِسے ہی فنا فی التوحید کہتے ہیں۔ اِسکی وجہ یہ ہے کہ اِس مرتبہ میں بندہ چونکہ وجود واحد کے سوا کچھ نہیں دیکھتا ،چنانچہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا ۔ اور جب وہ توحید میں اس استغراق کے باعثاپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتا تو اُس کی ذات اِس توحید میں فنا ہو جاتی ہے ، یعنیاِس مرتبہ میں اُس کا نفس اور مخلوق، دونوں اُس کی نگاہوں کے لیے معدوم ہو جاتےہیں۔‘‘
یہی بات "فصوص الحکم” میں ابن عربی نے ان الفاظ کے ساتهلکهی ہے..
فالامر الخالق المخلوق، والامر المخلوق الخالق، کل ذلک من عین واحدۃ، لا بل ھو العین الواحدۃ، وھو العیون الکثیرۃ.
”اگرچہ مخلوق، بظاہر خالق سے الگ ہے ، لیکن باعتبار حقیقت خالق ہی مخلوق اور مخلوق ہی خالق ہے ۔ یہ سب ایک ہی حقیقت سے ہیں ۔ نہیں، بلکہ وہی حقیقت واحدہ اور وہی اِن سب حقائق میں نمایاں ہے ۔ ‘‘
شاه اسماعیل شہید اپنی کتاب "عبقات میں لکهتے ہیں…
التفطن بالوحدۃ القیومیۃ للکثرۃ الکونیۃ واستقلالھا بالتحقیق والمبدئیۃ للاٰثار واضمحلال الکثرۃ تحتھا وتبعیتھا فی الوجود یقیناً واطمئناناًعلماً او عیناً او حقاً یسمی بتوحید ظاھر الوجود.(اشارہ ۱، عبقہ ۱۴)
”یہ بات اگر فی الواقع سمجھ میں آ جائے، خواہ یہ علم الیقین کےدرجے میں ہو یا عین الیقین کے درجے میں اور خواہ حق الیقین کے درجے میں کہ تمام مخلوقات کے لیے مابہ التعین ایک ہی ہے ؛ استقلال ، درحقیقت اُسے ہی حاصل ہے ؛ آثارکا مبدا وہی ہے ؛ کثرت اُس کے سامنے کچھ نہیں اور باعتبار وجود اُس کے تابع ہے ،تو اِسے ‘توحید ظاہر الوجود‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
دین کا معاملہ یوں ہے کہ جب بهی کوئی بات بیان کی جاتی ہے تو سوالہ وتا ہے کہ اس کا ماخذ کیا ہے…یہ توحید جو آپ بتا رہے ہیں یہ قرآن مین کہان بیان ہوئی؟ یہ حدیث میں کہاں بیان ہوئی؟ اگر توحید کے تین یا چار درجے ہیں اور عوام کی توحید قرآن بیان کرتا ہے تو پهر خواص کی توحید اور اخص الخواص کی توحید کہاں بیان ہوئی ہے؟ تو اہل تصوف اس کا جواب یوں دیتے ہیں…
"منازل السائرین ” میں ابو اسمعیل الہروی لکهتے ہیں..
فان ذٰلک التوحید تزیدہ العبارۃ خفاء والصفۃ نفوراً والبسط صعوبۃ.
”چنانچہ اِس توحید کو ظاہر کیجیے تو اور چھپتی ہے، اِس کی وضاحت کیجیے تو اور دور ہوتی ہے اور اِس کو کھولیے تو اور الجھتی ہے ۔‘‘
و الاح منہ لائحاً الی اسرار طائفۃ من صفوتہ واخرسھم عن نعتہ واعجزھم عن بثہ.
”اور یہ توحید ذات باری کی طرف سے اُس کے منتخب بندوں کی ایکجماعت ہی کے اسرار میں کچھ ظاہر ہوئی اور اِس نے اُنھیں اُس کے بیان سے قاصر اوراُس کے پھیلانے سے عاجز کر دیا۔‘‘
امام غزالی لکهتے ہیں….
فاعلم ان ھذہ غایۃ علوم المکاشفات واسرار ھذا العلم لا یجوز ان تسطر فی کتاب، فقد قال العارفون: افشاء سر الربوبیۃ کفر.
