شیطان اللہ کی عدالت میں ! از: قاری حنیف ڈار
ایک بچہ ھوتا ھے شریف ، سیدھا سادا ،، جہاں بٹھا دیا وھیں کا ھو کر رہ گیا ، اور ایک ھوتا ھے ” اتھرا ” یعنی کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے والا ،، والدین جہاں بھی جائیں ، ان کا دل سیدھے سادے بچے کے ساتھ اور نظریں اتھرے بچے پہ رھتی ھیں ،، وہ دوسروں کو بھی کہتے ھیں کہ اس پہ نظر رکھنا اور خود بھی بےچین رھتے ھیں کہ وہ کوئی چاند نہ چڑھا دے ،، یوں وہ بچہ پیار سے محرومی کا بدلہ اس طرح لیتا ھے کہ الٹے طریقے سے توجہ اور وقت لے لیتا ھے ،، جبریل ھوں یا آدم ،، سیدھے سادے بچے کی طرح تھے جبکہ ابلیس کی سرشت مین شرارت غالب تھی ،، نتیجہ یہ ھے کہ بقول اقبال وہ جبرائیل امین کو طعنہ دیتا ھے کہ ؎
میں کھٹکتا ھوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح !
تُو فقط ،،،، اللہ ھُو ،،،،،،، اللہ ھُو ،،،، ، اللہ ھوُ !
اگر میں نہ ھوتا تو آدم کا قصہ بھی بڑا بور ھوتا اور آدم بھی فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ھوتا ، یوں نئ تخلیق کا مقصد ھی فوت ھو کر رہ جاتا ،، میں اللہ کا مزاج شناس تھا اور مجھے معلوم تھا کہ اس نئ مخلوق کے پراجیکٹ کا مقصد کائنات کے اس بور تسلسل میں اللہ تھرل چاھتا ھے ، اور اس کہانی میں رنگ بھرنے اور سسپنس پیدا کرنے کے لئے ایک ولن کی ضرورت ھے ،مگر اللہ کا عدل اسے کسی کو اس کے لئے مجبور کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،،،،،،،،،،،، تو میں نے رضاکارانہ طور پہ آگے بڑھ کر اس رول کو سینے سے لگا لیا یوں اپنا بے گناہ ماضی رب کی اسکیم پر قربان کر دیا ،،، اگر میں نہ ھوتا تو قصہ آدم میں یہ رنگینی نہ ھوتی ، یہ ھنگامہ نہ ھوتا ،، میں نے انت مچا کر رکھ دی ھے ، بڑے بڑے نبیوں کو بے بس کر دیا ھے کتابوں پر کتابیں نازل ھو رھی ھیں کہ بچو اس شیطان سے ،، رسولوں پر رسول آ رھے ھیں جو انسانوں کو میرے فتنوں سے بچنے کی فزیکل تربیت دے رھے ھیں یوں وہ ھنگامہ کائنات جو انسان کی تخلیق سے مقصود و مطلوب تھا ، اس کا ایندھن میں بن گیا ،،،،،،،،،،
؎
گر کبھی خلوت میسر ھو تو پوچھ اللہ سے !
قصہءِ آدم کو رنگیں کر گیا ،،،،،،، کس کا لہو ؟
خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا !
میرے فتنے یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جُو بہ جُو !
حدیث میں ابوھریرۃؓ فرماتے ھیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے اگر تم سے گناہ سرزد نہ ھوں اور تم توبہ نہ کرو تو اللہ تمہیں لے جائے اور دوسری مخلوق لے آئے جس سے گناہ سر زد ھوں اور وہ توبہ کریں اور اللہ ان کی توبہ قبول کرے ،،
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَذَھَبَ اللہُ بِکُمْ وَلَجَآءَ بِقَوْمٍ یُّذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللہَ َیَغْفِرُ لَھُمْ ( مسلم )
اس کا بیک گراونڈ یہ ھے کہ جبر کے تحت گناہ کے لئے ڈس ایبل مخلوق کے مقابلے میں ایک ایسی مخلوق بنانا مقصود تھا ،جس کو گناہ کرنےکی استطاعت دی جائے ، ھر چیز سے محبت کا موقع دیا جائے اور وہ مخلوق ان تمام مواقع کو لات مارتے ھوئے اپنے رب کی طرف لپکے اور ساری محبتوں کو اکٹھا کرے اور اپنے خالق و مالک کے قدموں میں ڈھیر کر دے ،، اتنی باصلاحیت مخلوق کو اختیار اور مواقع فراھم کرنا نہایت ھی رسکی ایڈوینچر تھا ، جس کو ھینڈل کرنے کے لئے ضمنی انتظامات کی ضرورت تھی ، ان میں پہلی چیز توبہ ھے ،، یعنی آپ کوئی بھی پیج کھولیں تو اس میں exit کا آپشن لازمی ھوتا ھے ،، یہی ایگزٹ گناہ کے پیج کے لئے توبہ کی صورت رکھا گیا ،، دوم ، انسان کے اندر دوسری محبتوں کے لئے Receptors رکھے گئے ، ان Receptors کی عدم موجودگی میں انسان بنانے کا عمل ھی عبث ھو جاتا ،، یہی وہ چیز ھے جو اس حدیث میں بیان کی گئ ھے کہ انسان کوئی حادثاتی مخلوق نہیں ھے ، کہ اللہ بنانے تو چلا تھا جبریل نما مخلوق اور حادثاتی طور کسی مسالے کی افراط وتفریط کی وجہ سے بن گئے ھم جیسے منہ کالے ،، انسان اللہ پاک کی انتہائی سوچی سمجھی پرحکمت تخلیق ھے اتنی پرحکمت کہ اس کے بعد اللہ پاک نے تخلیق کا قلم توڑ دیا ،، اور انسان کو احسن التقویم مخلوق قرار دیا ،، وہ ھم سے گناہ کے صدور کی توقع ھی نہیں یقین رکھتا ھے لہذا توبہ کی صورت اس کا مخرج رکھا،
