عالمِ برزخ اور عذابِ قبر ـ از قاری حنیف ڈار
جب انسان کی روح اس کا بدن چھوڑ دیتی ھے تو اس مرحلے کو موت کا نام دیا جاتا ہے ،
۱ـ یہ روح کہاں جاتی ہے اور اس کا کیا بنتا ہے ؟
۲ـ خود بدن کا کیا بنتا ہے ؟
۳ـ ان دونوں کے درمیان پھر کوئی اتصال ھوتا ھے ۔ اگر ھوتا ھے تو اس کی نوعیت کیا ہے؟
4 – کیا جزاء و سزا کا معاملہ موت سے ہی شروع ھو جاتا ھے ؟
۵ ۔ برزخ کیا ھے ؟
موت کے بعد روح کی ریکوری رپورٹ درج کرائی جاتی ہے کہ فلاں روح کو جو کہ مورخہ فلاں کو ایشو کی گئی تھی واپس ریکور کر لیا گیا ہے ، اس جاری کئے جانے اور واپس ریکور کرنے کے عرصے کے دوران اس روح نے جو کارنامے سر انجام دیئے ان کی فائل دیکھ کر اس کو مختلف رجسٹرز میں درج کر کے اس کے مقام کا تعین کر دیا جاتا ہے ، محشر میں بس اس کا ثبوت پیش کیا جائے گا ،،،
[ كَلا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ * وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ * كِتَابٌ مَرقُومٌ *] المطففین
یہ لوگ ھر گز برابر نہیں ، بے شک فجار کی رجسٹریشن سجین یعنی قیدی کے طور پر کی جاتی ھے اور تمہیں کیا معلوم کہ یہ سجین کیا ھے ، ایک رجسٹر ھے جس میں لکھا جاتا ھے۔
[ كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (18) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَّرْقُومٌ (20)] المطففین
نیک و بد ھر گز برابر نہیں ، بے شک نیک لوگ علیین میں درج ھوں گے، اور تمہیں کیا معلوم کہ یہ علیین والے کیا ھیں ، ایک رجسٹر میں لکھے گئے ہیں ،،
سجین یعنی قیدی سجن سے بنا ھے سجن جیل کو اور سجین قیدی کو کہتے ہیں ، یہ رجسٹریشن ھو جانے کے بعد روح کو قید خانے میں لے جایا جاتا ھے اور وہ غالبًا زمین کے اندر دھکتے لاوے کا مقام ھے ، اس لئے کہ اللہ پاک نے ان بد روحوں کا داخلہ آسمان میں اسی طرح حرام کر دیا ھے جس طرح جنت میں ان کا داخلہ حرام کر دیا ھے ، اور یہ سخت ترین سزا ان کافروں کی ھے جنہوں نے رسول ﷺ کی دعوت کو رسول کی موجودگی میں رد کیا علی الرغم اس کے کہ اتمام حجت ھو چکا تھا ،، رہ گئے وہ لوگ جن تک یہ دعوت بالواسطہ پہنچی اور ان کے پاس اس کو رد کرنے کا کوئی معقول عذر موجود ھوا تو ان کا معاملہ الگ ھے ،مگر داخلہ ان کی روح کا بھی آسمان میں منع ھے ،،
[ إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ( الاعراف ۔40)
بے شک جن لوگوں نے جھٹلایا ھماری آیات کو اور تکبر کی روش اختیار کی نہیں کھولے جائیں گے ان کے لئے آسمان کے دروازے اور نہ وہ داخل ھو سکیں گے جنت میں یہاں تک کہ اونٹ نکل جائے سوئی کے ناکے میں سے ، اس طرح ھم مجرموں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ایک مومن اور ایک کافر کی روح کے اخراج کے دوران بھی فرشتوں کا رویہ مختلف ھوتا ھے ،، کافر کی روح کی ریکوری کے لئے آنے والے فرشتے تندخو ،ہتھ چھٹ اور منہ پھٹ ھوتے ہیں ،، جو روح کی وصولی کے دوران پھینٹی بھی لگاتے جاتے ہیں اور طنزیہ سوال و جواب بھی کرتے جاتے ہیں ،،
[ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ (93) وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ (94) الانعام ]