”پس جاننا چاہیے کہ علوم مکاشفات کی اصل غایت یہی توحید ہے اوراِس علم کے اسرار کسی کتاب میں لکھے نہیں جا سکتے ، اِس لیے کہ حدیث عارفاں ہے کہ سر ربوبیت کو فاش کرنا کفر ہے ۔‘‘
گویا یوں ہے کہ جو ہم کہتے ہیں وه بات تو ٹهیک ہے لیکن یہ بات ہم نے اخذ کہاں سے کی یہ نہیں بتایا جا سکتا…
آگے چلیں..توحید کے بعد ایمان کا دوسرا درجہ نبوت کا ہے…ہمارا ایمان ہے کہ….نبوت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب نہ کسی کے لیے وحی و الہام کا دروازہ کهلا ہے اورنہ مشاہدۂ غیب کاکوئی امکان ہے اور نہ اِس بنا پر کوئی عصمت و حفاظت اب کسی کو حاصل ہو سکتی ہے…..
دیکهیے اس باب میں ارباب تصوف کیا کہتے ہیں….اہل تصوف کے یہاں یہ سب چیزیں اب بھی حاصل ہو سکتی ہیں ۔ اُن کے نزدیک وحی اب بھی آتی ہے ، فرشتے اب بھی اترتے ہیں ، عالم غیب کا مشاہدہ اب بھی ہوتا ہے اور اُن کے اکابر اللہ کی ہدایت اب بھی وہیں سے پاتے ہیں جہاں سے جبریل امین اُسے پاتے اور جہاں سے یہ کبھی اللہ کے نبیوں نے پائی تھی..
امام غزالی "المنقذ’ میں لکهتے ہیں :
من اول الطریقۃ تبتدئ المشاھدات والمکاشفات حتٰی انھم فی یقظتھم یشاھدون الملٰئکۃ وارواح الانبیاء ویسمعون منھم اصواتاً ویقتبسون منہم فوائد.(المنقذ من الضلال۵۰)
”اِس راہ کے مسافروں کو مکاشفات و مشاہدات کی نعمت ابتدا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیوں کی ارواح اور فرشتوں کا مشاہدہ کرتے ، اُن کی آوازیں سنتے اور اُن سے فائدے حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
شاہ اسماعیل "عبقات” میں اس ہستی کا تعارف پیش کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک وہبیہ یا ولایت کے مقام پر فائز ہے…..
فھو وجیہ معصوم صاحب ذوق حکیم، ثم ان مما یقتضی تربیۃ اللّٰہ ایاہ ان یلقی علیہ علوماً نافعۃ فی قیامہ بمنصبہ فھذا الالقاء یسمّٰی تفھیمًا. وان مما یقتضی تیقظ روحہ و عصمتہ الا یختلط بعلومہ شیء مغایر لما تلقاہ من الغیب. ولذٰلک کانت الحکمۃ کلھا حقًا لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ. ولما کان التفھیم من اعلیٰ اقسامھا فلا بعد ان یسمی بالوحی الباطن . (اشارہ ۴، عبقہ ۱۱)
”چنانچہ یہ ہستی صاحب وجاہت ، معصوم ، صاحب ذوق اور صاحب حکمت ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اِس کی تربیت کے پیش نظر اِس پر وہ علوم القا فرماتے ہیں جو اِس کے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں اِس کے لیے نافع ہوتے ہیں۔ اِس القا کو تفہیم بھی کہتے ہیں۔ پھر اِس کی عصمت اور اِس کی روح کی بیداری کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ اِس نے جو کچھ غیب سے پایا ہے ، اُس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس کی حکمت تمام تر حق ہوتی ہے جس میں باطل نہ آگےسے کوئی راہ پا سکتا ہے، نہ پیچھے سے۔ اور یہ تفہیم چونکہ اِس حکمت کی سب سے اعلیٰ قسم ہے، اِس وجہ سے اِسے اگر ‘وحی باطن‘سے تعبیر کیا جائے تو یہ کوئی بعید تعبیرنہ ہو گی ۔
همارا ایمان هے کہ انبیاء کے سوا کوئی معصوم نہیں ہے..حق اور اللہ کا دین صرف وہی قرار پائے گا جو پیغمبر دے گا لیکن شاہ صاحب فرماتے ہین کہ یہی خصوصیات ولایت کے منصب پر فائز ہستی میں بهی پائی جاتی ہیں….