دوسری محبت یعنی آپشن کی موجودگی میں ھی محبت کی قدر بھی ھوتی ھے اور محبتوں میں Tug of War بھی شروع ھوتی ھے ،، ایک بیچلر پوری جان اور پورے دل کے ساتھ اپنی ماں سے محبت کرتا ھے مگر اس کی ماں کو اس کی محبت کی رائی برابر قدر نہیں ھوتی مگر دوسری محبت یعنی بیوی کے آتے ھی وہ اس بیٹے کی محبت جیتنے کے لئے سو جتن کرتی ھے ،، ابلیس اصل میں وہ چینل ھے جو ان دنیاوی محبتوں کے طاقتور سگنلز نشر کرتا رھتا ھے جو انسان کا قلب وصول کرتا ھے ، انسان اپنے قلب کو ان سگنلز سے بالکل نہیں بچا سکتا اور نہ قلب کو ڈس ایبل یا Hidden موڈ میں رکھ سکتا ھے ،، ابلیس کی اس دعوت یا ان سگنلز کی مثال اس ریڈیو یا ٹی وی چینلز کی نشریات جیسی ھے جو ھر چیز کی Advertisement کر رھے ھوتے ھیں مگر آپ کو خریدنے پر مجبور نہیں کر سکتے ،، اسی کے بالمقابل رسول کی دعوت بھی ھوتی ھے جو جنت کی نعمتوں کو دنیا کی عیاشی کے بالمقابل پیش کرتے ھیں اور دنیا کی محبتوں کے بالمقابل اللہ کی محبت کو نہ صرف پیش کرتے ھیں بلکہ اپنا بیٹا چھری کے نیچے لٹا کر عملی طور پر ثابت بھی کرتے ھیں ،، مگر جبر نبی بھی نہیں کرتے اور نہ جبر کرنے کا حکم دیئے گئے ھیں ، ورنہ نوح علیہ السلام بیٹا اگر مسلمان نہ کر سکتے تو بھی اس کی ھڈیان توڑ کر لولا لنگڑا ضرور کر سکتے تھے مگر انہیں تو دباؤ ڈالنے کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئ اور نہ ھی حضرت لوط علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ مذھبی بلیک میل کے لئے اپنی بیوی کو طلاق دیں ،، مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں اب ابلیس کا بیان پڑھئے ،
وقال الشيطان لماقضي الأمر إن الله وعدكم وعد الحق ووعدتكم فأخلفتكم وماكان لي عليكم من سلطان إلا أن دعوتكم فاستجبتم لي فلا تلوموني ولوموا أنفسكم، ماأنا بمصرخكم وماأنتم بمصرخي، إني كفرت بما أشركتمون من قبل إن الظالمين لهم عذابٌ أليم”.( ابراھیم-22 )
اور شیطان کہے گا جب فیصلے ھو چکے ھونگے کہ اللہ نے تم سے جتنے وعدے کئے تھے وہ برحق اور سچ تھے ،جبکہ میں نے تم سے جو وعدے بھی کیئے وہ وفا نہ کیئے ،، میرے پاس نہ تو دلیل کی طاقت تھی اور نہ ھی مجھے جسمانی طاقت استعمال کرنے کی اجازت تھی کہ جس کے بل بوتے پر میں تم سے برائی کراتا ، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں برائی کی دعوت دی ( جبکہ بالمقابل والرسول یدعوکم لتومنوا بربکم رسول تمہیں رب پر ایمان کی دعوت دے رھے تھے، اور اختیار تمہارے پاس تھا کہ رسول کی دعوت قبول کرو یا میری ) چنانچہ تم نے میری دعوت پر لبیک کہا ( اور رسول کی دعوت ٹھکرا دی ) پس مجھے مت ملامت کرو بلکہ ملامت کرو اپنے آپ کو ، نہ میں تمہیں چھڑا سکتاھوں اور نہ تم مجھے چھڑا سکتے ھو ، میں اللہ کی اطاعت میں اپنی شراکت کا انکار کرتا ھوں ، جو پہلے تم مجھے الزام دیتے رھے ھو ، بیشک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ھے !
امام قرطبی فرماتے ھیں کہ ابلیس یہ خطاب جہنمیوں سے اس طرح کرے گا کہ وہ آگ کے منبر پر بیٹھا ھو گا ،،
اس طرح ابلیس جھنم میں انچارج ھو گا ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے جنہوں نے رب سے بیوفائی کی اور اس کی اطاعت میں کسی کو شریک کیا ،،،،،،،،،،،،، آگ ھی اس کی جنت ھو گی جس سے نکلنے کا نہ کبھی اس نے سوچا اور نہ نکلے گا ،،