شریعت کا تعطل ! از قاری حنیف ڈار
ایک بہت سارے بڑے عالم فرماتے ہیں کہ حکومت نہ ھو تو آدھی شریعت معطل رھتی ھے ،، اور یہ پورے کا پورا جملہ الف سے لے کر ے تک غلط فہمی پر مبنی ھے ـ
اللہ پاک نے زکوۃ کے نصاب تک پہنچنا فرض نہیں کیا ، بلکہ اپنی محنت سے نصاب تک پہنچ جاؤ تب زکوۃ کو فرض کیا ھے ، حج کی استطاعت فرض نہیں کی کہ ھر مسلمان منہ سر کالا کر کے لازم حج کے نصاب کو پہنچے ، بلکہ فرمایا کہ جو پہنچ گئے ہیں اب ان پر حج فرض ھے ، اسی طرح اللہ پاک نے حکومت فرض نہیں کی بلکہ وہ ساری آیتیں پڑھ لیجئے سورہ الحج کی جو کہ اس بارے میں واضح نص ہیں ،، ان میں یہی کہا گیا ھے کہ اگر اللہ اپنے کچھ بندوں کو زمین یا ملک میں تمکن عطا فرما دے ،، یعنی کبھی ان کی حکومت کا قیام خدا ممکن بنا دے تو وہ پھر اس طریقے سے حکومت کرتے ہیں ،، لیستخلفنھم فی الارض بتا رھا ھے کہ اللہ خلیفہ بناتا ھے ،، نہ کہ خلافت کے لئے مردوں ، عورتوں بچوں کا قتل عام فرض کرتا ھے اور بازاروں ، مزاروں ، مدارس اور مساجد میں دھماکے فرض کرتا ھے ، یہ ان لوگوں کے مائنڈ سیٹ کی غلطی ھے جس نے خود مسلم معاشرے کو ھی جھنم بنا کر رکھ دیا ھے ،
کیا میں پوچھ سکتا ھوں کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس انبیاء میں سے کتنے نبیوں نے حکومتیں بنائی تھیں ؟ اور جنہوں نے نہیں بنائی تھیں ان کی آدھی شریعت کیا کرتی رھی تھی ؟ اور کیا ان کا بھی محاسبہ ھو گا کہ حکومت بنانے کے لئے کشت وخون کیوں نہیں کیا ؟ کیا عقل اتنا بھی کام نہیں کرتی کہ حکومت سے متعلق شریعت کے تمام احکامات حکومت ملنے کے بعد دیئے گئے تھے نہ کہ مکے میں نازل کیئے گئے تھے کہ اب ان احکامات کو حکومت میں لانے کے لئے ساری دنیا سے لڑ جاؤ، اتنی سیدھی سی بات ان کے دماغ میں کیوں نہیں آتی کہ مسلم جس حالت میں ھوتا ھے اس سے اتنی شریعت کا ھی مطالبہ ھوتا ھے اور اسی کا حساب ھو گا ، کیا اللہ پاک نے رسول اللہ ﷺ پر بھی وھی شریعت فرض نہیں کی جو نوح علیہ السلام ، ابراھیم علیہ السلام اور موسی و عیسی علیھم السلام پر فرض کی تھی ،، پھر کوئی بتا سکتا ھے کہ حضرت ابراھیم کس علاقے کے حکمران تھے ؟ اور موسی علیہ السلام کی حکومت کہاں سے کہاں تک قائم ھوئی تھی ؟ اور حضرت عیسی علیہ السلام نے حکومت قائم کر کے ھی شریعت کو غالب کرنے کا فریضہ کیونکر سر انجام دیا تھا ؟؟
قرآن کی آیات کیا کہتی ھیں ،،؟؟
(( شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ شوری نمبر۱۳ )) ـ
مشروع کیا گیا ہے تمہارے لئے وھی دین جس کی تاکید نوح کو کی گئ تھی اور جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ھے اور جس کی وصیت ابراھیم اور موسی اور عیسی کو کی گئ تھی کہ دین کو قائم کرو اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے مت کرو ،،
اگر اقامت دین کا مطلب حکومت قائم کرنا ھے تو مدنی ریاست کو چھوڑ کر باقی رسولوں کی حکومتیں ثابت کرو یا پھر اپنے مفھومِ اقامت دین پر نظرِ ثانی فرماؤ یا پھر یہ مان لو کہ باقی سارے رسول ناکام چلے گئے تھے معاذ اللہ ،، دین انسان کی ذات سے شروع ھوتا ھے پھر جوں جوں انسان کا دائرہ کار بڑھتا چلا جاتا ھے دین کی ھدایات بھی وسیع ہوتی جاتی ہیں ،، قرآن حکیم میں طلاق ، بچوں کی پرورش اور مراضعت حیض و نفاس کے مسائل ان کے لئے بیان کرتا ھے جو شادی کریں ، جس نے ساری زندگی شادی ھی نہیں کی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان کے لئے تو پھر آدھا قرآن اور آدھی حدیثیں معطل ہی مانی جائیں گی ، امام صاحب پر ھی تھوڑا تشدد کر کے ان کی معطل شریعت کو متحرک کر لیتے تو بہت سوں کا بھلا ھو جاتا ،،
جس نے شادی کی ھے وہ بیوی والی ذمہ داریوں کے بارے میں مخاطب ھے ، جس نے نہیں کی وہ اس کو مخاطب ھی نہیں کرتا کہ بیویاں تمہاری کھیتی ہیں ، اب امام صاحب کے لئے یہ آیتیں کس کام کی ؟ اور اگر امام صاحب ان آیتیوں کے مخاطب نہیں تو کیا اس سے شریعت میں تعطل پیدا ھو گیا ھے ، جہاں بھی مسلم حکومت قائم ھو گی وہ حکومت سے متعلق احکامات کی مکلف ھو جائے گی ،کسی کا منہ لال دیکھ کر اپنا منہ چپیڑیں مار کر کیوں لال کرتے ہو ،،
مسلمانوں کے سر کاٹ کر خلافت قائم کرنے کا کوئی حکم کتاب و سنت میں موجود نہیں ھے ، چند نامعلوم کلمہ گو مکے میں پائے جاتے تھے جن کو بچانے کے لئے اللہ پاک نے اپنے رسول کو محمد رسول اللہ ﷺ سے محمد بن عبداللہ بن جانے کا حکم دیا تھا مگر صلح لازم کرنے کا حکم دیا تا کہ انجانے میں وہ نامعلوم کلمہ گو بھی تمہاری تلوار کا نشانہ نہ بن جائیں ،، اوئے ظالمو تم تو بھری مسجدیں عین جمعے والے دین نمازیوں سمیت بارود سے اڑا دیتے ھو اس خلافت کے قائم کرنے کے لئے شرم تم کو مگر نہیں آتی حالانکہ یہ بات اللہ پاک نے کتنی صاف صاف سورہ فتح میں بیان کر دی ھے کہ مومن کے خون پر کسی اسلامی ریاست کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی ،،(( هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (25فتح) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو اپنی جائے مقررہ تک نہ جانے دیا ،، اور اگر نہ ھوتے کچھ مرد مومن اور عورتیں مومنہ جن کو تم نہیں جانتے کہ مبادا تم ان کو انجانے میں مار دیتے اور گناہ میں ملوث ھو جاتے ، تا کہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاھے داخل کرے ،، اگر یہ نامعلوم مرد و زن مومن آگے پیچھے ھو جاتے تو یقیناً اللہ ان کافروں کو دردناک سزا دیتا ،،