وه لکهتے ہیں… و ان الحق یدور معہ حیث دار وذلک لعصمتہ والتحاقہ بالملأ الاعلیٰ، فلیس الحق الا ما سطع من صدرہ، فالحق تابع لہ لا متبوع.
”اور حق جہاں یہ ہستی گھومتی ہے ، اِس کے ساتھ ہی گھومتا رہتاہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہستی ملأ اعلیٰ کے ساتھ شامل اور معصوم ہوتی ہے ۔چنانچہ حق وہی قرار پاتا ہے جو اِس کے سینے سے نمایاں ہوتا ہے۔ پس حق اِس ہستی کےتابع ہوتا ہے ، وہ حق کے تابع نہیں ہوتی ۔ ‘‘
عبدالکریم الجیلی ” الانسان الکامل فی معرفتہ الارضوا الاوائل” میں لکهتے ہیں…کہ انسان کامل یا ولی ہر زمانے میں کیسے ظاہر ہوتا ہے…
ان الانسان الکامل ھو القطب الذی تدور علیہ افلاک الوجود من اولہ الٰی اٰخرہ وھو واحد منذکان الوجود الی ابد الاٰبدین، ثم لہ تنوع فی ملابس و یظھرفی کنائس فیسمی بہ باعتبار لباس، ولا یسمی بہ باعتبار لباس اٰخر، فاسمہ الاصلی الذی ھو لہ محمد وکنیتہ ابو القاسم ووصفہ عبداللّٰہ ولقبہ شمس الدین، ثم لہ باعتبار ملابس اخری اسامی ولہ فی کل زمان اسم ما یلیق بلباسہ فی ذلک الزمان. فقد اجتمعت بہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھو فی صورۃ شیخی شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی وکنت اعلم انہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکنت اعلم انہ الشیخ. (ورقہ ۴۶ اب ۲۹ )
”انسان کامل وہ مدار ہے جس پر اول سے آخر تک وجود کے سارے افلاک گردش کرتے ہیں، اور جب وجود کی ابتدا ہوئی، اُس وقت سے لے کر ابد الآباد تک وہ ایک ہی ہے ، پھر اُس کی گوناگوں صورتیں ہیں اور وہ یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ اُس کی ایک صورت کے لحاظ سے اُس کا ایک نام رکھا جاتا ہے،جبکہ دوسری صورت کے لحاظ سے اُس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اُس کا اصلی نام محمد ہے۔ اُس کی کنیت ابو القاسم، وصف عبد اللہ اور لقب شمس الدین ہے ؛ پھر دوسری صورتوں کے لحاظ سے اُس کے دوسرے نام ہیں ، اور ہر زمانہ میں جو صورت وہ اختیارکرتا ہے، اُس کے لحاظ سے اُس کا ایک نام ہوتا ہے۔ میں نے اُسے اپنے شیخ شرف الدین اسمٰعیل الجبرتی کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میں یہ بھی جانتا تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں ۔‘‘
شیخ احمد سرہندی نبوت کے باب میں "مکتوبات” میں لکهتےہیں…
باید دانست کہ منصب نبوت ختم بر خاتم الرسل شدہ است علیہ و علی آلہ الصلوٰت و التسلیمات، اما از کمالات آں منصب بطریق تبعیت متابعان اور انصیب کامل است۔
”جاننا چاہیے کہ منصب نبوت ، بے شک خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، لیکن اِس منصب کے کمالات آپ کے پیرووں کو آپ کے پیرو ہی کی حیثیت سے اب بھی پورے حاصل ہو سکتے ہیں ۔
ابن عربی "فتوحات مکیہ” میں "نبوت” کے باب میں لکهتے ہیں….
فان النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامھا، فلا شرع یکون ناسخاً لشرعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا یزید فی حکمہ شرعًا اٰخر. وھٰذا معنی قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی: ای لا نبی بعدی یکون علی شرع مخالفاً لشرعی، بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی.