کاش تم وہ مرحلہ دیکھتے جب ظالم جانکنی کے عالم میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا رھے ھوتے ہیں کہ نکالو جانیں اپنی ، آج تم کو رسوائی کی مار ماری جائے گی کیونکہ تم اللہ کے خلاف ناحق بات کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کرتے تھے ،(اور حشر میں کہا جائے گا کہ) آج تم ھمارے سامنے اکیلے پیش ھوئے ھو جیسے ھم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور تم وہ سارے خول اپنے پیچھے چھوڑ جو ھم نے تم پر چڑھائے تھے ( قوم ، قبیلے اور مال و اسباب ) اور آج ھمیں تمہارے وہ سفارشی بھی نظر نہیں آ رھے جن کے بارے میں تمہیں زعم تھا کہ وہ تمہارے معاملے میں ہمارے شریک ہیں ، تمہارے درمیان سارے تعلقات قطع کر دیئے گئے ہیں اور تمارے سارے اٹکل پچو گمان ھوا ھو کر رہ گئے ہیں ۔
و لو تری اذ یتوفی الذین کفروا الملائکۃ یضربون وجوھھم و ادبارھم و ذوقوا عذاب الحریق،
کاش تم وہ مرحلہ دیکھتے جب فرشتے وفات دیتے ہیں کافروں کی ، مارتے جاتے ہیں ان کے مونہوں پر اور پیٹھوں پر اور کہتے ہیں کہ چکھو عذاب جلن کا ،،
جبکہ متقین کے معاملے میں رویہ کچھ یوں ھوتا ھے ۔
[ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ (32) السجدہ ]
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ھمارا رب اللہ ھے پھر اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ھوتے ہیں ( عالم نزع میں ) کہ نہ خوف کھاؤ اور نہ غمگین ھو اور ھم سے بشارت لو اس جنت کی کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا ،، ھم دنیا میں بھی تمہارے خیرخواہ تھے اور آخرت میں بھی ، اس جنت میں ھر وہ سامان موجود ھے جس کی خواھش تمہارے اندر پائی جاتی ھے اس کے علاوہ اور بھی جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں عطا کیا جائے گا ، یہ میزبانی ھو گی ایک بخشنے والے رحیم کی طرف سے ،،
روح کے اخراج کے ساتھ ہی بدن پر تو موت طاری ھو جاتی ھے ، البتہ روح جہاں بھی ھوتی ھے وھاں اپنے محسوسات رکھتی ھے ، روح جب بدن میں ھوتی ھے تو جسم کے تابع ہوتی ہے ، جسم پر جو کچھ گزرتی ھے وہ روح پر بھی گزر جاتی ہے ، مار کا درد ھو یا بیماری کی تکلیف ، مگر موت کے بعد بدن روح کے تابع ھوتا ھے اور جو کچھ روح پر گزرتی ھے بدن جہاں بھی پڑا ھوا اس کا ایک ایک ذرہ اس کو محسوس کرتا ھے چاھے آدھا بدن جلا دیا جائے ، کچھ کو پرندے کھا جائیں یا مچھلیاں کھا جائیں ،اس بدن کا ایک حصہ مشرق میں ھو یا مغرب میں وہ بالکل اس راحت و عذاب کو چکھتا ھے جو روح پر گزر رھی ھوتی ھے ، ایک فون سم مشرق میں ھو یا مغرب میں سیٹلائٹ کے ذریعے رومنگ کی سہولت دستیاب ھو تو اس سم تک نیٹ ورک کا رابطہ بحال رھتا ھے ، انسان کے جسم کا ایک ایک ذرہ سم کا سا کام کرتا ھے اور روح نیٹ ورک ھے جو اپنی کیفیت کے سگنلز مسلسل ایک ایک ذرے کو بھیجتا رھتا ھے ،، اس لئے نیٹ ورک کو بدن میں نہیں بلکہ روح میں ڈھونڈیئے ،، ھڈیاں گرم یا ٹھنڈی نہیں ھوتیں مگر ٹھنڈک اور گرمی کو محسوس کر رھی ھوتی ھیں ،،
قبر بھی اصل میں وھی جگہ ھے جہاں کہ روح رکھی گئی ھے دنیا والا گڑھا بس اس کا شارٹ کٹ ہے ، قبر اللہ پاک ہی حسب مقام روح کو عطا فرماتا ھے ،،،
[ قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ (17) مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ (18) مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ (19) ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (20) ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (21) ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنْشَرَهُ (22) كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ (23) عبس ]
مارا جائے یہ انسان ، یہ کتنا ناشکرا ہے دیکھتا نہیں کہ اس کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ھے ؟ نطفے سے پیدا کیا ھے پھر اس کو ٹھیک اندازے سے پیدا کیا ھے پھر اس کا رستہ آسان کیا ہے پھر اس کو مارا ھے اور قبر عطا کی ہے پھر جب چاھے گا اس کو اٹھا کھڑا کرے گا ، اس نے اپنے مقصد کو ھر گز پورا نہیں کیا ،،
یہاں اللہ پاک قبر کو اپنی طرف منسوب فرما رھے ہیں اور یہی وہ قبر ھے جس میں روح رکھی جاتی ھے جبکہ بدن کی قبر حالات کے سپرد ھے ،،
روح کے ھوش و حواس میں ھونے کے کئی شواھد قرآن حکیم میں بیان ہوئے ہیں ،، سورہ آل عمران میں شہداء کی پچھلوں کو بشارتیں ،، سورہ یاسین کے رجل صالح کا اپنی قوم کے بارے میں اظہارِ خیال [ قال یا لیت قومی یعلمون بما غفر لی ربی و جعلنی من المکرمین ،، ] یاسین ،، روح کے فرشتوں اور اللہ پاک کے ساتھ مکالمے ،، حتی اذا جاء احدھم الموت قال رب ارجعون ، لعلی اعمل صالحا فیما ترکت کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا و من ورائھم برزخ الی یوم یبعثون ،،
یہانتک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آ جاتی ھے تو وہ کہتا ہے کہ اے رب مجھے واپس بھیج دے تا کہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ھوں اس کو صلاح اعمال میں خرچ کر آؤں ، یہ تو وہ جملہ ھے جو وہ اب کہتا ھی رھے گا جبکہ ان کے پیچھے پلٹنے میں أیک آڑ یا رکاوٹ حائل ھے اس دن تک جب کہ یہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ،،
برزخ رکاوٹ یا آڑ کو کہتے ہیں جو کسی کو آگے جانے سے یا پیچھے جانے سے روکتی ھے ، یہاں دونوں معنی موجود ہیں یعنی نہ وہ جنت یا جھنم میں ھی جا سکتے ہیں اور نہ ہی پلٹ کر واپس اپنے ابدان میں جا سکتے ہیں ،، وراء آگے کے معنوں میں سورہ الکہف میں استعمال ھوا ھے جب کشتی کے بارے میں فرمایا کہ ؛ وکان وراءھم ملک یاخذ کل سفینۃ غصباً ،، ان کے اگلے کنارے پر بادشاہ کھڑا تھا جو ھر نئے جہاز کو غصب کر رھا تھا چنانچہ میں نے کشتی کو عیب دار کر دیا تا کہ بادشاہ کی دسترس سے محفوظ رھے ،، اور پیچھے کے معنوں میں بھی استعمال ھوا ھے جیسے قیل ارجعوا وراءکم فالتمسوا نوراً ( الحدید) ان سے کہا گیا کہ پیچھے پلٹ جاؤ اور وھاں سے نور کما کر لاؤ ،، اسی طرح وراء BEYOND کے معنوں میں بھی استعمال ھوا ھے ،، فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العادون ،، بیویوں اور لونڈیوں سے ورے اگر کسی نے جنسی لذت کا کوئی ذریعہ اختیار کیا تو ایسے لوگ ھی زیادتی کرنے والے ہیں ۔