”چنانچہ جو نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی، وہ محض تشریعی نبوت ہے۔ نبوت کا مقام ابھی باقی ہے، اِس وجہ سے بات صرف یہ ہے کہ اب کوئی نئی شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نہ منسوخ کرے گی اور نہ آپ کے قانون میں کسی نئے قانون کا اضافہ کرے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ نبوت و رسالت ختم ہو گئی ، اِس لیے میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہ ہو گا، درحقیقت اِسی مدعا کا بیان ہے ۔ آپ کے اِس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں ہو گا جس کی شریعت میری شریعت کے خلاف ہو ، بلکہ وہ جب ہو گا تو میری شریعت ہی کا پیرو ہو گا …..
دیکھ لیجیے کہ توحید کہان ره گئی؟ نبوت کہاں ره گئی اور ہمارے ارباب تصوف کہاں پہنچ گئے…..یہ وه کلامی فلسفہ ہے جس نے تصوف پر بڑے سوال کهڑے کیے ہیں….شاید اسی سے غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کا فلسفہ لیا ھے جو ظلی اور بروزی نبوت بنا بیٹھا جو شریعتِ محمدی کی تابع ھے اور اسی کی کتاب کو مانتی ھے ،، یہ وہ کھیر ھے جسے پکایا تو صوفیاء نے تھا مگر اٹھا کر مرزا قادیانی بھاگ گیا
مقدمہ نمبر 4…تصوف کا ماخذ……
دین کا معاملہ یوں ہے کہ جب بهی کوئی چیز بیان ہو گی تو اس کا ماخذ پوچها جائے گا….ایک عالم آپ کو کہتا ہے نماز فرض ہے..آپ پوچهتے ہیں کہاں بیان ہوا کہ فرض ہے…وه آپ کو بتائے گا کہ قرآن میں بیان ہوا..آپ کہتے ہیں قرآن نے توصرف کہا ہے نماز قائم کرو یہ جو آپ نماز بتا رہے ہیں اس کا تو قرآن میں کوئی ذکرنہیں ہے…وه بتائے گا کہ قرآن محمد مصطفی ﷺ پر اتری اور انہوں نے یہ نماز پڑھ کرسکهائی بهی اور بتائی بهی….آپ پوچهتے ہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وه ایسی نمازتهی….وه بتائے گا کہ یہ نماز رسول اللہ ﷺ پڑهاتے تهے…ان کو ہزاروں لوگوں نےپڑهاتے ہوئے دیکها تها اور ان کے ساتھ یہ نماز پڑهی تهی…پهر ان لوگوں نے اس نمازکو بالجمیعت نہ صرف امت کو منتقل کیا بلکہ اس کی ایک ایک تفصیل کتابوں میں بهی نقل کر دی……
یہ علم اور دلیل کی دنیا ہے….. یہ آیت ہے..یہ اس کا مفہومہے…یہ اس کا شان نزول ہے..یہ اس کے مخاطبین ہیں..
یہ فلاں حکم ہے… اس کا حوالہ قرآن اور محمد رسول اللہ تک پہنچایا جائے گا اور مستند طریقے سے پہنچایا جائے گا تو وه دین قرار پائے گا..
صوفیاء کے یہاں ایسا نہیں ہے….صوفیاء نے جب اپنا فلسفہ کلام مرتب کیا تو اس پر سوال اٹهے….کہ بهئی یہاں تک تو معاملہ ٹهیک تها کہ دین کو اس کےباطن میں دیکهنا چاہیے…بندے کو خدا کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا چاہیے…زہد وتقوی کی کوشش کرنی چاہیے…باطنی رزائل سے دور ہونا چاہیے…لیکن یہ جو آپ نے پوراایک فلسفہ بیان کیا کہ صوفیاء کی توحید عوام سے الگ ہے….ان کے نبوت کا کانسیپٹ الگ ہے…ان کا عرش سے براه راست رابطہ ہے…..ان کے پاس لوح محفوظ پڑهنے کی صلاحیتیں ہیں…
یہ آپ نے کہاں سے حاصل کیا؟ تو وه جواب دیتے ہیں…
ابوالقاسم عبدالکریم القشیری اپنی کتاب”قشیریہ” میں لکهتے ہیں…..
”اِس راہ کے سالک کو یہ سارا عالم اُس کے اپنے ہی نور سے روشن دکھائی دیتا ہے ، یہاں تک کہ اُس کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔ وہ آسمان سے زمین تک یہ ساری کائنات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے ۔ ہاں ، مگر دل کی آنکھوں کے سامنے ۔ ‘‘(ترتیب السلوک ۶۷)
ابن عربی نے ” فتوحات مکیہ” میں لکھا ہے”اُن کے علم کی شان یہ ہوتی ہے کہ اُن میں سے کوئی اگر کسی شخص کا نقش قدم بھی دیکھ لے تو اُسےمعلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اہل جہنم میں سے یا اہل جنت میں سے ۔‘‘
ابن عربی "مواقع النجوم” میں لکھتے ہیں…
”صوفیوں میں سے وہ بھی ہیں ، جن کی نگاہیں ہمیشہ لوح محفوظ ہی پر لگی ہوتی ہیں۔ ‘‘
شاه ولی اللہ "فیض الحرمین” میں اپنے بارے میں لکهتے ہیں…..
‘میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے قائم الزماں کے منصب پر فائزکیا گیا ہے ۔ اِس سے میری مراد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے نظام خیر میں سے کسی چیز کا ارادہ کریں گے تو اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلۂ کار مجھے بنائیں گے ۔‘‘
ایک تو دین ہے اور اس کے ماخذ ہیں…اور ایک یہ لطائف فنا و بقا ھیں جو صوفیاء کا ایک مکمل فلسفہ حیات ہے….ان کے بارے میں ان کا استدلال ہے کہ یہ براه راست وہیں سے ہم اخذ کرتے ہیں جہاں سے فرشتے اور انبیاء اخذ کرتے ہیں…ایک تو یہ مکتبہ فکر ہے…ان کی تحاریر پر جب اعتراض ہوتا ہےتو کہا جاتا ہے کہ یہ ان کے اپنے مشاہدات ہیں جو عوام سے تعلق نہیں رکهتے اور عوام سمجھ بهی نہیں سکتی….
اب اس علم کو رسول اللہ ﷺ تک پہنچائیں گے تو بات بنے گی…کیسےپہنچاتے ہیں؟صوفی ڈسکورس میں علم تصوف کے سند کا اتصال جسے کم و بیش ہر جگہ نقل کیا گیا هے وه یوں ہے…کہ یہ علم یعنی حقیقت الحقائق تک پہنچنے کا علم رسول اللہ ﷺ سے کیسے منتقل ہوا….
وہ کہتے ہیں یہ علم رسول اللہ ﷺ سے ان کی صحبت کے انوار وبرکات کی وجہ سے صحابہ کرام کو خود بخود منتقل ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اسکے امین ٹھہرے…پهر ان سے خواجہ حسن بصری نے حاصل کیا….
لیکن یہاں محدثین نے اعتراض کیا کہ خواجہ حسن بصری کی تو ان سےملاقات ہی ثابت نہیں ہے….اب کیا کیا جائے؟ یہ سوال قائم رہا حتی کہ تصوف کے آخری بڑے عالم شاه ولی اللہ نے پهر اس کا ایک بالکل دوسرے زاویے سے جواب دیا…
وه اپنی کتاب "الطاف القدس” میں لکهتے ہیں کہ یہ علم سب سے پہلے سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی نے حاصل کیا اور رسول اللہ ﷺ ہی سے حاصل کیا..لیکن کیسے حاصل کیا اس کے لیے وه ایک مثال دیتے ہیں..
وه کہتے ہیں جس طرح خربوزه اپنی نشوونما کے لیے سورج کا محتاج ہوتا ہے اور اپنی نشو ونما کے لیے سورج سے کسب فیض کرتا ہے لیکن اس طرح کہ نہ تو سورج کو پتہ ہوتا ہے کہ وه زمین میں خربوزے کی نشو ونما کر رہا اور نہ ہی خربوزے کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نشو ونما سورج نے کی ہے….یہ علم جنید بغدادی نے اسی طرح محمد ﷺ رسول اللہ سے حاصل کیا جس طرح خربوزے نے سورج سے فیض حاصل کیا….