بہرحال یہ بات طے ھے کہ روحیں باقاعدہ ایک ریکارڈ کے تحت جاری ھوتی ھیں اور واپس کولیکٹ کی جاتی ہیں جس کو توفی یا وفات کہا جاتا ھے ، استوفیت الرسوم کا مطلب یہی ھے کہ فیس مکمل ادا کر دی گئی ھے ، نہ تو روحیں فری ٹو ائیر دستیاب ہیں کہ ان کو طلب کیا جا سکے اور کسی میں داخل کر کے بات کی جا سکے ، اگر ایسا ممکن ھوتا تو مردے کو دفنانے کی بجائے کسی عامل کو بلا کر اس مردے کی روح کو دوبارہ اس مردے میں ہی داخل کر لیا جاتا ، کسی کی روح پر روح چڑھانے کا کیا مطلب ھوا ؟ قیدی سجین روحوں تک کسی کی رسائی بھی ممکن نہیں اور نہ ہی ان روحوں میں صلاحیت ھے کہ اپنی ذات سے باھر کسی سے رابطہ کر سکیں ، ان کی تمام صلاحیتیں اسی طرح منجمد کر دی جاتی ہیں جس طرح نیٹ ورک جام کر دیا جاتا ھے ، جبکہ نیک اور صالح روحیں مہمان ھوتی ہیں اگر وہ مناسب سمجھیں یا طریقے سے واقف ھوں تو برزخ میں رہتے ہوئے بھی پیچھے رابطہ کر سکتی ہیں جیسے کسی کے خواب تک رسائی پانا ،، عام طور پہ صوفیاء گھنٹوں گم سم بیٹھ کر جس نسبت کی تلاش کرتے ہیں وہ اسی قسم کے رابطے کی تلاش ھوتی ھے ،، گویا وہ صالح ارواح کی راہ میں گھات لگائے بیٹھے ھوتے ہیں کہ جس میں جھٹ کسی کے وائی فائی سے اپنے نفس کے رابطے کو جوڑ سکیں ،، کہا جاتا ھے کہ ایسا نبئ کریم ﷺ کی روح اقدس سے نسبت کو تلاش کیا جاتا ھے ـ
جو حضرات یہ کہتے ھیں کہ جب حساب کتاب ھی نہیں ھوا تو عذاب کیسا ؟
ان سے گزارش ھے کہ حساب کتاب تو اھل ایمان کا ھو گا ،، کفار اور خاص طور پر وہ کافر جو کسی رسول کی زندگی میں زمین پر لگائی گئ اللہ کی عدالت سے کافر قرار دے دیئے گئے ھوں ان کی ڈائریکٹ فلائیٹ جھنم میں ھی لینڈ کرے گی ،،
[ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (105) الکہف ]
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کی آیات کے ساتھ اور اس کی ملاقات کا انکار کیا پس ان کے اعمال ضبط کر لئے گئے چنانچہ ان کے لئے قیامت کے دن کوئی میزان قائم نہیں کیا جائے گا ـ
یہ ہیں وہ لوگ جو برزخ میں بھی عذاب میں ھونگے اور قیامت کے دن سیدھے بڑے جھنم میں شدید عذاب میں بھیج دیئے جائیں گے جیسا کہ فرعون اور اس کے متبعین کے بارے میں فرمایا کہ [ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ (45) النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (46) المومن ]
اور گھیر لیا آل فرعون کو برے عذاب نے ، وہ آگ جس پر وہ پیش کئے جاتے ہیں صبح و شام ،، اور جس دن قائم ھو گی قیامت تو حکم ھو گا کہ داخل کر دو آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں ،،
یہ دو الگ الگ مواقع کا عذاب ھے ایک عذاب وہ جو موسی علیہ السلام اور اس مومن کو بچانے کے ساتھ ہی فرعون اور اس کے لشکر کو پیش آیا ،، جس کو سوء العذاب فرمایا اور دوسرا قیامت کا منظر جب بغیر حساب کتاب ان کو جنھم میں داخل کر دینے کے حکم کے ساتھ شدید ترین عذاب کی صورت میں بیان کیا گیا ،، برزخ میں صرف آگ تھی جبکہ جھنم میں کئی قسم کا عذاب ھو گا ، اس لئے اس کو اشد العذاب کے صیغے سے بیان فرمایا ،، مثلاً ،،
[ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُؤُوسِهِمُ الْحَمِيمُ ﴿19﴾ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ ﴿20﴾وَلَهُم مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ ﴿21﴾ الحج ]
چنانچہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے تراشے جائیں گے کپڑے آگ سے ، ان کے سروں پر کھولتا پانی ڈالا جائے گا ، جس سے ان کے پیٹ میں جو کچھ ھو گا وہ سب گل جائے گا اور جلد بھی ، اور ان کے لئے لوھے کے گرز ھونگے ،،
[سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ (50ابراھیم) ]
ان کے لباس تانبے کے ہونگے اور ان کے چہرے آگ کی لپیٹ میں ھوں گے
یہ ہے وہ اشد عذاب جس کا سامنا ھو گا فرعون اور اس جیسے دوسرے کافروں ابوجھل و ابولہب و عتبہ شیبہ کا ،،
جب قیامت کا پہلا نفخہ ھو گا تو ساری کائنات بمعہ جنت جھنم اور فرشتے و ارواح معدوم ھو جائیں گے ، اور صرف اللہ پاک کی ذات باقی رھے گی جس طرح وہ تخلیق سے پہلے اکیلا تھا ، جس کے بارے میں فرمایا کہ ( کل شئء ھالک الا وجہہ ،، ھر چیز ھلاک ھو جائے گی سوائے اس کے ذات کے چہرہ اقدس کے ،، یا فرمایا کہ کل من علیہا فان ویبقی وجیہ ربک ذوالجلال والاکرام ،، جب دوسرے نفخے پر سب اٹجیں گے تب بدن سمیت اٹھیں گے اور روحیں اور اجسام ملا دیئے جائیں گے اور برزخ کے دونوں رخ ھٹا دیئے جائیں گے ،، یعنی بدن اور روح کے درمیان کی آڑ اور روح اور حشر کے درمیان کی رکاوٹ ،، اس وقت لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان کی آنکھ لگ گئی تھی ،، یہ بات نیک روحیں ھی تعجب سے کہیں گی کہ من بعثنا من مرقدنا ؟ یہ سوال مومن ھی کریں گے جو نیند کی سی کیفیت میں ھونگے اسی لئے ان کو خوشخبری سنائے جائے گی کہ یہ ھی تو وہ دن ھے جس کا وعدہ تم سے تمہارے رب رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے اس بارے میں سچ کہا تھا ،،ھذا ما وعد الرحمٰن و صدق المرسلون ،، کافروں سے خطاب ھوتا تو رب کی صفت رحمٰن کا تذکرہ بے محل ھوتا ،،
عالم برزخ میں رسالت کا اعتراف ـ
ایسا نہیں ھے کہ عالم برزخ میں نبئ کریم ﷺ کو دکھا کر جب روح سے سوال ھو کہ یہ کون ہیں ،، تو روح مولوی صاحب کا پٹی پڑھایا ھوا دھرا دے گا کہ یہ ھمارے رسول ہیں ۔۔ روح کا Imagination Centre مکمل طور پر ڈس ایبل ھو گا ، وہ کسی کی پٹی نہ یاد کر سکے گی اور نہ دھرا سکے گی ، نہ قبر کے باھر سے بوٹی مافیا کچھ کر سکتا ھے ،، اگر وہ واقعی مومن ھے تو اس کی روح خود بخود نبئ کریم ﷺ کو یوں پہچان لے گی جیسے صدیوں سے اکٹھے ایک گاؤں میں رھتے آئے ھوں ، یا جیسے انسان اپنے والد کو پہچانتا ھے ، چنانچہ وہ دل کی گہرائیوں سے جواب دے گا کہ یہ تو رسول اللہﷺ ہیں ،، جبکہ عبداللہ ابن ابئ مدینے میں ۱۰ سال کی صحبت کے باوجود حیران و پریشان ھو گا کہ یہ کون ھیں ،، اس لئے کہ ایمان بالرسالت کبھی اس کے دل میں اترا تھا ھی نہیں لہذا دل بالکل Blank شو کرے گا ،، یہی معاملہ حشر میں رب کے معاملے میں ھو گا کہ مومن تو اللہ پاک کو قلب سے دیکھے گا نہ کہ سر کی آنکھ سے ،، جبکہ کافر و منافق محجوب رھے گا ، اس کا دل بھی بس سیاہ اسکرین ہی شو کرے گا ،، کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون ـ ھر گز نہیں ، یہ لوگ اس دن اپنے رب سے محجوب رکھے جائیں گے ، حجاب میں رکھے جائیں گے ،، گویا کچھ بے حجاب ھونگے ،، وجوہ یومئذ ناضرہ ، الی ربھا ناظرہ ،، کچھ چہرے اس دن ترو تازہ و شاداب ھونگے اپنے رب کی طرف دیکھ رھے ھونگے۔