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا هے کہ پهر پتہ کیسے چلا کہ یہ علم حاصل ہو گیا…تو شاه صاحب اس کا بهی جواب دیتے ہیں…..
وه کہتے ہیں یہی طریقہ ہے جس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے…جب خدا زمین پر اپنا پیغمبر اتارتا ہے تو اس سے دو طرح کے علوم صادر ہوتے ہیں ایک وه علم ہے جو شعوری ہے اور جسے پیغمبر کی شریعت کہا جاتا ہے اور ایک علم وه ہےجو اس کی ذات سے صادر تو ہوتا ہے لیکن اسے نہ خود اس کی خبر ہوتی ہے اور نہ فیضیاب ہونے والے کو…البتہ کائنات میں جو ذکی طبعیتیں ہوتی ہیں وه اس عنایت کو پہچان لیتی ہیں..لیکن یہاں کوئی پیغام و کلام بیچ میں نہیں آتا….( گویا خود نبیﷺ ذکی طبیعت نہیں ھوتے کہ ان کو خبر نہیں ھوتی کہ ان سے کیا صادر ھو رھا ھے ، نبی سے بھی ذکی طبیعتیں ھو سکتی ھیں ؟ )
یعنی بات یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں یہ آپ کی صحبت ہی سے حاصل ہو جاتا تھا، لیکن آپ کے بعد جب اِس کا حصول لوگوں کے لیے مشکل ہوا تو یہ ارباب تصوف تھے جنھوں نے اپنے اجتہاد سے اِس کے طریقےدریافت کیے ، اور بالآخر ایک فن کی صورت میں اِسے بالکل مرتب کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ”طریقت‘‘ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں…….
…خلاصہ کلام…….
دین کے معاملے میں یہ بات طے ہے کہ دین ہمیں محمد رسول اللہ ﷺ کےذریعے اللہ نےدیا…قرآن جس کو ہم اللہ کی کتاب مانتے ہیں وه محمد ﷺ رسول اللہ ہی لےکر آئے….اس کے بعد سنت ہمیں رسول اللہ سے ہی ملا…یہ دین جو اللہ نے ہمیں دیا یہ سینہ بہ سینہ روایت سے منتقل نہیں ہوا بلکہ اس کے اہم ترین ماخذ کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی..اور اس کے بارے میں یہ یقین و ایمان ہے کہ یہ وہی کتاب ہےجسے اللہ نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا اور اس کے کسی ایک لفظ مین بهی کوئی تبدل وتغیر واقع نہیں ہوا……اس کے بعد سنت ہم تک مسلمانوں کے ایک جم غفیر کے اجماع سےمنتقل ہوئی…
دین رہتی دنیا تک اب وہی ہو گا جسے قرآن دین قرار دے یا جسے رسول aللہ دین قرار دیں اس کے علاوه کسی شخص، کسی گروه، کسی ہستی کو حق حاصل نہیں ہے کہ وه قرآن اور سنت سے باہر کی چیز کو دین قرار دے..
تصوف کی ابتداء جیسا کہ عرض کر چکا ہوں کہ اس لیے ہوئی کہ دور اول میں ریاستی تقاضون کی وجہ سے جب فقہ کو عروج حاصل تها تو لوگوں نے خیال کیا کہ دین کے احکام کے ظاہر پر تو زور دیا جا رہا ہے لیکن ان احکام کے باطن میں جو مظاہر ہیں اور جو مقصود ہونا چاہییے ان پر توجہ نہیں دی جا رہی …یعنی کہ احسان، عاجزی،اخوت، رواداری، ایثار و محبت، زہد و تقوی، تجرد اور توکل حاصل ہو تاکہ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق مضبوط ہو…..اور انسان باطنی رزائل سے نجات پا کر دنیا وآخرت میں فلاح پا سکے…یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور اس کے مقاصد کا جو تعین کیاگیا ہے وه بهی بالکل درست ہے….
لیکن اس کے لیے جو فلسفہ تخلیق کیا گیا ہے اس کی کوئی بهی بنیاد قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے..لہذا اس کو کسی صورت بهی دین نہیں قرار دیا جا سکتا….
اگر تو تصوف دین میں جو مرتبہ احسان بیان کیا گیا اس کو حاصل کرنےکا ایک ذریعہ ہے تو بات بالکل بجا ہے….بطور مسلمان ہمیں اپنے خالق سے ایک تعلق پیدا کرنا چاہیے…اس کی قربت حاصل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے..اپنے آپ کو رزائل باطینیہ سے پاک کرنا چاہیے..اپنے اخلاق کی تطہیر کرنی چاہیے…..
یہ بهی بتانا ضروری کہ اس تعلق کو گہرا کرنے کے لیے یا اپنے مذہبی شعور کو بہتر کرنے کے لیے متصوفین نے جو بهی اشغال و فلاسفہ ترتیب دئیے، ان کےبارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا وه کتاب و سنت کی خلاف ورزی کرنے کے درپے تهے ..لیکن امر واقعہ ہے کہ جب ان کی تصانیف سامنے آتی ہیں تو ان میں بہت سی چیزیں کتاب و سنت سے صریح متصادم پائی جاتی ہیں….اس بارے میں میرے جیسا کند ذہن آدمی یہی کہے گاکہ یہاں غلطی لگی ہے جبکہ تصوف سے شغف رکهنے والا آدمی اس کو میری یا کسی سوالکرنے والی کی کوتاہی پر عقل پر معمول کرے گا اور اس کی ایسی وضاحت کرے گا جو کم ازکم کلام میں کہیں نہیں پائی جائے گی…
اس لیے لازمی کہ اگر کوئی شیخ کسی مخصوص ورد، کسی چلے،کسی بیعت،کسی مخصوص ذکر پر اصرار کرتا تو اسے اس چیز کو محمد رسول اللہ سے ثابت کرنی پڑےگی…اور اگر وه چیز ثابت نہیں ہوتی تو خواه کتنا ہی بڑا شیخ کیوں نہ ہو اس کاکوئی مکاشفہ، کوئی مشاہده، کوئی پرواز دین سے باہر ی چیز ہو گی…..اگر وه دین سےمتصادم نہیں بهی ہے تو کسی صوفی یا شیخ کا ذاتی تجربہ کسی کے لیے نہ قابل اتباع ٹہرتا اور نہ ہی قابل عمل بلکہ یہ اس کی ذاتی چیز کی حیثیت سے ہی رہے گی….
یہ سوال البتہ ضرور پیدا ہوا ہے کہ نوافلاطونیت سے لے کر یہودیت تک دنیا میں جتنے بهی مذاہب رہے ہیں ان میں تصوف کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ نام میں رہا ہے تو پهر اس کو مسترد کیسے کیا جا سکتا ہے…
اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ مذہبی شعور چونکہ انسانی خِلقت میں ودیعتی ہے یا اگر میں بات یوں کر لوں کہ اچهائی چونکہ انسانی خلقت میں ودیعتی ھے اس لیے انسان اپنے خالق کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس قرب کے لیے اس نے اپنےمذہبی شعور کو ذیاده گہرا اور بامعنی بنانے کے لیے تصوف کو ایجاد کیا….اور اس کےایجاد کی مثالیں دنیا کی تمام مذاہب میں ملتی ہیں…..اسی لیے دنیا کے تمام مذاہب میں تصوف کے نہ صرف مقاصد ایک جیسے رہے ہیں بلکہ ان کے تجربات، اشغال اور پریکٹسس نے بهی ایک دوسرے کا بهرپور اثر قبول کیا…..
بطور فلسفہ کلام تصوف کی کوئی بهی تطبیق دین کے ساتھ اس وقت ممکن نہیں ہوتی جب تک اس فلسفہ کے ان امہات کتب کی عبارات کی ایسی تشریح نہ کی جائے جوان کے ٹیکسٹ میں پائی ہی نہیں جاتی ….اور بدقسمتی سے تصوف کے سائیلین اور قائلین ایسا ہی کرتے ہیں…وه آپ کو شعر کا وه مفہوم بتاتے ہیں جو اس کے الفاظ میں کہیں نہیں پایا جاتا
بطور مرتبہ احسان اس میں کوئی قباحت نہیں ہےاگر اس میں دین و شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو یا کسی ایسے عمل پر اصرار نہ ہو جو دین میں پایا ہی نہ جاتا ہو……
.یدِ بیضاء